اتوار، 17 مارچ، 2019

مثبت تنقید اور امام ابو حنیفہؒ - شیخ سید احمد رضا بجنوری



صحت مند مباحثوں کی بجائے دشنام طرازیوں اور ذاتی الزام تراشیوں کو علمی کارنامہ سمجھنے والوں کے لیے سر بکف کا نیا سلسلہ۔ امید ہے اس سے نتیجہ بخش مناظروں کو فروغ ملے گا۔ (مدیر)

تنقید کے متعلق اسلاف کا رویہ

یہاں خاص طور سے یہ بات نوٹ کر کے آگے بڑھیے کہ حافظ ابن البر ، امت کے چند گنے چنے نہایت اونچے درجہ کے محققین میں سے ہیں اور ان کے قول کو اکثر حرفِ آخر کے طور پر پیش کیا جاتا ہے مگر جب ایک بات کا خالص تحقیقی زاویۂ نگاہ سے بے لاگ فیصلہ کرنا ہوا تو اتنی عظیم القدر شخصیت بھی اس سے مانع نہیں ہو سکی ۔ حافظ نے جانب مخالف کو قوی کہا تو حا فظ عینی نے اور بھی تر یاد و صراحت کے ساتھ ان کے قول کو مخدوش ہی فرما دیا۔ یہ تھا قد یم اور صحیح  طرزِ تحقیق۔ 
 اور آج اگر کسی بڑے شخص کی کسی تحقیق کے بارے میں کوئی خامی بتلا دی جائے تو کہہ دیا جائے گا  کہہ یہ ان کی عظمت کا قائل نہیں۔  حالانکہ انبیاء علیہ السلام کے سوا کسی کے لیے عصمت نہیں اور سب سے غلطی ہوتی ہے بڑے بڑوں سے ہوئی ہے۔ ان کے دنیوی فضائل اور اخروی مراتب عالیہ سے کوئی انکار نہیں کر سکتا مگر ان کی تحقیق کوقرآن و سنت کی کسوٹی پر ضرور کسا جائے گا۔ اور اپنا ہو یا کسی لحاظ سے غیر، اس کی رائے کو تنقید سے بالاتر نہیں کہا جائے گا ۔ 
حضرت امام ابو حنیفہ کو خادمان علوم نبوت وقوانین شریعت میں سب سے اول،  اعلی اور اعظم مرتبہ مقام حاصل ہے۔ موجودہ حدیثی ذخیروں میں سب سے پہلا مدون مرتب احادیث احکام کا ذخیره ان ہی کی ذات اقدس سے منسوب ”مسانید الامامؒ“ کی صورت میں ہے جن کی اسانید تمام موجودہ کتب حد یث  کی اسانید سے زیاده عالی مرتبت ہیں اور ان کی مجلس تدوین فقہ کی بارہ لاکھ سے زیاد و مسائل اسی وقت سے اب تک (کہ بار وسوسال زیادہ گذر چکے ہیں) دائروسائر ہیں۔ بعد کے بڑےبڑے محدثین وفقہاء نے ان پر دل کھول کر تنقید یں بھی کیں اور اس سلسلہ میں جتنا کام حق و انصاف ، تحقیق واعتدال سے ہوا اس سے امت کو بڑے فوائد حاصل ہوئے۔  محققین علما ء حنفیہ نے ہمیشہ  تنقید پرٹھنڈے دل سے غور وفکر کیا اور آج بھی اسی فکر و ذہن سے سوچتےہیں۔

اکابر دیوبند اور حضرت انور شاہ کشمیریؒ

 قریبی دور میں ہمارے اکابر دیوبند کا بھی یہی طریق رہا ہے اور خصوصیت سے ہمارے حضرت شاہ صاحب نے پورے تیسسال تک تمام فقہی و کلامی  ذخیروں پر گہری نظر فرما کر ہی معلوم کرنے کی سعی فرمائی کہ حنفی مسلک میں واقعی خامیاں اور کمزوریاں کیا کیا ہیں؟ اور آخر میں یہ فیصلہ علی وجہ  بصیرت فرما گئے کہ قرآن و حدیث اور آثارِ صحابہؓ و تابعینؒ  کی روشنی میں بجز ایک دو مسائل کے فقہِ حنفی کے تمام مسائل نہایت مضبوط و عام ہیں اور آپ کا یہ قطعی فیصلہ تھا کہ استنباطِ مسائل کے وقت حدیث سے فقہ کی جانب آنا چاہیے، فقہ سے حدیث کی طرف نہیں۔ یعنی  سب سے خالی الذہن ہوکر شارع علیہ السلام کی مراد تعین کی جائے اور اس کی رو سے فقہی احکام کی تشخیص عمل میں آ جائے ۔ یہ نہیں کہ پہلے اپنی فکر و ذہن کی قالب میں مسائل ڈھال کر ان ہی کو حدیث سے ثابت کرنے کی کوشش ہو، اسی زریں اصول کے تحت آپ تمام اجتهادی مسائل کا جائزہ لیتے تھے۔ رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ۔

ماخوذ از: انوار الباری، شیخ سید احمد رضا بجنوری، مجموعۂ افادات:انور شاہ کشمیریؒ۔ جلد ۵، ص ۲۶۳۔ تاریخ اشاعت ربیع الثانی ۱۴۲۵ھ

     

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں