پیر، 11 مارچ، 2019

ردِّقادیانیت کورس (قسط۔۷)

منظور احمد چنیوٹی ﷫

 محدث العصر حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیری ﷫نے فرمایا: 
ہم پہ یہ بات کھل گئی ہے کہ گلی کا کتابھی ہم سے بہتر ہے اگر ہم تحفظِ ختمِ نبوت نہ کر سکیں ۔
[ نقش دوام از مولانا انظر شاہ کاشمیری مطبوعہ ادارہ تالیفات اشرفیہ ملتان ص۱۹۱ ]

٭مرزا صاحب کا ہیضہ سے مرنا ٭
حوالہ نمبر ۱:
’’والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعودکو پہلا دست کھانا کھانے کے وقت آیا تھا مگر اس کے بعد تھوڑی دیر تک ہم لوگ آپ کے پاؤں دباتے رہے اور آپ آرام سے لیٹ کر سوگئے اور میں بھی سوگئی لیکن کچھ دیر کے بعد آپ کو پھر حاجت محسوس ہوئی اور غالباً ایک یا دودفعہ رفع حاجت کیلئے آپ پاخانہ تشریف لے گئے اس کے بعد آ پ نے زیادہ ضعف محسوس کیا آپ نے ہاتھ سے مجھے جگایا میں اٹھی تو آپ کو اتنا ضعف تھا کہ آپ میری چارپائی پرہی لیٹ گئے اور میں آپ کے پاؤں دبانے کیلئے بیٹھ گئی تھوڑی دیر کے بعد حضرت صاحب نے فرمایا تم اب سوجاؤ میں نے کہا نہیں میں دباتی ہوں اتنے میں آپ کو ایک او ردست آیا مگر اب اس قدر ضعف تھا کہ آپ پاخانہ نہ جاسکتے تھے اس لیے میں نے چارپائی کے پاس ہی انتظام کردیا اور آپ وہیں بیٹھ کر فارغ ہوئے اور پھر اٹھ کرلیٹ گئے اور میں پاؤں دباتی رہی مگر ضعف بہت ہوگیا تھا اس کے بعد ایک او ردست آیا اور پھر آپ کو قے آئی جب آپ قے سے فارغ ہو کر لیٹنے لگے تو اتنا ضعف تھا کہ آپ لیٹتے لیٹتے پشت کے بل چارپائی پر گر گئے اور آپ کاسر چارپائی کی لکڑی سے ٹکرایا او ر حالت دگر گوں ہوگئی ۔‘‘
(سیرۃ المہدی حصہ اول ص۱۱ حدیث ۱۲)
اس حوالہ سے مرزا قادیانی کا ہیضہ سے مرنا روز روشن کی طرح واضح ہے کیونکہ دست اور قے جب دونوں اکٹھے ہوجائیں اس کو ہیضہ کہتے ہیں نیز یہ بھی ثابت ہوا کہ مرزا قادیانی اپنے پاخانہ پر مرا تھا۔
مرزائی عذر:
مرزا صاحب ہیضہ کی مرض سے نہیں مرے اگر وہ ہیضہ سے مرتے تو ریل گاڑی میں انکی میت لے جانے کی اجازت ہر گز نہ ہوتی کیونکہ یہ قانونا منع ہے حالانکہ مرز اکی لاش کو ریل گاڑی پرلادکر قادیان لے جایا گیا ۔
جواب نمبر ۱:
مرزا قادیانی بقول اپنے ’’ انگریز کا خود کاشتہ پودا‘‘ تھااسلئے اس کی لاش کو ریل گاڑی پر لے جانا کچھ مشکل بات نہ تھی۔
جواب نمبر ۲:
اس جواب کے دو مقدمے ہیں
۱) ریل گاڑی مرزا قادیانی کے بقول دجال کا گدھا ہے
۲) مرزا نے ۱۹۰۸ ء میں مولانا ثناء اﷲ امرتسری کے بالمقابل ایک اشتہار شائع کیا تھا جس میں کہا تھا کہ اگر میں مولانا ثناء اﷲ کی زندگی میں مرجاؤں تو میں کذاب ودجال ٹہروں گا اور عملاً یہی ہوا کہ ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء کو مرزا کا مولانا ثناء اﷲ کی زندگی میں انتقال ہوگیا ۔ جس سے مرزا کا اپنے قول کیمطابق دجال ہونا ثابت ہوا ۔ اب ہم کہتے ہیں کہ جب مرزا دجال اور ریل گاڑی دجال کا گدھا ہے (بقول مرزا کے ) تو قدرت الٰہی نے دجال کیلئے اس کے گدھے پر سوار ہونے کا انتظام کردیا اور انگریزی پولیس اپنی نگرانی میں اس کی لاش لاہور سے قادیان لے گئی۔
حوالہ نمبر ۲:
مرزا قادیانی نے اپنے سسر میر ناصر نواب کو بلا کر کہا :
’’ میر صاحب مجھے وبائی ہیضہ ہوگیاہے۔ ‘‘
 (حیات ناصر ص۱۴)
مرزا صاحب کے اس اعتراف کے بعد کہ مجھے وبائی ہیضہ ہوگیا ہے اب کسی تاویل یا انکار کی گنجائش نہیں ہے واضح ہوکہ مرزا صاحب نے طب کی کتب بھی پڑھی ہوئی تھیں لہذا ان کا یہ کہنا قابل اعتبار ہوگا ۔
مرزائیوں کا ایک اور عذر:
مرزا قادیانی نے اس آخری فیصلہ کے ذریعے مولوی ثناء اﷲ کو مباہلہ کی دعوت دی تھی کیونکہ مولوی ثناء اﷲ بالمقابل مباہلہ کیلئے تیار نہ ہو ا اسلیئے مرزا صاحب کا اسکی زندگی میں مرنا جھوٹے ہونے کی دلیل نہیں ۔
جواب :
یہ سراسر جھوٹ ہے مرزا کے اس آخری فیصلہ میں کوئی مباہلہ کا لفظ نہیں ہے نہ ہی اس میں یہ موجود ہے کہ مولوی ثناء اﷲ بھی اس قسم کی دعا کریں یہ محض یکطرفہ دعا تھی جو مرزا قادیانی نے اﷲ تعالیٰ کی بار گاہ میں مانگی جس کو خدا تعالیٰ نے قبول فرما کر فیصلہ کردیا اسی بات پر کہ مرزا صاحب کا یہ اشتہار محض یکطرفہ دعا ہے یامباہلہ ہے ؟ مولوی ثنا ء اﷲ صاحب امرتسری اور میرقاسم علی قادیانی کا لدھیانہ میں ۱۹۱۲ء میں تحریری مناظرہ ہوا تھا جس میں سردا ربچن سنگھ وکیل کو سرپنچ مقرر کیاگیاتھا ۔ اور دونوں حضرات نے تین تین صد روپیہ اس کے پاس جمع کرادیا کہ جو اپنا دعویٰ ثابت کرے اسکو یہ چھ صد روپیہ دے ۔ بالآخر سردار بچن سنگھ نے فیصلہ مولوی ثناء اﷲ کے حق میں کردیا او رچھ صدر وپیہ بھی انکے حوالے کردیا اس رقم سے مولوی صاحب نے اس مناظرہ کو ’’ فاتح قادیان ‘‘ کے نام سے شائع کیا جو کہ آج بھی سرگودہا سے دستیا ب ہے۔
﴿باب چہارم ﴾
بحث ثانی حیات ووفات مسیح علیہ السلام
تنقیح موضوع:
مرزائی عموماً عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق وفات و حیات کے عنوان پر بحث کرتے ہیں حالانکہ یہ عنوان بالکل غلط ہے قادیانیوں نے بڑی مکاری و عیاری سے کام لیتے ہوئے اس غلط عنوان کوموضوع بحث بنا رکھا ہے موضوع بحث در حقیقت رفع اور نزول عیسےٰ علیہ السلام کے عنوان سے ہونا چاہیے جس کے لئے درج ذیل دلائل پیش کئے جاتے ہیں ۔
٭توجیہ :
یہ امر تسلیم شدہ ہے کہ قرآن حکیم اہل کتاب کے تمام اختلافات کے لئے بطور حکم آیا ہے جیسا کہ قرآن کریم کا خود دعویٰ ہے :
وَمَا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ إِلاَّ لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوا فِيهِ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ 
ترجمہ: اور ہم نے کتاب کو آپ پر صرف اسی لئے نازل کیا ہے تاکہ آپ ان کیلئے وہ چیز بیان کریں جس میں وہ اختلاف کرتے ہیں او ر اس قوم کیلئے جو ایمان لاتے ہیں ہدایت اور رحمت ہے ۔
 (پارہ۱۴ سورۃ النحل ع۸آیت۶۴)
چنانچہ مرزا قادیانی نے بھی مندرجہ بالا آیت سے یہی استدلال کیا ہے ہم نے اس کو اس لئے تجھ پر اتارا ہے تاکہ امو رمتنازعہ فیہ کا اس سے فیصلہ کردیں ۔
(ازالہ اوہام ۶۵۵،روحانی خزائن ص۴۵۴ج۳)
اب ہم عیسائیوں کے عقائد کو دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق درج ذیل عقائد رکھتے ہیں۔
(۱) تثلیث
 (۲) الوہیت مسیح
 (۳) ابنیت
(۴) صلیب اور کفارہ
 (۵) رفع جسمانی اور نزول جسمانی 
اسی طرح یہود کے بھی عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق چند خیالات پائے جاتے ہیں رفع اور نزول کے علاوہ باقی تمام غلط عقائد کی قرآن مجید نے بڑے صریح الفاظ میں تردیدکی ہے ملاحظہ ہو:
رد تثلیث﴾
لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ ثَالِثُ ثَلاَثَةٍ ……الخ (سورۃ مائدہ ع۱۰ آیت۷۳) 
’’ البتہ تحقیق وہ لوگ کافر ہیں جو کہتے ہیں کہ اﷲ تین میں سے تیسرا ہے ‘‘
رد الوہیت﴾
لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ (پارہ ۶ سورہ المائدہ ع۱۰ آیت ۷۲) 
’’البتہ تحقیق کہ وہ لوگ کافر ہیں جوکہتے ہیں کہ اﷲ ہی عیسیٰ بن مریم ہیں ‘‘
رد ابنیت﴾
وَقَالَتْ النَّصَارَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ (پارہ ۱۰ سورہ توبہ ع۵ آیت۳۰)
’’ اور نصاریٰ نے کہا کہ مسیح اﷲ کا بیٹاہے ۔‘‘
رد صلیب وکفارہ﴾
وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ (پارہ ۶ سورۃ النساء ع۲آیت ۱۵۷)
’’ اور نہیں قتل کیا انہوں نے اس کو اور نہ سولی دیا اس کو ‘‘
وَلاَ تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى (پارہ ۲۲ سورہ ۱۵ ع۳ آیت ۱۸)
’’ نہیں اٹھائے گا کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ‘‘۔
اب رہا ان کا عقیدہ رفع و نزول، تو ہم پوچھتے ہیں کہ اس کا فیصلہ قرآن حکیم نے کہاں کیا ہے اگر یہ عقیدہ بھی دوسرے عقائد کی طرح غلط او رباطل تھا توقرآن مجید کو صریح الفاظ میں جیسے ’’ ما رفع ، لم یرفع، لا ینزل ‘‘ وغیرہ سے تردید کرنی چاہیے تھی حالانکہ ہم بلا خوف تردید یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ قرآن مجید میں کوئی ایسا اشارہ تک نہیں پایا جاتا اور نہ حدیث کے ذخیرہ میں کوئی ایک حدیث اس مضمون کی ملتی ہے بلکہ اس کے بر عکس قرآن اور حدیث نے بڑے زور دار الفاظ میں ان کے اس عقیدہ کی تائید کی ہے اگر قرآن مجید اس عقیدہ کی تائید نہ بھی کرتا بلکہ صرف سکوت اختیار کرتا تو بھی ان کا یہ عقیدہ درست اور صحیح ماننا پڑتا ۔مرزانے خود اس اصول کو تسلیم کیا ہے کہ نہایت ادب واحترام سے فرماتے ہیں کہ’’ اب ہم دیکھتے ہیں کہ واقعی صلیب کے متعلق قرآن شریف کیا کہتا ہے اگر یہ خاموش ہے تو پتہ چلا کہ یہود ونصاریٰ اپنےخیالا ت میں حق پر ہیں ۔‘‘
(ریویو آف ریلجنز أپریل ۱۹۱۹ء ج۱۸ شمارہ نمبر ۶ ص۱۴۹،۱۵۰)
رفع ونزول کے متعلق عیسائیوں کا عقیدہ
حوالہ نمبر ۱:
’’ یہ کہ وہ ان کے دیکھتے دیکھتے اوپر اٹھا لیا گیا اور بدلی نے اسے ان کی نظروں سے چھپا لیا اور ا سکے جاتے وقت جب وہ آسمان کی طرف غور سے دیکھ رہا تھا تو دیکھو دو مرد سفید پوشاک پہنے ان کے پاس آ کھڑے ہوئے او رکہنے لگے اے گلیلی مردو! تم کیوں کھڑے آسمان کی طرف دیکھتے ہو ۔ یسوع جو تمہارے پاس سے آسمان پر اٹھیا گیاہے اسی طرح پھر آئے گا جس طرح تم نے اسے آسمان کی طرف جاتے دیکھا ہے ۔‘‘
 (رسولوں کے اعمال باب ۱ آیت ۹،۱۰،۱۱ ؍متی ص۲۸ آیت ۲۴تا ۳۰)
حوالہ نمبر ۲:
’’ پس توبہ کرو اور رجوع لاؤ تاکہ تمہارے گناہ مٹائے جائیں اور اس طرح خدا وند کے حضور سے تازگی کے دن آئیں اور وہ اس مسیح کو جو تمہارے واسطے مقرر ہوا ہے یعنی یسوع کو بھیجے ضرور ہے کہ وہ آسمان میں اس وقت تک رہے جبتک کہ وہ سب چیزیں بحال نہ کی جائیں جنکا ذکر خدانے اپنے پاک نبیوں کی زبانی کیا ہے جو دنیا کے شروع سے ہوتے آئے ہیں چنانچہ موسیٰ نے کہا کہ خدا وند خدا تمہارے بھائیوں میں سے تمہارے لئے مجھ سا ایک نبی پیدا کرے گا جوکچھ وہ تم سے کہے اسکی سننا۔ اور یوں ہوگا کہ جوشخص اس نبی کی نہ سنے گا ، وہ امت میں سے نیست و نابود کردیا جائے گا۔ ‘‘
(رسولوں کے اعمال باب ۳ آیت ۲۰ تا ۲۴)
حوالہ نمبر ۳:
’’ غرض خداوند یسوع ان سے کلام کرنے کے بعد آسمان پر اٹھایا گیاا ور خدا کی دا ہنی طرف بیٹھ گیا۔‘‘ 
(مرقس باب۱۴ آیت ۱۹؍۲۰)
حوالہ نمبر ۴:
’’ جب وہ انہیں برکت دے رہا تھا توایسا ہو ا کہ ان سے جدا ہوگیا اور آسمان پر اٹھایا گیا۔‘‘ 
(لوقا باب ۲۴ آیت ۵۱)
حوالہ نمبر ۵:
’’ یسوع نے اس سے کہا مجھے نہ چھو میں اب تک باپ کے پاس اوپرنہیں گیا لیکن میرے بھائیوں کے پاس جاکر ان سے کہہ کہ میں اپنے باپ او رتمہارے باپ اور اپنے خدا اور تمہارے خدا کے پاس اوپر جاتا ہوں ۔‘‘
(یوحنا باب ۲۰ آیت۱۷)
حوالہ نمبر۶:
’’ یسوع نے اس سے کہاکہ اگر تو خدا کا بیٹا مسیح ہے تو ہم سے کہہ دے۔ یسوع نے اس سے کہا تو نے خود کہہ دیابلکہ میں تم سے کہتا ہوں کہ اس کے بعد تم ابن آدم کو قادر مطلق کی دا اہنی طرف بیٹھے اور آسمان کے بادلوں پر آتے دیکھو گے ۔‘‘
(متی باب ۲۶ آیت ۶۴)
حوالہ نمبر ۷:
’’ او راس وقت ابن آدم کا نشان آسمان پر دکھائی دے گا اور اس وقت زمین کی سب قومیں چھاتی پیٹیں گی اور ابن آدم کو بڑی قدرت اور جلال کے ساتھ آسمان کے بادلوں پر آتے دیکھیں گی۔‘‘
 (متی باب ۲۴آیت۳۰)
مرزا کا اعتراف:
(۱) ’’ جناب نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں عیسائیوں کا یہی عقیدہ تھا کہ در حقیقت مسیح ابن مریم ہی دوبارہ دنیا میں آئیں گے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۶۱۹ روحانی خزائن ص۳۱۸ ج۳)
(۲) ’’ وان عقیدۃ حیاتہ قد جاء ت فی المسلمین من الملۃ النصرانیۃ ‘‘ ترجمہ:اور یہ کہ اس کی (عیسیٰ علیہ السلام کی) حیات کا عقیدہ ملت نصرانیہ سے مسلمانوں میں آیا ہے ۔
(الاستفتا ء ضمیمہ حقیقت الوحی ص۳۹ روحانی خزائن ص۶۶۰ ج۲۲)
مرزائی عذرنمبر ۱:
قرآن مجید نے جب عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کااعلان کردیا تو اس سے عیسائیوں کے رفع او رنزو ل کا عقیدہ خود بخو دباطل ہوگیا قرآن مجید میں تیس سے زائد آیات موت عیسیٰ کے بارے میں موجود ہیں۔
(ازالہ اوہام روحانی خزائن ج۳ ص۴۲۳،۴۳۸)
الجواب :
تیس آیت نہیں اگر تیس پارے بھی عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ثابت کردیں تو اس سے عیسائیوں کے رفع اور نزول کے عقیدہ کی تردید نہیں ہوگی کیونکہ عیسائی موت کے توخود قائل ہیں لیکن موت کے تین دن بعد زندہ اٹھائے جانے اور قیامت کے قریب بہ جسد عنصری نازل ہونے کے بھی قائل ہیں اگر یہ عقیدہ غلط ہے تو ضرورت اس کی تردید کی ہے موت سے اس عقیدہ کی تردید نہیں ہوگی۔
(عقیدہ موت کیلئے دیکھو لوقا باب ۲۳ آیت ۲۴)
مرزائی عذر نمبر ۲:
’’اور یہ بیان بھی صحیح نہیں ہے کہ عیسائیوں کا متفق علیہ یہی عقیدہ ہے کہ حضرت مسیح ؑ دنیا میں پھر آئیں گے کیونکہ بعض فرقے ان کے حضرت مسیح کے فوت ہوجانے کے قائل نہیں اور حواریوں کی دونوں انجیلوں نے یعنی متی اور یوحنا نے اس بیان کی ہر گز تصدیق نہیں کی کہ مسیح درحقیقت آسمان پر اٹھا یاگیا۔
(ازالہ اوہام ص۴۲۰ روحانی خزائن ج۳ص ۳۱۹)
جواب نمبر ۱:
غلط بالکل غلط یہ مرزا کی یا تو صریح کذب بیانی ہے یاان کی جہالت کیونکہ ان دونوں کتابوں میں اس عقیدہ کا ذکرموجود ہے اس کے حوالے ما قبل گذر چکے ہیں ۔
جواب نمبر ۲:
دروغ گو را حافظ نہ باشد کے مصداق مرز اقادیانی اپنی اسی کتاب ازالہ اوہام ص۲۴۸ روحانی خزائن ص۲۲۵ ج۳ پر تحریر کرچکا ہے کہ:
’’ نصاریٰ کے تمام فرقے اور چاروں اناجیل اسی پر متفق ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر اٹھائے گئے ۔‘‘ اب مرزا خود تسلیم کر چکا ہے کہ تمام فرقے او رچاروں اناجیل اس عقیدہ پر متفق ہیں لہذا اعتراض ہی ختم ہوگیا اور ہمارا سوال علیٰ حالہ قائم رہا جس کامرزائیوں کے پا س کوئی جواب نہیں ہے ۔
مرزائی عذر نمبر ۳:
ایلیا نبی کے متعلق یہودیوں کا عقیدہ موجودہ ہے کہ وہ زندہ آسمانوں پر اٹھایا گیا ہے او رپھر دوبار ہ نازل ہوگا جسطرح عیسائیوں کا عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق عقیدہ ہے تو کیا یہ عقیدہ صحیح ہے یا غلط ؟؟ اگر غلط ہے تو قرآن و حدیث سے اس کی تردید دکھائیں اور اگر تردید نہ پائی جاتی اور قرآن وحدیث خاموشی اختیا ر کریں تو تمہارے اصول کے مطابق ثابت ہوا کہ یہودیوں کا ایلیا کے بارے میں یہ عقیدہ ٹھیک ہے جیسا کہ تم ہمیں عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں کہتے ہو۔
جواب نمبر ۱:
یہ اصول صرف ہمارے نزدیک ہی مسلّم نہیں ہے بلکہ یہ اصول مرزا صاحب نے خود بھی اسے تسلیم کیا ہے جیسا کہ حوالہ گذر چکا ہے (ریویو آف ریلجنز )
لہذا مرزا صاحب کے اس تسیلم شدہ اصول کے مطابق اگر قرآن مجید نے ایلیا علیہ السلام کی آمد ثانی کی تردید نہیں کی تو ثابت ہوا کہ ان کا یہ عقیدہ درست ہے بقول شخصے:
؂
 الجھا ہے پاؤں یار کا زلفِ دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا
جواب نمبر ۲:
یہودیوں کے اس عقیدہ کی تردید کا مطالبہ قرآن وحدیث سے کرنا صریح حماقت او رجہالت ہے اس لئے کہ ایلیا کا تذکرہ ایجابی اور سلبی رنگ میں قرآن وحدیث میں مذکور نہیں لہذا اس کا محض بائبل میں ذکر ہونا کافی نہیں بخلاف عیسیٰ علیہ السلام کے کہ ان کا ذکر قرآن وحدیث میں بڑی صراحت کے ساتھ موجود ہے ۔ ایلیا کا عیسیٰ علیہ السلام پر قیاس کرنا غلط ہے یہ قیاس ،قیاس مع الفارق ہے ۔
اعتراض:
یہودی ایلیا کے بجسدہ آنے کے منتظر تھے حالانکہ ایلیا سے مراد ان کا مثیل یوحنا نبی تھا اسی طرح عیسیٰ سے مراد بھی ان کا مثیل مراد ہے نہ کہ بعینہ عیسیٰ بن مریم۔
جواب :
اس ساری کہانی کا دارومدار بھی بائبل پر ہے جو عقلاً او رنقلاً محرف ہے قرآن وحدیث سے اس کی کوئی نظیر ہوتو پیش کیجئے جیسا کہ عیسیٰ علیہ السلام کی تصدیق قرآن وحدیث میں ہے ۔
 (جاری ہے...) 
٭٭٭

     

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں