پیر، 11 مارچ، 2019

عورتوں کے عیدگاہ جانے کا مسئلہ

حافظ محمود احمد﷾ (ممبئی، الہند)

قارئین کرام! آپ نے اکثر دیکھا اور سنا ہوگا کہ غیر مقلدین عورتوں کو عیدگاہ لے جانے کی پُر زور دعوت دیتے ہیں، اور اس ضمن میں بخاری و مسلم سے حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا کی ایک روایت کو بنیاد بنا کر عیدگاہ نہ لے جانے والوں کی مذمت کرتے ہیں اور انکو حدیث کا مخالف بتاتے ہیں حالانکہ صحیحین کی اس روایت میں چند باتیں قابل غور ہیں، آئیے  پہلے اس حدیث کا عربی متن دیکھتے ہیں، تاکہ پتہ چل جائے کہ حقیقت کیا ہے:
حدیث کا عربی متن و ترجمہ:
عَنْ اُمِّ عَطِیَّۃَ رضی اللہ عنہا قَالَتْ اُمِرْنَا اَنْ نُّخْرِجَ الْحُیَّضَ یوْمَ الْعِیْدَیْنِ وَذَوَاتِ الْخُدُوْرِ فَیَشْھَدْنَ جَمَاعَۃَ الْمُسْلِمِیْنَ وَدَعَوْتَھُمْ وَتَعْتَزِلُ الْحُیضُ عَنْ مُّصَلَّاھُنَّ قَالَتِ امْرَاَۃٌ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِحْدٰنَا لَیْسَ لَھَا جِلْبَابٌ قَالَ لِتُلْبِسْھَا صَا حِبَتُھَا مِنْ جِلْبَابِھَا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
"حضرت ام عطیہؓ فرماتی ہیں کہ ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم عید و بقرہ عید کے دن ان عورتوں کو (بھی) جو ایام والی ہوں (یعنی جو ایام سے ہوں یا یہ کہ جو بالغ ہوں) اور (بھی جو پردہ نشین ہوں (گویا یا تمام عورتوں کو) عید گاہ لے چلیں اور یہ سب مسلمانوں کی جماعت اور دعا میں شریک ہوں۔ نیز جو عورتیں ایام سے ہوں وہ نماز پڑھنے کی جگہ سے الگ رہیں" ایک عورت نے عرض کیا کہ " یا رسول اللہ ! ہم میں سے جس کے پاس چادر نہیں (وہ کیا کرے؟) " آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ "اسے ساتھ والی چادر اوڑھا دے۔" (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
اس روایت کے مطابق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے جنہیں عیدگاہ جانے کا حکم دیا تھا ان میں لگ بھگ ہر طرح کی عورتیں تھیں۔
o حیض والی عورت
o شادی شدہ عورت
o غیر شادی شدہ عورت
o نوجوان عورت
o پردہ نشین عورت
اور بچے بھی۔ دیکھئے: (بخاری: "باب خروج الصبیان الی المصلی") اس حدیث کے راوی حضرت عبداللہ بن عباسؓ بهی اس وقت بچے تھے، خود اس موقع پر حاضر تھے۔ دیکھئے: عمدة القاری جلد 6 صفحہ 297۔
ظاہر ہے کہ عورتیں اور بچے نماز عیدین کے مکلّف ہی نہیں اور ان پر یہ نماز واجب ہی نہیں اور حیض والی عورتوں پر کوئی نماز فرض نہیں پھر آخر ان سب کو عیدگاہ کیوں بلایا گیا تھا؟؟؟
ان کو بلانے کا مقصد نماز عیدین نہیں بلکہ بقول امام طحاوی رحمہ اللہ چونکہ اس زمانہ میں مسلمانوں کی تعداد کم تھی اس لئے عورتوں اور بچوں کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ عیدین کے موقع پر مردوں کے ہمراہ عید گاہ حاضر ہوں تاکہ مسلمانوں کی کثرت اور اسلام کی شوکت کا اظہار ہو۔ چنانچہ نواب قطب الدین مرتب مظاہر حق صاحب لکھتے ہیں:
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عورتوں کے عید گاہ جانے کی توجیہہ امام طحاویؒ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ چونکہ اس وقت اسلام کا ابتدائی دور تھا مسلمان بہت کم تھے اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مقصد تھا کہ اگر تمام عورتیں بھی عیدگاہ جائیں گی تو مسلمانوں کی تعداد زیادہ معلوم ہوگی جس سے کفار پر رعب پڑے گا۔ (مظاہر حق جدید: جلد 2 صفحہ281)
امام خطابی رحمہ اللہ کہتے ہیں: 
أمر جميع النساء بحضور المصلى يوم العيد لتصلی من ليس لھا عذر، وتصل بركة الدعاء إلى من لھا عذر، وفيھ ترغيب للناس فی حضور الصلوات، ومجالس الذكر، ومقاربة الصلحاء لينالھم بركتھم، وھذا أی: حضورھن غير مستحب فی زماننا لظھور الفساد۔
[ترجمہ] آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو عید گاہ جانے کا حکم دیا تھا کہ جنہیں  عذر نہ ہو وہ تو نماز پڑھیں اور جن عورتوں کو کوئ عذر ہو تو انہیں دعا کی برکت پہنچے اس میں لوگوں کے لئے ترغیب ہے کہ وہ نماز میں حاضر ہوں ، مجالس ذکر میں شریک ہوں، نیک لوگوں کی قربت اختیار کریں تاکہ ان کو برکت حاصل ہو اور ہمارے زمانے میں چونکہ فساد و بگاڑ کا غلبہ ہے اس لئے عید گاہ میں عورتوں کا حاضر ہونا مستحب نہیں ہے۔ (مرقات:جلد3 صفحہ483)
علامہ بدر الدین عینیؒ لکھتے ہیں: 
فاذا کان الامر قد تغیر فی زمن عائشۃ حتی قالت ھذا القول فماذا یکون الیوم الذی عم الفساد فیھ وفشت المعاصی من الکبار والصغار
 یعنی جب معاملہ حضرت عائشہؓ کے زمانہ میں  اتنا بدل گیا تھا کہ انہیں مذکورہ جملے (اگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آج ان باتوں کو دیکھتے جو لوگوں نے اختیار کر رکھی ہیں تو عورتوں کو ضرور مسجد جانے سے روک دیتے) کہنا پڑا تو آج کیا حال ہوگا جبکہ فساد بالکل عام ہوچکا ہے کبیرہ و صغيرة گناہ پھیل چکے ہیں۔ (عمدة القاری: جلد 6 صفحہ 296)
یہ فساد زمانہ کا ہی اثر ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نماز عیدین کیلئے پہلے اپنے گھر والوں کو لے جاتے تھے مگر پھر لے جانا بند کردیا،  جیسا کہ حضرت نافعؒ اس کو روایت کرتے ہیں: عبداللھ بن عمر انھ کان لا یخرج نساء فی العیدین۔ (مصنف ابنِ ابی شیبہ: جلد2 صفحہ4)
حضرت نافعؒ بھی اپنی عورتوں کو عید گاہ میں نہیں لے جاتے تھے۔ چنانچہ مصنف عبدالرزاق: جلد3 ص303/  میں ہے: عبدالرزاق عن عبیداللھ بن عمر عن نافع انھ کان لا یخرج نسائھ فی العید۔
اور حضرت ہشام اپنی والدہ حضرت عروہؓ سے روایت کرتے ہیں کہ:  کان لا یدع امرأۃ من اھلھ تخرج الی فطر ولا اضحی۔
"وہ اپنے گھر کی کسی عورت کو عیدین کے لئے نکلنے کا موقع نہیں دیتی تھیں"۔ (مصنف ابنِ ابی شیبہ: جلد2 صفحہ4)
مدینہ منورہ کے فقیہ حضرت قاسمؒ کے بارے میں ان کے صاحبزادے فرماتے ہیں:
 لا یدعھن یخرجن فی الفطر ولا الاضحی۔  "حضرت قاسمؒ انہیں عید اور بقرہ عید میں نکلنے کا موقع نہیں دیتے تھے"۔ (مصنف ابنِ ابی شیبہ: جلد2 صفحہ4)
ابراہیم نخعیؒ کہتے ہیں:
یکرہ خروج النساء فی العیدین۔ "عورتوں کا عیدین کے لئے نکلنا مکروہ ہے"۔ (مصنف ابن ابی شیبہ: جلد2 صفحہ3)
امام ابوعیسٰی ترمذیؒ  حضرت عبداللہ ابن مبارکؒ اور حضرت سفیان ثوریؒ کے متعلق فرماتے ہیں:
عَنْ عَبْدِ اللَّھ بْنِ الْمُبَارَکِ أَنَّھ قَالَ أَکْرَھ الْيَوْمَ الْخُرُوجَ لِلنِّسَائِ فِی الْعِيدَيْنِ فَإِنْ أَبَت
أَنْ تَخْرُجَ کَذَلِکَ فَلِلزَّوْجِ أَنْ يَمْنَعَھا عَنْ الْخُرُوجِ وَيُرْوَی عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّھ عَنْھا قَالَتْ لَوْ رَأَی رَسُولُ اللَّھ صَلَّی اللَّھ عَلَيْھ وَسَلَّمَ مَا أَحْدَثَ النِّسَائُ لَمَنَعَھنَّ الْمَسْجِدَ کَمَا مُنِعَتْ نِسَائُ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَيُرْوَی عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ أَنَّھ کَرِھ الْيَوْمَ الْخُرُوجَ لِلنِّسَائِ إِلَی الْعِيدِ
یعنی ابن مبارک سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا آج کل میں عورتوں کا گھر سے نکلنا مکروہ سمجھتا ہوں لیکن اگر وہ نہ مانے تو اس کا شوہر اسے میلے کپڑوں میں بغیر زینت کے نکلنے کی اجازت دے دے اور اگر زینت کرے تو اس کے شوہر کو اسے نکلنے سے منع کر دینا چاہے حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عورتوں کی ان چیزوں کو دیکھتے جو انہوں نے نئی نکالی ہیں تو انہیں مسجد میں جانے سے منع فرما دیتے جس طرح بنی اسرائیل کی عورتوں کو منع کر دیا گیا۔ سفیان ثوری سے بھی یہی مروی ہے کہ وہ عورتوں کو عیدین کے لئے نکلنا مکروہ سمجھتے تھے۔ (ترمذی شریف: ج1 ص120 "باب فی خروج النساء فی العیدین")
قارئین غور فرمایئے!!! 
غیر مقلدین ان تمام روایتوں کے خلاف حضرت امِ عطیہؓ کی روایت کا سہارا لے کر عورتوں کو عید گاہ لے جانے کی وکالت کرتے ہیں، کیا وہ اپنے گھر کی ساری عورتوں جوان، بوڑھی، شادی شدہ، غیر شادی شدہ اور حیض والی وغیرہ کو لے کر کبھی عیدگاہ گئے ہیں؟
 غیر مقلدین کے لئے لمحۂ فکریہ:
قارئین!!! غیر مقلدین کے فتاویٰ علمائے حدیث میں لکھا ہے کہ:
آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) ہمیشہ مع صحابہ کرام باوجود گنجائش مسجدِ نبوی کے نماز عیدین عیدگاہ میں ادا فرماتے تھے جیسا کہ احادیث صحاح سے ثابت ہے: کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یخرج یوم الفطر والاضحی الی المصلی ای الی الجبانة وھی الصحراء خارج المدینة و مسیرتھا من الحجرۃ الشریفة الف خطوہ
[ترجمہ] آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم عیدالفطر اور عیدالاضحٰی کے دن عیدگاہ کی طرف نکلتے، مدینہ سے باہر جاتے اور وہ حجرہ شریف سے ایک ہزار قدم کا فاصلہ رکھتی تھی۔ (فتاویٰ علمائے حدیث: جلد3 ص164 "باب العیدین")
تو اب ان غیر مقلدوں کو چاہئے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی اس حدیث پر بھی عمل کریں اور شہر کے باہر جا کر نمازِ عید ادا کریں ورنہ اس حدیث کی مخالفت کرنے والوں میں شامل ہو جائیں گے۔ اور اگر شہر کے باہر جائیں تو پیدل جائیں کسی سواری کا استعمال نہ کریں، اس لئے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا سواری پر سوار ہو کر عیدگاہ جانے کا ثبوت نہیں ہے۔ 
اور ترمذی شریف میں ہے:
حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ مُوسَی الْفَزَارِيُّ حَدَّثَنَا شَرِيکٌ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْحَارِثِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ مِنْ السُّنَّةِ أَنْ تَخْرُجَ إِلَی الْعِيدِ مَاشِيًا وَأَنْ تَأْکُلَ شَيْئًا قَبْلَ أَنْ تَخْرُجَ قَالَ أَبُو عِيسَی ھذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ھذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَکْثَرِ أَھلِ الْعِلْمِ يَسْتَحِبُّونَ أَنْ يَخْرُجَ الرَّجُلُ إِلَی الْعِيدِ مَاشِيًا وَأَنْ يَأْکُلَ شَيْئًا قَبْلَ أَنْ يَخْرُجَ لِصَلَاةِ الْفِطْرِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَيُسْتَحَبُّ أَنْ لَا يَرْکَبَ إِلَّا مِنْ عُذْرٍ۔
[ترجمہ] اسماعیل بن موسی نے شریک سے، شریک نے ابو اسحٰق سے، ابو اسحٰق نے حارث سے، حارث نے حضرت علیؓ سے روایت کیا ہے، وہ فرماتے ہیں: نماز عید کے لئے پیدل چلنا اور گھر سے نکلنے سے پہلے کچھ کھا لینا سنت ہے، امام ابو عیسیٰ ترمذیؒ فرماتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے اور اسی پر اکثر اہل علم کا عمل ہے کہ عید کی نماز کے لئے پیدل نکلنا مستحب ہے۔ بغیر عذر کے کسی پر سوار نہ ہو۔
لیکن قارئین!!! آپ نے غیر مقلدین کو دیکھا ہوگا کہ یہ لوگ بلا عذر نماز عیدین بجائے عیدگاہ میں ادا کرنے کہ مسجد ہی میں ادا کرتے ہیں اور اگر کبھی عیدگاہ جاتے بھی ہیں تو سواری کا سہارا لیتے ہیں، تو اب آپ ہی لوگ فیصلہ فرمائیں کہ غیر مقلدین حضرات حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کی خلاف ورزی سے اللہ پاک اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ و سلم اور انسانیت و اخلاق کے مجرم و منافق ہیں یا نہیں؟؟؟
اللہ پاک صحیح فکر و عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

از قلم: خاک پائے اکابر اہلسنت و جماعت علمائے دیوبند
حافظ محمود احمد عرف عبدالباری محمود
٭٭٭

     

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں