جمعرات، 14 مارچ، 2019

اسلام پھیل رہا ہے - شکیبؔ احمد

Spread of Islam - A reality check for Muslims
کبھی آپ نے گوگل کیا ہے کہ سب سے تیز رفتاری سے کون سا مذہب پھیل رہا ہے؟
اسلام! 
کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ عیسائی اپنے مذہب کی تبلیغ میں لالچ دینے کو کوئی برا نہیں سمجھتے، یہی وجہ ہے کہ عیسائیت بھی کافی تیزی سے پھیل رہی ہے۔ لا تعداد لٹریچرکی تقسیم، مشنریوں کے ذریعے انتھک محنتیں، جھوٹ، لالچ، پروپگینڈہ، کیا نہ کر ڈالا!  بے چارے سروے کر کر کے تھک گئے، لیکن سب سے تیزی سے پھیلنے والا مذہب اسلام ہی رہا۔ پتہ ہے کیوں؟ کیونکہ اسلام محض لگے بندھے اصولوں کو آنکھ بند کر کے ماننے پر زور نہیں دیتا، بلکہ عقلی استدلال Reasoning کی بھی بات کرتا ہے۔  یونہی تو ساری دنیا اسلام کی آغوش میں نہیں آ رہی، ہماری کمزوریوں اور  نالائقی کے باوجود!
اب پوچھیے کہ نالائقی کیسی؟ ہم مسلمانوں کی ایک بڑی گندی عادت ہے کہ بات بے بات پدرم سلطان بود کہہ کر وجد میں آ جاتے ہیں۔ مجھے بتائیں، اگر چار مشینوں میں سے ایک مشین ٹھیک ٹھاک چل رہی ہو تو کیا آپ اس پر خوش ہوں گے یا بقیہ تین کی درستگی کی فکر کریں گے؟ ایک طرف دنیا اسلام کو جائے پناہ کے طور پر دیکھ رہی ہے، جس پر ہم فخر کرتے ہوئے مسکرائے جا رہے ہیں۔ لیکن دوسری طرف الحاد کی لہر نے نئی نسل کو لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ کالجوں میں پڑھنے والے لا مذہبیت سے کتنا قریب ہیں،  ان کے ذہنوں میں دیکھیے تو پتہ چلے گا۔ کیا کالج پڑھنے والے اور مغربیت سے متاثر اکثر نوجوان ہم جنس پرستی Gay Sex کے حامی نہیں ہو چکے؟  کیا انہیں پردہ قید نہیں لگ رہا؟ کیا وہ بھی اسلام کے نظامِ وراثت کے متعلق شبہات کا شکار نہیں ہیں کہ لڑکی کو آدھا حصہ کیوں ملے گا؟
سب سے زیادہ تیزی سے بڑھنے والا مذہب کون سا ہے؟ ارے ابھی تو بتایا تھا – اسلام! درست۔ لیکن اس ”اسلام“ میں سب سے زیادہ تیزی سے بڑھنے والا فرقہ قادیانیت ہے۔  جو سروے ہم اخباروں میں پڑھتے ہیں اور دھڑادھڑ شیئر کرتے ہیں کہ اسلام پھیل رہا ہے، وہ اخبار والے قادیانیت کو اسلام ہی میں شامل کرتے ہیں۔
آپ کو وہ کارگزاری یاد ہوگی جس میں ہندو بھائی اسلام قبول کرنے کو کہتا ہے لیکن اسے  کلمہ نہیں پڑھایا جاتا۔ ہم نے ”دعوتِ حق غیر مسلموں میں“ کا سلسلہ اسی وجہ سے شروع کیا تھا کہ کسی کے قبولِ اسلام پر ”الحمد للہ“ کہنے کے ساتھ ساتھ ہمیں کچھ اپنا چہرہ بھی نظر آئے۔  ملاحظہ ہو:
انھوں نے کہا پہلے آپ دونوں مسلمان ہو کرمسلمان ہو نے کا بیان حلفی سرکاری وکیل سے بنوا کر لاؤ، میرے شوہر نے کہا آپ ہمیں مسلمان بنا لو، انھوں نے مسلمان کرنے سے انکار کر دیا۔
(سر بکف ۹، ص ۱۸)
اتنے میں ایک ساتھی مجھ سے بولا، تم لوگ صرف پیسے کے لئے مسلمان ہونے کا ناٹک کرتے ہو، اب کسی کو مت بول کہ تو نو مسلم ہے، ورنہ دھکے مار کر نکلوا دوں گا۔
(سر بکف ۷، ص ۲۵)
یہ کوئی ایک بار نہیں، سینکڑوں بار ہو چکا ہے اور اب بھی ہوتا ہے۔ مسلمان ہونا کیا ہے؟ دل سے  چند الفاظ کہنے ہوتے ہیں، اس کی وجہ سے کوئی ہمیشہ کی آگ سے بچ جاتا ہے۔ ہمیشہ، اس لفظ پر ذرا غور کیجیے گا۔ ٹھیک ہے جہنم میں ایک سیکنڈ کا تصور بھی نہایت کربناک ہے، لیکن  گناہگار کبھی تو  باہر نکل آئیں گے۔ ان کا کیا جو کبھی باہر نہیں آئیں گے؟
امت کا درد ہم میں کب جاگے گا؟اپنی تعریف کی رو میں ہم ارتداد، بڑھتے ہوئے الحاد اور سوچوں کے بدلاؤ کو نظر انداز کیے کب تک بیٹھے رہیں گے؟  لیکن ہم تو فقط ”اسلام پھیل رہا ہے“ کا شور مچا کر پھول کر کپا ہوئے جاتے ہیں۔
چلیے ایک بار اور گوگل کیجیے: اگر اسلام سب سے زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہے تو مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ نہیں کے برابر کیوں ہے؟
کیونکہ تقریباً اسی تیزی کے ساتھ مسلمان مرتد بھی ہو رہے ہیں۔ عجیب بات ہے کہ یہی بات جب داعیِ اسلام کلیم صدیقی دامت برکاتہم کے بیانات میں سنتا تھا تو یقین نہیں ہوتا تھا۔
اس ارتداد کی وجہ؟ کچھ چھوٹی موٹی غلط فہمیاں-  اور وہ اسے رفع کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ یہ شبہات  شاید میرے اور آپ کے ذہن میں بھی ہیں، آپ کے اسکول کالج جاتے بچے کے ذہن میں بھی ہیں، لیکن ان سے نمٹنے کی کوشش نہیں کی جا رہی۔
پچھلے کچھ سالوں میں انٹرنیٹ کی دنیا پر بے شمار ملحدوں سے واسطہ پڑا ہے اور ایک بات اکثریت میں دیکھی ہے، ضد اور ہٹ دھرمی۔ اس سے  نمٹنے کا طریقہ ضد ہرگز نہیں ہے۔ اگر آپ نے بحث میں ضد پکڑ لی تو سمجھ لیں آپ انصاف نہیں کر رہے۔
جائیے، فیس بک پر Atheism (الحاد/دہریت) کے کسی بھی گروپ میں شامل ہو جائیے اور ان کے اعتراضات کا جائزہ لیجیے: کافروں کو قتل کرنے کا حکم ہے، قرآن صرف مار کاٹ کا حکم دیتا ہے، غلام اور باندیوں کے کلچر کو فروغ دیا جاتا ہے، کوئی اسلام سے پھر جائے تو اسے قتل کردیا جاتا ہے، ہم جنس پرستی ممنوع کر رکھی ہے، عورتوں کو قید کر رکھا ہے وغیرہ۔ مرتد کی سزا تو آپ سے  ہر دوسری پوسٹ میں پوچھی جائے گی۔ گنتی کے کچھ  اعتراضات، جن کے جوابات پتہ نہیں کب سے دیے جا چکے ہیں جن سے عقل مطمئن ہو جاتی ہے۔  لیکن نہیں، وہ اعتراضات اب بھی ہیں۔  وجہ یہ ہے کہ انہیں صرف تماشہ دیکھنا ہے۔ جسے جواب ڈھونڈنا ہوتا ہے وہ ”اپنے عقیدے“ یا ”اپنے نظریے“ کے خلاف بھی دلائل دیکھتا ہے، محض اپنا جھنجھنا نہیں بجایا کرتا۔ 
اب آپ اپنا جائزہ لیں۔ کیا آپ بھی ایسے ہی ہیں؟
ایمانداری سے بتائیے گا، آپ نے اسلام کے خلاف کتب پڑھی ہیں؟ کبھی عیسائیت کے اسلام سے شکوے پڑھے؟ کبھی اسلام سے پھر جانے والوں کے واقعات کا مطالعہ کیا؟اگر اہلِ حدیث ہیں تو تقلید پر مقلدین کا نظریہ پڑھا ہے؟ مقلد ہیں تو تقلید کے رد پر کتب پڑھی ہیں؟بریلوی ہیں تو دیوبند کے نظریات جاننے کی کوشش کی ہے؟ دیوبندی ہیں تو بریلویت کا مطالعہ محض کیڑے نکالنے سے ہٹ کر سنجیدگی سے کیا ہے؟ کبھی ”اعلیٰ حضرت پر اعتراضات کے جوابات“ تلاش کیے ہیں؟ 
نہیں۔ کیونکہ یہاں سب کو اپنی دہی میٹھی بتانی ہوتی ہے۔ آپ جانتے ہیں اس کا نقصان؟ جی مطمئن نہیں ہوتا۔ ایک موضوع پر دونوں طرف کا مطالعہ کریں، آپ کا دل گواہی دے گا کہ حق کیا ہے۔  دل کے فتوے سچے ہوتے ہیں۔
بے شک  آپ شروع ”اپنی“ کتب سے کریں۔ اپنے دلائل پڑھیں، فلاں کے اعتراضات کے جوابات، فلاں کی غلط فہمیوں کا ازالہ، پھر تعصب کا چشمہ اتاریں اور  اپنے نظریات پر ”اعتراضات“ کی کتب پڑھیں۔ ہو گیا؟ اب دل سے پوچھیں کس کی بات دل کو لگتی ہے؟ آسان ترین کام۔ اب ذہن میں تجزیہ کریں ، ہم کتنی جگہ غلط تھے، وہ کتنی جگہ غلط تھے۔صدقِ دل سے  غلطیوں کو تسلیم کریں۔ کچھ نہیں ہوتا بھائی کچھ نہیں ہوتا۔ غلطیوں کو سمجھنے اور تسلیم کرنے سے آسمان بھی وہیں  قائم رہتا ہے اور زمین بھی پیروں کے نیچے ویسے ہی موجود ہوتی ہے۔  ہم خدا نہیں ہیں کہ غلطیوں سے معصوم ہوں۔ 
اگر آپ نے یہ کیا ہے تو اب آپ متشدد نہیں، ایک معتدل انسان ہیں۔ مبارک باد کے مستحق ہیں، کیونکہ یہی اسلام چاہتا ہے۔ اور اب ایک خوش خبری بھی سنیے، آپ دنیا کی سب سے بڑی جماعت میں شامل ہوئے ہیں۔ وہ جماعت  جو معتدل مزاج ہے۔ حیرت کی کوئی بات نہیں، یہ جو دھماچوکڑی آپ اخباروں، نیوز چینلز اور سوشل میڈیا پر  دیکھتے ہیں اس کی وجہ سے لگتا یوں ہے کہ سارے متعصب، متشدد اور کٹر قسم کے لوگوں نے دنیا بھر رکھی ہے، لیکن در اصل یہ معقولیت پسند اور معتدل مزاج لوگ تعداد میں زیادہ ہیں۔ ان کی طرف دھیان اس لیے نہیں جاتا کیونکہ خاموشی سنائی نہیں دیتی۔ تجربے کے طور پر کوئی بھی دس عام لوگ پکڑ لیں، ان سے مسلکی تعصب اور منافرت کے متعلق ”باریکی“ میں اگلوائیں اور نتائج دیکھیں۔ نفرت کسی کو پسند نہیں، ایک دوسرے کے خلاف نعرے کسی کو پسند نہیں۔ سب محبت سے رہنا چاہتے ہیں۔ بس ایک ذہنیت آڑے آ جاتی ہے جو شر کی پرچارک ہے۔ جو اندھی تقلید کی داعی ہے۔ جو آنکھوں پر پٹی باندھ کر محض اعتراضات کے ڈونگرے برسانے کو نصب العین بنائے ہوئے ہے۔ اس ذہنیت کو بدلنے کی ضرورت ہے اور اگر آپ اس کام کے لیے پر عزم ہیں تو دیر مت کیجیے۔  تشدد اور تعصب سے پاک ذہنیت پیدا کرنے کی لڑائی میں کود پڑیے۔
کچھ اسٹیپس کے ذریعے اسے آسان کرتا ہوں۔ مثال کے طور پر آپ کا واسطہ کسی لا مذہب سے پڑا۔ اس نے رٹائے ہوئے کچھ اعتراضات کیے۔  اب لائحۂ عمل دیکھیے:
  1. اس کے سوالات کی تعداد میں یا کہنے کے ڈھنگ میں خود کو بہنے مت دیجیے۔ آپ کے پاس وقت ہے، کہیں کہ” ہم یہ بحث سالوں جاری رکھ سکتے ہیں چنانچہ ایک ایک کر کے مسائل پر بات کرتے ہیں۔ “
  2.  اسے احساس دلائیے کہ نہ آپ متعصب ہیں اور نہ اسے تعصب سے کام لینے دیں گے۔
  3. فرض کیجیے اس کا پہلا اعتراض ہے  اسلام میںApostasy  یعنی ارتداد(کی سزا قتل کیوں)
  4. سوال کیجیے، ”کیا آپ نے اس ”اعتراض“ کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے؟“ زیادہ امکان ہے کہ وہ یہ جتلانے کے لیے کہ اس نے بہت کچھ پڑھ رکھا ہے، جواب اثبات میں دے گا۔ اب ایک آخری  آسان مرحلہ آپ کو انجام دینا ہے۔
  5. کہیے، ”فرض کریں کہ آپ کے اعتراض کا جواب مجھے نہیں معلوم تھا اور واقعی یہ بات مجھے بھی کچھ ٹھیک نہیں لگی، چنانچہ میں نے اسے تلاش کرنے کی کوشش کی تو اس کے نتیجے میں کئی جوابات مجھے ملے ہیں جنہوں نے مجھے مطمئن کر دیا ہے۔“ پھر وہ نکات اس سے شیئر کریں جنہوں نے آپ کو مطمئن کیا ہے (کیوں سارے مضمون میں کوئی ایک دو نکتہ ہی ایسا ہوتا ہے جو کلک کر جاتا ہے اور ہمارا شرحِ صدر ہو جاتا ہے)
اب قوی امکان ہے کہ وہ اس بات کو نہیں مانے گا، یا الزامی جواب دے گا یا بہانے تراشے گا۔۔۔ لیکن آپ نے اپنے حصے کا  کام کر دیا ہے۔ وہ نہ سہی، دیکھنے والوں میں کوئی تو ہوگا جسے آپ کا جواب مطمئن کر پایا ہوگا، اور اوپر عرض کیا جا چکا ہے کہ اکثریت معتدل افراد کی ہوتی ہے۔  اگر آپ خود دیوتائی رویے کو سائڈ میں رکھ کر نرمی سے اور سمجھنے سمجھانے کی غرض سے بات کریں، اپنی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہوئے ان کی غلط فہمیوں کا ازالہ کریں تو کچھ بعید نہیں کہ بات اثر کرے گی۔
یاد پڑتا ہے کچھ مہینے قبل ایک خاتون سے اس سلسلے میں کسی گروپ میں ٹاکرا ہوا۔ محترمہ کو اسلام میں خواتین کے حقوق پر اعتراض تھا کیونکہ ان کی بہن کے ساتھ ایک مسلمان نے بد سلوکی کی تھی جس سے اس کے بازو پر بہت سنگین نوعیت کا زخم ہو گیا تھا۔ میں نے نرمی سے تعزیت کی اور کہا :
”یہ ضرور ہے کہ ایک انسان سے اسلام کی نمائندگی نہیں ہوتی، لیکن وہ شخص بھی مسلمانوں ہی کا حصہ ہے چنانچہ میں اس بات کے لیے معافی چاہتا ہوں اور ایسے رویے کی سخت مذمت کرتا ہوں۔“
  اور واقعی دل سے افسوس کرنے کی بات بھی ہے۔ کون احمق ہے جو ایسی بات پر افسوس نہیں کرے گا۔ بس! اتنا کافی تھا۔ محترمہ کا لہجہ ہی بدل گیا۔ کیوں نہ بدلتا؟ جس گروپ میں سارے مل کر ثبوت اور دلائل کی بجائے ایک دوسرے کے مذاہب اور عقائد کا مذاق اڑانے میں مصروف ہوں، وہاں ایسی بات کرنے والا کوئی آئے گا تو فرق تو پڑے گا۔ 
آخر کچھ سوچ کر ہی سر بکف کے ہر شمارے میں زمرہ ” رد فرق باطلہ“  کی پیشانی پر یہ آیت لکھی جاتی رہی ہے:
اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ
اپنے رب کے راستے کی طرف لوگوں کو حکمت کے ساتھ اور خوش اسلوبی سے نصیحت کر کے دعوت دو ۔
(سورہ ۱۶،النحل:۱۲۵)
 اگر آپ کا دل اسلام کے کسی حکم پر، کسی کانسیپٹ پر مطمئن نہیں ہے تو سوال کرنے سے اسلام منع نہیں کرتا۔ خدارا،  سوال کرنے کو گستاخی نہ سمجھیے۔ اگر اسلام کا کوئی بھی اصول، کوئی بھی حکم عقل کے خلاف لگ رہا ہے تو اس بے چینی کو  خود میں دفن مت کیجیے۔ وہ آپ کے لاشعور میں موجود رہے گی، جو خدا نہ کرے آپ کو الحاد کی طرف گھسیٹ سکتی ہے۔
 جوابات موجود ہیں، سوال کرنے والے لوگ موجود نہیں۔ انہیں منقول کے ٹھپوں کے ساتھ پوسٹس کو فارورڈ کرنے سے فرصت جو نہیں ملتی!
فقیر شکیبؔ احمد
14 مارچ، 2019ءبروز جمعرات، 5:50 بجے شام
     

3 تبصرے:

  1. موجودی حالات کی واضح عکادی کرتی ہوئی ایک دل سوز اور متفکر تحریر، اللہ ہم سب کو معتدل مزاج رکھے، اور مذہب غیر کے لوگوں سے نرم کوئی سے گفتگو کا ملکہ عطا فرمائے.
    آمین.
    Hooliman@star

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. آمین۔
      واقعی موجودہ حالات میں نرم خوئی مفقود ہوتی جا رہی ہے۔ اللہ ہمیں حلم اور بردباری عطا کرے۔

      جزاک اللہ خیرا۔

      حذف کریں