منظور احمد چنیوٹی
محدث العصر حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیری نے فرمایا:
ہم پہ یہ بات کھل گئی ہے کہ گلی کا کتابھی ہم سے بہتر ہے اگر ہم تحفظِ ختمِ نبوت نہ کر سکیں ۔
[ نقش دوام از مولانا انظر شاہ کاشمیری مطبوعہ ادارہ تالیفات اشرفیہ ملتان ص۱۹۱ ]
﴿دوسری جھوٹی پیش گوئی ﴾
مرز اصاحب اپنی موت کے متعلق پیش گوئی کرتے ہیں:
ہم مکہ میں مریں گے یا مدینہ میں۔
(البشریٰ ص۱۵۵،تذکرہ جدیدص۵۹۱،تذکرہ قدیم نسخہ ص۵۸۴)
ہمارا دعویٰ ہے کہ مکہ میں مرنا تو درکنا مرزا صاحب کو مکہ مدینہ دیکھنا نصیب نہ ہوا اور اس پیش گوئی میں بھی ذلیل و رسوا ہوا۔ ثبوت کیلئے دیکھو سیرۃ المہدی حصہ۳ ص۱۱۹، لکھا ہے :
’’ ڈاکٹرمیر محمد اسماعیل نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود نے حج نہیں کیا او رنہ اعتکاف کیا اور زکواۃ نہیں دی ، تسبیح نہیں رکھی ، میرے سامنے ضب یعنی گوہ کھانے سے انکار کیا ۔‘‘
اس حوالہ سے معلوم ہوا کہ مرز اصاحب کو مکہ میں جانا نصیب نہ ہوابلکہ اسکی وفات لاہور میں بمرض ہیضہ لیٹرین کی جگہ پر ہوئی ۔(سیرۃ المہدی حصہ اول ص۱۱) کہاں مکہ اور مدینہ اور کہاں جائے حاجت(لیٹرین)۔
ببیں تفاوت راہ از کجا است تا بکجا
﴿تیسری جھوٹی پیش گوئی ﴾
پیر منظور کے ہاں لڑکے کی پیدائش
’’ پہلے یہ وحی الہی ہوئی تھی کہ وہ زلزلہ جونمونہ قیامت ہوگا بہت جلدآنے والا ہے اس کیلئے نشان دیا گیا تھا کہ پیر منظورمحمد لدھیانوی کی بیوی محمدی بیگم کو لڑکاپیدا ہوگااور وہ لڑکا اس زلزلے کیلئے ایک نشان ہوگا‘‘۔
(حقیقت الوحی حاشیہ در حاشیہ ص۱۰۰، روحانی خزائن ص۱۰۳ج۲۲)
یہ پیر منظور اس کا خاص مرید تھا مرزا کو معلوم ہوا کہ اُس کی بیوی حاملہ ہے ، پیش گوئی گھڑ لی کہ اس کے ہاں لڑکا پیدا ہوگا مگر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ لڑکی پیدا ہوگئی ۔ مرزا صاحب نے یہ کہا کہ اس سے یہ تھوڑا ہی مراد ہے کہ اسی حمل سے لڑکا پیدا ہوگا آئندہ کبھی لڑکاپیدا ہوسکتاہے مگر ہوا یہ کہ وہ عورت ہی مر گئی اور دوسری پیش گوئیوں کی طرح یہ بھی صاف جھوٹ ثابت ہوئی نہ اس عورت کے لڑکا پیدا ہوا اور نہ ہی زلزلہ آیا اور یوں مرزا صاحب ذلیل ورسوا ہوئے ۔
﴿چوتھی جھوٹی پیش گوئی ﴾
لیکھ رام کے متعلق
مرز اصاحب کی غلط او رجھوٹی پیش گوئیوں میں سے آپ مسلمانوں اور عیسائیوں کے متعلق پیش گوئیاں سن چکے ہیں اب تیسری قوم ہندوؤں کے متعلق سنیے۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ان تینوں قوموں کے مقابلہ میں مرز اکی پیش گوئیاں جھوٹی نکلیں اور ذلیل ورسوا ہوا۔لیکھ رام ایک پنڈت تھا جس سے مرز اکا اکثر مناظرہ رہتا تھا ایک مرتبہ اس سے تنگ آکر مورخہ ۲۰ فروری ۱۸۹۳ء کو اس کے متعلق یہ پیش گوئی کی:
’’ اگر اس شخص پر چھ برس کے عرصہ میں آج کی تاریخ سے کوئی ایسا عذاب نازل نہ ہوا جو معمولی تکلیفوں و بیماریوں سے نرالا اورخارق عادت( یعنی طبعی موتوں سے جو عادت میں داخل ہیں الگ ہو) اور اپنے اندر الہی ہیبت رکھتا ہو۔(یعنی انسان سمجھ سکتا ہو کہ یہ ایک ناگہانی آفت ہے جو دلوں پر ایک ڈرانے والا اثر کرتی ہے) توسمجھو کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں اور نہ اس کی روح سے میرا یہ نطق ہے اور اگر میں اس پیش گوئی میں کاذب نکلا (یعنی اگر ہیبت ناک طور پر لیکھ رام کی موت نہ ہوئی) تو ہر ایک سزا بھگتنے کیلئے تیار ہوں اور اس بات پر راضی ہوں کہ مجھے گلے میں رسہ ڈال کر کسی سولی پر کھینچا جائے ۔‘‘
(ملحقہ آئینہ کمالات اسلام ص۳،تریاق القلوب ، روحانی خزائن ص۳۸۱ ج۱۵، روحانی خزائن ص۶۵۰،۶۵۱ ج۵)
مرزائی عذر:
یہ پیش گوئی پوری ہوگئی کیونکہ لیکھ رام مقررہ مدت کے اندر چھری سے قتل کردیا گیا تھا۔
الجواب :
مرز اصاحب کی یہ پیش گوئی بھی پوری نہ ہوئی کیونکہ اس پیش گوئی میں تصریح ہے کہ وہ خارق عادت عذاب سے ہلاک ہوگا اور خارق عادت عذاب وہ ہوتا ہے جس کی دنیا میں کوئی نظیر نہ پائی جائے اور اس طرح کی نظیریں تو سینکڑوں پائی جاتی ہیں لہذا خار ق عادت عذاب نہ ہوا اور مرزا صاحب کی پیش گوئی جھوٹی نکلی ۔ مرز انے خو دخار ق عادت کی تعریف اپنی کتاب حقیقت الوحی ص۱۹۶ روحانی خزائن ص۲۰۴ ج۲۲ پر لکھی ہے :
’’ خارق عادت اسی کو کہتے ہیں کہ اس کی نظیر دنیامیں نہ پائی جائے۔‘‘
اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ صراحت کے ساتھ تعریف ضمیمہ براہین احمدیہ ج۵ص۹۷ پر لکھی ہے ۔ ہم کہتے ہیں کہ مرزا قادیانی کی یہ پیش گوئی بھی صاف جھوٹ نکلی ۔کیونکہ لیکھ رام ۶ مارچ ۱۸۹۷ء کو بذریعہ قتل فوت ہوا۔
مرز اصاحب کا دجل :
لیکھ رام کے قتل کے بعد مرزا نے دجل و فریب سے کام لیتے ہوئے نزول مسیح میں چھری کا لفظ بھی اپنی پیش گوئی کو سچا بنانے کیلئے اپنے پاس سے اضافہ کردیا جو اس کا صریح دجل و فریب ہے یہ اضافہ دیکھئے نزول المسیح ص۱۷۷ روحانی خزائن ج ۱۸ص۵۵۳ ورنہ چھری کا لفظ اس کی پیش گوئی کے الفاظ میں موجو دنہیں ہے ۔
لیکھ رام کی پیش گوئی :
مرز اصاحب نے جو لیکھ رام کے متعلق پیش گوئی کی تھی وہ توصاف جھوٹی نکلی۔ اس کے بالمقابل لیکھ رام نے بھی مرز اصاحب کے متعلق پیش گوئی کی تھی کہ مرزا صاحب تین سال کے اندر ہیضہ کی موت مرجائے گا جو پوری ہوگئی ۔
مرزائی عذر:
لیکھ رام کی پیش گوئی جھوٹی نکلی کیونکہ مرزا صاحب اگرچہ ہیضہ سے مرے ہیں مگر اس کی مقررہ مدت کے بعد مرے ہیں اس لئے اسکی پیش گوئی سچی نہ ہوئی ۔
جواب:
لیکھ رام کی نفس پیش گوئی ہیضہ کے ساتھ مرنے کی تھی او روہ پوری ہوئی مرزاصاحب ہیضہ سے ہی مرا( دیکھو سیرۃ المہدی حصہ اول ص۱۱ و حیات ناصر ص۱۴) رہی مدت کی بات تو مدت کے بارے میں خود مرزا صاحب فرماتے ہیں کہ استعارہ بھی ہوتا ہے جیسا کہ مرزا قادیانی نے محمدی بیگم کے خاوند سلطان محمد داماد احمد بیگ کے متعلق پیش گوئی کی تھی کہ وہ اڑھائی سال کے اندر مرے گا اور جب وہ اڑھائی سال کے اند ر نہ مرا تو مرزا صاحب نے فرمایا :
’’ میں بار بار کہتاہوں کہ نفس پیش گوئی داماد احمد بیگ (سلطان محمد خاوند محمد ی بیگم ) کی تقدیر مبرم ہے اس کی انتظار کرو او راگر میں جھوٹا ہو ں تو یہ پیش گوئی پوری نہ ہوگی اور میری موت آجائے گی اور اگر میں سچا ہوں تو خدا تعالیٰ ضروری اس کو بھی ایسے ہی پوری کرے گا جیسا کہ احمد بیگ اور آتھم کی پیش گوئی پوری ہوگئی ۔اصل مدعا تونفس مفہوم ہے اور وقتوں میں کبھی استعارہ کا بھی دخل ہوتا ہے ۔‘‘
(انجام آتھم حاشیہ روحانی خزائن ج۱۱ ص ۳۱)
ہم کہتے ہیں کہ جب مرز اصاحب نے خود تسلیم کرلیا کہ وقتوں میں کبھی استعارہ بھی ہوتا ہے اسی طرح لیکھ رام کی پیش گوئی میں بھی استعارہ ہوگا اور یوں اس کی پیش گوئی پوری ہوگئی۔
﴿پانچویں پیش گوئی ﴾
مرزا صاحب کی عمر کے متعلق
’’ خدا تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ میری پیش گوئیوں سے صرف اس زمانہ کے لوگ ہی فائدہ نہ اٹھا ئیں بلکہ بعض پیش گوئیاں ایسی ہوں کہ آئندہ زمانہ کے لوگوں کیلئے ایک عظیم الشان نشان ہوں جیسا کہ براہین احمدیہ کتاب کی یہ پیش گوئی کہ میں تجھے اسی برس یا چند سال زیادہ یا اس سے کچھ کم عمر دوں گا۔‘‘
(تریاق القلوب حاشیہ ص۲۴، روحانی خزائن ج۱۵ ص۱۵۲)
’’خدا تعالیٰ نے مجھے صریح الفاظ میں اطلاع دی تھی کہ تیری عمر اسیّ برس کی ہوگی اور یہ کہ پانچ چھ سال زیادہ یا پانچ چھ سال کم‘‘ (روحانی جلد۲۱ ص ۲۵۸) ’’اور جو ظاہر الفاظ وحی کے وعدہ کے متعلق ہیں تو وہ چوہتر اور چھیاسی کے اندر اندر عمرکا تعین کرتے ہیں ۔ بہرحال یہ میرے پر تہمت ہے کہ میں نے اس پیش گوئی کے زمانہ کی کوئی بھی تعین نہیں کی اور خدا تعالیٰ بار بار اپنی وحی فرمارہے ہیں کہ ہم تیرے لئے یہ نشان دکھلائیں گے اور ان کو کہہ دے کہ یہ نشان میری سچائی کا گواہ ہو گا۔‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۹۷ ،روحانی خزائن ص۲۵۹ ج۲۱)
اب مرزا صاحب کی تاریخ پیدائش معلوم کرنا ضروری ہے مرزا صاحب نے خود لکھا ہے کہ میری پیدائش ۱۸۳۹ء یا ۱۸۴۰ء میں ہوئی ۔
(کتاب البریہ ص۱۵۹ بر حاشیہ روحانی خزائن ص۱۷۷ ج۱۳)
دوسرا قرینہ یہ ہے کہ اس کتاب میں آگے مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ ۱۸۵۷ء کی جنگ کے وقت میں سولہ یا سترہ سال کا تھا (کتاب البریہ ص۱۵۹ روحانی خزائن ص۱۷۷ج۱۳) مرز اکے مرنے کے بعد مرز اصاحب کی یہ پیش گوئی صاف جھوٹی ہوگئی اور یہ عظیم الشان نشان بھی مرزا کے کذب کا عظیم الشان اور زندہ جاوید ثبوت بن گیا۔ مرزا کے مرنے کے بعد مرزائی سخت پریشان ہوئے کیونکہ اس حسب سے اس کی عمر ۶۸ سال یا ۶۹ سال بنتی ہے اور پیش گوئی جھوٹی ثابت ہوئی ہے ۔ مرزا بشیر الدین محمودنے لکھا کہ میری تحقیق میں مرزا صاحب کی پیدائش ۱۸۳۷ء میں ہوئی مگر پھر بھی عمر پیش گوئی کے موافق نہیں بنتی ۔ پھر بشیر احمد ایم اے نے کہا کہ حضرت کی پیدائش ۱۸۳۶ء میں ہوئی مگر پھر ایک اور تحقیق کی گئی کہ پیدائش ۱۲ فروری ۱۸۳۵ء میں ہوئی مگر پھر ایک اور تحقیق کی گئی کہ پیدائش ۱۲ فروری ۱۸۳۵ء میں ہوئی اس لحاظ سے بھی پوری ۷۴ سال نہیں بنتے پھر ڈاکٹر بشارت احمد لاہوری نے مرز ا کی سیرت پر کتاب لکھی جس کا نام ’’ مجدداعظم ‘‘ رکھا اس نے تحقیق کی کہ حضرت کی پیدائش ۱۸۳۳ء میں ہوئی ۔ ان کے ایک اور محقق نے بتا یا کہ حضرت ۱۸۳۰ء میں پیدا ہوئے، سوال یہ کہ اس کی تاریخ پیدائش میں مرنے کے بعد اس قدر اختلاف کیوں ہوا؟؟؟ ؟
یہی اس کے جھوٹے ہونے کی صریح دلیل ہے ایک کا ابطال دوسرے کو لازم ہے ، مرزائی خود فیصلہ کریں کہ مرز اصاحب سچے ہیں یا ان کے چیلے ،اور مرز اصاحب کا اپنا بیان صحیح اور قوی ہے ۔ کیونکہ یہ اس کا عدالتی بیان ہے کہ اس عدالتی بیان کی رو سے اس کی عمر ۶۸ ؍۶۹ سال بنتی ہے ۔
﴿چھٹی جھوٹی پیش گوئی ﴾
محمدی بیگم کے متعلق
اس پیش گوئی کے بارے میں دو باتیں پیش نظر رکھیں :
۱) محمدی بیگم کی مرزا قادیانی سے رشتہ دار ی
(۱) محمدی بیگم کا والد’’احمد بیگ ‘‘مرزا قادیانی کا ماموں زاد بھائی تھا اور اسکی والدہ مرزا کی چچا زاد بہن تھی ۔
(۲) مرزا کی پہلی بیوی (پھجے کی ماں) کے چچا زاد بھائی کی بیٹی تھی۔
(۳) مرزا کے لڑکے فصل احمد کی بیوی کی ماموں زاد بہن تھی۔
۲) اس پیش گوئی کا پس منظر
مرز اقادیانی نے محمد ی بیگم کو زبر دستی اپنے نکاح میں لانے کا ارادہ کیا اتفاق ایسا ہو ا کہ ایک زمین کے ہبہ نامہ کے سلسلہ میں مرزا احمد بیگ کو مرزا قادیانی کے دستخط کی ضرورت پڑی چنانچہ وہ مرزا قادیانی کے پاس گیا او ر اس سے کاغذات پر دستخط کرنے کی درخواست کی مرزا قادیانی نے اپنی مطلب براری کیلئے اس موقع کو غنیمت جانا اور احمد بیگ سے کہا کہ استخارہ کرنے کے بعد دستخط کروں گا جب کچھ دن بعد دوبارہ احمد بیگ نے دستخط کرنے کی بات کی تو مرزا نے جواب دیا کہ دستخط اس شرط پر ہوں گے کہ اپنی لڑکی محمدی بیگم کا نکاح میرے ساتھ کردو۔
مرزا لکھتا ہے کہ محمدی بیگم ابھی چھوکری ہے اور میری عمر پچاس سال سے متجاوز ہے ۔ (آئینہ کمالات اسلام ص۵۷۴،روحانی خزائن ص۵۷۴ج۵)
مرزا کی پیش گوئی کے الفاظ یہ ہیں :
’’ پھر ان دونوں میں جو زیادہ تصریح اور تفصیل کیلئے بار بار توجہ کی گئی تو معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ نے یہ مقررکر رکھا ہے کہ وہ مکتوب الیہ کی دختر کلاں کو جس کی نسبت درخواست کی گئی تھی ہر ایک روک دورکرنیکے بعد انجام کار اس عاجز کے نکاح میں لادے گا اور بے دینوں کو مسلمان بنادے گا اور گمراہوں میں ہدایت پھیلائے گا۔چنانچہ عربی الہام اس بارے میں یہ ہے :
’’ کذبوا بایتنا وکانوا بہا یستھزؤن فسیکفیکہم اﷲ ویردھا الیک لا تبدیل لکلمات اﷲ ان ربک فعال لما یرید انت معی وانا معک عسی ان یبعثک ربک مقامامحمودا۔‘‘
یعنی انہوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا اور پہلے سے ہنسی کررہے تھے سو خدا تعالیٰ ان سے سب کے تدارک کے لئے جو اس کام کو روک رہے ہیں تمہارا مددگا ر ہوگا اور انجام کا ر اس کی اس لڑکی کو تمہاری طرف واپس لائے گا کوئی نہیں جو خدا کی باتوں کو ٹال سکے تیرا رب وہ قادر ہے کہ جو کچھ چاہے وہی ہو جاتا ہے ……الخ۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام ص۲۸۶تا ۲۸۸ ، روحانی خزائن ج۵ص ۲۸۷؍۲۸۶)
’’میری اس پیش گوئی میں ایک نہیں بلکہ چھ دعوے ہیں :
(اول) نکاح کے وقت تک میرز زندہ رہنا
(دوم) نکاح کے وقت تک اس لڑکی کے باپ کا یقینی زندہ رہنا
(سوم) پھر نکاح کے بعد لڑکی کے باپ کا جلدی مرجانا جو تین برس تک نہیں پہنچے گا
(چہارم ) اس کے خاوند کااڑھائی برس کے عرصہ تک مرجانا
(پنجم) اس وقت تک کہ میں اس سے نکاح کروں اس لڑکی کا زندہ رہنا
(ششم) پھر آخر یہ بیوہ ہونے کی تمام رسموں کو توڑ کرباوجود سخت مخالفت اس کے اقارب کے میرے نکاح میں آجانا۔
اب آپ ایمان سے کہیں کہ کیا یہ باتیں کسی انسان کے اختیار میں ہیں اور ذرا اپنے د ل کو تھام کر سوچ لیں کہ کیا ایسی پیش گوئی سچ ہونے کی حالت میں انسان کا فعل ہوسکتی ہیں ۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام ج۵ ص۳۲۵ ،روحانی خزائن ج۵ص۳۲۵)
’’ میں با ربار کہتا ہوں کہ نفس پیش گوئی داماد احمد بیگ کی تقدیر مبرم ہے اس کی انتظار کرو اور اگر میں جھوٹا ہو ں تو یہ پیش گوئی پوری نہیں ہوگی اور میری موت آ جا و ے گی اور اگر میں سچا ہوں تو خدا تعالیٰ ضرور اس کو بھی ایسے ہی پوری کردیگا جیسا کہ احمد بیگ اور آتھم کی پیش گوئی پوری ہوگئی اصل ہی مدعا تو نفس مفہوم ہے اور وقتوں میں تو کبھی استعارات کا بھی دخل ہوجاتا ہے۔‘‘
(انجام آتھم حاشیہ روحانی خزائن ص۳۱ج۱۱)
اس پیش گوئی کے بارے میں چند اہم معلومات:
۱) مرزا نے ۲۰ ؍فروری ۱۸۸۸ ء میں محمدی بیگم سے نکاح کی پیش گوئی کی ۔
۲) محمدی بیگم کا نکاح ،سلطان احمد سے ۷ ؍ اپریل ۱۸۹۲ء کو ہوا۔
۳) احمد بیگ ۳۰ ستمبر ۱۸۹۲ء کو فوت ہوا ۔
(آئینہ کمالات الاسلام روحانی خزائن ج۵ ص۲۸۶)
مرز اکا دجل و فریب:
مرزا کو اصل الہام یہ ہوا تھاکہ و ہ لڑکی اس عاجز کے نکاح میں آئے گی خواہ پہلے ہی باکرہ ہونے کی حالت میں آجائے یا خداتعالیٰ بیوہ کرکے اس کولے آئے ۔
(مجموعہ اشتہارات ج۱ص۲۱۹)
جب محمدی بیگم کا نکاح سلطان بیگ سے ہوا تو مرزا نے پیش گوئی کے الفاظ بدل دیے چنانچہ لکھتا ہے :
’’ ۱) مرز ا احمد بیگ ہوشیار پوری تین سال کی میعاد کے اندر فوت ہو
۲) اور پھر داماد اسکا جو اس کی دختر کلاں کا شوہر ہے اڑھائی سال کے اندر فوت ہو
۳) اور پھر یہ کہ مرزا احمد بیگ تاروز شادی دختر کلاں فوت نہ ہو
۴) اور پھر یہ کہ وہ دختربھی تا نکاح اور تا ایام بیوہ ہونے اورنکاح ثانی کے فوت نہ ہو
۵)اور پھر عاجز ان تمام واقعات کے پورے ہونے تک فوت نہ ہو
۶)اور پھر اس عاجز سے نکاح ہوجائے اور ظاہر ہے کہ یہ تمام واقعات انسان کے اختیار میں نہیں ۔‘‘
(شہادۃ القرآن ص۸۰روحانی خزائن ص۳۷۶ ج۶)
محمدی بیگم کے متعلق چند مزید الہامات:
’’انازوجناکھا (تذکرہ ص۲۴۸) یعنی ہم نے تیرا نکاح اس سے کردیا‘‘
اور یہی عبارت مرزائیوں کے قرآن یعنی تذکرہ کے صفحہ ۲۸۳ پر بھی موجود ہے ان میں صاف آگیا کہ خدا تعالیٰ نے مرزا صاحب کا نکاح محمدی بیگم سے کردیا۔
انا مھلکوا بعلھا کما اھلکنا اباھا ورادوھا الیک
(تذکرہ قدیم ص۲۲۶)
یعنی ہم محمدی بیگم کے خاوند کو ہلاک کریں گے جس طرح اس کے باپ کو ہلاک کیا اور اس کو تیری طرف لوٹائیں گے۔
﴿تبصرہ﴾
مرزا قادیانی اپنی اس پیش گوئی میں دوسری پیش گوئیوں کی طرح جھوٹا نکلا اور یہ پیش گوئی جس کو اپنی صداقت کا نشان ٹھہرایا تھا وہ اس کے جھوٹے ہونے کا واضح اور کھلا نشان ثابت ہو ا مرز اغلام احمد قادیانی اور اس کی امت اس میں ذلیل ورسوا ہو کرپریشانی کے عالم میں اس کی مختلف تاویلات کرتی ہیں ۔امر واقع یہ ہے کہ مرزا قادیانی اپنے ان دعووں میں پورے طور پر جھوٹا ثابت ہوا کوئی ایک دعویٰ بھی اس کا سچا ثابت نہیں ہوا اور مرزا سلطان محمد جس کو بمطابق پیش گوئی مرز ا ، اڑھائی سال میں مرنا تھا یا کم از کم مرزا کی زندگی میں مرنا تھا وہ بقید حیات رہا اور مرزا کے مرنے کے چالیس سال بعد تک زندہ رہا یعنی ۱۹۴۸ ء میں فوت ہوا، اور محمدی بیگم جو مرزا قادیانی کے کذب کا کھلا نشان اور منہ بولتا ثبوت تھی ۱۹۶۶ء میں بحالت اسلام ۱۹ نومبر بروز ہفتہ بمقام لاہو ر فوت ہوئیں ۔ حالانکہ مرز اقادیانی نے اپنی اس پیش گوئی کی تائید میں وہ حدیث بھی پیش کی جسمیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں آتا ہے کہ حضر ت عیسیٰ علیہ السلا دنیا میں تشریف لانے کے بعد شادی بھی کریں گے اور ان کی اولاد بھی ہوگی ۔ ’’ یتزوج ویولد لہ ‘‘ کے الفاظ ہیں مرز اقادیانی نے اس حدیث کو اپنے متعلق قرار دیتے ہوئے اس سے محمدی بیگم سے شادی ہونا مراد لی ۔
(ضمیمہ انجام آتھم ص۵۳ ،روحانی خزائن ج ۱۱حاشیہ ص۳۳۷)
خدا کو منظو ر ہی یہ تھا کہ اس دجال کو ذلیل ورسوا کیا جائے اور مرزا قادیانی باوجود اتنے دعووں اور اتنے زور وشور سے پراپیگنڈہ کرنے کے باوجود خائب وحاسر ہوا۔ فالحمدﷲ علی ذلک ۔
نوٹ﴾ مرزا فضل احمد کی سا س یعنی مرزا صاحب کی سمدھن محمدی بیگم کی پھوپھی لگتی تھی یعنی احمد بیگ کی بھانجی لگتی ہے اسکا نا م عزت بی بی تھا ۔مرزا نے تریاق القلوب مطبوعہ ۱۹۰۱ء ص۷۰ پر لکھا ہے کہ
’’ عرصہ ۲۱ برس کے قریب یہ الہام بھی ہوا کہ’ بکروثیب‘ یعنی ایک کنواری اور ایک بیوہ تمہارے نکاح میں آئے گی ۔‘‘
مرزا کو ۲۱ برس بعد یہ الہام یاد آیا اور امید تھی کہ محمدی بیگم اگر کنواری نہیں تو بیوہ ہوکر عقد میں آئے گی مگر مرزا کی وفا ت تک وہ مرزا سلطان محمد کی سہاگن ہی رہی اور یہی عرصہ نہیں بلکہ مرز اکے بعد چالیس بر س تک وہ سلطان محمد کے بستر راحت کی زینت رہی اور بہر حال مرزا کی اس نامراد عاشقی کے ایام مستعار میں نہ وہ بیوہ ہوئی اور نہ ہی مرزا کا یہ الہام شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔
تذکرہ( مجموعہ الہامات مرزا)کے مصنف نے اس کی یہ تاویل کی ہے کہ یہ الہام اپنے دونوں پہلوؤں سے مرزا کی بیوی نصرت جہاں کی ذات میں ہی پورا ہوا جو کہ باکرہ آئی اور ثیبہ ہوکررہ گئی ۔ (تذکرہ حاشیہ ص۳۹)
یہ تاویل قادیانی تاویلات کی ایک ادنیٰ سی جھلک اور نمونہ ہے کہ اگر مرزا کی بیوی بیوہ ہوگئی توگویا مرزا کا بیوہ سے نکاح ہوگیا اور یہ پیش گوئی اس طرح پوری ہوگئی۔
مرزا کی اکثر پیش گوئیاں اسی انداز سے پوری ہوئیں او ردرحقیقت اسی طرح کی تاویلات سے قادیانیت کا قصر ارتداد کھڑا ہے اگر ان تاویلات کا سہارا ہٹادیاجائے تو ایک لحظہ میں قادیانی کا قصر ارتداد زمین بوس ہوجائے۔
﴿تیسری دلیل ﴾
شاعری مرزا
مرزا نے اپنی صداقت میں قصیدہ اعجاز یہ پیش کیا اسکے علاوہ مرز ا کا اوربے شمار منظوم کلام بھی ہے جس کو ’’ در ثمین ‘‘ عربی اردو اور فارسی تین حصوں میں علیحدہ علیحدہ جمع کیا گیا ہے حالانکہ شعر نبی کیلئے لائق نہیں بلکہ نبی کیلئے تہمت ہے اور کفار نا ہنجار نے رسول اﷲ ﷺ پر یہ تہمت لگائی :
’’ أئنالتارکوا الھتنا لشاعر مجنون‘‘ (پ۲۳سورۃ۲۷ آیت ۳۶ع۲)
اور خدا تعالیٰ نے اس کا جواب دیا :
’’ وما علمناہ الشعر وما ینبغی لہ ‘‘ (پ۲۳،سورۃ یس آیت۶۹)
مرزاچونکہ جناب نبی اکرم ﷺ کے ظل اور بروز ہونے کا مدعی ہے ، لہذا اس کو بھی شعر کہنا زیب نہیں دیتا ۔ مرز ا کو کیا معلوم تھا کہ جس شاعری کووہ اپنا کمال سمجھ رہاہے وہی اس کے جھوٹے ہونے کا کھلا نشان بن جائے گا۔ باقی رسول اﷲ ﷺ سے جو موزوں کلام منقول ہے وہ شعر نہیں ہے وہ کلام اتفاقیہ موزوں ہوگیا ، جیسے ’’ ھل انت الااصبع دمیت وفیی سبیل اﷲ مالقیت ‘‘ یا جیسے ’’ اللھم لاعیش ال عیش الاخرۃ فاغفرالانصار والمھاجر ۃ ‘‘
ان کو اصطلاحاً شعرکہنا مناسب نہیں ہے ۔شعر کی تعریف یہ ہے :
’’ ھو کلام موزون یقصد بہ قال الشیخ السمعانی النظم ھو الکلام المقفی الموزون قصداً‘‘
یعنی شعر میں قصد اورارادہ شرط ہے جو بلا ارادہ و بلا قصد کلام موزوں ہوجائے اس کو شعر نہیں کہتے ۔
علاوہ ازیں مرز اصاحب نے اپنے اس قصیدے کو اعجازیہ کہا یعنی اس کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا مگر مولوی منت اﷲ مونگیری نے اس قصیدے کا جواب لکھ کراس کے اعجاز کو خاک میں ملادیا تھااورپیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی نے بھی اس قصیدہ کی اغلاط اور چوریاں بیان کیں تھیں لیکن اگر اس کا مقابلہ کوئی بھی نہ کرسکتا تو پھر بھی ہم کہتے ہیں کہ وہ بجائے خود مرزا صاحب کے کذاب ہونے کی کھلی نشانی تھی ۔ جو چیز اصل (حضرت محمد مصطفی) میں ہونا عیب ہو ،وہ بروز (مرزا غلام احمد ) میں ہوناکمال کیسے ہوسکتی ہے؟ فافہم و تدبر۔
﴿چوتھی دلیل ﴾
مختلف زبانوں میں وحی
قرآنی اصول :
قرآن مجید میں ہے’’ وما ارسلنا من رسول الابلسان قومہ ‘‘ (پ۱۳ سورۃ ابراہیم آیت ۴ ) کہ ہم نے ہر رسول کو اس کی زبان کے اندر وحی کی اور یہ اصول حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر حضرت محمد ﷺ تک قائم رہا ۔
اب سوچئے اگر مرز اخدا کا نبی تھا تو اس کی وحی بھی اس کی قوم کی زبان کے مطابق یعنی پنجابی یا اردو میں ہونی چاہیے تھی مگر مرزائیوں کے قرآن (تذکرہ) کے اندر جو وحی مذکور ہے اس میں تقریباً د س زبانیں ہیں یہ تعدد السنۃ ہی مرزا کے کذاب ہونے کی صریح دلیل ہے علاوہ ازیں بھی مرزا پر بعض ایسی زبانوں میں بھی وحی ہوئی جن کو وہ خود بھی نہ جانتا تھا اور اپنی وحیوں کے ترجمے دوسروں سے سمجھتا تھا یہ بھی اس کے جھوٹا ہونے کی صریح دلیل ہے ۔
مرزائیو! کوئی نبی ایسا بتاؤ جسکے اوپر دوتین زبانوں میں وحی آئی ہو اور کوئی نبی بتاؤ جو اپنی وحی کا ترجمہ نہ جانتا ہو۔
مرزائی عذر نمبر ۱:
یہ متعدد زبانوں کے اندر وحی ہونا مرزا صاحب کے کمال کی دلیل ہے نہ کہ ان کے جھوٹا ہونے کی ۔ جتنی زیادہ زبانوں میں وحی ہوگی وہ اس نبی کا کمال ہوگا۔
جواب:
اول تو قرآنی ر وسے یہ کمال ہی نہیں کمال یہی ہے کہ اس کی اپنی قومی زبان کے اندر وحی ہو بفرض محال اگرکمال مانیں بھی تو اس وحی کو سمجھنا بھی کمال ہے اور مرزا اپنی بعض وحیوں کو سمجھ ہی نہیں سکتا تھا بلکہ دوسرے لوگوں سے ترجمہ پوچھتا تھا اور پھراگر یہ کمال ہے تو گویا مرزا تمام انبیاء سے اس کمال میں سبقت لے گیا کیونکہ دیگر انبیاء کو تو صرف ایک ہی زبان میں وحی ہوتی تھی ۔
مرزائی عذر:
مرزا صاحب چونکہ انٹرنیشنل نبی تھے اس لیے ان کے اوپر متعدد زبانوں میں وحی آئی ۔
جواب نمبر ۱:
حضرت محمد مصطفی ﷺ انٹرنیشنل نبی تھے ان کے اوپر کیوں نہ متعدد زبانوں میں وحی آئی اور مرزا صاحب کا دعویٰ ہے کہ میں ان کا ظل اور بروز ہوں تو نبی ﷺ پر اتنی زبانوں میں کیوں نہ وحی آئی ؟ عجب بات ہے کہ اصل سے ظل اور بروز بڑھ جائے۔
جواب نمبر ۲:
اس وقت دنیا میں تقریباً ساڑھے چار ہزار زبانیں بولی جاتی ہیں اگر مرزا انٹرنیشنل نبی تھا تو پھر اس کو ساڑھے چار ہزار زبانوں میں وحی ہونی چاہیے تھی۔ مزید لطف کی بات یہ ہے کہ مرز ا صاحب پر بعض وحی ایسی بھی آئی جو لفظاً ولغۃً ٹھیک نہ تھی یہ بھی اس کے جھوٹا ہونے دلیل ہے۔
﴿پانچویں دلیل ﴾
مولانا ثناء اﷲ رحمۃ اﷲ کے ساتھ آخری فیصلہ
اس کے بارے میں مکمل تفصیلات محمدی پاکٹ بک ص۶۴۹ پر ملاحظہ فرمائیں ۔ ہم مرز اکے اشتہار کا خلاصہ بیان کرتے ہیں ۔
’’ بخدمت جناب مولوی ثناء اﷲ صاحب السلام علی من ا تبع الھدیٰ۔ مدت سے آپ کے پرچہ اہل حدیث میں میری تکذیب وتفسیق کا سلسلہ جاری ہے ہمیشہ آپ مجھے اس پرچہ میں کذاب و دجال ، مفسد کے نام سے منسوب کرتے ہیں ۔ میں نے آپ سے بہت دکھ اٹھایااو رصبر کرتا رہا اگر میں ایسا ہی کذاب اور مفتری ہوں جیسا کہ اکثر اوقات آپ اپنے ہر ایک پرچہ میں مجھے یاد کرتے ہیں تو میں آپ کی زندگی میں ہلاک ہوجاؤں گا اور اگر میں کذاب ومفتری نہیں ہوں اور خدا کے مکالمہ اورمخاطبہ سے مشرف ہوں اور مسیح موعود ہوں تو میں خدا کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ آپ سنت اﷲکے موافق مکذبین کی سزا سے نہیں بچیں گے پس اگر وہ سزا جو انسان کے ہاتھوں سے نہیں بلکہ محض خدا کے ہاتھوں سے ہے جیسے طاعون ہیضہ وغیرہ مہلک بیماریاں ، آپ پر میری زندگی میں وارد نہ ہویں تو میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں۔ یہ کسی وحی یا الہام کی بنا ء پر پیش گوئی نہیں بلکہ محض دعا کے طور پر میں نے خدا تعالیٰ سے فیصلہ چاہا ہے ۔ اے میرے پیارے مالک میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ مولوی ثناء اﷲ صاحب کی زندگی میں مجھے ہلاک کر اور میری موت سے ان کو اور ان کی جماعت کوخوش کردے ۔آمین!
بالآخر مولوی صاحب سے التماس ہے کہ وہ میرے اس مضمون کو اپنے پرچہ میں چھاپ دیں اور جوچاہیں اس کے نیچے لکھ دیں اب فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے ۔‘‘
الراقم عبدالصمد مرزا غلام احمد مسیح موعود
مرقومہ یکم ربیع الاوّل ۱۳۲۵ھ ،۱۵ ؍اپریل ۱۹۰۷ء
(مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۷۸)
خدائی فیصلہ :
اﷲ تعالیٰ کی نظروں میں چونکہ مرزا قادیانی کذاب و دجال اور جھوٹا تھا اس لیے اس دعاء کے پورے ایک سال ایک ماہ گیارہ دن بعد یعنی ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء کو مرزا ہیضہ کی مو ت سے لاہور میں مرگیا اور اﷲ تعالیٰ نے مولوی ثناء اﷲ صاحب اور ان کی جماعت اور تمام مسلمانوں کو خوش کردیا۔ مرزا کے مرنے کے بعد چالیس سال تک مولوی صاحب زندہ رہے اور ۱۹۴۸ء میں سرگودہا میں وفات پائی ۔
(جاری ہے...)
٭٭٭
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں