پیر، 11 مارچ، 2019

الاحادیث المنتخبہ - 9

پیش کش: مدیر 

'سربکف' کے پہلے شمارے سے اس سلسلے کے تحت وہ احادیث لائی جارہی ہیں جو عموماً قارئین کو یاد ہوتی ہیں، نیز  وہ احادیث  بھی جو تبلیغی جماعت والے استعمال کرتے ہیں۔ اس کے ذریعے احادیث کی ترویج    درست طریقے پر ہو گی، اور من گھڑت قصے کہانیوں کو بطور حدیث پیش کرنے کی فاش غلطی کا سدباب ہوگا انشاءاللہ۔ احادیث بمع حوالہ درج  کی جاتی ہیں،تاکہ بوقتِ ضرورت کام آسکیں۔(مدیر)

شبِ معراج میں نماز فرض ہونا

حدثنا يحيى بن بكير،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال حدثنا الليث،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن يونس،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن ابن شهاب،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أنس بن مالك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال كان أبو ذر يحدث أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ فرج عن سقف بيتي وأنا بمكة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فنزل جبريل ففرج صدري،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم غسله بماء زمزم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم جاء بطست من ذهب ممتلئ حكمة وإيمانا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فأفرغه في صدري ثم أطبقه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم أخذ بيدي فعرج بي إلى السماء الدنيا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فلما جئت إلى السماء الدنيا قال جبريل لخازن السماء افتح‏.‏ قال من هذا قال هذا جبريل‏.‏ قال هل معك أحد قال نعم معي محمد صلى الله عليه وسلم‏.‏ فقال أرسل إليه قال نعم‏.‏ فلما فتح علونا السماء الدنيا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإذا رجل قاعد على يمينه أسودة وعلى يساره أسودة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ إذا نظر قبل يمينه ضحك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإذا نظر قبل يساره بكى،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فقال مرحبا بالنبي الصالح والابن الصالح‏.‏ قلت لجبريل من هذا قال هذا آدم‏.‏ وهذه الأسودة عن يمينه وشماله نسم بنيه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فأهل اليمين منهم أهل الجنة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ والأسودة التي عن شماله أهل النار،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإذا نظر عن يمينه ضحك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإذا نظر قبل شماله بكى،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حتى عرج بي إلى السماء الثانية فقال لخازنها افتح‏.‏ فقال له خازنها مثل ما قال الأول ففتح ‏"‏‏.‏ قال أنس فذكر أنه وجد في السموات آدم وإدريس وموسى وعيسى وإبراهيم ـ صلوات الله عليهم ـ ولم يثبت كيف منازلهم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ غير أنه ذكر أنه وجد آدم في السماء الدنيا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإبراهيم في السماء السادسة‏.‏ قال أنس فلما مر جبريل بالنبي صلى الله عليه وسلم بإدريس قال مرحبا بالنبي الصالح والأخ الصالح‏.‏ فقلت من هذا قال هذا إدريس‏.‏ ثم مررت بموسى فقال مرحبا بالنبي الصالح والأخ الصالح‏.‏ قلت من هذا قال هذا موسى‏.‏ ثم مررت بعيسى فقال مرحبا بالأخ الصالح والنبي الصالح‏.‏ قلت من هذا قال هذا عيسى‏.‏ ثم مررت بإبراهيم فقال مرحبا بالنبي الصالح والابن الصالح‏.‏ قلت من هذا قال هذا إبراهيم صلى الله عليه وسلم ‏"‏‏.‏ قال ابن شهاب فأخبرني ابن حزم أن ابن عباس وأبا حبة الأنصاري كانا يقولان قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ ثم عرج بي حتى ظهرت لمستوى أسمع فيه صريف الأقلام ‏"‏‏.‏ قال ابن حزم وأنس بن مالك قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ ففرض الله على أمتي خمسين صلاة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فرجعت بذلك حتى مررت على موسى فقال ما فرض الله لك على أمتك قلت فرض خمسين صلاة‏.‏ قال فارجع إلى ربك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإن أمتك لا تطيق ذلك‏.‏ فراجعت فوضع شطرها،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فرجعت إلى موسى قلت وضع شطرها‏.‏ فقال راجع ربك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإن أمتك لا تطيق،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فراجعت فوضع شطرها،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فرجعت إليه فقال ارجع إلى ربك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإن أمتك لا تطيق ذلك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فراجعته‏.‏ فقال هي خمس وهى خمسون،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ لا يبدل القول لدى‏.‏ فرجعت إلى موسى فقال راجع ربك‏.‏ فقلت استحييت من ربي‏.‏ ثم انطلق بي حتى انتهى بي إلى سدرة المنتهى،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وغشيها ألوان لا أدري ما هي،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم أدخلت الجنة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإذا فيها حبايل اللؤلؤ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإذا ترابها المسك‏"‏‏.‏

(صحیح بخاری: حدیث نمبر 349)

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے یونس کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے ابن شہاب سے، انھوں نے انس بن مالک سے، انھوں نے فرمایا کہ ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ یہ حدیث بیان کرتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے گھر کی چھت کھول دی گئی، اس وقت میں مکہ میں تھا۔ پھر جبرائیل علیہ السلام اترے اور انھوں نے میرا سینہ چاک کیا۔ پھر اسے زمزم کے پانی سے دھویا۔ پھر ایک سونے کا طشت لائے جو حکمت اور ایمان سے بھرا ہوا تھا۔ اس کو میرے سینے میں رکھ دیا، پھر سینے کو جوڑ دیا، پھر میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے آسمان کی طرف لے کر چلے۔ جب میں پہلے آسمان پر پہنچا تو جبرائیل علیہ السلام نے آسمان کے داروغہ سے کہا کھولو۔ اس نے پوچھا، آپ کون ہیں؟ جواب دیا کہ جبرائیل، پھر انھوں نے پوچھا کیا آپ کے ساتھ کوئی اور بھی ہے؟ جواب دیا، ہاں میرے ساتھ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں۔ انھوں نے پوچھا کہ کیا ان کے بلانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا؟ کہا، جی ہاں! پھر جب انھوں نے دروازہ کھولا تو ہم پہلے آسمان پر چڑھ گئے، وہاں ہم نے ایک شخص کو بیٹھے ہوئے دیکھا۔ ان کے داہنی طرف کچھ لوگوں کے جھنڈ تھے اور کچھ جھنڈ بائیں طرف تھے۔ جب وہ اپنی داہنی طرف دیکھتے تو مسکرا دیتے اور جب بائیں طرف نظر کرتے تو روتے۔ انھوں نے مجھے دیکھ کر فرمایا، آؤ اچھے آئے ہو۔ صالح نبی اور صالح بیٹے! میں نے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا یہ کون ہیں؟ انھوں نے کہا کہ یہ آدم علیہ السلام ہیں اور ان کے دائیں بائیں جو جھنڈ ہیں یہ ان کے بیٹوں کی روحیں ہیں۔ جو جھنڈ دائیں طرف ہیں وہ جنتی ہیں اور بائیں طرف کے جھنڈ دوزخی روحیں ہیں۔ اس لیے جب وہ اپنے دائیں طرف دیکھتے ہیں تو خوشی سے مسکراتے ہیں اور جب بائیں طرف دیکھتے ہیں تو (رنج سے) روتے ہیں۔ پھر جبرائیل مجھے لے کر دوسرے آسمان تک پہنچے اور اس کے داروغہ سے کہا کہ کھولو۔ اس آسمان کے داروغہ نے بھی پہلے کی طرح پوچھا پھر کھول دیا۔ حضرت انس نے کہا کہ ابوذر نے ذکر کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان پر آدم، ادریس، موسیٰ، عیسیٰ اور ابراہیم علیہم السلام کو موجود پایا۔ اور ابوذر رضی اللہ عنہ نے ہر ایک کا ٹھکانہ نہیں بیان کیا۔ البتہ اتنا بیان کیا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت آدم کو پہلے آسمان پر پایا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو چھٹے آسمان پر۔ انس نے بیان کیا کہ جب جبرائیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ادریس علیہ السلام پر گزرے۔ تو انھوں نے فرمایا کہ آؤ اچھے آئے ہو صالح نبی اور صالح بھائی۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ جواب دیا کہ یہ ادریس علیہ السلام ہیں۔ پھر موسیٰ علیہ السلام تک پہنچا تو انھوں نے فرمایا آؤ اچھے آئے ہو صالح نبی اور صالح بھائی۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ جبرائیل علیہ السلام نے بتایا کہ موسیٰ علیہ السلام ہیں۔ پھر میں عیسیٰ علیہ السلام تک پہنچا، انھوں نے کہا آؤ اچھے آئے ہو صالح نبی اور صالح بھائی۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ جبرائیل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔ پھر میں ابراہیم علیہ السلام تک پہنچا۔ انھوں نے فرمایا آؤ اچھے آئے ہو صالح نبی اور صالح بیٹے۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ جبرائیل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ ابن شہاب نے کہا کہ مجھے ابوبکر بن حزم نے خبر دی کہ عبداللہ بن عباس اور ابوحبۃ الانصاری رضی اللہ عنہم کہا کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، پھر مجھے جبرائیل علیہ السلام لے کر چڑھے، اب میں اس بلند مقام تک پہنچ گیا جہاں میں نے قلم کی آواز سنی (جو لکھنے والے فرشتوں کی قلموں کی آواز تھی) ابن حزم نے (اپنے شیخ سے) اور انس بن مالک نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ پس اللہ تعالیٰ نے میری امت پر پچاس وقت کی نمازیں فرض کیں۔ میں یہ حکم لے کر واپس لوٹا۔ جب موسیٰ علیہ السلام تک پہنچا تو انھوں نے پوچھا کہ آپ کی امت پر اللہ نے کیا فرض کیا ہے؟ میں نے کہا کہ پچاس وقت کی نمازیں فرض کی ہیں۔ انھوں نے فرمایا آپ واپس اپنے رب کی بارگاہ میں جائیے۔ کیونکہ آپ کی امت اتنی نمازوں کو ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتی ہے۔ میں واپس بارگاہ رب العزت میں گیا تو اللہ نے اس میں سے ایک حصہ کم کر دیا، پھر موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا اور کہا کہ ایک حصہ کم کر دیا گیا ہے، انھوں نے کہا کہ دوبارہ جائیے کیونکہ آپ کی امت میں اس کے برداشت کی بھی طاقت نہیں ہے۔ پھر میں بارگاہ رب العزت میں حاضر ہوا۔ پھر ایک حصہ کم ہوا۔ جب موسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچا تو انھوں نے فرمایا کہ اپنے رب کی بارگاہ میں پھر جائیے، کیونکہ آپ کی امت اس کو بھی برداشت نہ کر سکے گی، پھر میں باربار آیا گیا پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ نمازیں (عمل میں) پانچ ہیں اور (ثواب میں) پچاس (کے برابر) ہیں۔ میری بات بدلی نہیں جاتی۔ اب میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو انھوں نے پھر کہا کہ اپنے رب کے پاس جائیے۔ لیکن میں نے کہا مجھے اب اپنے رب سے شرم آتی ہے۔ پھر جبرائیل مجھے سدرۃالمنتہیٰ تک لے گئے جسے کئی طرح کے رنگوں نے ڈھانک رکھا تھا۔ جن کے متعلق مجھے معلوم نہیں ہوا کہ وہ کیا ہیں۔ اس کے بعد مجھے جنت میں لے جایا گیا، میں نے دیکھا کہ اس میں موتیوں کے ہار ہیں اور اس کی مٹی مشک کی ہے۔
٭٭٭

     

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں