صادق الامین ﷾ ( بجنور،یو پی، الہند)
اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمیں ایسا جامع ترین مذہب عطا فرمایا ہے جس کے اندر انسان کو پیش آنے والے ہر نشیب و فراز سے متعلق مکمل رہنمائی ملتی ہے۔ کسی بھی موقع پر انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس موقع پر اسے کیا کرنا چاہئے؟؟یا اس موقع پر کچھ کرنے کے لئے مذہب نے اسے کچھ نہیں بتایا۔
زندگی کا کوئی بھی مرحلہ ہو، مذہب انسان کی رہنمائی کے لئے موجود ہے۔ عبادات ہوں یا معاملات، خوشی ہو یا غم، دوستی ہو یا دشمنی، سفر یا حضر، ہر موقع کے احکام و آداب مذہب نے بتا دئے ہیں۔
جب تک خیر القرون اور اسکی برکتیں رہیں لوگ مضبوطی سے مذہب کا دامن تھامے رہے لیکن جیسے جیسے خیر القرون کو بُعد ہوتا گیا انسان نے مذہب کی آڑ میں بہت سی بدعات و رسومات کو وضع کر کے ان پر عمل شروع کر دیا۔
بدعات و رسومات میں پختہ ہو جانے کے بعد جب ان پر عمل کرنے میں دشواری محسوس ہوئی تو مذہب کی تنگ دامانی کا شکوہ کرنے لگا۔ حالانکہ یہ مصیبت خود اسکی اپنی لائی ہوئی ہے۔ مذہب نے تو کسی بھی موقع پر انسان کو اسکی طاقت سے زیادہ کا مکلف نہیں بنایا۔
منجملہ ان بدعات و رسومات کے جن میں لوگ گرفتار ہیں اور پریشان ہیں کہ انکا حل کیسے ہو؟؟ (جبکہ مذہب پہلے ہی انکا حل بتا چکا ہے) ایک رسم میت کے گھر کھانا پہنچانا اور وہاں کھانا ہے۔ جس میں لوگوں نے اس حد تک رسومات کو بڑھاوا دیا کہ خود کو پریشانی لاحق ہونے لگی۔ لیکن پھر بھی ان رسومات کو ترک کرنے کے لئے تیار نہیں۔
مذہب اس سلسلہ میں جو رہنمائی کرتا ہے وہ حسبِ ذیل ہے۔
حدیث شریف:-
عن عبداللہ بن جعفر قال لما جاء نعی جعفر قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) اصنعوا لاٰل جعفر طعامًا ،قد اتاھم امرًا یشغلھم
(ابوداؤد 497/4،حدیث نمبر 3132) (ترمذی 323/3 حدیث نمبر 998) (ابن ماجہ 514/1 حدیث نمبر 1610) (مشکوٰۃ حدیث نمبر 1739)
جب حضرت جعفر کی شہادت کی خبر نبی ﷺ کو (بذریعہ وحی) ملی تو آپ نے (صحابہ سے) فرمایا کہ جعفر کے گھر والوں کے لئے کھانا تیار کرو(اور انکے گھر پہنچاؤ) اس لئے کہ انکو ایسی خبر پہنچی ہے جو انکو مشغول کر دے گی۔
(یعنی جعفر کی موت کے صدمہ کی وجہ سے وہ کھانے پینے کا انتظام نہ کر سکیں گے)
علماءِ کرام نے حدیث شریف کو سامنے رکھتے ہوئے فرمایا کہ جب کسی کے یہاں میت ہو جائے تو اسکے رشتہ داروں اور پڑوسیوں کو چاہئے کہ اسکے گھر اتنا کھانا بھیج دیں جو ایک دن رات کے لئے کافی ہو،(بھیجنے والا میت کا قریبی ہو یا دور کا رشتہ دار ہو، یا کوئی پڑوسی ہو)اور اصرار سے انکو کھلائیں۔
موجودہ دور میں لوگوں نے اس سلسلہ میں بہت سی بدعات و خرافات ایجاد کیں کہ بعض جگہ اتنا کھانا بھیج دیتے ہیں جو گھر والوں کی ضرورت سے زائد ہوتا ہے۔ اور وہ پریشان ہو جاتے ہیں کہ اتنا کھانا کیسے استعمال میں لایا جائے؟ کیونکہ دینے والے اسکو معیوب سمجھتے ہیں کہ انکا بھیجا ہوا کھانا میت کے گھر والوں کے علاوہ کوئی اور استعمال میں لائے۔ اور بعض تو کہہ بھی دیتے ہیں کہ ہم نے تو اس لئے دیا تھا کہ میت کے گھر والے کھائیں نا اس لئے کہ دوسروں کو بانٹ دیں۔ بعض جگہ ہفتہ عشرہ تک کھانا بھیجا جاتا ہے۔
(ان رسومات کی اصلاح کی ضرورت ہے)
بعض جگہ یہ دستور ہے کہ میت کے قریبی رشتہ دار کو کھانا بھیجنے کا حقدار سمجھا جاتا ہے۔ خواہ وہ حیثیت رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو۔ خواہ اس بےچارے کو قرض ہی کیوں نہ لینا پڑے۔
اگر کوئی دور کا رشتہ دار یا کوئی شریف پڑوسی بھیجے تو اسکو معیوب سمجھا جاتا ہے حالانکہ شریعت میں ایسی کوئی پابندی نہیں۔
بعض جگہ یہ دستور ہے کہ تدفین کے بعد میت کے گھر والے رشتہ داروں اور تعزیت کرنے والوں کے کھانے کا انتظام کرتے ہیں۔ اور اس سے فارغ ہو کر تیجہ دسواں چالیسواں کے انتظام میں لگ جاتے ہیں۔ شریعت کی رو سے یہ سب دعوتیں ممنوع ہیں۔ کیونکہ دعوت خوشی کے موقع پر ہوتی ہے نہ کہ غم لاحق ہونے پر۔ فقہاء نے ان دعوتوں کو مکروہ اور بدعتِ قبیحہ قرار دیا ہے۔ شامی زکریا (148/2) فتاوی بزازیہ (81/4) عالم گیری )مطبوعہ دارالکتاب، 167/1)
پس محلہ والوں اور آس پاس کے شریکِ جنازہ لوگوں کے لئے درست نہیں کہ وہ بعدِ تدفین یا تیجہ دسواں وغیرہ کے موقع پر وہاں کھانا کھائیں۔ اگر میت والے کھلانا چاہیں تو انکار کر دیں کیونکہ وہ سب رسم پڑ جانے کی وجہ سے مجبور ہیں کہ نہیں کھلائیں گے تو لوگ طعنہ دیں گے۔
البتہ دور دراز سے آئے ہوئے مہمان جن کو وہاں ایک دو روز ٹھہرنا ہے، یا جو زیادہ قریبی ہیں (کہ انکی وہاں موجودگی گھر والوں کے لئے باعثِ اطمینان ہوتی ہے) وہ وہاں کھانا کھا سکتے ہیں۔
ہمیں چاہئے کہ ان تمام بدعات و رسومات سے پرہیز کریں۔ اور اپنی زندگی کے ہر ہر لمحہ کو سنت کے موافق گزاریں۔
اللہ ہمیں قرآن و سنت پر عمل کرنے والا بنائے اور بدعات و رسومات سے ہماری حفاظت فرمائے۔
آمین ثم آمین۔
٭٭٭
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں