مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم
حضرت علی کا واقعہ مشہور ہے کہ کسی یہودی نے ان کے سامنے آنحضرت ﷺ کی شان میں کوئی گستاخی کر دی تھی تو وہ اس پر چڑھ دوڑے اور اُسے زمین پر گرا کر اس کے سینے پر سوار ہو گئے۔ یہودی نے جو اپنے آپ کو بے بس پایا تو کھسیانا ہو کر اُس نے حضرت علی کے روئے مبارک پر تھوک دیا۔ دیکھنے والوں نے دیکھا کہ حضرت علی اُس کو چھوڑ کر فوراً الگ ہو گئے اور پوچھنے پر بتایا کہ میں پہلے آنحضرت ﷺ کی محبت کی بناء پر اس یہودی سے اُلجھا تھا۔ اگر تھوکنے کے بعد کوئی اور کارروائی کرتا تو یہ اپنے نفس کی مدافعت ہوتی۔
حضرت شیخ الہند نے اپنے اس عمل سے حضرت علی کی یہ سنت تازہ فرما دی۔ مطلب یہی تھا کہ اب تک تو تقریر نیک نیتی سے خالص اللہ کے لیے ہو رہی تھی لیکن یہ خیال آنے کے بعد اپنا علم جتانے کے لیے ہوتی، اس لیے اسے روک دیا۔
*…*…*
٭۵- مدرسہ معینیہ اجمیر کے معروف عالم حضرت مولانا محمد معین الدین صاحب معقولات کے مسلّم عالم تھے۔ انھوں نے شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن صاحب قدس سرہ کی شہرت سن رکھی تھی، ملاقات کا اشتیاق پیدا ہوا تو ایک مرتبہ دیوبند تشریف لائے اور حضرت شیخ الہند کے مکان پر پہنچ گئے۔ گرمی کا موسم تھا۔ وہاں ایک صاحب سے ملاقات ہوئی جو صرف بنیان اور تہبند پہنے ہوئے تھے۔ مولانا معین الدین صاحب نے اُن سے اپنا تعارف کرایا اور کہا کہ ’’مجھے حضرت مولانا محمود حسن صاحب سے ملنا ہے‘‘ وہ صاحب بڑے تپاک سے مولانا اجمیری کو اندر لے گئے، آرام سے بٹھایا اور کہا کہ ’’ابھی ملاقات ہو جاتی ہے‘‘ مولانا اجمیری منتظر رہے، اتنے میں وہ شربت لے آئے اور مولانا کو پلایا۔ اس کے بعد مولانا اجمیری نے کہا کہ ’’حضرت مولانا محمود حسن صاحب کو اطلاع دیجیے‘‘ اُن صاحب نے فرمایا ’’آپ بے فکر رہیں اور آرام سے تشریف رکھیں ‘‘ تھوڑی دیر بعد وہ صاحب کھانا لے آئے اور کھانے پر اصرار کیا، مولانا اجمیری نے کہا کہ ’’میں مولانا محمود حسن صاحب سے ملنے آیا ہوں، آپ اُنھیں اطلاع کر دیجیے‘‘۔ ان صاحب نے فرمایا ’’اُنھیں اطلاع ہو گئی ہے آپ کھانا تناول فرمائیں ابھی ملاقات ہو جاتی ہے‘‘ مولانا اجمیری نے کھانا کھا لیا تو اُن صاحب نے اُنھیں پنکھا جھلنا شروع کر دیا۔ جب دیر گزر گئی تو مولانا اجمیری برہم ہو گئے اور فرمایا کہ آپ میرا وقت ضائع کر رہے ہیں، میں مولانا سے ملنے آیا تھا اور اتنی دیر ہو چکی ہے، ابھی تک آپ نے اُن سے ملاقات نہیں کرائی۔ اس پر وہ صاحب بولے کہ:
’’دراصل بات یہ ہے کہ یہاں مولانا تو کوئی نہیں ۔ البتہ محمود خاکسار ہی کا نام ہے۔‘‘
مولانا معین الدین صاحب یہ سن کر ہکا بکا رہ گئے اور پتہ چل گیا کہ حضرت شیخ الہند کیا چیز ہیں ؟
*…*…*
٭۶- امام العصر حضرت علامہ سید محمد انور شاہ صاحب کشمیری علم و فضل میں یکتائے روزگار تھے۔ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی نے اپنی ایک مجلس میں نقل کیا کہ ایک عیسائی فیلسوف نے لکھا ہے کہ ’’اسلام کی حقانیت کی ایک دلیل یہ ہے کہ غزالی جیسا محقق اور مدقق اسلام کو حق سمجھتا ہے۔‘‘ یہ واقعہ بیان کر کے حکیم الامت نے فرمایا: ’’میں کہتا ہوں کہ میرے زمانہ میں مولانا انور شاہ صاحب کا وجود اسلام کی حقانیت کی دلیل ہے کہ ایسا محقق اور مدقق عالم اسلام کو حق سمجھتا ہے اور اس پر ایمان رکھتا ہے۔‘‘
انہی حضرت شاہ صاحب کا واقعہ حضرت مولانا محمد انوری صاحب بیان فرماتے ہیں کہ مقدمہ بھاولپور کے موقع پر جب حضرت شاہ صاحب نے قادیانیوں کے کفر پر بے نظیر تقریر فرمائی اور اس میں یہ بھی فرمایا کہ ’’جو چیز دین میں تواتر سے ثابت ہو اُس کا منکر کافر ہے‘‘ تو قادیانیوں کے گواہ نے اس پر اعتراض کیا:
’’آپ کو چاہیے کہ امام رازی پر کفر کا فتویٰ دیں کیونکہ فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت میں علامہ بحرالعلوم نے لکھا ہے کہ امام رازی نے متواتر معنوی انکار کیا ہے۔‘‘
اس وقت بڑے بڑے علماء کا مجمع تھا، سب کو پریشانی ہوئی کہ فواتح الرحموت اس وقت پاس نہیں ہے، اس اعتراض کا جواب کس طرح دیا جائے؟ مولانا محمد انوری جو اس واقعے کے وقت موجود تھے، فرماتے ہیں :
’’ہمارے پاس اتفاق سے وہ کتاب نہ تھی۔ مولانا عبد اللطیف صاحب ناظم مظاہر العلوم سہارنپور اور مولانا مرتضی حسن صاحب حیران تھے کہ کیا جواب دیں گے؟‘‘
لیکن اسی حیرانی کے عالم میں حضرت شاہ صاحب کی آواز گونجی:
’’جج صاحب! لکھیے، میں نے بتیس سال ہوئے، یہ کتاب دیکھی تھی، اب ہمارے پاس یہ کتاب نہیں ہے۔ امام رازی دراصل یہ فرماتے ہیں کہ حدیث ”لا تجتمع امتی علی الضلالۃ “تواتر معنوی کے رُتبے کو نہیں پہنچی، لہٰذا انھوں نے اس حدیث کے متواتر معنوی ہونے کا انکار فرمایا ہے، نہ کہ تواتر معنوی کے حجت ہونے کا۔ ان صاحب نے حوالہ پیش کرنے میں دھوکے سے کام لیا ہے۔ ان کو کہو کہ عبارت پڑھیں ۔ ورنہ میں ان سے کتاب لے کر عبارت پڑھتا ہوں ۔‘‘
چنانچہ قادیانی شاہد نے عبارت پڑھی۔ واقعی اس کا مفہوم وہی تھا جو حضرت شاہ صاحب نے بیان فرمایا۔ مجمع پر سکتہ طاری ہو گیا اور حضرت شاہ صاحب نے فرمایا:
’’جج صاحب! یہ صاحب ہمیں مُفحم (لاجواب) کرنا چاہتے ہیں ۔ میں چونکہ طالب علم ہوں، میں نے دوچار کتابیں دیکھ رکھی ہیں، میں ان شاء اللہ مُفحم نہیں ہونے کا۔‘‘
ایک طرف علم و فضل اور قوت حافظہ کا یہ محیرالعقول کارنامہ دیکھیے کہ بتیس سال پہلے دیکھی ہوئی کتاب کا ایک جزوی حوالہ کتنی جز رسی کے ساتھ یاد رہا، دوسری طرف اس موقع پر کوئی اور ہوتا تو نہ جانے کتنے بلند بانگ دعوے کرتا، لیکن خط کشیدہ جملہ ملاحظہ فرمائیے کہ وہ تواضع کے کس مقام کی غمازی کر رہا ہے؟ اور یہ محض لفظ ہی نہیں ہیں، وہ واقعتاً اپنے تمام کمالات کے با وصف اپنے آپ کو ایک معمولی طالب علم سمجھتے تھے اور اس دعائے نبوی کے مظہر تھے کہ اللّٰہم اجعلنی فی عینی صغیرا وفی أعین النّاس کبیرا.
حضرت مولانا محمد انوری ہی راوی ہیں کہ ایک دفعہ حضرت شاہ صاحب کشمیر تشریف لے جا رہے تھے، بس کے انتظار میں سیالکوٹ اڈّے پر تشریف فرما تھے، ایک پادری آیا اور کہنے لگا کہ آپ کے چہرے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ مسلمانوں کے بڑے عالم دین ہیں ۔ فرمایا ’’نہیں ! میں طالب علم ہوں ‘‘ اس نے کہا ’’آ پ کو اسلام کے متعلق علم ہے؟‘‘ فرمایا ’’کچھ کچھ‘‘ پھر اُن کی صلیب کے متعلق فرمایا کہ ’’تم غلط سمجھے ہو۔ اس کی یہ شکل نہیں ہے۔‘‘ پھر نبی کریم ﷺ کی نبوت پر چالیس دلائل دیے۔ دس قرآن سے دس تورات سے، دس انجیل سے اور دس عقلی۔ وہ پادری آپ کی تقریر سن کر کہنے لگا کہ اگر مجھے اپنے مفادات کا خیال نہ ہوتا تو میں مسلمان ہو جاتا، نیز یہ کہ مجھے خود اپنے مذہب کی بہت سی باتیں آپ سے معلوم ہوئیں ۔
*…*…*
٭۷- احقر کے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب مد ظلہم نے بار بار یہ واقعہ بیان فرمایا کہ جب میں دارالعلوم دیوبند میں ملاّ حسن پڑھاتا تھا تو ایک روز اس کی عبارت پر کچھ شبہ ہوا جو حل نہیں ہو رہا تھا۔ میں نے سوچا کہ حضرت شاہ صاحب سے اس کے بارے میں استفسار کرنا چاہیے۔ چنانچہ میں کتاب لے کران کی تلاش میں نکلا، وہ اپنی جگہ پر نہیں تھے اور جب وہ اپنی جگہ پرنہ ہوں تو ان کا کتب خانہ میں ہونا متعین تھا۔ میں کتب خانہ میں پہنچا تو وہ کتب خانے کی بالائی گیلری میں بیٹھے مطالعہ میں مشغول تھے۔ میں ابھی نیچے ہی تھا کہ انھوں نے مجھے دیکھ لیا اور اوپر ہی سے میرے آنے کی وجہ پوچھی۔ میں نے عرض کیا کہ ’’ملا حسن کے ایک مقام پر کچھ اشکال ہے وہ سمجھنا تھا۔‘‘ وہیں بیٹھے بیٹھے فرمایا ’’عبارت پڑھیے‘‘ میں نے عبارت پڑھنی شروع کی تو بیچ ہی میں روک کر فرمایا: ’’اچھا ! یہاں آپ کو یہ شبہ ہوا ہو گا‘‘ اور پھر بعینہ وہی اشکال دُہرا دیا جو میرے دل میں تھا۔ میں نے تصدیق کی کہ واقعی یہی شبہ ہے، اس پر انھوں نے اس کے جواب میں وہیں سے ایسی تقریر فرمائی کہ تمام اشکال کافور ہو گئے۔
اب ظاہر ہے کہ حضرت شاہ صاحب عرصہ دراز سے حدیث کی تدریس میں مصروف تھے اور منطق کی کتابوں سے واسطہ تقریباً ختم ہو گیا تھا لیکن اس کے باوجود یہ حافظہ اور یہ استحضار کرشمۂ قدرت نہیں تو اور کیا ہے؟
*…*…*
٭۸- احقر نے اپنے والد ماجد سے بھی سنا ہے اور شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یوسف صاحب بنوری مد ظلہم سے بھی کہ حضرت شاہ صاحب نے ۱۳۲۱ھ میں علامہ ابن الہمام رحمہ اللہ کی مشہور شرح ہدایہ ’’فتح القدیر‘‘ اور اس کے تکملہ کا مطالعہ بیس سے کچھ زائد ایام میں کیا تھا اور کتاب الحج تک اس کی تلخیص لکھی تھی اور انھوں نے صاحب ہدایہ پر جو اعتراضات کیے ہیں اُن کا جواب بھی لکھا تھا۔ اس کے بعد مدت العمر ’’فتح القدیر‘‘ کی مراجعت کی ضرورت نہیں پڑی اور کسی تازہ مطالعہ کے بغیر اس کی نہ صرف باتوں بلکہ طویل عبارتوں تک کا حوالہ سبق میں دیا کرتے تھے۔ حضرت مولانا بنوری مد ظلہم فرماتے ہیں کہ انھوں نے ۱۳۴۷ھ میں ہم سے یہ واقعہ بیان کیا اور فرمایا:
’’چھبیس سال ہوئے پھر مراجعت کی ضرورت نہیں پڑی اور جو مضمون اس کا بیان کروں گا، اگر مراجعت کرو گے تفاوت کم پاؤ گے۔‘‘
*…*…*
٭۹- حضرت مولانا محمد منظور نعمانی صاحب مد ظلم حضرت شاہ صاحب کے شاگرد ہیں ۔ وہ فرماتے ہیں کہ درس سے فراغت کے بعد میں جب بھی حضرت شاہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوتا تو پہلے سے لکھے ہوئے متعدد سوالات کے جواب اُن سے معلوم کیا کرتا تھا۔ ایک دفعہ کی حاضری میں ترمذی شریف کی ایک عبارت کا حوالہ میں نے دیا اور عرض کیا کہ اس عبارت میں یہ اشکال ہے، بہت غور کیا لیکن حل نہیں ہو سکا۔ فرمایا ’’مولوی صاحب! آپ کو یاد نہیں رہا، مجھے خوب یاد ہے کہ جس سال آپ دورہ میں تھے اس موقع پر میں نے بتایا تھا کہ یہاں ترمذی کے اکثر نسخوں میں ایک غلطی واقع ہو گئی ہے لیکن لوگ سرسری طور پر گزر جاتے ہیں اور انھیں پتہ نہیں چلتا، ورنہ یہ اشکال سب کو پیش آنا چاہیے‘‘ پھر فرمایا کہ ’’صحیح عبارت اس طرح ہے‘‘ مولانا نعمانی مد ظلہم لکھتے ہیں :
’’اللہ اکبر! یہ بات بھی یاد رہتی تھی کہ فلاں سال اس موقع پر سبق میں یہ بات فرمائی تھی‘‘۔
(جاری ہے۔۔۔)
٭٭٭
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں