قاری معاذ شاہد ﷾ (پاک پتن، پنجاب، پاکستان)
یہاں پر جو بھی بات لکھو لوگوں کو اعتراض ضرور ہوتا ہے معاشرے کی برائیوں کا تذکرہ کریں تو لوگوں کو غصہ آتا ہے کہ ایسی باتیں کیوں کرتے ہیں، آپ کو صرف برائیاں ہی نظر آتی ہیں۔ اگر کسی مثبت پہلو کو لے کر بات کریں تو کہتے ہیں کہ آپ کو برائیاں نظر نہیں آتیں۔
کئی تو ایسے تیر ہیں جو ہر جگہ ہر بندہ چلا لیتا ہے ہر بات پر کہہ دیا جاتا ہے کہ پانچ انگلیاں ایک برابر نہیں ہوتیں کون کہتا ہے کہ پانچ انگلیاں ایک برابر ہوتی ہیں مگر جب ایک لکھنے والا لکھتا ہے تو وہ ان پانچ انگلیوں میں سے دو کو ٹیڑھا سمجھتا ہے انہیں کو سامنے رکھ کر لکھتا ہے اور انہیں کی اصلاح مقصود ہوتی ہے اگر ہر کوئی یہی سوچے تو پھر تو کوئی بھی نہیں لکھ سکتا کیونکہ پانچ انگلیاں ایک برابر نہیں ہوتیں۔
اگر کبھی جنت کے شوق میں عمل کرنے کی ترغیب دی جائے تو کہا جاتا ہے کہ اللہ اور اسکی رضا کیلئے عمل کریں یہ نہ کہیں کہ جنت کیلئے کریں اور اگر کبھی اللہ کی محبت میں عمل کرنے کی ترغیب دیں تو جواب ملتا ہے انکو جنت کا بتا کر شوق دلوائیں تاکہ اس شوق سے عمل میں چستی پیدا ہو جس طرح صحابی نے حورِ عین کا سن کر کھجوریں پھینک دی تھیں کہ اب تو شہید ہونے میں جلدی کرنی چاہئے۔
کبھی اگر ملک کی عظمت اور اسکا شکر دل میں پیدا کرنے کیلئے کہا جائے کہ شکر کرو جیسا بھی ہے ہم آزاد ہیں یہ ہمارا ملک ہے اس پر فخر ہونا چاہئے، لوگوں کو دیکھ کر رال نہ ٹپکائیے ، تو کہا جاتا ہے کہ آپ زمین کے ٹکڑے پر فخر کی بات کرتے ہیں جہاں یہ نہیں وہ نہیں اور اگر کرنا ہے تو مسلمان ہونے پر فخر کریں۔
جب نماز کی بات کریں تو کہا جاتا ہے کہ آپ نماز کے پیچھے پڑے ہیں جب حلال کمائی نہیں تو نماز کیا قبول ہوگی ہم نے نمازیوں کو دکانوں پر چھرے پھیرتے دیکھا۔
جب کبھی دین پر چلنے کی بات کریں تو کہتے ہیں کہ مولوی آپس میں لڑ رہے ہیں آپ بتائیں کس دین پر چلیں ۔
کبھی سیدھے الفاظ میں نوجوان نسل کو شیشہ دکھا دیں تو آواز آتی ہے کہ آپ کیسی بات کیسے الفاظ لے آئے آپ کو شرم آنی چاہئے۔ (بھلے ہی ان کو کرتے ہوئے آئے یا نہیں۔)
جب کبھی ذکر اذکار کی بات کریں تو کہتے ہیں کہ عزتیں لٹتی رہیں تسبیح چلتی رہی ۔
اگر کبھی مختصراً عرض کریں تو اور پہلوؤں کو لے کر اعتراضات کی بوچھاڑ کر دی جاتی ہے۔ اور اگر ہر پہلو کو سامنے لائیں تو کہتے ہیں پوسٹ لمبی نہ کیا کریں ویسے بھی عوام بہت سمجھدار ہے ایک لفظ سے پورا ورق سمجھ جاتی ہے۔
ہر واقعے کی تاریخ اور دلیل مانگتے ہیں ہر حدیث مبارک کا ہر شخص حوالہ مانگتا ہے وہ بھی جس نے کبھی صحاح ستہ کھول کر بھی نہیں دیکھیں ۔ ایک سے حوالہ مانگ کر دوسرے کو کہتے ہیں اسکی تحقیق کر کے جلدی بتائیں ۔
اگر بات مردوں کی بد نظری کی ہو تو ارشاد ہوتا ہے عورتوں کو پردہ بھی تو کروائیں ان کو کہیں اور اگر عورتوں کو حجاب کا کہا جائے تو حکم صادر ہوتا ہے کہ مردوں کی آنکھوں میں حیا پیدا کریں۔
گزارش ہے کہ ہر تحریر میں پوری کتاب نہیں سموئی جا سکتی کہ اس میں اس موضوع کے ہر پہلو کو ذکر کیا جائے ۔ اگر ایک تحریر ایک ٹاپک پر ہے تو غور کریں شاید اس سے قبل اس کے دوسرے پہلو پر قلم اٹھ چکا ہو۔ اگر نہیں تو جب اللہ تعالی نے توفیق عطا فرمائی دوسرے پہلو پر بھی کچھ الفاظ لکھ دیں گے۔ جب معاشرے کی برائیوں کی بات ہو تو اعتراض سے پہلے معاشرے پر ایک نظر ضرور ڈال لیا کریں اور اگر واقعتاً ویسا ہی ہو جیسا کہا گیا ہے تو اس برائی کو ختم کرنے کی کوشش میں لگنا اور اپنے آپ سے اس کی ابتداء کرنا اچھا ہے یا اس شخص کو چپ کروانا ضروری ہے جو ہمیں شیشہ دکھا رہا ہے ؟
کہیں یہ نہ ہو کہ نشان ہمارے چہرے پر ہو اور ہم غصے میں آ کر شیشہ ہی توڑ دیں اور تالیاں پیٹیں کہ ...
”داغ تھا ...مٹا دیا ۔ جان چھوٹ گئی۔ “
٭٭٭
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں