پیر، 11 مارچ، 2019

کیا فرقہ اہلحدیث نے ائمہ اربعہؒ کو چھوڑ کر اللہ و رسول کی طرف رجوع کیا ہے؟(قسط1)

عباس خان﷾

 فرقہ اہلحدیث ائمہ اربعہؒ کے اجتہادی اختلافات کو قرآن و  حدیث کی طرف لوٹا کر ختم کرنے کے دعوے میں بری طرح نا کام

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتے ہیں:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً 
اے ایمان والو! حکم مانو اللہ کا، اور حکم مانو رسول اللہ ﷺ کا، اور اولی الامر (مجتہد حاکم )کا جو تم میں سے ہوں، پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اس کو رجوع کرو طرف اللہ کے اور رسول ﷺ کے اگر یقین رکھتے ہو اللہ پر اور قیامت کے دن پر یہ بات اچھی ہے اور بہت بہتر ہے اس کا انجام۔(سورہ ۳، النساء : ۵۹)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ کی اطاعت کرنا بھی اللہ کا حکم ہے، رسول اللہﷺ کی اطاعت کرنا بھی اللہ کا حکم ہے اور اولی الامر کی اطاعت کرنا بھی اللہ کا حکم ہے، اور   اگر دو بندوں میں اختلاف  ہو  جائے ایک کہے کہ یہ مسئلہ یوں ہے  دوسرا کہے کہ یوں نہیں یوں ہے تو پھر حاکم ا للہ اور اس کے رسول  کی طرف رجوع کر کے اس کا فیصلہ کرے۔ اور جو وہ فیصلہ کرے تو مومنین کو چاہے کہ وہ اسے تسلیم کریں۔
حضرت جابر بن عبداللہ اس آیت  (أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ) کی تفسیر میں فرماتے ہیں  کہ اولی الامر سے مراد  أُولِي الْفِقْهِ وَالْخَيْر فقہ والے ہیں یعنی کہ فقہاء کرام ۔ هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ (مستدرک علي الصحیحین جلد۱ص۲۱۱:صحیح)
اور صحابی کی تفسیر موفوع کہلاتی ہے  جو کہ ہر حال میں حجت ہوتی ہے۔
جلال الدین سیوطیؒ نے الاتقان میں بیان کیا ہے :
”حدیث کے بعد تفسیر میں قولِ صحابی کا درجہ ہے کیونکہ صحابی کی تفسیر ان کے نزدیک بمنزلہ مرفوع کے ہے جیسا کہ امام حاکمؒ نے مستدرک میں کہا ہے ۔ اور ابوالخطاب حنبلی کہتے ہیں کہ ممکن ہے کہ تفسیر صحابی کی طرف رجوع نہ کیا جائے جب ہم یہ کہیں کہ قول صحابی حجت نہیں مگر صحیح بات اس کا حجت ہونا ہے کیونکہ تفسیر صحابی روایت کی قسم سے ہے نہ کہ رائے کی قسم سے ۔ میں (صاحب اتقان) وہی کہتا ہوں جو امام حاکم ؒنے کہا ہے کہ تفسیر صحابی مرفوع ہے“ ۔
(الإتقان ج2 ص 505 ،506)
کیا  لڑائی جھگڑے ، تنازعے ،یا  کسی مسئلہ کی تحقیق کی صورت میں  اولی الامر کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے؟ 
وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِنَ الأَمْنِ أَوْ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُوْلِي الأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ 
اور جب ان کے پاس پہنچتی ہے کوئی خبر امن کی یا ڈر کی تو اسکو مشہور کر دیتے ہیں  اور اگر اسکو پہنچا دیتے رسول تک اور اپنے حکموں تک تو تحقیق کرتے اس کو جو ان میں تحقیق کرنے والے ہیں۔
ویسے اولی الی الامر کا  لفظی ترجمہ حاکم ہوتا ہے،  اللہ تعالیٰ  مجتہد  (اہل استنباط) کو حاکم قرار دے رہے ہیں۔ ائمہ مجتہدین ہمارے حاکم ہیں، جنہوں نے اجتہادات  (استنباط )کیے ہیں  اور اہل علم فقہاء کرامؒ نے انہی کو اپنا امام تسلیم کر کے انکے اجتہادات کو اپنایا ہے اور مدون و مرتب کیا ہے اور  اسی کو آگے چلایا ہے جو کہ سمٹ کر چار میں رہ گئے ہیں۔ ہمارے مجتہد حاکم امام اعظم ابو حنیفہؒ ہیں  جن کا مذہب ہم تک متواتر پہنچا ہے، اور جن جن علاقوں میں دوسرے اہلِ سنت  ائمہ کے مذاہب پہنچے تو  وہاں کے اہلسنت انہی کے پابند ہیں  بفضلہ تعالیٰ۔
اب غیر مقلدین حضرات یہ کہتے ہیں کہ  اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ جب غیر اولی الامر کا اولی الامر کے ساتھ اختلاف ہو تو  غیر اولی الامر  ،   اولی  الامر کو چھوڑ  دے حالانکہ یہ بات صحیح نہیں ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ   غیر اولی الامر غیر مجتہد کو اس بات کی اجازت دیں  کہ وہ اولی الامر سے اختلاف رکھے۔ 
آپﷺ نے بھی اولی الامر(  جو کہ اجتہاد کا اہل ہے) کے ساتھ جھگڑا کرنے سے منع فرمایا ہے ۔
 وَأَنْ لَا نُنَازِعَ الْأَمْرَ(مسلم ج3 حدیث :274)
اور  جھگڑا پیدا ہو بھی کیوں کر جبکہ نبیﷺ کی واضح حدیث موجود ہے کہ اگر :”جب حاکم کسی بات کا فیصلہ کرے اور اس میں اجتہاد سے کام لے اور صحیح ہو تو اس کے لئے دو اجر ہیں اور اگر حکم دے اور اس میں اجتہاد سے کام لے اور غلط ہو تو اس کو ایک اجر ملے گا“۔(صحیح بخاری ج۳ح؛ ۲۲۵۲)
ہاں پہلے حاکم مجتہد سے اختلاف رکھنے والا اگر اس جیسا مجتہد ہو تو اس کو تو اس  سے اجتہادی اختلاف رکھنے  سے کسی نے نہیں روکا اور اس صورت میں پہلے مجتہد کی بھی پیروی کی جا سکتی ہے جبکہ دوسرے مجتہد نے صرف اس جیسا اجتہاد  سے ہی کام لیا ہے اور پہلے والے کو باطل نہیں قرار دیا۔ 
فرقہ جدید نام نہاد اہل حدیث حضرات مذہب اربعہ میں موجود اجتہادی اختلافات کو چھوڑ کر اللہ اور رسول اللہﷺ کی طرف لوٹانے کا دعوی کرتے ہیں اور ان کا  یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس طرح چاروں مذہب کے اختلافات ختم ہو جائیں گے اور ایک ہی مذہب رہ جائے گا۔   جبکہ یہ بات غلط ہے پہلے اگر چار مذہب تھے تو ائمہ اربعہ کے مذاہب کو چھوڑنے کے بعد چار سے بھی زیادہ  مذہب بن جائیں گے اور  مزید اختلافات  آ جائیں گے جن میں اصولی بھی ہوں گے۔
اب ذرہ  ہم چند مثالیں غیر مقلدین کے گھر سے دیں گے کہ انہیں نے کیا لوٹایا ہے اللہ  اور رسول کی طرف...
۱۔منی پاک یا نا پاک 
  مولوی ابو الحسن صاحب غیر مقلد لکھتے ہیں:
”منی پاک ہے۔۔۔۔۔ اور کھانے کے متعلق دو قول ہیں“۔ (فقہ محمدیہ صفحہ 41)
حافظ زبیر علی زئی صاحب غیر مقلد لکھتے ہیں :
”ہمارے نزدیک راجح یہ ہے کہ منی ناپاک ، پلید اور نجس ہے“۔(فتاویٰ علمیہ صفحہ 210)
غیر مقلدین کے شیخ الکل فی الکل میاں نذیر حسین دہلوی صاحب اپنے امام شوکانی صاحب غیر مقلد کے حوالے سے  لکھتے ہیں :
”یعنی صواب یہ ہے کہ منی نجس ہے“۔ 
اور آگے حاشیہ میں لکھتے ہیں:
”صحیح یہ ہے کہ منی نا پاک ہے“۔ (فتاویٰ نذیریہ جلد1 ص335) 
۲۔ رکوع میں ملنے سے رکعات ہو گی یا نہیں
حافظ زبیر علی زئی صاحب لکھتے ہیں :
”جو شخص رکوع میں مل جائے اور وہ فاتحہ نہ پڑھ سکےتو اس کی وہ رکعات نہیں ہو گی“۔ 
(فتاویٰ علمیہ صفحہ 373)
جبکہ مفتی عبد الستار صاحب غیر مقلد رکوع میں ملنے والے مقتدی کو رکعت پانے والا شمار کرتے ہیں ۔
 (فتاویٰ ستاریہ ج1 ص52)
۳۔ ننگے سر نماز کا حکم
آج کل ہر ایک  جاہل غیر مقلد  نہ صرف ننگے سر نماز کا قائل ہے بلکہ اس طرح نماز پڑھنے کو سنت بھی سمجھتا ہے۔
جبکہ ان کے بڑے شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری صاحب لکھتے ہیں:
 ” ننگے  سر نماز کو سنت کہنا بالکل غلط ہے یہ فعل سنت سے ثابت نہیں“۔(فتاویٰ ثنائیہ ج1 ص 523)  
۴۔ عصر کے بعد نفل پڑھنے کا مسئلہ
غیر مقلدین کے پروفیسر عبداللہ بہاولپوری صاحب لکھتے ہیں:
 ”حضور ﷺ سے جو عصر کے بعد نفل پڑھنا ثابت ہے وہ آپ کا خاصہ ہے ‘ وہ ہمارے لیے نہیں“۔
(رسائل بہاولپوری ص134)
جبکہ غیر مقلدین کے حافظ عبد المنان نور پوری صاحب عصر کے بعد نفل پڑھنے  پر پورا زور دے رہے ہیں۔
 (مقالات نور پوری صفحہ 311)
۵۔ آذان عثمانی 
غیر مقلدین کے خطیب الہند مولوی جونا گھڑی صاحب لکھتے ہیں :
”(یہ آذان) صریح بدعت ہے کسی طرح جائز نہیں۔“(العیاذ باللہ)
(فتاویٰ علمائے حدیث ج2 ص 106)
غیر مقلدین کے شیخ السلام مولانا ثناء اللہ امرتسری صاحب لکھتے ہیں:
” یہ آذان سنت خلفاء ہے اس کو گمراہی اور ضلالت کہنا بالکل غلو ہے۔ جمہور صحابہ پر حملے کرنا اورر بڑی جرأت ہے“۔
 (فتاویٰ ثنائیہ ج1 ص435)
 فرقہ اہلحدیث کے محدث العصر محب اللہ شاہ صاحب راشدی صاحب  لکھتے ہیں:
ہمارے نزدیک آذان عثمانی پر صحابہ کا اجماع ہو چکا ہے اور اجماع حجت ہے۔
 (مقالات راشدیہ ج1 ص 271)
محب اللہ شاہ راشدی صاحب غیرمقلد نے نہ صرف آذان عثمانی کو حجت ثابت کیا ہے بلکہ اس پر کیے جانے والے آج کل کے وکٹورینوں کے اعتراضات کے  بھی جوابات دیئے ہیں۔ (ملاحظہ ہو مقالات راشدیہ ج 1 ص  248 تا 272)
۶۔ جرابوں پر مسح
غیر مقلدین کے ایک شیخ ابو محمد حافظ عبدالستار الحماد صاحب لکھتے ہیں:
 ”جرابوں پر مسح جائز ہے“۔ (فتاویٰ اصحاب الحدیث ج1 ص 66)
غیرمقلدین کے شیخ الکل فی الکل میاں نذیر حسین دہلوی صاحب لکھتے ہیں:
”جرابوں پر مسح جائز نہیں ہے“۔(فتاویٰ نذیریہ ج1 ص 327)
 ۷۔ مال تجارت میں زکوٰۃ 
فرقہ  اہل حدیث کے شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری صاحب جو کہ مرزئیوں کے پیچھے بھی نماز پڑھا کرتے تھے خود فرقہ اہل حدیث نے اس کا اقرار کیا ہے (دیکھئے فیصلہ مکہ)  یہ ان کے شیخ صاحب  ...
مال تجارت میں زکوۃ کو  واجب کہتے ہیں۔ (فتاویٰ علمائے اہل حدیث ج7 ص84)
زبیر علی زئی صاحب مال تجارت پر زکوۃ فرض ہے   کو اجماعی مسئلہ کہتے ہیں۔ (تحقیقی مقالات ج5 ص114)
اور اجماع سے نکلنے والے کو اللہ نے جہنمی قرار دیا ہے ۔(سورہ ۳، النسا ء  :115)
دوسری طرف فرقہ اہل حدیث  کے مجدد نواب صدیق حسن خان صاحب فرماتے ہیں:
مال تجارت میں زکوٰۃ نہیں ۔(بدور الاہلہ ص 102)
گویا کہ نواب صدیق حسن خان اس فرقے کے مجدد  جو کافی عرصے تک  غیر مقلدیت کی وکالت کرتے رہے اور جو ان پر اعتماد کرتے رہے سب اجماع کے منکر  بدعتی اور جہنمی تھے۔ 
۸۔ قربانی تین دن یا  چار دن؟
غیر مقلدین کے امام شوکانی صاحب لکھتے ہیں:
 ”چار دن قربانی والا موقف راجح ہے“ (نیل الاوطار جلد 5 صفحہ 149) 
غیر مقلدین کے محدث العصر حافظ زبیر علی زئی صاحب  لکھتے ہیں:
 ”قول راجح یہ ہے کہ قربانی کے صرف 3 دن ہیں“۔ (علمی مقالات صفحہ 219)
(تبصرہ : اگر ان جہلا سے ہی کسی مسئلہ کو راجح مرجوح کروانا ہے تو بہتر نہیں ائمہ اربعہؒ میں سے ہی کسی ایک کی تقلید کا پابند رہا جائے۔ )
۹۔  رکوع کے بعد ہاتھ کھلے چھوڑنے ہیں یا باندھنے ہیں؟
عبد المنان نورپوری صاحب  ایک سوال  ” کیا رکوع کے بعد ہاتھ دوبارہ باندھنے چاہیں؟“ کے جواب میں فرماتے ہیں :
” نبیﷺ سے ثابت نہیں“۔  (قرآن و سنت کی روشنی میں احکام و مسائل ج 2 ص 238)
مگر اسی فرقے کے شیخ العرب والعجم  بدیع الدین راشدی صاحب نے  ”رکوع  کے بعد ہاتھ باندھنا“ نام کے رسالے کے علاوہ دس اور رسالے لکھے ہیں کہ رکوع کے بعد ہاتھ باندھنا سنت ہے۔
ان میں سے کسی بات   صحیح ہے اور کسی غلط ؟کس  کی تحقیق معتبر ہے اور کس کی غیر معتبر؟ بندہ ان میں کس پر اعتماد کرے؟  کیا قرآن حدیث اتنی مشکل ہے انکا یہ مسئلہ بھی حل نہ ہو سکا ؟  صاف ظاہر ہے کہ عوام کو یہ لوگ  فقہاء سے ہٹا کر قرآن  و سنت کی طرف رجوع کرنے کے بہانے صرف اپنے پیچھے لگاتے ہیں خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور لوگوں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔
۱۰۔ گھوڑے کی قربانی
”ہمارا دعویٰ ہے کہ کسی اہل حدیث نے  گھوڑے کی  قربانی کا فتویٰ نہیں دیا“ ۔ (تحفہ حنفیہ ص 303)
”گھوڑے کی قربانی بھی  سنت ہے“۔ (فتاویٰ ستاریہ ج1 ص 146)
گائے اونٹ ،بھیڑ ،بکری ، اور گھوڑے کے علاوہ  قربانی سنت اور ثابت نہیں ۔
 (فتاویٰ علمائے حدیث ج 3 ص56) 
۱۱۔ بھینس کی قربانی 
بھینس کی قربانی جائز ہے۔  
ثناء اللہ امرتسری(فتاویٰ ثنائیہ ج1 ص 807 ) 
حافظ محمد گوندلوی(ہفت روزہ الاعتصام ج20 شمارہ 9،10 ، ص29)
عبد القادر حصاروی (اخبار الاعتصام ج26 شمارہ 150 بحوالہ فتویٰ علمائے حدیث ج13 ص71)
ابو عمر عبد العزیز نور ستانی (بھینس کی قربانی کا تحقیقی جائزہ  از حافظ نعیم الحق ملتانی ص 154)
حافظ عبد القہار  (بھینس کی قربانی کا تحقیقی جائزہ ص 156)
حافظ احمد اللہ فیصل آبادی (بھینس کی قربانی کا تحقیقی جائزہ ص 159)
پروفیسر سعد مجتبیٰ السعدی (بھینس کی قربانی  کا تحقیقی جائزہ ص 18)
مولوی محمد رفیق  الاثری  فرماتے ہیں:
 یہ مسئلہ کہ قربانی میں بھینس ذبح کی جا سکتی ہے یا نہیں۔ سلف صالحین میں متانازعہ مسائل میں شمار نہیں ہوتا چند سال سے یہ مسئلہ اہل حدیث عوام میں قابل بحث بنا ہوا ہے۔ (بھینس کی قربانی کا تحقیقی جائزہ ص 19)
 دوسرا گروہ کہتا ہے کہ بھینس کی قربانی جائز نہیں۔
زبیر علی زئی    (فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام جلد دوم ص181)
عبد المنان نور پوری صاحب بھی بھینس کی قربانی نہ کرنے  کی تلقین کر رہے ہیں۔( دیکھئے احکام و مسائل ج1 ص 434)
۱۲۔ مسجد کے اوپر   ناجائز کاروبار کے پیسے لگانا
”ناجائز کاروبار کے پیسے مسجد کی تعمیر پر نہیں لگانے چاہیں۔ ایسے فعل کا ارتکاب کرنا شریعت کی نگاہ میں درست نہیں“۔(فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ  ج1 ص 551)
”مسجد کے اوپر کنجری  کا مال لگانا جائز ہے شرعاً کوئی قباحت نہیں “ ( کتاب الامارۃ  ج1 ص 85)
قارئین کرام ! لیجئے شریعت کو معاذ اللہ انہوں نے اپنی خالہ جی کا گھر بنا رکھا ہے ۔ خود سے مسئلہ لکھ کر نام شریعت کا لکھ دیتے ہیں۔
۱۳۔ مرغ کی قربانی 
”شرعاً ً مرغ کی قربانی جائز ہے “ (فتاویٰ ستاریہ ج 2 ص 72)
دوسری طرف ان کے   دوسرے مولوی صاحب مرغ کی قربانی کو جائز نہیں سمجھتے۔
 (فتاویٰ علمائے حدیث ج 13 ص 76 )
۱۴۔ایک مٹھی داڑھی
فرقہ اہلحدیث کے شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری صاحب لکھتے ہیں:
ہاتھ کے ایک قبضے کے برابر  کر زائد کٹوا دینا جائز ہے۔(فتاویٰ ثنائیہ ج 3 ص 123)
فرقہ اہلحدیث کے محدث ناصر الدین البانی صاحب لکھتے ہیں:
”مٹھی سے نیچے کے بالوں کو کاٹنا جائز ہے“۔(فتاویٰ البانیہ ص 236)
دوسری طرف...
عبد المنان نور پوری صاحب داڑھی کے بڑھانے کو فرض لکھتے ہیں:
عبد المننان نور پوری صاحب غیرمقلد کو ایک سوال آیا جس میں تھا کہ ”البانی صاحب نے قبضہ کا مسئلہ بیان کیا  کہ ایک مٹھی سے زیادہ داڑھی نہیں رکھنا چاہئے“ کے جواب میں لکھتے ہیں:
”آپ نے لکھا ہے کہ ’’الشیخ البانی  رحمہ اللہ نے قبضہ کا مسئلہ بیان کیا کہ ایک مٹھی سے زیادہ نہیں رکھنا چاہیے بلکہ زیادہ سنت نہیں‘‘ شیخ البانی رحمہ اللہ تعالیٰ نے کیا لکھا ؟ کیا فرمایا ؟ تو ان کے الفاظ سامنے آنے سے ہی پتہ چل سکتا ہے برائے مہربانی ان کے وہ الفاظ لکھ بھیجیں جن سے آپ نے مندرجہ بالا باتیں اخذ کی ہیں البتہ اتنی بات معلوم ہونی چاہیے کہ داڑھی بڑھانا فرض ہے کیونکہ رسول اللہ  ﷺ کا فرمان ہے {أَعْفُوْا اللُّحٰی} بعض احادیث وروایات میں {وَفِّرُوْا} اور {أَرْخُوْا} کے لفظ بھی وارد ہوئے ہیں اور کوئی قرینہ کتاب و سنت میں موجود نہیں جو رسول اللہ  ﷺ کے اس امر کو اس کی حقیقت وجوب سے مجاز ندب واستحباب کی طرف پھیر لے  اور ظاہر ہے رسول اللہ  ﷺ کے مندرجہ بالا الفاظ کٹانے اور منڈانے کے منافی ہیں رہی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی قبضہ والی روایت تو وہ موقوف ہے اور معلوم ہے موقوف سے شریعت ثابت نہیں ہوتی تاوقتیکہ وہ حُکماً مرفوع نہ ہو اور یہ قبضہ والی حدیث موقوف حکما مرفوع نہیں۔                             
(احکام و مسائل ج 1 ص 517)
معلوم ہوا کہ فرقہ اہلحدیث کے شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری صاحب اور ناصر الدین البانی صاحب دونوں فرض کے منکر تھے۔
۱۵۔  امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑھنے والے کی نماز ہو گی یا نہیں؟
فرقہ اہلحدیث کے  ایک بڑے محدث حافظ محمد گوندلوی صاحب لکھتے ہیں:
” اہل حدیث امام کے پیچھے  سورت فاتحہ نہ پڑھنے والے کو  بے نماز سمجھتے ہیں حالانکہ یہ دعویٰ بلا دلیل ہے امام بخاری سے لے کر محققین علماء اہل حدیث تک کسی تصنیف میں یہ دعوی نہیں کیا گیا“۔
(خیر الکلام ص 14)
لعنت اللہ علی الکاذبین۔
مفتی عبد الستار صاحب غیر مقلد لکھتے ہیں:
”فاتحہ ہر ایک مقتدی و منفرد و امام پر واجب ہے اور اس کے ترک سے بالکل نماز نہیں“۔
(فتاویٰ ستاریہ ج 1 ص 54)
فرقہ اہلحدیث کے شیخ الکل میاں نذیر حسن دہلوی صاحب لکھتے ہیں:
”فاتحہ خلف الامام پڑھنا فرض ہے بغیر فاتحہ پڑھے ہوئے نماز نہیں ہوتی“۔
(فتاویٰ نذیریہ ج 1 ص 398)
 محب اللہ شاہ راشدی صاحب غیر مقلد لکھتے ہیں
”سورۃ فاتحہ کے سوائے کوئی بھی نماز ہرگز نہیں ہو گی۔ صرف ایک رکعت میں بھی نہیں پڑھی تو اس کی وہ رکعت نہیں ہوئی  وہ نماز خواہ اکیلے پڑھے یا پڑھنے والا امام ہو یا مقتدی“۔
(مقالات راشدیہ ص 67)
یہاں غیر مقلدین بڑے بڑے نا اہل مولویوں نے جمہور امت کی نماز کو کیسے باطل قرار دے دیا ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ ان کے اس مسئلہ کی ایک بھی صحیح صریح مرفوع حدیث دنیا میں موجود نہیں کہ پیچھے فاتحہ نہ پڑھنے والے کی نماز ہو گی یا نہیں۔
۱۶۔ مسئلہ تراویح
فرقہ اہلحدیث کے ایک مولوی صاحب لکھتے ہیں
 ”بیس رکعت تراویح پڑھنا سنت رسول نہیں بلکہ بدعت ہے“۔
(مذہب حنفی کا دین اسلام سے اختلاف ص 69)
دوسری طرح فرقہ اہلحدیث کے ایک اور  مولوی صاحب  (مولانا غلام رسول صاحب) نے  بیس رکعت تراویح  کے اثبات پر ایک رسالہ لکھ مارا ہے جس کا اردو ترجمہ ینابیع  مولانا سرفراز خان صفدرؒ نے کیا ہے۔
غیر مقلدین کے ایک مولوی ڈاکٹر بہاو الدین صاحب نے ایک بات لکھی ہے آج غیر مقلد پر پوری فٹ آتی ہے:
  ” ہاں بعض عوام کالانعام گروہ اہل حدیث  میں ایسے بھی ہیں جو اہل حدیث کہلانے کے مستحق نہیں۔ ان کو لامذہب بد مذہب ضال مضل جو کچھ کہو زیبا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نہ خود کتاب و سنت کا علم رکھتے ہیں نہ اپنے گروہ کے اہل علم کا اتباع کرتے ہیں۔ کسی سے کوئی حدیث سن کر یا کسی اردو مترجم کتاب میں دیکھ کر نہ صرف اس کے ظاہری معنی کے موافق عمل کرنے پر صبر و اکتفا کرتے ہیں۔ بلکہ اس میں اپنی خواہش نفس کے موافق استنباط و اجتہاد بھی شروع کر دیتے ہیں۔ جس   میں  وہ خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔
 (تاریخ اہل حدیث ص164)
بے شک یہ  لوگ ائمہ  سے ہٹا کر لوگوں میں صرف فتنہ ڈال رہے ہیں کوئی اللہ رسو ل کی طرف رجوع نہیں ان کا  صرف بہانہ ہے  اختلاف ختم کرنے کا کہ  ائمہ اربعہ کو چھوڑو ہم جاہلوں کے پیچھے لگ جاؤ  تو یوں اختلاف ختم ہو جائے  گا ۔ نہیں ، بلکہ انہوں نے مزید اختلافات پیدا کئے ہیں جس میں ہر دوسرے فریق کو گمراہی پر  ،  اسے بدعتی قرار دینا یا  اس کے مسئلہ کو کالعدم قرار دینا لازم آتا ہے جس سے سوائے فتنے کے اور کیا  توقع رکھی جا سکتی ہے۔
اور فتنے کے متعلق اللہ پاک قرآن کریم میں فرماتے ہیں :
وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنْ الْقَتْلِ ۚ(سورہ ۲، البقرۃ :۱۹۱)
”فتنہ قتل سے بھی بڑھ کر ہے“۔
 (جاری۔۔۔)
٭٭٭

     

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں