پیر، 11 مارچ، 2019

الاحادیث المنتخبہ - 8

پیش کش: مدیر 


میں عالم الغیب نہیں

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ ذَکْوَانَ قَالَ قَالَتْ الرُّبَيِّعُ بِنْتُ مُعَوِّذِ بْنِ عَفْرَائَ جَائَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَخَلَ حِينَ بُنِيَ عَلَيَّ فَجَلَسَ عَلَی فِرَاشِي کَمَجْلِسِکَ مِنِّي فَجَعَلَتْ جُوَيْرِيَاتٌ لَنَا يَضْرِبْنَ بِالدُّفِّ وَيَنْدُبْنَ مَنْ قُتِلَ مِنْ آبَائِي يَوْمَ بَدْرٍ إِذْ قَالَتْ إِحْدَاهُنَّ وَفِينَا نَبِيٌّ يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ فَقَالَ دَعِي هَذِهِ وَقُولِي بِالَّذِي کُنْتِ تَقُولِينَ
(صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 135 حدیث مرفوع)

مسدد، بشربن مفضل، خالد بن ذکوان، ربیع بنت معوذ بن عفراء کہتی ہیں کہ جب میری رخصتی ہوگئی تو رسول اللہ ﷺ میرے بستر پر آکر اس طرح بیٹھ گئے جیسے تو میرے پاس بیٹھا ہے اور چھوٹی چھوٹی لڑکیاں دف بجا بجا کر شہدائے بدر کا مرثیہ گانے لگیں، ایک ان میں پڑھنے لگی ہم میں ایک نبی ﷺ ہیں جو کل کا حال جانتے ہیں کہ کل کو کیا ہوگا آپ ﷺ نے فرمایا اس شعر کو چھوڑ دو اور جو پہلے کہہ رہی تھیں وہی کہے جاؤ۔ 

انتہائے تصوف

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ أَخْبَرَنَا أَبُو حَيَّانَ التَّيْمِيُّ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ کَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَارِزًا يَوْمًا لِلنَّاسِ فَأَتَاهُ رَجُلٌ فَقَالَ مَا الْإِيمَانُ قَالَ الْإِيمَانُ أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِکَتِهِ وکُتُبٍهِ وَبِلِقَائِهِ وَرُسُلِهِ وَتُؤْمِنَ بِالْبَعْثِ قَالَ مَا الْإِسْلَامُ قَالَ الْإِسْلَامُ أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ وَلَا تُشْرِکَ بِهِ شَيْئًا وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ وَتُؤَدِّيَ الزَّکَاةَ الْمَفْرُوضَةَ وَتَصُومَ رَمَضَانَ قَالَ مَا الْإِحْسَانُ قَالَ أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ کَأَنَّکَ تَرَاهُ فَإِنْ لَمْ تَکُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاکَ قَالَ مَتَی السَّاعَةُ قَالَ مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنْ السَّائِلِ وَسَأُخْبِرُکَ عَنْ أَشْرَاطِهَا إِذَا وَلَدَتْ الْأَمَةُ رَبَّهَا وَإِذَا تَطَاوَلَ رُعَاةُ الْإِبِلِ الْبُهْمُ فِي الْبُنْيَانِ فِي خَمْسٍ لَا يَعْلَمُهُنَّ إِلَّا اللَّهُ ثُمَّ تَلَا النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ الْآيَةَ ثُمَّ أَدْبَرَ فَقَالَ رُدُّوهُ فَلَمْ يَرَوْا شَيْئًا فَقَالَ هَذَا جِبْرِيلُ جَائَ يُعَلِّمُ النَّاسَ دِينَهُمْ قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ جَعَلَ ذَلِک کُلَّهُ مِنْ الْإِيمَانِ
(صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 49 حدیث متواتر حدیث مرفوع )

مسدد، اسماعیل بن ابراہیم، ابوحیان التیمی، ابوزرعہ، ابوہریرہ  کہتے ہیں کہ ایک دن نبی ﷺ لوگوں کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے، یکایک آپ ﷺکے سامنے ایک شخص آیا اور اس نے (آپ ﷺ سے) پوچھا کہ ایمان کیا چیز ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور (آخرت میں) اللہ کے ملنے پر اور اللہ کے پیغمبروں پر ایمان لاؤ اور قیامت کا یقین کرو، (پھر) اس شخص نے کہا کہ اسلام کیا چیز ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اسلام یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ شرک نہ کرو اور نماز پڑھو اور زکوٰۃ مفروضہ ادا کیا کرو اور رمضان کے روزے رکھو، اس شخص نے کہا کہ احسان کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت (اس خشوع اور خلوص سے) کرو کہ گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر (یہ حالت) نہ (حاصل ہو) کہ تم اس کو دیکھتے ہو تو خیال رہے کہ وہ تمہیں دیکھتا ہے (پھر) اس شخص نے کہا کہ قیامت کب ہوگی؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس سے یہ بات پوچھی جارہی ہے (وہ خود) سائل سے زیادہ (اس کو) نہیں جانتا (بلکہ ناواقفی میں دونوں برابر ہیں) اور میں تم کو اس کی علامتیں بتائے دیتا ہوں، جب لونڈی اپنے سردار کو جنے اور جب سیاہ اونٹوں کو چرانے والے عمارتوں میں رہنے لگیں (تو سمجھ لینا کہ قیامت قریب ہے اور قیامت کا علم تو) ان پانچ چیزوں میں ہے کہ جن کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، پھر نبی ﷺ نے (اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَه عِلْمُ السَّاعَةِ) 31۔ لقمان : 34) پوری آیت تلاوت فرمائی، اس کے بعد وہ شخص چلا تو آپﷺ نے (صحابہ سے) فرمایا کہ اس کو میرے پاس واپس لاؤ ( چنانچہ ) لوگ اس کو واپس لانے کو گئے، مگر وہاں کسی کو نہ دیکھا تو آپ ﷺ نے فرمایا : یہ جبرائیل تھے، لوگوں کو ان کے دین کی تعلیم سکھانے آئے تھے، ابوعبداللہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے ان سب باتوں کو ایمان کا جزو قرار دیا ہے۔
٭٭٭

     

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں