پیر، 11 مارچ، 2019

علم و فضل کے ساتھ تواضع و للہیت(قسط۔ ۳)

مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

۱۰- حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب مدظلہم فرماتے ہیں کہ مجھے اپنی ایک تصنیف کے سلسلہ میں ابوالحسن کذاب کے حالات کی ضرورت تھی۔ مجھے ان کی تاریخ نہ ملی۔ چنانچہ میں حسب معمول حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے درِ دولت پر پہنچ گیا۔ اس وقت مرضِ وفات اپنی آخری حد پر پہنچ چکا تھا اور دو تین ہفتے بعد وصال ہونے والا تھا۔ کمزور بے حد ہو چکے تھے۔ابتدائی گفتگو کے بعد میں نے آنے کی غرض بتائی تو انھوں نے فرمایا کہ ادب اور تاریخ کی کتابوں میں فلاں فلاں مواقع کا مطالعہ کر لیجیے اور تقریباً آٹھ دس کتابوں کے نام لے دیے۔ میں نے عرض کیا کہ حضرت! مجھے تو کتابوں کے اتنے اسماء یاد بھی نہ رہیں گے۔ نیز انتظامی مہمات کے بکھیڑوں میں اتنی فرصت بھی نہیں کہ چند جزوی مثالوں کے لیے اتنا طویل و عریض مطالعہ کروں ۔ بس آپ ہی اس شخص کی دروغ گوئی کے متعلقہ واقعات کی دوچار مثالیں بیان فرما دیں، میں اُنہی کو آپ کے حوالہ سے جزوِ کتاب بنا دوں گا۔ اس پر مسکرا کر ابوالحسن کذاب کی تاریخ، اُس کے سن ولادت سے سن وار بیان فرمانی شروع کر دی جس میں اس کے جھوٹ کے عجیب و غریب واقعات بیان فرماتے رہے۔ آخر میں سن وفات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ شخص مرتے مرتے بھی جھوٹ بول گیا پھر اُس جھوٹ کی تفصیل بیان فرمائی۔
حیرانی یہ تھی کہ یہ بیان اس طرز سے ہو رہا تھا کہ گویا حضرت ممدوح نے آج کی شب میں مستقلاً اسی کی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے جو اس بسط سے سن وار واقعات بیان فرما رہے ہیں چنانچہ میں نے تعجب آمیز لہجے میں عرض کیا کہ ’’حضرت! شاید کسی قریبی زمانے ہی میں اس کی تاریخ دیکھنے کی نوبت آئی ہو گی؟‘‘ سادگی سے فرمایا ’’جی نہیں ! آج سے تقریباً چالیس سال کا عرصہ ہوتا ہے جب میں مصر گیا ہوا تھا۔ خدیوی کتب خانہ میں مطالعہ کے لیے پہنچا تو اتفاقاً اسی ابوالحسن کذاب کا ترجمہ سامنے آ گیا اور اس کا مطالعہ دیر تک جاری رہا، بس اسی وقت جو باتیں کتاب میں دیکھیں حافظہ میں محفوظ ہو گئیں اور آج آپ کے سوال پر مستحضر ہو گئیں جن کا میں نے اس وقت تذکرہ کیا‘‘۔
*…*…*
۱۱- یہی حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب مدظلہم فرماتے ہیں کہ تحریک خلافت کے دور میں جب امارتِ شرعیہ (عوام کی طرف سے قاضی مقرر کرنے) کامسئلہ چھڑا تو مولوی سبحان اللہ خاں صاحب گورکھپوری نے اپنے بعض نقاطِ نظر کی تائید میں بعض سلف کی عبارت پیش کی جو ان کے نقطۂ نظر کی تو مؤید تھی مگر مسلک جمہور کے خلاف تھی۔ یہ عبارت وہ لے کر خود دیوبند تشریف لائے اور مجمع علماء میں اُسے پیش کیا۔ تمام اکابر دارالعلوم حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے کمرے میں جمع تھے۔ حیرانی یہ تھی کہ نہ اس عبارت کو ردّ ہی کرسکتے تھے کہ وہ سلف میں سے ایک بڑی شخصیت کی عبارت تھی اور نہ اُسے قبول ہی کرسکتے تھے کہ مسلک جمہور کے صراحتاً خلاف تھی۔ یہ عبارت اتنی واضح اور صاف تھی کہ اُسے کسی تاویل و توجیہ سے بھی مسلک جمہور کے مطابق نہیں کیا جا سکتا تھا۔
حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ استنجا کے لیے تشریف لے گئے تھے وضو کر کے واپس ہوئے تو اکابر نے عبارت اور مسلک کے تعارض کا تذکرہ کیا اور یہ کہ ان دونوں باتوں میں تطبیق بن نہیں پڑتی۔ حضرت ممدوح رحمۃ اللہ علیہ حسب عادت ’’حسبنا اللہ‘‘ کہتے ہوئے بیٹھ گئے اور عبارت کو ذرا غور سے دیکھ کر فرمایا کہ اس عبارت میں جعل اور تصرف کیا گیا ہے۔اُسی وقت کتب خانہ سے کتاب منگائی گئی۔ دیکھا تو واقعی اصل عبارت میں سے پوری ایک سطر درمیان سے حذف ہوئی تھی۔ جونہی اس سطر کو عبارت میں شامل کیا گیا عبارت کا مطلب مسلک جمہور کے موافق ہو گیا اور سب کا تحیر رفع ہو گیا۔
*…*…*
۱۲- حضرت مولانا محمد یوسف بنوری مدظلہم فرماتے ہیں کہ طلاق کے ایک مسئلہ میں کشمیر کے علماء میں اختلاف ہو گیا۔ فریقین نے حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو حکم بنایا۔ حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے دونوں کے دلائل غور سے سنے۔ اُن میں سے ایک فریق اپنے موقف پر فتاویٰ عمّادیہ کی ایک عبارت سے استدلال کر رہا تھا۔ حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
’’میں نے دارالعلوم کے کتب خانے میں فتاویٰ عمادیہ کے ایک صحیح قلمی نسخہ کا مطالعہ کیا ہے۔ اس میں یہ عبارت ہرگز نہیں ہے لہٰذا یا تو ان کا نسخہ غلط ہے یا یہ لوگ کوئی مغالطہ انگیزی کر رہے ہیں ۔‘‘
ایسے علم و فضل اور ایسے حافظہ کا شخص اگر بلند بانگ دعوے کرنے لگے تو کسی درجہ میں اس کو حق پہنچ سکتا ہے، لیکن حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ اُس قافلۂ رُشد و ہدایت کے فرد تھے جس نے مَنْ تَوَاضَعَ لِلّٰہِ کی حدیث کا عملی پیکر بن کر دکھایا تھا۔ چنانچہ اسی واقعہ میں جب انھوں نے حضرت مولانا بنوری مدظلہم کو اپنا فیصلہ لکھنے کا حکم دیا تو انھوں نے حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے نام کے ساتھ ’’الحبر البحر‘‘ (عالم متبحر) کے دو تعظیمی لفظ لکھ دیے۔ حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے دیکھا تو قلم ہاتھ سے لے کر زبردستی خود یہ الفاظ مٹائے اور غصہ کے لہجہ میں مولانا بنوری سے فرمایا:
’’آپ کو صرف مولانا محمد انور شاہ لکھنے کی اجازت ہے‘‘۔
پھر ایسا شخص جو ہمہ وقت کتابوں ہی میں مستغرق رہتا ہو، اُس کا یہ جملہ ادب و تعظیم کتب کے کس مقام کی نشان دہی کرتا ہے کہ:
’’میں مطالعہ میں کتاب کو اپنا تابع کبھی نہیں کرتا بلکہ ہمیشہ خود کتاب کے تابع ہو کر مطالعہ کرتا ہوں ۔‘‘
چنانچہ حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب مدظلہم فرماتے ہیں :
’’سفر و حضر میں ہم لوگوں نے کبھی نہیں دیکھا کہ لیٹ کر مطالعہ کر رہے ہوں یا کتاب پر کہنی ٹیک کر مطالعہ میں مشغول ہوں، بلکہ کتاب کو سامنے رکھ کر مؤدّب انداز میں بیٹھتے، گویا کسی شیخ کے آگے بیٹھے ہوئے استفادہ کر رہے ہوں۔‘‘
اور یہ بھی فرمایا کہ:
’’میں نے ہوش سنبھالنے کے بعد سے اب تک دینیات کی کسی کتاب کا مطالعہ بے وضو نہیں کیا۔‘‘
*…*…*
۱۳- دارالعلوم کی تاریخ میں یہ جملہ بہت معروف ہے کہ دارالعلوم کی ابتداء دو ایسے بزرگوں سے ہوئی جن دونوں کا نام محمود تھا اور دونوں قصبۂ دیوبند کے باشندے تھے۔ ان میں شاگرد تو وہ محمود تھے جو شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے معروف ہوئے اور استاد حضرت ملا محمود صاحب رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ راقم الحروف کے جد امجد حضرت مولانا محمد یٰسین صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ ملا محمود صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ سنن ابن ماجہ پر جو حاشیہ حضرت شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے چھپا ہوا ہے اس کا بڑا حصہ حضرت شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے مجھ سے لکھوایا ہے۔ ان کی سادگی کا یہ عالم تھا کہ طلباء نے اس پر تعجب کا اظہار کیا۔ وجہ یہ تھی کہ علم کے دعوے اور نام و نمود کی خواہشات سے اللہ تعالیٰ نے اس فرشتۂ خصلت بزرگ کو ایساپاک رکھا تھا کہ عام آدمی کو یہ پہچاننا بھی مشکل تھا کہ یہ کوئی بڑے عالم ہیں ۔
اپنا گھریلو سوداسلف اور گوشت ترکاری خود بازار سے خرید کر لاتے اور گھر میں عام آدمیوں کی طرح زندگی گزارتے تھے مگر علوم کے استحضار اور حفظ کا عالم یہ تھا کہ راقم کے جدِّ امجد حضرت مولانا محمد یٰسین صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی ایک بڑی کتاب (جو غالباً منطق یا اصولِ فقہ کی کتاب تھی) اتفاقاً درس سے رہ گئی تھی، انھیں یہ فکر تھی کہ دورۂ حدیث شروع ہونے سے پہلے یہ کتاب پوری ہو جائے چنانچہ انھوں نے مُلاّ محمود صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے درخواست کی۔ ملا صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اوقاتِ مدرسہ کے علاوہ بھی میرے تمام اوقات اسباق سے بھرے ہوئے ہیں، صرف ایک وقت ہے کہ جب میں گھر کا گوشت ترکاری لینے کے لیے بازار جاتا ہوں، یہ وقت خالی گزرتا ہے، تم ساتھ ہو جاؤ تو اس وقفے میں سبق پڑھا دوں گا۔ احقر کے دادا حضرت مولانا محمد یٰسین صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ کتاب بڑی اور مشکل تھی جس کو دوسرے علماء غور و مطالعہ کے بعد بھی مشکل سے پڑھا سکتے تھے۔ مگر مُلاّ محمود صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے کچھ راستہ میں کچھ قصاب کی دوکان پر یہ تمام کتاب ہمیں اس طرح پڑھا دی کہ کوئی مشکل ہی نظر نہ آئی۔
*…*…*
۱۴- حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے علم و فضل کے بارے میں کچھ کہنا سورج کو چراغ دکھانا ہے، حضرت رحمۃ اللہ علیہ طالب علمی کے زمانے ہی سے اپنی قوتِ استعداد، ذہانت و فطانت اور علم و عمل میں مصروف تھے لیکن جب ۱۳۰۰ھ میں آپ دارالعلوم سے فارغ التحصیل ہوئے، اور دستاربندی کے لیے دیوبند میں بہت بڑا اور شاندار جلسہ منعقد کرنے کی تجویز ہوئی تو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اپنے ہم سبقوں کو لے کر حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں پہنچے اور عرض کیا کہ ’’حضرت! ہم نے سنا ہے کہ ہم لوگوں کی دستاربندی کی جائے گی اور سند فراغ دی جائے گی۔ حالانکہ ہم اس قابل ہرگز نہیں لہٰذا اس تجویز کو منسوخ فرما دیا جائے ورنہ اگر ایسا کیا گیا تو مدرسہ کی بڑی بدنامی ہو گی کہ ایسے نالائقوں کو سند دی گئی۔‘‘ حضرت نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کو یہ سن کر جوش آ گیا اور فرمایا کہ تمہارا یہ خیال بالکل غلط ہے، یہاں چونکہ تمہارے اساتذہ موجود ہیں اس لیے ان کے سامنے تمہیں اپنی ہستی کچھ نہیں آتی اور ایساہی ہونا چاہیے، باہر جاؤ گے تب تمہیں اپنی قدر معلوم ہو گی، جہاں جاؤ گے بس تم ہی تم ہو گے۔
٭٭٭

     

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں