منگل، 19 مارچ، 2019

ملحد کی سائنس اور انسانیت سے بغاوت - سید عکاشہ

When atheism goes against science and morality
الحاد کے ساتھ ٹریجڈی یہ ہے کہ وہ کئی معاملات میں ایسی گلیوں میں جا نکلتا ہے جس کے آخر میں دیوار راستہ روکے کھڑی ہوتی ہے۔ ایک مختصر اور جامع تحریر جو ملحدین کی اس عادت کا منصفانہ جائزہ لیتی ہے۔
(مدیر)
الحاد دو ۲ امور کو اپنا بنیادی ہتھیار بناتا ہے اور ان دونوں کے سبب مذہب کی تنقیح کرتا ہے اور حامیانِ مذہب پر جرح کرتا ہے۔ ایک چیز تو سائنس ہے جبکہ دوسری چیز انسانیت ہے۔ اس تحریر میں یہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ان دونوں سے الحاد کا کوئی تعلق نہیں۔

 سائنس سے بغاوت

ابتداء سائنس سے کرتے ہیں۔ ایک اصولی بات سمجھ لینا لازم ہے کہ ہر ترکیب اپنی ابتداء میں دو چیزوں کے مربوط ہوجانے کی محتاج ہے:
    ۱۔ ایک سبب کا وجود رکھنا
    ۲۔ اس سبب کا اپنی ترکیب سے تعلق بنانا
اس کے بعد ہی ترکیب وجود میں آتی ہے۔ قدرت کا یہ بنیادی دستور ہے اور یہ ایک (self-evident)  سچ ہے جس کے انکار کی استطاعت کی جرأت وہ نہیں کرسکتا۔
میں کمپیوٹر کے کی بورڈ کا استعمال کر رہا ہوں تب ہی وہ الفاظ میں منتقل ہو کر ٹائپ ہورہے ہیں، اس معاملہ میں بھی دو چیزیں ہیں:
    ۱۔ ایک میرے ہاتھ کی فعلیت کا کی بورڈ پر وجود رکھنا
    ۲۔ اس وجود کا اپنی ترکیب سے تعلق بنانا
یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی چیز اس کے بغیر وجود رکھ لے۔
ریاضی میں کہا جاتا ہے کہ ایک سیب میں لوں اور کچھ دیر بعد اس میں ایک سیب کا اضافہ کردوں تو دو سیب بن جاتے ہیں۔ اس میں بھی اس قانون کی پاسداری ہے۔ ایک سیب میں ایک سیب جوڑ دینے سے چار یا پانچ سیب نہیں بنتے بلکہ دو ہی بنتے ہیں کیونکہ وہ ایک سیب کی انفرادیت (distinction) دوسرے سیب کی انفرادیت سے جب ربط بناتی ہے تو جو ترکیب وجود میں آتی ہے وہ دو سیب ہی بناتی ہے۔
سائنس بھی اسی دستور کا پابند ہے۔ کسی دوائی سے بیمار کو شفا ملتی ہے۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ شاید یہ سب خود بخود ہوجاتا ہو۔ بلکہ دوائی کے اجزاء کا انسانی جسم سے ربط بنانا لازم سمجھا جاتا ہے اور اس کی بنیاد یہی (self-evident) سچّائی ہے جو اشیاء کی ترکیب کو زیرِ بحث اس کے سبب سے ربط کی بنیاد پر تسلیم کرتی ہے۔
کسی کے ذہن میں یہ خیال نہیں آتا کہ شاید دوائی اور شفاء کا کوئی تعلق نہ ہو کیونکہ وہ اس سچائی میں یقین رکھتے ہیں۔ 
خدا کا وجود ایک حقیقت ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہ از خود (self-evident) سچّائی ہے اور ایک وجہ یہ کہ یہ قانونِ ربط اس کے وجود کو لازم کرتا ہے۔ جب ہر چیز کا ترکیب پانا، اس کے سبب کے وجود اور ربط کا پابند ہے، تو یہ کائنات جو اپنی تمام صفات کے لحاظ سے محدود ہے کیونکر اس اصول سے بغاوت کریگی؟ 
سائنس، ریاضی، فلسفہ، طب وغیرہ کی بنیاد جس اصول پر ہے، وہ اصول یہ لازم کرتا ہے کہ وجودِ خدا بھی ہونا چاہیئے۔ مگر یہاں آکر ملحد کی فکر متغیر ہوجاتی ہے اور وہ کہتا ہے کہ نہیں! ایسا نہیں ہے، اس معاملہ میں ایسا نہیں ہوا۔ لارنس کراس جیسے کہتے ہیں کہ شاید یہ کائنات بغیر کسی شے کے یعنی nothing سے وجود میں آگئی ہو۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ ہمیشہ سے ہے۔ بعض کائنات اور خدا میں فرق سمجھے بغیر یہ منطق لڑاتے ہیں کہ جب خدا بغیر کسی کے بنائے بن سکتا ہے تو یہ کائنات کیوں نہیں؟ الغرض جس سائنس کا رونا وہ روتے ہیں، اسی سے بغاوت کرجاتے ہیں۔

 انسانیت سے بغاوت

اب انسانیت کے متعلق الحاد کے نظریہ کی وضاحت بھی ہم ضروری سمجھتے ہیں۔ ہم اکثر کہتے ہیں:
اگر خدا نہیں ہے، تو ہمارے پاس بھلائی اور اچھائی کے جانب راغب ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
یہ دلیل بہت سے لوگوں نے دی ہے اور اس پر ملحد یہ اعتراض کیا کرتے ہیں:
"تم لوگ کتنے خود غرض ہو؟ صرف جزا و سزا کے لیے اچھے بنتے ہو؟ تم لوگوں میں انسانیت ہی نہیں ہے"
در اصل یہ سب انہوں نے اپنے بڑے مولوی صاحب رچارڈ ڈاکنز سے طریقہ اخذ کیا ہے اور وہی ہر مذہبی پر تھوپ دیتے ہیں۔ 
ہم کب کہتے ہیں کہ جزا و سزا کے لیے ہی انسان اچھا بنتا ہے؟ بلکہ ہم کہتے ہیں کہ اگر خدا کا وجود نہیں تو بھلائی اور برائی جیسے نظریات کا کوئی حقیقی وجود بھی ثابت نہیں ہوسکتا۔
کیسے؟
کوئی بھی چیز کیوں بری ہے یا کیوں بھلی ہے؟
ایک جواب تو یہ ہوسکتا ہے کہ اس لیے بری ہے کہ انسانیت کے خلاف ہے وغیرہ وغیرہ؟
مگر سوال پھر پیدا ہوتا ہے:
ہمیں انسانیت پر کیوں چلنا ہے؟ 
وہ کہے گا کہ قومیں ایسے ہی بن سکتی ہیں ورنہ انسان دنیا سے ختم ہوجائیں گے۔ پھر سوال پیدا ہوتا ہے:
انسانوں کے دنیا سے ختم ہوجانے کی ہم کیوں فکر کریں؟
وہ اس مقام پر اگر ملحد ہے تو آ کر عام طور پر یہی کہہ دے گا کہ تم لوگ کتنے بیشرم بے حیاء ہو تم انسانوں کی فکر نہیں کرتے، انسانیت نہیں تم میں وغیرہ وغیرہ مگر منطقی لحاظ سے مزید کچھ ثابت نہیں کر پائے گا۔ سوالات کا سلسلہ تو کسی طور ختم نہیں ہوگا۔ 
اس کا حل کیسے نکلے؟ ہم پر فرض ہے یعنی ہماری ڈیوٹی ہے کہ ہم اچھے بنیں (اس بات کو اخلاقیات کے حوالے سے کانٹ نے بھی ذکر کیا ہے)، مگر کیوں؟ ایک مذہبی کے پاس سادہ اور بہت ہی آسانی سے سمجھ میں آنے والا جواب ہے کہ خدا نے ہمیں اسی لیے پیدا کیا ہے۔ خدا کی خلقت اسی لیے ہوئی ہے اور ہمارا مقصد یہی ہے مگر اس موقع پر ایک ملحد کے پاس کوئی جواب نہیں ہوگا۔
بعض ملحد فلسفیوں نے الجھا کر اس مسئلہ کو بھی ثابت کرنے کی کوشش کی مگر کئی فلسفی ملحدین مثلاََ جے-ایل میکی ( .L Mackie) نے تو اعتراف بھی کرلیا ہے کہ اخلاقیات کا کوئی فی نفسہ (objective) وجود نہیں۔ ایسے میں دنیا والوں کو کیسے قائل کیا جائے گا اور کیا مستقبل میں اخلاقی زوال پیدا ہونے کا امکان نہیں ہوگا؟ نہلسٹ (nihilists یعنی وہ جو اخلاقیات اور مذہب سب کے منکر ہیں) کو ہی دیکھ لیں۔ وہ اخلاقیات کو نہیں مانتے، جبکہ absurdists اپنی مرضی کے اخلاقیات بنانے کے قائل ہیں۔ اب کیا کیا جائے گا؟
٭٭٭
     

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں