پیر، 11 مارچ، 2019

ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت کا جائزہ (قسط۔۲)

مولانامفتی نجیب اللہ عمر ﷾(کراچی، پاکستان)

 (۹) لفظ بدلنے اور اضافے کی ایک اور مثال :
احمد رضا ایک سوال کے جواب میں کہتے ہیں:
’’ہم نہ اسکی ذات سے بحث کر سکتے ہیں نہ اسکی کسی صفت سے حدیث میں ارشاد فرمایا:
تفکرو فی اٰلاء اللہ و لا تفکرو فی ذات اللہ فتھلکو
ترجمہ احمد رضا: اﷲ کی نعمتوں میں فکر کرو۔ اور اسکی ذات میں فکر نہ کرو کہ ہلاک ہو جاؤ گے۔‘‘
{ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ دوم صفحہ۱۶۳نوری کتب خانہ لاہور}
اصل الفاظِ حدیث :
حالانکہ حدیث کے الفاظ ایسے نہیں جیسے احمد رضا نے نقل کئے ہیں بلکہ اصل الفاظ یوں ہیں:
”تفکروا فی خلق اﷲ ولا تفکروافی اﷲ فتھلکوا‘‘(ابو الشیخ عن ابی ذّر)
{کنز العمال کتاب الاخلاص قسم الاقوال حدیث نمبر۵۷۰۲ ج ۳  ص ۴۷ ادارۃ تالیفات الشرفیہ}
غلطیاں:
(۱) اس روایت میں احمد رضا نے لفظ ’’خلق اﷲ‘‘ کو ’’آلاء اﷲ‘‘ سے بدل دیا ۔
(۲) اور لفظ ’’فی اﷲ‘‘ کو ’’فی ذات اﷲ‘‘ سے تبدیل کر دیا اور حدیث میں اپنی طرف سے لفظ زائد کرنے کے جرم کا ارتکاب کیا۔
(۳) اور اس جگہ احمد رضا نے حدیث کا جو ترجمہ کیا ہے وہ اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ یہ غلطی احمد رضا کی ہے اور انہی کے حافظے کا کمال ہے۔
(۱۰)حذف اور اضافہ کی عادت یہاں بھی پوری کر دی:
ایک جگہ احمد رضا خان لکھتے ہیں:
’’غزوہ بدر شریف میں مسلمانوں نے کفار کی نعشیں جمع کر کے ایک کنویں میں پاٹ دیں۔ حضور ﷺ کی عادت کریمہ تھی جب کسی مقام کو فتح فرماتے تو وہاں تین دن قیام فرماتے تھے ۔یہاں سے تشریف لے جاتے وقت ا س کنویں پر تشریف لے گئے جس میں کافروں کی لاشیں پڑی تھیں اور انھیں نام بنام  آواز دے کر فرمایا :ہم نے تو پا لیا جو ہم سے ہمارے رب نے سچّا وعدہ (یعنی حضرت کا)فرمایا۔ کیوں تم نے بھی پایا جو سچا وعدہ (یعنی ”نار“ کا)تم سے تمہارے رب نے کیا تھا۔ امیر المؤمنین فاروق اعظمؓ  نے عرض کی’’ یا رسول اﷲ اجساد الارواح فیھا ‘‘یا رسول اﷲ کیا حضور بے جان جثوں سے کلام فرماتے ہیں ۔فرمایا: مَااَنْتُمْ باسمع منھم۔ تم کچھ ان سے زیادہ نہیں سنتے مگر انھیں طاقت نہیں کہ لوٹ کر جوا ب دیں تو کافر تک سنتے ہیں‘‘
{ملفوظات اعلیٰ حضرت حصہ دوم صفحہ۱۸۳نوری کتب خانہ لاہور}
اصل الفاظِ حدیث اور اس میں نقل کی غلطیاں :
یہ روایت صحیح البخاری  ۵۶۶  ج ۲  کتاب المغازی  باب قتل ابی جہل میں ہے۔ لیکن احمد رضا نے حضرت عمر ؓ  کا قول صحیح نقل نہیں کیا حضرت عمرؓ  کے قول کے الفاظ یہ ہیں۔
’’یارسول اﷲ ماتکلم من اجسادٍ لا ارواح لھا‘‘
(۱) جبکہ احمد رضا نے ’’ماتکلم‘‘کے جملہ کواور ’’مِنْ‘‘کو غائب کردیا ۔
(۲) اور دوسرے جملہ میں ’’لما اقول‘‘کو حذف کر دیا۔
(۳) اور” مگر انھیں طاقت نہیں“ سے” سنتے ہیں “ تک کا جملہ حدیث کے ترجمہ میں بڑھا دیا۔
(۱۱)لفظ ’’بشئی‘‘کو ’’الشَّیْب‘‘سے بدل دیا :
عرض :حضور ایک کتاب میں میں نے دیکھا کہ حضرت امام حسین ؓ کی شہادت کے وقت ریش مبارک میں خضاب تھا۔۔۔
ارشاد: خضاب سیاہ یا اسکی مثل حرام ہے۔ صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے ’’ غیِرّوا ھٰذا الشیب ولاتقربوا السواد‘‘
ترجمہ احمد رضا: اس سپیدی کو بدل دو اور سیاہ کے پاس نہ جاؤ ۔
{ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ دوم صفحہ۲۰۴نوری کتب خانہ لاہور}
حدیث اصل الفاظ:
احمد رضا نے جن لفظوں کے ساتھ صحیح مسلم شریف سے حدیث نقل کی ہے ان الفاظ کی حدیث مسلم شریف میں بالکل موجود نہیں ہے۔
بلکہ اصل میں حدیث کے الفاظ یوں ہیں۔
’’غیروا ھٰذا بشئٍی واجتنبوا السواد‘‘
ترجمہ: اس کو کسی چیز سے بدل دو اور سیاہی سے بچو۔
(صحیح مسلم ص۱۶۴  ج ۲کتاب الزینۃ ۔باب استحباب الخضاب الشیب بصفرۃ حدیث  ۲۱۰۲مکتبہ دار ابن حزم بیروت)
نقلِ حدیث میں غلطیوں کی نشاندہی:
(۱)اس حدیث میں احمد رضا خان نے ’’بشئی ٍ ‘‘کو ’’الشیب‘‘سے بدل دیا۔
(۲) اور ’’اجتنبوا‘‘کو ’’ولاتقربوا‘‘سے تبدیل کردیا۔
(۳) اور پھر اس حدیث کا ترجمہ بھی کیا ہے جس میں یہ بات واضح طور پر ثابت ہوتی ہے کہ یہ احمد رضا کے سوا کسی اور کی غلطی نہیں ہے ۔
(۱۲)  حدیث میں لفظ ’’ کَانَ‘‘کم کر دیا:
مسجد کے آداب سے متعلق کہتے ہوئے لکھتے ہیں:
مسجد میں چھینک آئے تو کوشش کرو کہ آہستہ آواز نکلے اسی طرح کھانسی
’’کان النبی ﷺ یکرہ العطسۃ الشدیدۃ فی المسجد ‘‘
ترجمہ احمد رضا: نبی ﷺ مسجد میں زور سے چھینک کو ناپسند فرماتے۔
{ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ دوم صفحہ۲۱۸نوری کتب خانہ لاہور}
حدیث کے اصل الفاظ:
جبکہ اس حدیث کے الفاظ یوں ہیں:
’’کان النبی ﷺ کان یکرہ العطسۃ الشدیدۃ فی المسجد‘‘
{شعب الایمان للبیھقی ،فصل فی خفض الصوت بالعطاس حدیث نمبر۵۳۰۶  ص۳۲ ج  ۷  دار الکتب العلمیۃ بیروت}
نقل حدیث کی غلطی:
اس حدیث میں احمد رضا خان نے دوسری دفعہ کے لفظ’’کَانَ‘‘کو اڑا دیا۔ جو اصل حدیث میں موجود تھا۔
(۱۳)  تبدیلی اور حذف کرنا  ایک اور غلطی:
چھینک اچھی چیز ہے ۔اسے بد شگون جاننا مشرکین ہند کا ناپاک عقیدہ ہے۔
حدیث میں تو یہ ارشاد فرمایا:
’’العطسۃ عند الحدیث شاھد عدل‘‘
ترجمہ احمد رضا: بات کے وقت چھینک عادل گواہ ہے۔
یعنی جو کچھ بیان کیا جاتا ہو ۔جس کا صدق و کذب معلوم نہیں اور اس وقت کسی کو چھینک آئے تو وہ اس بات کے صدق پر دلیل ہے۔
{ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ دوم صفحہ۲۱۹نوری کتب خانہ لاہور}
حدیث کے اصل الفاظ:
حالانکہ حدیث کے جو الفاظ احمد رضا نے نقل کئے ہیں وہ مکمل اسطرح ہیں ۔
’’عن قتاد قال قالٰ عمر بن الخطاب :لعطسۃ واحدۃ عند حدیث اَحبّ الیّ من شاھد عدل ‘‘(الحکیم)
{کنز العمال کتاب الصحبۃ  العطاس والتشمیت،قسم الاقوال  ۱۹  ج  ۹  ص ۲۵۷۷۰  دار الکتب العلمیہ بیروت}
نقلِ حدیث میں غلطیاں:
(۱) اس حدیث میں احمد رضا نے ’’ لعطسۃ‘‘کو ’’ العطسۃ ‘‘سے
(۲) اور’’ عند حدیث‘‘کو ’’عند الحدیث‘‘سے بدل کر
(۳)  لفظ ’’ واحدۃ‘‘ اور
(۴) ’’احب الیّ من‘‘ کو حدیث میں سے اڑا دیا۔
(۵)  اور احمد رضا کی اس غلطی کی نشاندہی اسکا ترجمہ کر رہا ہے۔ جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ کاتب یا ناشر کی غلطی نہیں بلکہ احمد رضا کی ہے۔
(۱۴) الفاظ حدیث پورے نقل نہیں کئے:
خود حضور اقدس ﷺ نے ایک دنبہ کی ذبح میں فرمایا:
’’ بسم اﷲ  اﷲاکبر اللَّھُمَّ عن محمدٍ واھل بیتہ‘‘ 
دوسرے کی ذبح میں فرمایا:
’’بسم اﷲ  اﷲ اکبر اللَّھُمَّ عمن لَمْ یضح من اُمَّتی ‘‘
ترجمہ احمد رضا: یہ اس کی طرف سے جس نے میری امت میں قربانی نہیں کی۔
{ملفوظات اعلیٰ حضرت حصہ دوم صفحہ۲۲۰نوری کتب خانہ لاہور}
دوسری حدیث کے اصل الفاظ:
اس عبارت میں احمد رضا خان نے جو دوسری حدیث نقل کی ہے اس کے الفاظ پورے نقل نہیں کئے۔ اور پوری حدیث یوں ہے:
’’بسم اﷲ  اﷲ اکبر اللَّھُمَّ ھذا عنّی وعمن لَمْ یضح من اُمَّتی ‘‘
{ابوداؤ ص ۴۰ جلد دوم حدیث ۲۸۱۰ کتاب الضحایا،باب فی الشاۃ یضحّی بھاعن جماعۃ مکتبہ رحمانیہ لاہور}
نقلِ حدیث میں غلطیاں:
(۱)اس حدیث میں احمد رضا نے لفظ’’ ھذا عنی‘‘ اپنی پرانی عادت کی بنیاد پر بالکل ہی حدیث میں سے غائب کر دیا ۔
(۲) اور ترجمہ بھی اپنے نقل کردہ الفاظ کا کیا ہے۔ جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ یہ کاتب کی غلطی نہیں ہے ۔
(جاری ہے ...)
٭٭٭

     

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں