محمد ایوب ذوقی
| وہ نمازِ عشق ہی کیا جو سلام تک نہ پہنچے |
| کہ قعود سے جو گزرے، تو قیام تک نہ پہنچے |
| وہ حیات کیا کہ جس میں نہ خوشی کے ساتھ غم ہو |
| وہ سحر بھی کیا سحر ہے کہ جو شام تک نہ پہنچے |
| ترے مے کدے کا ساقی یہ چلن بھی کیا چلن ہے |
| کہ جو ہاتھ تشنہ کاموں کے بھی جام تک نہ پہنچے |
| مری نا مرادیوں کی یہی انتہا ہے شاید |
| تری بارگاہِ عالی میں سلام تک نہ پہنچے |
| اسے اپنی بد نصیبی نہ کہیں تو پھر کہیں کیا؟ |
| کہ ہزار کوششوں پر رہِ عام تک نہ پہنچے |
| یہ مخاصمت کے جذبے، یہ محاذ حاسدوں کے |
| مگر عمر بھر وہ ذوقی ؔ کے مقام تک نہ پہنچے |
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں