پیر، 11 مارچ، 2019

تبلیغی جماعت کی مقبولیت کو سمجھیں

مولانا آفتاب اظہر صدیقی کشن گنجوی٭(بہار، الہند)

تبلیغی جماعت کوئی فرقہ یا مسلک نہیں؛ بلکہ فرقۂ مقبول اہل السنۃ والجماعۃ کی ایک تحریک ہے۔  ایک ایسی تحریک جس کا وجود قوم و ملت کی دین سے دوری کے درد کو دل میں جگہ دینے والے شخص کا اخلاص ہے... ایک ایسی تحریک جس کو صرف اس لئے عمل میں لایا گیا تاکہ مسلم عوام اپنے ایمان کی سلامتی کے ساتھ دنیا سے جائے... ایک ایسی تحریک جس نے پوری امت محمدیہ کی دینی بقاء کے لئے فکر لی... جس تحریک کے تحت مسلمانوں میں بے دینی کے ماحول کو ختم کرنے کا عزم لیا گیا... جس کے ذریعہ یہ فکر عام کی گئی کہ امت کس طرح جہنم کے سخت عذاب سے بچ کر جنت میں جانے والی بن جائے. لہذا تبلیغی جماعت کا عین مقصد اخروی کامیابی کا حصول ہے... کہ ہماری اصل زندگی یعنی آخرت سنور جائے... ہم اور ہمارے تمام مسلمان بھائی جنت میں جانے والے بن جائیں۔  یہ تحریک جہاں امر بالمعروف و نھی عن المنکر کے فریضے کو انجام دے رہی ہے وہیں دنیا کو امن و سلامتی کا پیغام بھی پہنچا رہی ہے۔ آج تبلیغی جماعت ساری دنیا میں مقبولیت پاچکی ہے اور یہ مقبولیت خدا کی طرف سے ہے... اللہ جل شانہ نے اس تحریک کی بے لوث محنت اور خلوصِ فکر کو قبولیت سے نواز کر ساری دنیا میں اس کی مقبولیت کو عام کر دیا ہے۔ گزشتہ ہزار صدیوں میں شاید ہی کسی تحریک کو اتنی جلد اتنی بڑی کامیابی مل گئی ہو جو تبلیغی جماعت کو نصف صدی میں ہی حاصل ہوئی۔ اس تحریک کی اس کامیابی کے پیچھے کئی وجوہات ہیں۔ مثلاً ً 
• اس تحریک کا تعلق مسلک اہل السنۃ والجماعۃ سے ہونا
• اپنی ذات کی اصلاح اور ایمان کی حفاظت کی مکمل فکر کرنا
• عالم اسلام کی دینی فکر کو لے کر چلنا
• اپنی جان، مال اور اپنے وقت کو بلا کسی دنیوی مفاد کے صرف اللہ کے لئے اس کام میں کھپانا
• فرائض و واجبات کے ساتھ ساتھ سنتِ نبوی و سنت صحابہ کی بے حد پابندی کرنا
• چھ نمبر ( ایمان، نماز، علم و ذکر، اکرام مسلم، اخلاص نیت اور تبلیغ) کی محنت کو ہر عام و خاص تک پہنچانا
• علماء کی رہنمائی میں رہ کر کام کرنا اور ان کا حد درجہ احترام کرنا
• تبلیغی سفر میں مساجد ( مکمل آداب کے ساتھ) اپنی قیام گاہ بنانا
 • ہر کام آپسی مشورہ سے طے کرنا
• اپنا ایک امیر بنا کر اس کی مان کر چلنا
یہ اہم امور ہیں جن کے سبب تبلیغی جماعت کو تقویت و قبولیت حاصل ہوئی۔
آج کل تبلیغی جماعت کی مخالفت بھی کی جانے لگی ہے؛ ٭بات صاف ہے کہ جب پیڑ پر پھل آنے لگتے ہیں تو پتھر بھی پھینکے جاتے ہیں؛ لیکن افسوس ہے ان علمائے قوم پر جو علی الاعلان اس کی مخالفت کرتے اور مخالفت میں تحریریں شائع کرتے ہیں؛ شاید وہ اس تحریک کے عالمی خوش کن نتائج سے ناواقف ہیں اور اس کی عالمی مقبولیت٭ سے ناآشنا ہیں، ان سے عرض ہے کہ آپ اپنے ہی مسلک کی اتنی بڑی اور مقبول ترین تحریک کی مخالفت میں کیوں لگے ہوئے ہیں؟ اگر اس تحریک سے منسلک کچھ لاعلم حضرات کم علمی کی وجہ سے غلو سے کام لے رہے ہیں یا تبلیغی جماعت کے بعض افراد بے اصولی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ ہم سرے سے اس تحریک کو ہی بدنام کرنا شروع کر دیں اور اس کی کلی مخالفت میں قلم کو تلوار اور زبان کو قینچی بنا دیں۔ آہ ہمارے اس مخالفانہ اقدام سے جہاں دوسرے باطل فرقے ہمارے مسلک کا مذاق اڑاتے اور ہمیں آپسی انتشار کا شکار بتاتے ہیں وہیں وہ لوگ بھی بد ظن ہو رہتے ہیں جن کی دینی اصلاح تبلیغی جماعت کی وجہ سے ہی ہوئی ہے، جن کو مسجد کا پتہ ہی اس تحریک کی محنت سے ملا ہے، جن کی نماز وغیرہ اسی تبلیغی جماعت میں جا کر درست ہوئی ہے۔ غلطیاں سدھارنے کے لئے مخالفت کا طریقہ کہاں درست ہے؟ اور گھر کا معاملہ تو گھر کے افراد ہی آپس میں مل بیٹھ کر سلجھاتے ہیں نہ کہ دنیا کو سنا کر۔  خدا را اس بات کو سمجھئے کہ اللہ تعالی نے اس تبلیغی جماعت کی تحریک کے لئے ہمارے مسلک حق اہل السنۃ والجماعۃ کا انتخاب کیا اور بے انتہا قبولیت سے نوازا، یہ ہمارے لئے خوش قسمتی اور فخر کی بات ہے۔  آج ہندو پاک اور بیرونی ممالک میں باطل فرقوں کے نہ پنپنے اور دب کر رہ جانے کی ایک بڑی وجہ تبلیغی جماعت کا زور اور اس کا اثر و رسوخ ہے۔  باطل کے لئے ہماری یہ تحریک ایک آہنی دیوار بن چکی ہے، اس تحریک کی قدر کیجئے۔ 
٭٭٭

٭ مخالفت تو مولانا الیاسؒ کے عہد ہی سے شروع ہو چکی تھی۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اب ”اپنوں“ کے اعتراضات بہت سامنے آ رہے ہیں۔ غلو کی حمایت کا فقیر بھی قائل نہیں، لیکن اس قدر شدت کے ساتھ مخالفت کرنا کہ لوگ تحریک ہی سے بدظن ہوجائیں، سراسر نا درست ہے۔(مدیر)
٭ کسی بھی تحریک کی عالمی مقبولیت اس کے جواز پر دال نہیں ہوتی۔(مدیر)


     

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں