پیر، 11 مارچ، 2019

تقسیم

مہمان اداریہ

مزمل اختر ﷾

بقول مولانا طارق جمیل صاحب کے " دیکھو یہ نفسیاتی بات ہوتی ہے شادی کے بعد محبت تقسیم ہوتی ہے ۔ اور یہ لاشعوری  طور پر ہوتا ہے ۔ ایک ساتھی کہنے لگا کہ مولانا ! جب تک میری شادی نہیں ہوئی تھی میں کہاں ہوں، کس کے ساتھ ہوں، کیا کر رہا ہوں، کب گھر آتا اور جاتا ہوں کسی کو فکر نہیں تھی..... جب شادی ہوئی تو بہن کہنے لگی مجھ سے تو بات ہی نہیں کرتے، ماں کہنے لگی میرے پاس تو    بیٹھتے ہی نہیں، یہاں تک کہ ان لوگوں نے بول بول کر میرا طلاق کروا دیا ۔
ذیل کی تحریر میں عاجز نے  کچھ خیالی کرداروں کے ذریعے محبت کی اسی "تقسیم" پر روشنی ڈالی ہے۔
عاجز مزمل اختر غفرلہٗ
صبیحہ سے شادی کے بعد دوسرا ہفتہ تھا۔ میں آفس سے لوٹا،  ظاہر بات ہے نئی نئی شادی ہوئی تھی سیدھے اپنے کمرے میں گیا۔ صبح کو امی    نے کچھ کہا تو نہیں مگر مزاج کچھ اکھڑا اکھڑا سا محسوس ہورہا تھا ـ مجھے  کچھ سمجھ میں  نہ آیا بیوی سے پوچھا
" امی کو کیا ہوا ہے ؟"
وہ کہنے لگی ابھی ابھی شادی  کی مصروفیات ختم ہوئی ہیں ہوسکتا ہے۔  طبیعت ٹھیک نہ ہو، میں نے کہا بھی کہ امی جی طبیعت ٹھیک نہ ہوتو ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں لیکن انہوں نے کہا... "نہیں میں ٹھیک ہوں" 
میں بدستور الجھا رہا۔
میں روزانہ شام میں گھر آتا اور بیڈ روم میں چلا جاتا اور صبیحہ سے روزانہ امی کی باتیں سنتا۔
   مجھے بڑی حیرت ہوتی ،امی تو  ایسی نہیں تھیں۔  وہ تو کہتی تھیں تیری بیوی کو بیٹی کی طرح رکھو ں گی اور صبیحہ کیا کہہ رہی تھی۔
ویسے مجھے بھی ناشتہ اور  ڈنر کے وقت  امی بدلی بدلی لگنے لگی تھیں ۔ 
کچھ دنوں بعد میں نے امی سے بات کی تو یک بیک ان کا پارہ چڑھ گیا، کہنے لگیں۔
" اب بیوی مل گئی ہے تو امی تو نوکرانی نظر آرہی ہے ۔ "
"امی آپ یہ کیا کہہ رہی ہو!"میں نے تعجب سے کہا ۔ 
"جب سے شادی ہوئی ہے میرے پاس نہیں آتے، صحیح طرح سے بات نہیں کرتے "امی نے غصہ سے کہا ۔ 
خیر میں دوسرے دن سے پہلے امی کے پاس جانے لگا پھر اپنے کمرے میں جاتا تھا ۔ اب نئی مصیبت یہ ہوئی کہ صبیحہ ناراض ہونا شروع ہوگئی ۔ 
" تمہیں تو بس تمہاری امی نظر آتی ہے، بیوی کا تو حق پڑھا ہی نہیں تم نے، ایک تو دن بھر میں کام کرتے رہتی ہو ں اور تم نے آفس کال کرنے سے بھی منع کردیا ہے اور رات میں تم میری جگہ پہلے امی کے پاس جاتے ہو ! "
صبیحہ کی آنکھوں میں نمی  تھی ۔
_*_*_
دوسرے دن آفس سے گھر آکر میں   چوکھٹ پر آ  کھڑا ہوا دائیں طرف امی کا کمرہ تھا اور بائیں جانب میرا ۔ 
اچانک مجھے چکر سا آنے لگا ۔ میرا دل بوجھل ہونے لگا۔ میں نے قدم واپس کھینچ لیے اور باہر جا کر ایک پارک میں بینچ پر بیٹھ گیا۔ مجھے ایک رہبر کی سخت ضرورت محسوس ہو رہی تھی جو مجھے اس مسئلے سے نجات دلا سکتا، لیکن ہائے رے میری تنہائی پسندی کہ میرا کوئی ایسا خاص دوست بھی نہیں تھا جس سے اس نازک معاملے پر رائے مانگ سکتا۔ یکایک  مجھے عبد اللہ بھائی یاد آئے۔ عبداللہ بھائی ہماری مسجد کے ذمہ دار ہیں، عمر میں مجھ سے دگنے  ہوں گے لیکن ان کا مزاج بڑا دوستانہ ہے۔ ان کی انتظامی صلاحیتوں کا میں عرصے سے قائل ہوں۔ چنانچہ میں وہاں سے سیدھا ان کے گھر پہنچا۔ کچھ رسمی گفتگو کے بعد میں نے جلدی جلدی   اپنے حالات بیان کیے۔ میری بےتابی سے وہ بھی معاملے کی سنگینی کو بھانپ گئے۔ کچھ دیر سوچ کر  انہوں نے کہا ، 
"تمہیں کچھ کام کرنے ہوں گے۔ اپنی امی اور بیوی کو مکتب کے لیے راضی کرو۔ اسی طرح جمعرات کے روز مستورات میں تعلیم اور مہینے دو مہینے میں بیان ہوتا ہے  اس میں بھی بھیجا کرو ۔ اللہ سے امید ہے کہ حالات قابو میں آجائیں گے۔"
"ان شاء اللہ"
  میں نے ان سے وعدہ کیا اور گھر چلا آیا ۔
رات میں  تو میں نے ان دونوں سے  کچھ نہیں کہا ، البتہ صبح آفس جاتے ہوئے  دونوں سے کہا "بھائی عبداللہ کے یہاں آپ دونوں کو مکتب جانا ہے، کافی خواتین آتی ہیں۔ آپ لوگوں کا بھی من بہل جایا کرے گا۔ یاد سے جائیے گا۔"
میرا لہجہ سرسری سا تھا لیکن  اللہ کی شان کہ  دونوں بڑی آسانی سے  راضی ہوگئیں ۔ 
کچھ ہی عرصہ  گزرا تھاکہ   ان کی زندگی میں واضح تبدیلیاں نظر آنے لگیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ جمعرات کے دن نصرت بھائی کی مستورات میں بات ہوئی ۔ ان دونوں کی زندگی ہی بدل گئی ۔ نماز تو دونوں پہلے سے ہی پڑھتی تھیں معاشرے والا دین اس مکتب اور ہفتہ واری تعلیم کے  ذریعہ انکے اندر آیا ۔ 
_*_*_
وہ جمعہ کا دن تھا میں آفس سے گھر لوٹا ۔ امی کے پاس گیا ۔ امی بولیں" تو یہاں کیا کر رہا ہے تیری نئی نئی شادی ہوئی ہے بیوی کے پاس جایا کر بیچاری دن بھر کام کرتی  رہتی ہے اور تو فون پر بات بھی نہیں کرتا اس سے "
یہ کہہ کر امی نے مجھے اپنے کمرے سے نکال دیا ۔
میں اپنے کمرے میں چلا گیا بیوی نے کہا
" آپ یہاں...!!!امی جی کے پاس جائیں ہمارے پاس تو ساری زندگی پڑی ہے ۔آپ پہلے ان کے پاس  ہی جایا کریں ۔"
یہ کہہ کر مجھے صبیحہ نے کمرے سے نکال دیا ۔  میں مسکراتا ہوا وہی کھڑا رہ گیا ۔ 
٭٭٭

     

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں