پیر، 11 مارچ، 2019

بھائی محمد اکبر/ جتیندر کمار سے ایک ملاقات

✍محمداکبر/ جتیندر کمار

غیر مسلم بھائیوں میں دعوت کے اسلوب کو بیان کرنے کے لیے ، اور دعوت الی اللہ پر اُبھارنے کے لیے یہ سلسلہ سربکف نے پیش کیا ہے، اس کے تحت غیر مسلم بھائیوں کے مشرف بہ اسلام ہونے کے واقعات لائے جائیں گے۔ شاید کہ اُن بیمار ذہنوں کا علاج ہوسکے جو غیر مسلموں کے لیے صرف جہاد ہی کو فیصل سمجھتے ہیں۔ (مدیر)

         احمد اوّاہ   :  السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ
محمد اکبر   :  وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ
  سوال   : بھائی محمد اکبر !میرا نام احمد ہے، میں حضرت کا بیٹا ہوں ہمارے  یہاں سے  ایک ماہنامہ نکلتا ہے، یہ ارمغان کے  نام سے  ایک اردو میگزین ہے، اس میں اسلام قبول کرنے  والے  نئے  بھائیوں کے  قبول اسلام کی کہانیاں چھاپی جاتی ہیں تاکہ مسلمانوں میں اپنے  ان بھائیوں کی فکر پیدا ہو جو مسلمان نہیں ہوئے  اور جو چتاؤں کی آگ کے  راستے  سے  نرک کی طرف جا رہے  ہیں اور دوسرے  غیر ایمان والے  بھائیوں کے  لئے  بھی اسلام کی طرف آنے  کا ذریعہ بنے، مجھے  ابی نے  آپ کے  پاس بھیجا ہے  کہ میں آپ سے  انٹرویو لوں، کیا آپ اس وقت کچھ باتیں بتائیں گے ؟
 جواب   :بھائی احمد صاحب ! آپ شاید مولانا صاحب ہیں، مجھے  معاف رکھئے، ایک تو میں اس لائق کہاں ابھی مجھے  مسلمان ہوئے  چند دن ہوئے  ہیں، مجھے  تو ابھی اس میں بھی شک ہے  کہ میں مسلمان ہو بھی گیا ہوں یا نہیں، دوسری بات یہ ہے  کہ اب میں نے  اپنے  آپ کو حضرت کو سونپ دیا ہے، دس دن پھلت رہنے  کے  بعد کل اللہ نے  کرم کیا کہ ملاقات ہوئی، ایک روز سرسری ملاقات ہوئی تھی، حضرت نے  مجھ سے  کہا تھا، آپ کو سب سے  پہلے  جماعت میں جانا ہے، اس کے  علاوہ کچھ سوچنا بھی نہیں، اب میں حضرت کا حکم مانوں گا، پہلے  جماعت میں جاؤں گا پھر کچھ اسلام بھی میرے  اندر آ جائے  گا، شاید کچھ ایمان بھی بن جائے، تب آنے  کے  بعد آپ مجھ سے  معلومات کر لیجئے۔
  سوال   : نہیں نہیں !کبر بھائی! میں تو آپ کو جانتا بھی نہیں، ابی نے  ہی مجھے  بھیجا ہے، میں آپ سے  جھوٹ نہیں بول رہا ہوں!
  جواب   : نہیں مولانا احمد بھائی مجھے  معاف کریں، میرے  حضرت مجھے  کہیں، تو میں آپ سے  کچھ کہہ سکتا ہوں۔
   سوال   : اچھا میں فون پر بات کروا دوں ؟
 جواب   : جی اچھا، حضرت سے  اجازت دلوا دو (فون کرتے  ہیں تو فون بند ملتا ہے ) اچھا مولانا وصی صاحب سے  بات کروا دوں ؟ آپ ان پر تو یقین کریں گے، ہاں وہ ہی تو حضرت سے  ملوانے  گئے  تھے، ٹھیک ہے  ان سے  بات کروا دیں( مولانا وصی صاحب کا فون مل جاتا ہے) 
فون پر
مولانا صاحب آپ نے  مجھے  اکبر کا انٹرویو لینے  کے  لے  بھیجا تھا مگر یہ منع کر رہے  ہیں، آپ ذرا ان سے  بات کر لیجئے۔
محمد اکبر  :  جی مولانا صاحب، حضرت نے  ہمیں کہا تھا پہلے  جماعت میں جانا، اس سے  پہلے  کچھ سوچنا بھی نہیں، اب ہم حضرت کے  حکم کے  بغیر کیسے  کچھ کریں ؟ 
مولانا وصی صاحب   : حضرت سے  بات ہو گئی تھی، ان کو حضرت نے  ہی بھیجا ہے، آپ ان کو انٹرویو دے دیں، میں ذمہ دار ہوں۔
محمد اکبر   : جی اچھا۔
٭٭٭
محمد اکبر:مولانا دیکھئے  برا مت مانئے  گا، جب آدمی نے  اپنے  آپ کو کسی کے  سپرد کر دیا تو مکمل سپرد کرنا چاہئے، اس سے  اللہ اور اس کے  رسول کے  حکم کے  سامنے  ارپن کرنا(سپردکرنا) آئے  گا، اب آپ بتائیے  کیا معلوم کرنا چاہتے  ہیں ؟
  سوال   : آپ اپنا خاندانی تعارف کرائیے ؟
 جواب   : میرا نام جتندر کمار تھا، میں لکھنو کے  قریب یوپی کے  ہردوئی ضلع کے  ایک گاؤں میں ۲۲/ سال پہلے  پیدا ہوا، میرے  والد کسان تھے، ابتدائی تعلیم اسکول میں ہوئی، ہائی اسکول کیا، انٹر مکمل کرنے  سے  پہلے  تعلیم چھوڑ دی، میرے  بھائی بہن اور بڑا خاندان ہے۔
  سوال   : اپنے  قبول اسلام کا واقعہ ذرا تفصیل سے  سنائیے ؟
 جواب  : ہمارے  قصبہ اور علاقہ میں مسلمان ہیں مگر نام کے  اور بدعتی اکثر ہیں، لیکن کچھ مسجدوں میں تبلیغ کا کام ہوتا ہے، وہاں مسجد میں جب نماز ہوتی تو صبح اور رات کو امام صاحب زور زور سے  قرآن مجید پڑھتے  تھے، میں ایک روز مسجد کے  پاس سے  گزر رہا تھا تو مجھے  قرآن کی آواز آئی، آواز اتنی اچھی تھی کہ میں دروازے  کے  باہر  کھڑا ہو گیا، دیر تک سنتا رہا، صبح کو گھر سے  جب اپنے  گھر کی طرف جاتا تھا تو صبح کو امام صاحب لمبی نماز پڑھاتے، قرآن کی آواز میرے  دل کو بہت چھو تی تھی، کئی بار میری آنکھوں سے  آنسو بہتے  تھے، میرے  دل میں اندر سے  کوئی کہتا تھا کہ یہ کس قدر سچا کلام ہے، جو دل پر اتنا اثر کرتا ہے، بغیر سمجھے  اس کا جب اتنا اثر ہے  تو یہ مسلمان جب سمجھتے  ہوں گے  تو ان پرکیا حال ہوتا ہو گا، ہماری مسجد میں جماعت والے  گشت کرتے  تھے، میں نے  ایک حافظ صاحب کو گشت میں روکا اور کہا کہ حافظ صاحب جماعت کا کام تو بہت پرانا ہے، یہ تو حضرت محمد صاحب (ﷺ )کے  زمانے  سے  ہے، کیا حضرت محمد صاحب منھ دیکھ کر بلاتے  تھے  اور اسلام کی بات بتاتے  تھے  کہ مسلمان کو دیتے  ہوں اور عیسائیوں اور ہندوؤں کو یا وہاں یہودی ہوتے  ان کو نہ دیتے  ہوں، ہمارے  مسلمان ساتھی تو یہ کہتے  ہیں کہ اس وقت شروع میں تو کوئی مسلمان تھا ہی نہیں، تو حضرت محمد صاحب تو عیسائیوں اور یہودیوں کو ہی دعوت دیتے  ہوں گے۔آپ ہندوؤں کو کیوں مسجد کی طرف نہیں بلاتے  اور انھیں اسلام کے  بارے  میں کیوں نہیں بتاتے، میں روزانہ قرآن سنتا ہوں تو محبت میں پاگل سا ہو جاتا ہوں، بغیر جانے  اور سمجھے  جب اس میں اتنا اثر ہے  اور آنند (مزہ)آتا ہے  تو سمجھ کر مجھے  کتنا مزہ آئے  گا، وہ بولے  ابھی اصل میں مسلمان ہی بگڑے  ہوئے  ہیں، ہم پہلے  ان کو تو سنوار لیں، ہمارے  بڑوں کی طرف سے  اجازت نہیں ہے، ہاں ہندوستان کے  باہر جماعت والے   مسلمانوں کے  علاوہ سب کو بھی دعوت دیتے  ہیں، میں نے  ان سے  کہا کہ کام تو ہمارے  دیش نظام الدین سے  چل رہا ہے، مگر ہمارے  دیش کے  ہندو تو محروم اور باہر دیش کے  لوگ فائدہ اٹھائیں، اللہ کے  سامنے  جب  جاؤ  گے  تو کیا وہاں یہ سوال ہو گا کہ ہندوستان کے  بڑوں کا کہنا کیوں نہیں مانا، یا یہ سوال ہو گا کہ حضرت محمد ﷺ کی طرح سب کو دعوت کیوں نہیں دی۔
  سوال   : آپ کو یہ بات کیسے  معلوم تھی کہ یہ کام حضرت محمد ﷺ نے  کیا اور ان کے  زمانے  میں کوئی مسلمان نہیں تھا اور یہ کام نظام الدین سے  شروع ہوا؟
 جواب   : اصل میں ہمارے  گھر کے  پاس مسجد میں جماعت کا کام ہوتا ہے، ہمارے  پڑوس میں کئی لوگ جماعت سے  جڑے  ہوئے  ہیں، سب سے  زیادہ میرا اسکول کا ایک ساتھی ہے  صدام، وہ جماعت میں لگ گیا ہے  اس نے  داڑھی بھی رکھ لی ہے، اس سے  میری بہت پکی دوستی ہے، اس سے  میں ہر وقت اسلام اور جماعت کے  بارے  میں پوچھتا رہتا ہوں، جب اسے  کوئی بات نہ آتی  تو حافظ جی سے  ملواتا تھا۔
  سوال  : کیا وہ آپ کے  سب سوالوں کا جواب دے دیتے  تھے ؟
 جواب  : وہ سب سوالوں کا جواب نہیں دے  پاتے  تھے  بلکہ ان کے  جواب سے  میرے  دل میں اور سوال کھڑے  ہوتے  تھے، میں نے  ایک بار صدام کو گشت کرتے  ہوئے  پکڑ لیا، لکھنو سے  جماعت آئی ہو ئی تھی، امیر صاحب بھی گشت میں تھے، میں نے  ان سے  کہا آپ لوگ صورت دیکھ کر صرف مسلمانوں کو کیوں دعوت دیتے  ہو؟ یہ بات ہزاروں ہندو بھائیوں کو کیوں نہیں بتاتے  ہو، امیر صاحب نے  جواب میں کہا کہ ابھی مسلمان ہی بہت بگڑے  ہوئے  ہیں، پہلے  ہم ان کو سنوار دیں، میں نے  کہا کہ جب اللہ کے  سامنے  مرنے  کے  بعد کھڑا ہونا پڑے  گاتو ہم اللہ سے  کہہ دیں گے  :مالک !  یا تو آپ ہمیں اپنے  محبوب نبی کے  زمانے  میں پیدا کرتے، نہیں تو پھر آپ ہمارے  ساتھیوں کو پکڑیں، یہ صدام اور جماعت والے  ہمارے  ساتھ رہتے  ہیں، ہمارے  محلہ میں تبلیغ کا کام کرتے  ہیں مگر ہمیں نہیں بتاتے، ہماری کیا خطا؟جب آپ نے  ہمارے  لئے  بتانے  والوں کا انتظام نہیں کیا۔ ہمیں یقین ہے  یا تو آپ ہمیں اسلام کے  بارے  میں بتائیے، ورنہ اللہ ہمارے  بدلے  آپ کو پکڑیں گے۔
 امیر صاحب مولانا صاحب تھے، انھوں نے  کہا، اس کے  لئے  ہمارے  دوسری جماعت والے  کام کر رہے  ہیں، آپ ایسا کریں موقع لگا کر پھلت چلے  جائیں، وہاں پر مولانا وصی صاحب اسی ضلع کے  رہنے  والے  ہیں، مدرسے  جا کر ان سے  مل لیں، وہ آپ کو مولانا کلیم صاحب سے  ملوا دیں گے، میں نے  ان سے  پتہ معلوم کیا اور اگلے  روز ماتا پتا سے  کہہ کر کہ ہم جماعت میں جا رہے  ہیں  چلا آیا۔
  سوال   : کیا ان کو معلوم تھا کہ آپ مسلمان ہو نے  کے  لئے  جا رہے  ہیں ؟
 جواب  :  نہیں ان کو معلوم نہیں ہے  کہ جماعت کیا ہو تی ہے، البتہ وہ سمجھتے  ہیں یہ کوئی بھلا کام ہے، یہ لوگ نماز کی طرف مسلمانوں کو بلاتے  ہیں۔
  سوال   :  اس کے  بعد کیا ہوا؟
 جواب : میں پھلت آیا، مولانا وصی صاحب سے  ملا، مولانا نے  مجھے ’’ آپ کی امانت‘‘ کتاب دی، وہ میں نے  چار دفعہ پڑھی اتفاق سے  حضرت مولانا کلیم صاحب، شام کو دیر میں باہر سے  آ گئے، انھوں نے  مجھے  کلمہ پڑھوایا اور قاری صاحب کو بلا کر سپرد کیا کہ ان کو نماز اور قاعدہ وغیرہ پڑھاؤ، میں نے  پڑھنا شروع کیا، الحمد للہ ۱۵/ دن میں قاعدہ پڑھ لیا، نماز یا د کر لی۔
حضرت کے  لگاتار سفر کی وجہ سے  میں شدت سے  ان سے  ملنے  کے  لئے  بے  چین تھا، میں نے  محسوس کیا کہ حضرت سے  ملنے  کے  لئے  وہاں رہنے  والے  سبھی لوگ ایسا انتظار کرتے  ہیں جیسے  جانور اپنے  چارہ ڈالنے  والے  مالک کا، خانقاہ میں رہنے  والے  سبھی مسلمانوں کا حال یہی دیکھا، کتنی مشکل سے  کوئی پہنچا، کسی نے  بے  عزت کر دیا، کسی نے  مارکھائی، مگر حضرت سے  مل کرجیسے  دھوپ سے  چھاؤں میں آ گیا ہو، چاہے  مہینوں میں ملاقات ہو مگر ایک ملاقات کے  بعد جیسے  سارے  زخموں پر مرہم نہیں، سارے  زخم ٹھیک ہو گئے  ہوں، ہر آدمی حضرت کے  بارے  میں یہ سوچتا ہے  کہ مجھ سے  زیادہ کسی کو نہیں چاہتے،٭ دو ہفتوں کے  بعد حضرت پھلت آئے، اندر ایک ایک کو بلایا مجھ سے  حال پو چھا، گلے  لگایا دوبار گلے  لگایا اور جماعت میں جانے  کا پروگرام بنایا، صبح کو میں نے  قانونی کاغذات بنوائے، وکیل نے  مجھ سے  پو چھا تمھا را اسلامی نام کیا ہے ؟ حضرت نے  تو بتایا تھا کہ نام بدلناکچھ ضروری نہیں٭، ہمارے  نبی ﷺ سب کے  نام نہیں بدلتے  تھے، تم بدلنا چاہو تو جو نام تمھیں اچھا لگے  رکھ لینا، میں نے  وکیل صاحب سے  کہا مجھے  اذان میں اللہ اکبر بہت اچھا لگتا ہے، کیا محمد اکبر میرا نام ہو سکتا ہے، انھوں نے  کہا مسلمانوں کا نام محمد اکبر ہو تا ہے، اکبر بادشاہ کا نام تو آپ نے  سنا ہو گا، میں نے  کہا تو بس اذان سے  نام ہو جائے  گا، موذن سب کو نماز کے  لئے  بلاتا ہے، اسی دعوت میں میرا نام آیا کرے  گا، آپ میرا نام محمد اکبر رکھ دو۔
  سوال   : آپ نے  آنے  کے  بعد گھر فون نہیں کیا ؟
 جواب  : اصل میں حضرت نے  بھی فون پر ماں سے  بات کرنے  اور تسلی دینے  کے  لئے  کہا تھا، مگر مجھے  ڈر لگا کہ ابھی میرا ایمان کمزور ہے  اور مجھے  اپنی ماں سے  بے  حد محبت ہے، کہیں میں اپنی ماں سے  بات کروں وہ رونے  لگیں میرا دل پگھل جائے  اور میرا من جانے  کو چاہنے  لگے  اور پھر وہاں جا کر ایمان خطرے  میں پڑجائے، اس لئے  بہت یاد آنے  کے  باوجود میں نے  اپنی ماں کو فون نہیں کیا، اب جماعت میں سے  آ جاؤں گا، تو پھر گھر جا کر مجھے  سب گھر والوں کو اسلام کی دعوت دینی ہے۔
   سوال  : آپ کیا سمجھتے  ہیں کہ وہ آپ کی مخالفت نہیں کریں گے  اور آپ پر مشکل نہیں آ جائے  گی؟
  جو اب : زیادہ امید تو نہیں ہے، میرے  گھر والے  بہت اچھے  لوگ ہیں، اسلام سے  محبت بھی رکھتے  ہیں، پھر میں شروع میں ان کو حضرت کی کتاب’’ آپ کی امانت‘‘ پڑھوا دوں گا، میں جا کر ایک ہزار چھپوا لوں گا، یہ کتاب ایسی محبت بھری، دل اور دماغ کو چھونے  والی ہے  کہ سچے  من سے  آدمی اس کو پڑھ لے  تو مسلمان ہونے  کے  لئے  انکار کرنے  کو اسے  سوبار سوچنا پڑے  گا، مجھے  امید ہے  گھر والے  اسلام میں ضرور آ جائیں گے  اور اگر مخالفت ہو گی تو ہوا کرے، ہمارے  قاری صاحب نے  ہمیں صحابہ کے  قصے  سنائے، میں نے  فضائل اعمال ہندی میں پڑھی ہے، جب ہمارے  صحابہ نے  قربانیاں دی ہیں تو ہم بھی دیں گے  اس راہ میں اگر جان بھی چلی گئی تو پھر جان کی قیمت بن جائے  گی مرنا تو ہے  ہی، ایک تو مفت میں جان دینا ہے  اور ایک ہے  جان کی قیمت بنا لینا وہ بھی جنت میں جانے  کے  لئے  اور پیارے  نبی سے  ملنے  کے  لئے، میں جب اپنے  اندر سے  ٹٹولتا اور تولتا ہوں میرا دل یہ کہتا ہے  کہ اکبر !اللہ کی محبت میں، دعوت کی راہ میں، اللہ کے  بندوں کو دوزخ سے  بچانے  کے  غم میں جان دینا، یوں ہی مرنے   سے  کتنا اچھا لگے  گا اور کتنا مزا آئے  گا۔
  سوال   : ماشاء اللہ، اللہ تعالی ہمیں بھی یہ جذبہ عطا فرمائیں۔
 جواب  :مولانا احمد صاحب اصل بات یہ ہے  کہ ہم ہی ڈرتے  ہیں ورنہ پوری دنیا پیاسی ہے، ہمارے  علاقہ میں بس حضرت مولانا کے  جاننے  والے  دو تین لوگ ہیں جو لوگوں کو کلمہ پڑھوا دیتے  ہیں، ۲۵/ لوگ ہمارے  علاقے  میں پچھلے  سال سے  اب تک کلمہ پڑھ چکے  ہیں، مگر سینکڑوں تیار ہیں، یہ لوگ بھی ذرا ڈر ڈر کر کلمہ پڑھواتے  ہیں، اکثر تو پھلت جانے  کے  لئے  ہی کہتے  ہیں، ہمارے  علاقہ میں اکثر لوگ بدعتی اور قبر پرست ہیں نماز تک نہیں پڑھتے۔
  سوال   : آپ کو یہ کیسے  معلوم ہوا کہ یہ بدعت غلط چیز ہے ؟
 جواب  :یہ چیز آدمی کو اپنی عقل سے  بھی غلط لگتی ہے، اللہ کے  علاوہ کسی کو نہ پوجنا تو اسلام ہے، اب قبر کو پوجنا کیسے  صحیح ہو جائے  گا، میں تو بدعتی مسلمانوں سے  کہتا تھا، تم میں ہم میں کیا فرق ہے، ہم تم سے  پھر بھی صحیح ہیں کہ ہمارے  سامنے  وہ(بُت) دِکھ رہا ہے، تم جس قبر والے  کو پوج رہے  ہو، تو کیا خبر وہ آدمی کی قبر ہے  یا گھوڑے  کی، لکھنو میں ایک گھوڑے  شاہ پیر تھے، بہت دنوں تک اس کا عرس ہوتا رہا بعد میں معلوم ہوا کہ وہ کسی نواب کا گھوڑا تھا، یہ تو میں ان سے  کہتا ہوں تم سے  ہم صحیح ہیں، مگر ظاہر ہے  مورتی پوجا کس طرح صحیح ہو سکتی ہے، جس کو ہم نے  ہاتھوں سے  بنایا تو ہم بنانے  والے  ہوئے، وہ خود ہماری پوجا کرے، بنانے  والے  کی پوجا کی جاتی ہے، میں اسلام لانے  سے  پہلے  بھی اپنے  ہندو بھائیوں سے  کہتا تھا کہ وہ بھگوان کیسا بھگوان ہے  جو شرم گاہ کی پوجا کروانے  کو کہے، عقل پر پردے  پڑ جاتے  ہیں، ورنہ ذرا آدمی عقل پر زور ڈالے  تو اس اکیلے  کے  علاوہ کون پوجا کے  لائق ہو سکتا ہے۔
  سوال   : اسلام میں آ کر آپ کیسا محسوس کر رہے  ہیں، آپ کو اسلام کی کیا بات اچھی لگی؟
 جواب  :اسلام کی کون سی ایسی بات ہے  جو اچھی نہ لگے، ہمارے  نبی ﷺ کی تو چھوٹی سے  چھوٹی سنت بھی ایسی نہیں کہ آدمی اس پر غور کر لے  اور صرف اسی کو دیکھ کر مسلمان نہ ہو جائے، سب سے  بڑی بات یہ ہے  کہ اسلام پوری زندگی گزارنے  کا مکمل طریقہ ہے، یہ نہیں کہ دھرم کو مندر تک رکھا جائے  اور اپنے  کاروبار، پریوار میں من مانی کرے، بلکہ اسلام نے  پوری زندگی گزارنے  کا طریقہ بتایا ہے  اور طریقہ بھی ایساپیاراکہ بس آدمی دیوانہ ہو جائے۔
  سوال   : ماشاء اللہ، اللہ نے  آپ کے  لئے  خاص ہدایت کے  دروازے  کھول دئیے  ہیں، جماعت سے  آنے  کے  بعد آپ کا کیا ارادہ ہے ؟
 جواب   : جماعت سے  واپس آنے  کے  بعد میرا ارادہ اپنے  گھر جا کر کام کرنے  کاہے، میرا ارادہ مسلمانوں میں بھی کام کر نے  کاہے، خصوصاً بدعتی مسلمانوں میں کام کرنے  کاہے  اور پھر اپنے  ہندو بھائیوں میں کام کرنے  کا، ہمارے  علاقہ میں بہت بھولے  اور سچے  لوگ ہیں، دو چار جیالے  بس اپنے  کو کچھ دنوں کے  لئے  کھپا دیں، تو بس پورا علاقہ دوزخ سے  بچ جائے  گا، ابھی کچھ روز پہلے  ہمارے  علاقے  میں ایک لالہ جی اسلام میں آئے  تھے، انھوں نے  رام مندر بنانے  اور بابری مسجد شہید کرنے  میں ۲۵/ لاکھ روپئے  اپنی جیب سے  خرچ کئے، اللہ کو ان پر ترس آ گیا، شاید وہ رام مندر کو اللہ کی رضا کا ذریعہ سمجھ کر بنوانے  کی کوشش کر رہے  تھے، اللہ کو ان پر پیار آ گیا، ان کا اکیلا جوان بیٹا اکسیڈنٹ میں مرگیا، دوکان میں آگ لگ گئی خود بھی بیمار رہنے  لگے۔
  سوال   : آپ اس کو اللہ کا پیار کہہ رہے  ہیں ؟
 جواب  :جی مولانا احمد صاحب، ان حادثوں سے  دل میں خیال آیا کچھ غلطی ہوئی ہے، تو دل میں آیا کہ مالک کا گھر ڈھایا ہے  اسلام پڑھنا شروع کیا، مسلمان ہونا چاہتے  تھے  لوگ ڈر کی وجہ سے  ان سے  ملتے  نہیں تھے، کلمہ پڑھوانے  کو تیار نہیں تھے، حضرت مولانا کلیم صدیقی نے  ایک ساتھی کو بھیجا، کلمہ پڑھوایا، ایک مسجد بنوا رہے  ہیں، اس کے  ساتھ مدرسہ بھی، مولانا احمد صاحب ایک بیٹا اور کچھ مال اور صحت گنوا کر ایمان آ گیا تو اس کو آپ اللہ کا پیار کہیں گے  یا اللہ کا غضب۔
  سوال   : واقعی آپ صحیح کہتے  ہیں۔
 جواب  :مجھ سے  کئی مسلمان بھائیوں نے  کہا کہ تو گھر بار چھوڑ کر کیوں جا رہا ہے ؟ میں نے  جواب دیا دھوکے  کا گھر چھوڑ کر ہمیشہ کے  جنت کے  محل خریدنے  جا رہا ہوں اور شاید میں گھر بار نہ چھوڑتا تو مجھے  ایمان نہ ملتا، میرا گھربار چھڑانا اللہ کی رحمت ہے  پیار ہے  یا غصہ؟
  سوال  :  بلاشبہ۔ جزاکم اللہ، مسلمانوں کے  لئے  آپ کچھ پیغام دینا چاہیں گے۔
 جواب  :ہم کیا پیغام دے  سکتے  ہیں، ہم تو چھٹ بھیّے  ہیں، ہمیں تو اپنے  ایمان میں بھی شک ہے، ہاں اتنا ضرور کہتے  ہیں کہ مرنے  سے  پہلے  اپنے  علاقہ کے  غیر مسلم بھائیوں کی فکر کریں ورنہ وہ حشر کے  میدان میں پکڑیں گے  ضرور، وہاں آپ پھنسیں گے، یہ سمجھنا کہ اسلام کون لائے  گا، کل شام پنجاب کے  ایک صاحب کا فون آیا تھا حضرت کے  پاس، ایک صاحب جو سکھ تھے  مسلمان ہوئے، وہ ان کو حضرت سے  دوبارہ کلمہ پڑھوا رہے  تھے، حضرت نے  بتایا کہ کہہ ر ہے  ہیں اس ہفتہ میں یہ سردار جی چالیسویں آدمی ہیں جنھوں نے  میرے  ہاتھ پر کلمہ پڑھا ہے، ایک ہفتہ میں ایک  ایک آدمی چالیس کو کلمہ پڑھوا دے  تو چند مہینوں میں دنیا کا حال کیا ہو جائے  گا اور میرے  لئے  اور میرے  خاندان کے  لئے  دعا کریں، خاص طور پر بس ایمان باقی رہے  اور میں ڈھل مل نہ ہو جاؤں، اس کی خاص دعا کی آپ سے  درخواست ہے۔
  سوال   : بہت بہت شکریہ اکبر بھائی  السلام علیکم۔
        جواب  :وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ۔ ٭
٭٭٭

٭ یہی نبی پاک ﷺ کے اخلاقِ حمیدہ کا خاصہ ہے۔(مدیر)
٭ ہاں اگر نام سے شرک یا کفر کا اظہار ہوتا ہو تو بدل لینا چاہیے جیسے عربوں میں "عبد العزی" جو "عزی" نامی بت کی بندگی کو ظاہر کرتا ہے۔(مدیر)
     

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں