پیر، 11 مارچ، 2019

داعی محمد عمر سے ایک ملاقات

احمد اوّاہ: السلام علیکم و رحمۃ اللہ

داعی محمد عمر: وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ

س:محمد عمر صاحب سب سے پہلے آپ اپنا تعارف کرائیے آپ کہاں سے تعلق رکھتے ہیں ؟

ج:میری پیدائش ۶ ؍دسمبر۱۹۹۲ء کو احمد آباد کے ایک برہمن پنڈت خاندان میں ہوئی، میرے ڈیڈ(والد)ایک مندر کے ٹرسٹی ہیں، مجھ سے بڑے دو بھائی  اور دو بہنیں ہیں، ماں، والد اور چچا سب ایک ساتھ رہتے ہیں، میں گھر میں سب سے چھوٹا اور سب کا لاڈلا تھا، میری پیدائش احمد آباد میں ہوئی ہے، میرے والد مجھ سے بہت پیار کرتے تھے، اور بچپن سے ہی میں پڑھائی میں بہت اچھا تھا، دسویں تک میں نے ایکلویہ  (Eklavya)اسکول میں پڑھا۔ گیارہویں میں میں نے سائنس لیا اور اپنی تعلیم مکمل کی۔

 میں بہت دھارمک(مذہبی )گھرانہ میں پلا بڑھا، میری ہر ضد میرے  گھر والے پوری کرتے تھے، بارہویں کلاس میں سائنس سائڈ میں میرے پرسنٹیج بہت اچھے 82% آئے تھے  تو گھر والے بہت خوش ہوئے، میرے والد  اکشردھام مندر کے ٹرسٹی ہیں اور بڑے بھائی ہائی کورٹ میں وکیل ہیں، میرا فرینڈ سرکل (حلقۂ احباب )بہت چھوٹا تھا، اور وہ سب پڑھائی میں اچھے تھے، آگے کی تعلیم کے لئے وہ سب کے سب باہر پڑھنے کے لئے جانے والے تھے، میرے لئے میرے بڑے بھائی ہمیشہ کہتے تھے کہ تجھے میں پڑھنے کے لئے باہر آسٹریلیا بھیجوں گا، جب کہ میں گجرات سے باہر نکلنا چاہتا تھا، اور پڑھائی کے لئے دہلی جانا چاہتا تھا، والد صاحب نے مجھ سے پوچھا: اب آگے کس ڈگری میں جانا ہے ؟میں نے کہا مجھےB.S.C کرنی ہے دہلی سے۔ تو گھر والوں نے اور والد صاحب نے دہلی کے لئے منع کر دیا کہ تجھے گجرات کے باہر نہیں جانا ہے اور دہلی تو بالکل نہیں، لیکن مجھے تو باہر جانا تھامیں ضد پر اڑ گیا، گھر والے بھی ضد پر اڑ گئے کہ گجرات کے باہر نہیں جانے دیں گے۔ میں نے سب سے بات چیت بند کر دی، اور ایڈمیشن فارم بھی نہیں بھرا، میری پوری فیملی تعلیم یافتہ ہے، جب لاسٹ ڈیٹ چلی گئی تو ان سب کو فکر ہوئی کہ میرا مستقبل خراب ہو جائے گا، میرے والد اور بڑے بھائی نے اگلے دن مجھے ایڈمیشن کے لئے کہہ دیا کہ دہلی میں ہی کروا لو، میں بہت خوش ہوا کہ میں جو چاہتا تھا وہ ہو گیا، میں نے دہلی میں ایڈمیشن لے لیا اور رہنے کے لیے میرے ایک انکل تھے، ان کے گھر رہنے لگا، وہاں سے نوئیڈا MIT Universityجاتا تھا، میرے انکل کے دو لڑکے تھے، کچھ مہینوں کے بعد ان کی شادی ہو گئی، تومیں بہت کنجسٹڈ لگنے لگا، تومیں نے والد صاحب سے بات کی کہ اب مجھے ہوسٹل لینا پڑے گا، یہاں گھر میں رہ کر پڑھائی نہیں ہو پا رہی ہے، کچھ دنوں کے بعد میں نے ہوسٹل لے لیا اور وہاں شفٹ ہو گیا، ہوسٹل میں میرے کمرہ کے ساتھی ڈرنک  اور نشہ کرتے تھے، اور میں پہلے سے نشہ اور شراب سے دور رہتا تھا، کچھ دنوں تک ایسا ہی چلا، پھر میں نے اپنا کمرہ بدل لیا، اور جس نئے روم میں گیا، وہاں دو مسلمان طلباء بڑی بڑی ڈاڑھی والے تھے، مجھے بہت غصہ آیا کہ اب مسلمانوں کے ساتھ رہنا پڑے گا، اور مجھ سے ان کے لئے گالی بھی نکلی، اللہ معاف کرے۔

س:آپ نے اس ماحول میں اسلام کیسے قبول کیا؟

ج:نیا ہوسٹل کالج سے نزدیک تھا، میں شام کو ٹیوشن چلا جاتا تھا اور رات  کو نو بجے آتا تھا، جب میں واپس آتا تھا تو دیکھتا تھا کہ تقریباً دس مسلمان میرے کمرہ سے روزانہ نکلتے تھے، مجھے تھوڑا شک ہوا کہ یہ لوگ روزانہ یہاں کرتے کیا ہیں ؟کہیں یہ لوگ ٹیررسٹ  تو نہیں، میں نے اپنا ٹیوشن ٹائم چینج کروایا اور شام کوپانچ بجے کمرہ میں آ گیا، جب شام کو آٹھ بج گئے تو یہ سب مسلمان میرے کمرہ میں آئے اور جو ہمارے روم کے لڑکے تھے وہ بھی نیچے بیٹھ گئے اور ایک گھنٹہ تک کوئی کتاب پڑھتے رہے، مجھے اس وقت اردو نہیں آتی تھی، تو جس لفظ پر مجھے کچھ شک ہوتا، میں اس کو فوراً گوگل ڈکشنری میں دیکھتا، دھیرے دھیرے ان لوگوں سے جان پہچان ہو گئی، ان میں سے ایک کا نام وسیم تھا اور دوسرے کا ذکی۔ وسیم بنگلور کا رہنے والا تھا اور ذکی کرناٹک کا۔ لیکن میں ان سے دور دور رہتا تھا اور ان کو طعنے مارتا تھا کہ تم سب مسلمان لوگ آ تنک وادی ہو اور بے گناہوں کو مارتے ہو، وہ مجھے سمجھاتے، ایسا نہیں ہے، مسلمان اصل میں ایک مکھی بھی نہیں مار سکتا، اسلام اور ایمان تو عمل اور سکون کا نام ہے۔

 جب وہ روزانہ کتاب پڑھتے تومیں نئے نئے الفاظ کو گوگل پر سرچ کرتا اور اس کا مطلب پتہ کرتا، میں روزانہ ان سے بحث کرتا اور وہ دلائل کے ساتھ مجھے سمجھاتے، تو آہستہ آہستہ دوستی ہونے لگی، اس کے بعد یہ ہوا کہ میں چھٹیوں میں گھر جاتا تو مجھے پتھروں کے سامنے جھکنا اچھا نہیں لگتا تھا، ایک عجیب سی گھٹن ہوتی تھی، اور ان کے ساتھ رہتے ہوئے میں سنتوں پر کب عمل کرنے لگا مجھے خود پتہ نہیں لگا، ہلکا سا چہرہ رکھا، اور ٹخنوں سے اوپر جینس پہنتا تھا، چوتھے سمسٹر میں میں نے ایک کتاب پڑھی، جس کا نام تھاReturning your trust… (”آپ کی امانت“ کا انگریزی ترجمہ )اسے پڑھ کر ایک عجیب سا تصور میرے اندر پیدا ہو گیا تھا، مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ میں جو چاہتا تھا وہ مل گیا ہے، مولانا طارق جمیل صاحب کے بیان، حضرت کی کتاب جیسے نسیم ہدایت کے جھونکے وغیرہ پڑھ کر بہت اچھا لگا، اب میں سوچنے لگا کہ کیاں کروں، میں کیسے کلمہ پڑھوں اگر مسلمان ہو گیا تو گھر والے ناراض ہو جائیں گے، اگر کلمہ نہیں پڑھا تو اللہ ناراض ہو جائے گا، اس دوران وسیم نے بہت بار مجھ سے کہا کلمہ پڑھ لو، لیکن میں والد صاحب سے ڈرتا تھا، میں ان کو تکلیف بھی دینا نہیں چاہتا تھا، کچھ دنوں کے بعد، وسیم کا سعودی عرب کے لئے ویزہ آ گیا اور وہ وہاں چلا گیا، لیکن وہاں سے وہ مجھ سے بات کرتا رہتا تھا اور سمجھاتا تھا، میں نے ایک دن مولانا طارق جمیل کا بیان سنا، بیان تھا کہ ایک کافر عتبہ تھا جس نے میرے نبی کو جنگ میں پتھر مارا تھا، پھر بھی آپ نے اس کے لئے بد دعا نہیں کی، اس واقعہ کو سن کر مجھے بہت رونا آیا  اور میں کمرے سے اٹھا اور سیدھا نظام الدین مرکز گیا اور وہاں کے خدمت والوں سے کہا کہ مجھے کلمہ پڑھنا ہے، مجھے ایسا لگا جیسے وہ ڈر رہے تھے، ڈرتے، ڈرتے مجھے اوپر لے گئے، اور ایک آدمی کو بلایا جس کی بہت خوب صورت ڈاڑھی تھی، انھوں نے مجھے کلمہ پڑھوایا، میں مولانا سعد صاحب سے بھی ملا، تو انھوں نے مجھ سے ابھی اپنے اسلام کو چھپانے کے لئے کہا، اور یہ کہا کہ جلدی سے اپنے کاغذ بناؤ، اور جماعت میں وقت لگاؤ۔

س:اس بات کا آپ کے گھر والوں کو پتہ نہیں چلا؟

ج:چوتھے سمسٹر کے بعد میں ایک مہینہ کی چھٹی گذارنے کے لئے گھر گیا، جب میں گھر گیا تو مجھے اسلام کو چھپانا تھا اور ڈائرکٹلی  گھر والوں کو اسلام کی دعوت دینی تھی، اس زمانے میں بھی میں رات کو چپکے سے بیان سنتا، اور نیٹ پر نماز سیکھتا، ایک دن ہمارے گھر سے دور ایک مسجد ہے، وہاں سے گذر رہا تھا، عصر کی نماز ہو رہی تھی، مجھے نماز پڑھنی تو آتی نہیں تھی، مگر چلا گیا، جیسے دوسرے کر رہے تھے، ویسا ہی میں نے کیا، اور اللہ سے دعا کی  کہ اے اللہ میرے گھر والوں کوا سلام میں داخل کر دے، دعا کر کے باہر نکلا اور دوستوں سے ملنے ریور فرنٹ جا رہا تھا، اسی درمیان والد صاحب کا فون آ گیا کہ جلدی گھر آ جاؤ، میں گھر پہنچا تو دونوں بھائی تین چاچا اور پورا خاندان بیٹھا تھا، والد صاحب نے پوچھا کہاں سے آ رہے ہو؟ میں نے کہا ریور فرنٹ جا رہا تھا، والد صاحب نے کہا نہیں اس سے پہلے ؟میں سمجھ گیا کہ ان کو پتہ چل گیا ہے، میں چپ ہو گیا، لیکن ڈر بالکل نہیں تھا، والد صاحب بولے کیا تو مسلمان ہو گیا ہے ؟مسلمان تو ایسے ہوتے ہیں، ویسے ہوتے ہیں، میں نے کہا: والد صاحب مسلمان ایسے نہیں ہوتے، اتنا کہنا تھا کہ چاچا اٹھے اور مارنا شروع کر دیا، میں والد صاحب کا لاڈلا تھا، تو انھوں نے مجھے ایک کمرہ میں بند کر دیا، کھانا کھانے کے وقت مجھے باہر نکالتے، اس کے بعد نہیں، بعد میں مجھے والدہ سے پتہ چلا تھا کہ اس دن والد صاحب کو ان کے ایک دوست نے میرے بارے میں بتایا تھا کہ میں مسجد گیا تھا، میرے والد کے وہ دوست مجھے دیکھ گئے تھے مسجد سے باہر نکلتے وقت، میں ۱۵ ؍دن اسی حال میں بند رہا، ایک دن اپنے آپ کو بہت بے بس محسوس کیا اور اللہ سے دعا کی یا اللہ مجھے اس گھٹن سے نکال دے اور بہت رویا، اسی رات کو میری آنکھ کھلی تورات کو تین بجے تھے، دیکھا تو کمرہ کھلا ہوا تھا، میں نے اپنا بیگ تیار کیا اور جب ATM  لیا اور گھر سے بھاگ گیا ۔ ریلوے اسٹیشن پہنچا تو دہلی کے لئے کوئی گاڑی نہیں تھی، ممبئی کی گاڑی میں بیٹھ گیا، اور سیدھا چونا بھٹی مرکز پہنچا، وہاں پر ایک ساتھی سے کہا کہ مجھے جماعت میں جانا ہے، انھوں نے مجھے رکنے کو کہا کہ یہیں رکو، پہلے کاغذ بنو الو، ابھی تین دن ہیں، لیکن وہاں کاغذ نہیں بن پائے، اس کے بعد ریزرویشن کروایا اور دہلی سیدھا نظام الدین مرکز گیا، وہاں پرازہر بھائی سے ملا تو انھوں نے بھی کہا کہ پہلے اپنے کاغذ بنوا لو، میں بہت پھرا، تو بھی کنورژن  سرٹیفیکیٹ نہیں ہوا، اسے بنانے کے لئے ایک مہینہ گھوما، بھوکا بھی رہا لیکن ہمیشہ اللہ سے دعا کرتا رہا، اور اللہ پرمیرا ایمان پکا بنا رہا، پھر سورت میں میرے کاغذات بنے، کاغذ بنانے کے بعد میں نظام الدین گیا، اور میرا پہلا چلہ گجرات میں میوات کی ایک جماعت کے ساتھ لگا، جماعت میں ۲۹ ؍دن کے بعد ایک مسجد میں لوگوں کو پتہ چل گیا کہ یہ نومسلم ہیں، تو انھوں نے کارگذاری سنانے کو کہا، مغرب کے بعد کارگذاری ہوئی، کچھ لوگوں نے ریکارڈنگ کر لی، اور واٹس  ایپ کے ذریعہ ایک دوسرے کو بھیجنے کی وجہ سے گھر والوں کو پتہ چل گیا، اللہ نے میرے دل میں بات ڈالی اور خواب میں بھی آیا کہ میں وہاں سے نکل جاؤں، اس لئے صبح کو میں ممبئی نکل گیا، اور باقی  کا وقت ممبئی میں لگایا، اور اس کے بعد مجھے گزٹ میں اپنا اندراج کروانا تھا، تومیں سورت آیا، اور گزٹ میں اندراج کروایا، اگلے دن میرے گھر والوں کو پتہ چل گیا تو انھوں نے مجھے پکڑ لیا، اور سیدھا وہاں سے احمد آباد لے کر چلے گئے، انھوں نے مجھے بہت مارا، لیکن الحمدللہ ایمان اتنا پکا تھا کہ میں نہیں پھرا، گھر والوں نے مجھے جیل میں ڈلوا دیا، کہ یہ دہشت گردی میں شامل ہے، اور مجھے پولس والوں نے بہت مارا، مجھ سے چلا بھی نہیں جا رہا تھا، اور سر میں آنکھ کے نیچے بہت زخم ہوا، لیکن اللہ کی اور میرے نبیﷺ کی محبت اس درد سے زیادہ تھی، مجھے سابرمتی جیل بھیج دیا گیا، کچھ دن وہاں رہا، وہاں پر ایک حافظ صاحب تھے جنھوں نے مجھے قاعدہ پڑھنا سکھایا، اور جیل میں مجھے تین مرتبہ اللہ کے نبیﷺ کی زیارت ہوئی، الحمدللہ۔

س:اس کے بعد کیا ہوا؟

ج:اس کے بعد کیس کمزور ہونے کی وجہ سے مجھے چھوڑ دیا گیا، اور میں وہاں سے دہلی آیا، میں نے اپنی باقی پڑھائی پوری کی، اپنا آخری سمسٹر پورا کیا، اور وہاں سے اورنگ آباد آیا، اور اسی سال میں نے ایک اور چلہ لگایا، حضرت سے ملاقات کے لئے میں بہت دنوں سے تڑپ رہا تھا، اور ابھی بھی تڑپ رہا ہوں، اللہ کرے ملاقات ہو جائے، ایک دن میں اورنگ آباد کے مرکز میں تھا، وہ جمعہ کا دن تھا، اور میری ختنہ ہوئی تھی، الحمدللہ اسی دن شام کو میوات کی ایک جماعت آئی تھی، اس کے امیر صاحب گجرات کے تھے، جب مجھے پتہ چلا کہ جماعت گجرات کی ہے تو مجھے  بہت خوشی ہوئی، میں ان سے ملا اور وہ لوگ مجھ سے مل کر بہت  خوش ہوئے، شام کو عصر کے بعد مرکز کے ایک ذمہ دار آئے اور ساری جماعت سے بات کی، میں بھی وہیں تھا، بات ہونے کے بعد وہ جماعت کے امیر اور میں بات کر رہے تھے، اتنے میں مسجد وار جماعت کا ایک ساتھی مجھ سے بولا، تم لوگ صرف پیسے کے لئے مسلمان ہونے کا ناٹک کرتے ہو، اب کسی کو مت بول کہ تونو مسلم ہے، ورنہ مرکز سے دھکے مار کر نکلوا دوں گا،٭ مجھے بہت برا لگا، اور میں روتا ہوا اور ختنہ کے درد کی وجہ سے وہاں سے چلا آیا، وہاں سے جاوید بھائی (حضرت کے ایک داعی )ان کے پاس پہنچا اور وہ مجھے مولانا علیم صاحب کے گھر لے گئے، میں اب وہیں رہ رہا ہوں، اور میں ایک بات کہنا چاہتا ہوں، حضرت کے داعی عارف خاں بھائی نے مجھے اپنا بھائی مانا اور انھوں نے مجھے دس دن بہت پیار سے اپنے گھر پر رکھا، اور میرے ایمان کو بڑھانے میں عارف بھائی کی بہت کوشش ہے، اگر آج بھی مجھے مشورہ کی ضرورت پڑتی ہے تومیں سب سے پہلے اپنے بھائی داعی عارف کو فون کرتا ہوں، وہ میرے دلی خیرخواہ ہیں اللہ ان کو جزائے خیر عطا فرمائیں۔

س:فی الحال آپ کیا کر رہے ہیں ؟

ج:میں نے فی الحال انٹیریر ڈیزائن کی آفس شروع کی ہے، الحمدللہ کام بھی اچھا چل رہا ہے، او ر گھر والوں سے بات چیت بھی ہو رہی ہے، والدہ نے کلمہ پڑھ لیا ہے، ابھی بڑے بھائی پر محنت چل رہی ہے، اللہ کی ذات سے امید ہے کہ جلد ہی وہ لوگ اسلام  میں آ جائیں گے، اس درمیان اور بھی حالات آئے، لیکن اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت اس حالت سے زیادہ ہے، الحمدللہ میرا رشتہ بھی ہو گیا ہے، پیدائشی مسلم فیملی میں یہ رشتہ ہوا ہے، سب کا رشتہ لوگ طے کرتے ہیں، میرا رشتہ اللہ اور اس کے رسول نے کیا ہے، لڑکی کو خواب میں اللہ کے نبی کی زیارت ہوئی تھی، اور مجھے  بھی اللہ کے رسولﷺ نے خواب میں آ کر رشتہ کے لئے کہا، اور لڑکی عالمہ ہے، میں بھی اس رشتہ سے خوش ہوں، انشاءاللہ بقر عید کے بعد حضرت آ کر نکاح پڑھوائیں گے۔

س:مسلمانوں کے لئے کوئی پیغام دیں گے ؟

ج:دعوت دینے کے لئے اللہ نے ہمیں بھیجا ہے، کالج کے ماحول میں جس طرح میرے دوست میرے بھائی وسیم نے مجھے دعوت دی، لاکھوں بچے اسکول کالج میں پڑھتے ہیں جو ہمارے دوست ہوتے ہیں، ساتھ کھاتے پیتے ہیں، ساتھ رہتے ہیں، لیکن ہم انھیں ہمیشہ ہمیش کی آگ سے نہیں بچاتے، میں سب سے یہ گذارش کروں گا کہ آپ اگر دعوت نہیں دیں گے تو وہ لوگ اپنے مذہب کی دعوت دیں گے، اور اللہ اوروں سے کام لے گا، اور بجائے اس کے کہ ہم ان بیچاروں کو آگ سے بچائیں، وہ خود نہ جاننے کی وجہ سے دوسرے خاندانی مسلمان نوجوانوں کو گمراہ کرتے ہیں، اگر ان کو دعوت دے کران کا حق ادا کیا جائے، تو خود جو مسلمان نوجوان اسکولوں اور کالجوں میں پڑھتے ہیں، ان کا ایمان زد پر آنے سے بچ جائے گا۔

س:بہت اچھا پیغام دیا آپ نے، بہت بہت شکریہ ؟

ج:آپ کا شکریہ آپ نے مجھے اس محفل میں شریک کیا۔ ٭
٭٭٭

٭ بشکریہ ماہنامہ ارمغان، اکتوبر    ۲۰۱۵، ص۲۱-۲۴
     

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں