پیر، 11 مارچ، 2019

مولانا عبید اللہ سندھی اور عقیدہ حیات مسیح ایک تعارف

مفتی ارشاد احمد حقانی ﷾ (راجن پور، پنجاب، پاکستان)

 مولانا سندھیؒ  کی داستان زندگی کسی الف لیلیٰ سے کم نہیں ہے ۔ انکے کمالات بے شمار ہیں اور انکی شخصیت طلسماتی۔  ۲۸ ؍ مارچ ۱۸۷۲ کو ایک سکھ گھرانے میں جنم لیا لیکن ہدایت آپ کے نصیب میں رب کائنات نے لکھ رکھی تھی اور ایک سکھ بچے سے دین اسلام کی ایک بڑی خدمت کا لیا جانا مقدر ہو چکا تھا۔  مڈل کی تعلیم کے دوران مولانا عبید اللہ پائلی کی کتاب " تحفتہ الہند " پڑھی اور انکے کے قلب میں ایمان کی شمع روشن ہوئی۔  رہی سہی کسر شاہ اسمعیل شہید ؒ   کی ”تقویت الایمان “ نے پوری کر دی۔ 
 آپ نے اسلام قبول کرنے کے بعد اپنا نام اس کتاب کے مولف کے نام پر رکھنا مناسب سمجھا کہ جن کی کتاب پڑھ کر آپ کے دل میں ایمان نے گھر کیا تھا۔ مولانا سندھی کی تحریکی زندگی کا اصل رخ اس وقت سے شروع ہوتا ہے کہ جب دیوبند میں آپ کو شیخ الہند مولانا محمود الحسن ؒ کی صحبت حاصل ہوئی۔  مولانا سندھی کا شمار تحریک ریشمی رو مال کے مجاہدین اول میں سے ہوتا ہے۔  آپ کے ذمے شیخ الہند ؒ  کی جانب سے محاذِ افغانستان لگایا گیا تھا۔ ۱۹۱۵ ء میں آپ شیخ الہند ؒ  کے کہنے پر ہجرت کر کے افغانستان چلے گئے۔  امیر امان اللہ خان کو انگریزوں کے خلاف جہاد کے لیے تیار کرنے کا سہرا مولانا سندھی ؒ کے سر ہے۔ افغانستان سے آپ نے روس نقل مکانی کی اور پھر وہاں سے ترکی کی جانب مسافرت اختیار کی۔
 مولانا سندھی ؒ کی عظیم ترین خدمات میں...
 ۱۔ جہاد افغانستان کی آبیاری
 ۲۔ جمیعت الانصار کا قیام
 ۳۔ علوم قرآنی کی ترویج
 ۴۔ فکر ولی اللہی کا احیاء
 شامل ہیں ۔ 
 مولانا سندھی کے تلامذہ میں موسیٰ جار اللہ اور مولانا احمد علی لاہوری ؒ جیسی عظیم شخصیات کا نام شامل ہے۔ ۲۲ ؍اگست ۱۹۴۴ ء کو آپ نے دین پور میں رحلت فرمائی اور آپ کا جسد خاکی وہیں مدفون ہے۔  
( حوالہ : اکابر علماء دیوبند﷭، ۱۲۷ /۱۲۶، ادارہ اسلامیات لاہور، حافظ محمد اکبر شاہ بخاری۔)
 مولانا کی تفسیر " الہام الرحمان " کا منہج ِ اصلی: -
 مولانا سندھی ؒ فرماتے ہیں :
”قرآنی معارف و مطالب میں مجھے شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ کے علاوہ کسی اور حکیم کے افکار سے مدد لینے کی ضرورت نہیں پڑی...
 میں نے قرآن سے جو کچھ اخذ کیا ہے اور جو بھی معانی مضامین قرآن سے مستنبط کیے ہیں مجھے انکی تعین اور تائید کے لیے شاہ صاحب کی حکمت سے باہر جانے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ “
( شاہ ولی اللہ اور ان کا فلسفہ، مولانا سندھیؒ، ۲۲ )
 گو کہ مولانا سندھی ؒ کی " الہام الرحمان " مکمل تفسیر نہیں اور یہ سورہ فاتحہ سے سورہ بقرہ تک کل ۳۲۰ صفحات پر محیط ہے لیکن اس کے کمالات بے شمار ہیں۔ 
 ۱۔ تفسیر کا اسلوب اہل علم کے معیار کے مطابق ہے۔
 ۲۔ تصوف کا رنگ واضح دکھائی دیتا ہے۔
 ۳۔ ربطِ آیات کا خاص خیال رکھا گیا ہے ۔
 ۴۔ تقابل ادیان کے حوالے سے کچھ مباحث ملتے ہیں ۔
 ۵۔ اصول ولی اللہی اپنی پوری شان کے ساتھ نمایاں ہے۔ 
 مولانا سندھی ؒ کی تفسیر پر تنقید: -
 حیات مسیح علیہ السلام مسلمانوں کا اجماعی عقیدہ ہے اور یہ قرآن و سنت کی براہِ راست تعلیمات سے مستنبط ہے لیکن مولانا سندھی ؒ کی اس تفسیر میں اس حوالے سے مختلف نکات ملتے ہیں کہ جن کی وجہ سے ان پر تنقید بھی ہوتی رہی ہے اور " احمدی " گروہ اس سے اپنے موقف کی تائید میں استدلال کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ 
 مولانا سندھی اور نزول مسیح کے حوالے سے ایک تحقیق: -
 حضرت صوفی عبد الحمید خان سواتیؒ لکھتے ہیں کہ :
 ” مولانا عبید اللہ سندھی کی طرف منسوب اکثر تحریریں وہ ہیں وہ ہیں جو املائی شکل میں ان کے تلامذہ نے جمع کی ہیں۔ مولانا کے اپنے قلم سے لکھی ہوئی تحریرات اور بعض کتب نہایت دقیق و عمیق اور فکر انگیز ہیں اور وہ مستند بھی ہیں۔ لیکن املائی تحریروں پر پورا اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ اور بعض باتیں ان میں غلط بھی ہیں جن کو ہم املا کرنے والوں کی غلطی پر محمول کرتے ہیں مولانا کی طرف ان کی نسبت درست نہ ہو گی۔“ 
 ( مولانا عبید اللہ سندھیؒ کے علوم و افکار :ص ۷۸ )
 حضرت سواتیؒ مزید لکھتے ہیں کہ :
 ’’ پوری کتاب من و عن مولانا سندھیؒ کی طرف منسوب کرنا بڑی زیادتی ہو گی۔ اور اس کو اگر علمی خیانت کہا جائے تو بجا ہو گا کچھ باتیں اس کی مشتبہ اور غلط بھی ہیں جن کے مولانا سندھیؒ قائل نہیں تھے۔ اور نہ وہ باتیں فلسفہ ولی اللہی سے مطابقت رکھتی ہیں ‘‘۔
 ( عبید اللہ سندھیؒ کے علوم و افکار : ص۶۸ )
حضرت لاہوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ :
 ’’ حیات مسیح کے بارے میں مولانا عبید اللہ سندھی وہی عقیدہ رکھتے تھے جو دوسرے علماء دیوبند کا ہے۔ مگر افسوس کہ موسی جار اللہ اپنی بات مولانا سندھی کے نام سے کہہ کر لوگوں کو مغالطہ دے رہا ہے۔ مولانا سندھی کے نظریات و عقائد وہی ہیں جو میں نے حاشیہ قرآن میں لکھ دئے ہیں ‘‘۔ 
 ( خدام الدین کا احمد علی لاہوریؒ نمبر :ص ۲- ۶ )
اس حاشیہ تفسیر کا کیا مقام ہے علامہ خالد محمود صاحب کی زبانی سنئے :
” مولانا احمد علی صاحبؒ نے حضرت شاہ ولی اللہ اور مولانا عبید اللہ سندھی کی تعلیمات کی روشنی میں قرآن پاک کا ایک مختصر اور جامع حاشیہ تحریر فرمایا۔  آپ نے اس میں سورت سورت اور رکوع رکوع کے عنوان خلاصے اور مقاصد نہایت ایجاز اور سادہ زبان میں ترتیب دئے۔ جہاں جہاں مضمون ایک موضوع پر جمع دکھائی دئے ان کو موضوع دار اور طویل اور مفصل فہرست اپنے حاشیہ قرآن سے بطور مقدمہ شامل فرمائی ۔ عصری تقاضہ تھا کہ اختلاف سے ہر ممکن پرہیز کیا جائے اس لئے آپ نے ترجمہ قرآن پر ہر مسلک کے علماء کی تائید حاصل کی آپ کی پوری کوشش تھی کہ قرآن پاک کا ایک مجموعہ حاصل قوم کے سامنے رکھ سکیں۔ آپ جب یہ مسودے تیار کر چکے تو انہیں لے کر دیوبند پہنچے۔ دیوبند میں ان دنوں محدث کبیر حضرت مولانا سید انور شاہ،  شیخ التفسیر حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی اور شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی کا دور دورہ تھا۔ آپ نے یہ سب مسودات ان حضرات کے سامنے رکھ دئے اور بتایا کہ انہوں نے یہ قرآنی محنت مولانا عبید اللہ سندھیؒ کی تعلیمات کی روشنی میں سر انجام دی ہے مولانا سندھیؒ پر چونکہ سیاسی افکار غالب تھے اس لئے میں نے ضروری سمجھا کہ خالص دینی نقطہ نظر سے بھی اس قرآنی خدمت کا جائزہ لیا جائے اگر اکابر دیوبند اس کی تصدیق فرما دیں تو وہ اسے شائع کر دیں گے وگرنہ وہ یہ مسودات یہی چھوڑ جائیں گے پھر ان کی انہیں کوئی حاجت نہیں ہو گی۔ 
 اکابر نے ان کی تصدیق کی اور حضرت شیخ التفسیر مرکز دیوبند سے تصدیق لے کر لاہور واپس ہوئے اس ترجمے اور تحشئے کی نہ صرف اشاعت کی بلکہ درس و تدریس میں بھی قرآن کریم کا ذوق ہزاروں مسلمانوں کے دل و دماغ میں اتار دیا ۔“
 ( خدام الدین کاشیخ التفسیر امام احمد علی لاہوری نمبر :ص ۲- ۶ )
 حیات عیسیٰ علیہ السلام پر حضرت سندھیؒ کی اپنی تصریح :-
 ’’ فائدہ دوم ! امام ولی اللہ دہلویؒ ’’ تفہیمات الٰہیہ ‘‘ میں فرماتے ہیں کہ مجھے اللہ تعالی نے بذریعہ الہام سمجھایا ہے کہ تجھ پر دو جامع اسموں کا نور منعکس ہوا ہے۔ اسم مصطفوی اور اسم عیسوی علیہما الصلوٰت و التسلیمات تو عنقریب کمال کے افق کا سردا ربن جائے گا اور قربِ الٰہی کی اقلیم پر حاوی ہو جائے گا۔ تیرے بعد کوئی مقرب الٰہی ایسا نہیں ہو سکتا جس کی ظاہری و باطنی تربیت میں تیرا ہاتھ نہ ہو۔ یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں ‘‘۔ 
 ( رسالہ عبیدیہ اردو ترجمہ محمودیہ : ص۲۷ )
 یہاں حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے واضح طور پر نزول عیسیٰ علیہ السلام کا عقیدہ لکھا۔ یہ تالیف ان کے آخری ایام ۱۳۳۹ھ کی ہے لہٰذا ان کی اپنی اس تحریر کے ہوتے ہوئے کسی غیر معتبر املائی تفسیر کی کوئی حیثیت نہیں۔ 

     

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں