مولانامفتی نجیب اللہ عمر ﷾(کراچی، پاکستان)
(۲۱) ’’اٰخرالنبین‘‘کو ’’آخر الانبیاء ‘‘سے بدل دیا
احمد رضا خان ایک روایت نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’شب معراج رب العزۃ جل جلالہ نے حضور اقدسﷺ سے ارشاد فرمایا :اغم علیک ان جعلتک آخر الانبیائ‘‘ ترجمہ احمد رضا:کیا تمہیں اس بات کا غم ہوا کہ میں نے تمھیں سب سے پچھلا نبی کیا عرض کی نہیں ۔ارشاد فرمایا کہ تمھاری امت کو اس بات غم ہوا کہ میںنے انہیں سب سے پچھلی امت کیا۔عرض کی نہیں اے رب میرے ۔ارشاد فرمایا: میں نے انہیں اس لئے سب سے پچھلی امت کیا کہ سب امتوں کو ان کے سامنے رْسوا کروں اور انھیں کسی کے سامنے رُسوانہ کروں‘‘ ۔ (ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ سوم صفحہ۲۸۶نوری کتب خانہ لاہور)
اصل حدیث کے الفاظ:
الخصائص الکُبْریٰ ،باب کلامہ للہ عزوجل عند سدرۃ المنتھی جلد ۲ ص ۳۳۱
’’ھل غمک ان جعلْتک اٰخِرالنبیِّیْن‘‘
حدیث کے نقل میں غلطیاں:
(۱) اس حدیث میں احمد رضا خان ’’ھَلْ‘‘کو ’’أَ‘‘سے تبدیل کردیا۔
(۲) اور ’’غمک‘‘کو ’’غم علیک‘‘سے بدل دیا
(۳) اور’’آخر النبیین‘‘کو ’’آخر الانبیائ‘‘سے تبدیل کر دیا۔
(۲۲) ’’ولا صورۃ‘‘کو ’’اوتصاویر‘‘سے بدل دیا:
عرض :کُتّے کا رواں تو ناپاک نہیں۔ ارشاد: صحیح یہ ہے کہ کتے کا صرف لعاب نجس ہے لیکن بلا ضرورت پالنا نہ چاہیے کہ رحمت کا فرشۃ نہیں آتا۔ حدیث صحیح ہے کہ جبریل کل کسی وقت حاضری کا وعدہ کر کے چلے گئے دوسرے دن انتظار رہا مگر وعدہ میں دیر ہوئی اور جبریل حاضر نہ ہوئے سرکار باہر تشریف لائے ملا حظہ فرمایاکہ جبریل ؑ در دولت پر حاضر ہیں ۔فرمایا کیوں ۔ عرض کیا ’’انالاند خل بیتاًفیہ کلب او تصاویر‘‘ رحمت کے فرشتے اس گھر میں نہیں آتے جسمیں کتا ہو یا تصویر ہو اندر تشریف لائے سب طرف تلاش کیا کچھ نہ تھا۔پلنگ کے نیچے ایک کتے کا پلّا نکلا اسے نکالا تو حاضر ہوئے ۔ (ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ سوم صفحہ۲۹۲نوری کتب خانہ لاہور) حدیث کے اصل الفاظ:
’’انا لاندخل بیتافیہ کلب ولاصورۃ‘‘
(سنن ابی داؤد ص ۲۱۹ ج ۲ کتاب اللباس ،باب فی الصور حدیث ۴۱۵۷)
غلطی کی نشاندہی:
احمد رضا نے اس حدیث میں ’’ولا صورۃ ‘‘واحد کو تصویر کی جمع ’’اَوْ تصاویر‘‘سے بدل دیا۔
(۲۳) ’’اِنْ یَکُ‘‘کو ’’انْ یَکْنُ‘‘ کردیا:
عرض :بعض علی گڑھی کو سید صاحب کہتے ہیں۔
ارشاد:وہ تو ایک خبیث مرتد تھا۔حدیث میں ارشاد فرمایا:
’’لا تقولوا للمنافق سیداً فانہ ان یکن سید کم فقداسخطتم ربکم ‘‘
ترجمہ احمد رضا :منافق کو سید نہ کہو کہ اگر وہ تمہارا سید ہواتو یقینا تم نے اپنے رب کو غضب دلایا‘‘۔
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ سوم صفحہ۲۹۳نوری کتب خانہ لاہور)
اصل حدیث کے الفاظ:
’’قال رسول اﷲﷺ لاتقولوا للمنافق سیداً فانہ ان یک سید کم فقدا اسخطتم ربکم عزوجل‘‘۔
(سنن ابی داؤد ص ۳۳۸ جلد ۲ کتاب الادب باب لایقول المملوک ربّی وربّتی حدیث ۴۹۷۷)
غلطی کی نشاندہی:
احمد رضا خان نے اس حدیث میں لفظ’’اِنْ یَکُ‘‘کو ’’ان یکن ‘‘سے تبدیل کر دیا۔
(۲۴) ’’التابعۃ ‘‘کو ’’متتابعۃ ‘‘سے تبدیل کر دیا:
احمد رضا خان اپنے نسب کو دوسرے کی طرف منسوب کرنے کی وعید ان لفظوں میں سناتے ہیں :
تیسری حدیث میں فرمایا’’فعلیہ لعنۃ اللہ متتابعۃ الیٰ یوم القیامۃ ‘‘
ترجمہ احمد رضا:اس پر اللہ کی پے در پے قیامت تک لعنت ہے‘‘۔۔
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ سوم صفحہ۲۹۵نوری کتب خانہ لاہور)
اصل حدیث کے الفاظ:
حلانکہ اس حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں:
’’فعلیہ لعنۃ اللہ التابعۃ الیٰ یوم القیامۃ ‘‘(عن جریر عن ابن عباس)
(کنز العمال ،کتاب الدعوی ،باب دعویٰ النسب ولحاق الولد حدیث ۱۵۳۱۹ ج ۶ ص ۷۹)
غلطی کی نشاندہی:
اس جگہ احمد رضا خان نے لفظ ’’التابعۃ‘‘کو ’’متتابعۃ‘‘سے تبدیل کر دیا۔
(۲۵) لفظِ اللہ کو حذف کر دیا اور۔۔۔
حدیث میں ارشاد ہوا :کوئی شخص بغیر اللہ کی رحمت کے اپنے اعمال سے جنت میں نہیں جاسکتا صحابہ نے عرض کی ’’ولا انت یا رسول اللہ ‘‘آپ بھی نہیں یا رسول اللہ ۔ارشاد فرمایا ’’ولا انا الاان یتغمدنی رحمتہ‘‘اور میں جب تک میرا رب رحمت نہ فرمائے’’۔
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ سوم صفحہ۲۹۶نوری کتب خانہ لاہور)
حدیث کے اصل الفاظ:
اس حدیث کا یہ جملہ اصل حدیث میں اسطرح ہے:
’’ولا انا الاان یتغمدنی اللہ برحمۃٍ‘‘
(بخاری ص ۹۵۷ جلد ۲کتاب الرفاق باب القصرد المداومۃ حدیث ۶۴۶۳)
غلطیوں کی نشاندہی:
اس حدیث میں احمد رضا نے لفظ ’’اللہ ‘‘کو حذف کردیا اور ’’برحمۃ‘‘کو ’’رحمتہ ‘‘سے تبدیل کر دیا۔
(۲۶) ’’تُبْصِرْ‘‘ کو ’’تَریٰ‘‘سے اور’’تَنْسیٰ‘‘کو’’ لَاتَریٰ‘‘سے بدل دیا:
عرض:زید نے ایک شخص کو پوشیدگی میں گناہ کرتے دیکھا اب یہ اس کے پیچھے اقتداء کر سکتا ہے یا نہیں۔
ارشاد: کر سکتا ہے اپنے کو دیکھے اگر اس نے کبھی گناہ نہ کیا ہو تو نہ پڑھے حدیث میں ہے ’’تری القذاۃ فی عین اخیک و لا تری الجذع فی عینیک‘‘
(ہاں فاسق معلن کے پیچھے نماز پڑھنا گناہ ہے)
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ سوم صفحہ۳۰۱نوری کتب خانہ لاہور)
اصل حدیث کو الفاظ:
جبکہ اس حدیث کے الفاظ اس طرح وارد ہیں:
’’تبصر القذاۃ فی عین اخیک و تنسی الجذع فی عینک ‘‘
(المقاصد الحسنہ حرف التاء المثناۃ حدیث ۳۱۴ ص ۱۵۸ دار الکتب العلمیہ بیروت)
حدیث کے نقل میں غلطیاں:
(۱)احمد رضا نے پہلے جملے ’’تبصرہ ‘‘کو ’’تری‘‘سے بدل دیا۔
(۲) اور آگے لفظ’’لاتریٰ‘‘کو لفظ’’تنسیٰ‘‘سے تبدیل کر دیا۔
(۲۷) حدیث میں کمی اور تبدیلی کی ایک اور غلطی:
حدیث میں ارشاد ہوا:
’’اذا ظھرت الفتن اوقال البدع ولم یظھر العالم علمہ فعلیہ لعنۃ اللہ والملائکۃ والناس اجمعین لا یقبل اللہ منہ صرفاً ولا عدلاً‘‘
ترجمہ احمد رضا: جب فتنے یا بد مذھبیاں ظاہر ہوں اور عالم اپنا علم ظاہر نہ کرے تو اس پہ اللہ اور فرشتوں اور تمام آدمیوں کی لعنت اللہ نہ اس کا فرض قبول کرے نہ نفل۔
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ چہارم صفحہ۳۰۶نوری کتب خانہ لاہور)
حدیث کے اصل الفاظ:
حالانکہ اس حدیث کے الفاظ کچھ یوں ہیں:
’’اذاظھرت الفتن او قال البدع فلیظھرالعالم علمہ ومن لم یفعل ذلک فعلیہ لعنۃ اللہ والملئکۃ والناس اجمعین لایقبل اللہ صرفاً ولا عدلاً‘‘۔
(الجامع لاخلاق الراوی وآداب ص ۳۰۸ باب اذا ظھرت الفتن حدیث ۱۳۶۶)
نقل حدیث میں غلطیاں:
(۱)اس حدیث میں جملہ ’’فلیظھر ‘‘(امر غائب)کو احمد رضا نے ’’ولم یظھر ‘‘(فعل مضارع نفی جحد بلم)سے تبدیل کر دیا۔
(۲) اور اگلے جملے ’’ومن لم یفعل ذالک ‘‘کو بالکل غائب کر دیا۔
(۳) اور ترجمہ بھی ان الفاظ کا کر دیا جو احمد رضا نے نقل کئے ہیں ۔لھٰذا اس غلطی کو کسی اور کی جانب منسوب کرنا ایک حقیقت کا انکار کرنا ہوگا۔
(۲۸) الفاظِ حدیث میں تبدیلی اور حذف:
عرض :زمزم شریف بھی تین سانسوں میں پینا چاہئے۔
ارشاد:ہاں ہر چیز کا یہی حکم ہے حدیث میں ارشاد ہوا:
’’مصوہ مصاً ولا تعبوہ عباً فان منہ الکباد‘‘
ترجمہ احمد رضا:چوس چوس کر پیو غٹ غٹ کر کے بڑے بڑے گھونٹ نہ لگاؤ۔
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ چہارم صفحہ۳۰۸نوری کتب خانہ لاہور)
حدیث کے اصل الفاظ:
اس حدیث کے اصل الفاظ ا سطرح ہیں:
’’فاشر بوامصاً ولا تشربوا عباًفان العب یورث الکباد‘‘
(الجامع الصغیر حدیث ۷۱۰ ج ۱ ص ۴۹)
غلطیوں کی نشاندھی:
(۱) احمد رضا نے ’’فاشربوہ‘‘کے لفظ کو ’’مصوہ‘‘سے بدل دیا۔
(۲) اور ’’ولا تشربوا ‘‘کو ’’ولا تعبوہ‘‘سے بدل دیا۔
(۳) ’’فان العبَّ یورث الکباد‘‘کو خان صاحب نے ’’فان منہ الکباد‘‘سے تبدیل کردیا۔
(۲۹) لفظ بدلنے کی خصلت:
احمد رضا ایک حدیث یوں نقل کرتے ہیں:
حدیث میں ارشاد ہوا:’’لیل تھامّۃ لا حرولابرد ولا خوف ولا ساٰمۃ ‘‘
ترجمہ احمد رضا:مدینہ کی رات میں نہ گرمی ہے نہ سردی نہ خوف نہ ملال‘‘۔
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ چہارم صفحہ۳۰۹نوری کتب خانہ لاہور)
حدیث کے اصل الفاظ:
اس حدیث کے اصل الفاظ اس طرح ہیں:
’’لیل تھامۃ لا حرولا مخافۃ ولا سامۃ‘‘
(مجمع الزوائد ،کتاب النکاح ،باب عشرہ النساء حدیث ۲۶۸۷ ج ۴ ص ۵۸۰)
غلطی کی نشاندھی:
اس حدیث میں لفظ ’’مخافۃ ‘‘کو ’’خوف ‘‘سے بدل دیا۔
(۳۰) حدیث کے نقل میں بے شمار غلطیاں
احمد رضا لکھتے ہیں:
جو اپنے نفس پراعتماد کرے اس نے بڑے کذاب پر اعتماد کیا ۔ حدیث میں ہے ’’القلوب فی اصبعی الرحمٰن یصرفھا کیف یشاء ‘‘
ترجمہ احمد رضا :انسان کے دل رحمٰن کے دست قدرت کی دو انگلیوں میں ہیں پھیرتا ہے ان کو جس طرف چاہتا ہے۔
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ چہارم صفحہ۳۲۳نوری کتب خانہ لاہور)
حدیث کے اصل الفاظ:
جبکہ حدیث کے اصل الفاظ اس طرح ہیں :
’’ان القلوب بین اصبعین من اصابع اللہ یقلبھا کیف یشائ‘‘
(جامع الترمذی ،ابواب القدر، باب ماجاء ان القلوب بین اصعی الرحمٰن، ج ۲ ص ۴۸۱)
حدیث کے نقل کرنے میں غلطیاں:
(۱)اس حدیث میں احمد رضا ’’اِنَّ‘‘(حرف مشبہ بالفعل )کو حذف کردیا ۔
(۲)لفظ ’’بین ‘‘کو ’’فی ‘‘سے بدل دیا۔
(۳)اور لفظ ’’اصبعین‘‘کو ’’اصبعی‘‘سے بدل دیا۔
(۴)اور ’’من اصابع اللہ‘‘کو ’’اصبعی الرحمن ‘‘سے بدل دیا۔
(۵)اور ’’یقلبھا‘‘کو ’’یصرفھا‘‘سے تبدیل کر دیا۔
(۶)اور حدیث کا ترجمہ بھی اسی طرح کیا ہے جس طرح الفاظ نقل کئے ہیں ۔لھذا اس غلطی کو ناشر یا مرتب کی طرف منسوب نہیں کر سکتے۔
(۳۱) حدیث کے الفاظ اپنی طرف سے بنادیئے
عرض :حضور گیند کھیلنا کیسا ہے۔
ارشاد:عبث ہے اگرچہ صاحب ھدایہ نے ہر عبث کو حرام لکھا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ عبث باطل ہے۔حدیث میں ہے:
’’کل لھو المؤمن باطل الا فی ثلاث ‘‘
ترجمہ احمد رضا :مسلمان کا ہر لھو باطل ہے مگر تین باتوں میں اول گھوڑا پھیرنا، دوسرا تیر اندازی، تیسرا اپنی عورت سے ملاعبت یہ ان تینوں میں داخل نہیں اسلئے باطل ہے۔
(ملفوظات اعلٰی حضرت، حصہ چہارم، صفحہ۳۳۸،نوری کتب خانہ لاہور)
حدیث کے اصل الفاظ:
حالانکہ اس حدیث کے الفاظ ہیں:
’’کل مایلھو بہ الرجل المسلم باطل الارمیۃ بقوس وتادیبہ فرسہ وملاعبتہ اھلہ فانھن من الحق‘‘
(جامع الترمذی ص ۴۲۶ ج ۱ ، ابواب فضائل الجھاد ،باب ماجاء فی فعل الرمی)
(۳۲) ’’کفرۃ الجنّ‘‘کو ’’مرّدۃ الجن‘‘سے بدل دیا:
احمد رضا خان لکھتے ہیں:
’’میں نے بندر کو قیام کرتے دیکھا۔میں اپنے پُرانے مکان میں جس میں میرے منجھلے بھائی مرحوم رہا کرتے تھے مجلس میلاد پڑھ رہا تھا ایک بندر سامنے دیوار پر چپکا مؤدب بیٹھا سن رہا تھا جب قیام کا وقت آیا مؤدب کھڑا ہوگیا پھر جب بیٹھے وہ بھی بیٹھ گیا ۔وہ بندر تھا وھابی نہ تھا۔حدیث میں ہے۔ ’’مامن شئی الاویعلم انی رسول اللہ الامردۃ الجن والانس‘‘ ترجمہ احمد رضا:کوئی شئے ایسی نہیں جو مجھے اللہ کا رسول نہ جانتی ہو سوائے سرکش جن اور آدمیوں کے‘‘۔ (ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ چہارم ،صفحہ۳۸۰،نوری کتب خانہ لاہور) جبکہ اس حدیث کے اصل الفاظ اس طرح ہیں :
’’مامن شئی الایعلم انی رسول اللہ الاکفرۃ الجنّ والانسِ‘‘
(المعجم الکبیر حدیث نمبر۶۷۲ ج ۲۲ ص ۲۶۲)
غلطیوں کی نشاندھی:
(۱) اس حدیث میں لفظ ’’کفرۃ‘‘کو ’’مَرَدَّۃ‘‘سے بدل دیا۔
(۲) اور ترجمہ بھی انھیں لفظوں کا کیا جو احمد رضا نے نقل کئے ہیں۔
(۳۳) حدیث کاپورا جملہ بدل دیا
’’سید عالم ﷺ فرماتے ہیں: جو بلا اجرت سات برس محض اللہ کی رضا کیلئے اذان دے ۔’’وجبت لہ الجنۃ ‘‘
ترجمہ احمد رضا :اسکے لئے جنت واجب ہوگئی‘‘۔
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ چہارم صفحہ۳۶۲نوری کتب خانہ لاہور)
حدیث کے اصل الفاظ:
’’من اذن محتسبا سبع سنین کتب لہ براء ۃ من النار‘‘
(سنن ابن ماجہ ،کتاب الاذان ،باب فضل الاذان، حدیث نمبر۷۲۷ ،ج ۱ ،ص ۴۰۲ قدیمی کتب خانہ)
غلطیوں کی نشاندھی:
(۱)احمد رضا نے ’’کتب لہ براء اۃ من النار ‘‘کو ’’وجبت لہ الجنۃ ‘‘سے تبدیل کر دیا۔
(۲)اور ترجمہ اسی جملے کا کیا ہے جس کو احمد رضا نے نقل کیا ہے۔
(۳۴) حدیث میں لفظ’’وادرک نبوّتی‘‘کا اضافہ
عرض :یہ حدیث ہے:
’’لو کان موسیٰ و عیسیٰ حیین ما وسعھا الااتباعی‘‘
ارشاد:یہ قادیانی ملعونوں کا حدیث پر افتراء اور زیادت ہے حدیث میں اتنا ہے۔
’’لو کان موسیٰ حیّاً وادرک نبوتی ماوسعہ الااتباعی‘‘
ترجمہ احمد رضا:اگر موسیٰ زندہ ہوتے اور میری نبوت کا زمانہ پاتے تو انھیں کچھ گنجائش نہ ہوتی سوائے میری اطاعت کے۔‘‘
افتراء بھی کیا اور کال نہ کٹا۔الخ
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ چہارم، صفحہ۳۶۳،نوری کتب خانہ لاہور)
حدیث کے اصل الفاظ:
دراصل اس حدیث کے الفاظ یوں ہیں:
’’لو کان موسیٰ حیاً ماوسعہ الااتباعی‘‘
(شعب الایمان للبیھقی ،باب فی الایمان بالقرآن، حدیث نمبر ۱۷۷ ،ج ۱ ،ص ۲۰۰)
غلطیوں کی نشاندھی:
(۱)اس حدیث میں احمد رضا نے ’’وادرک نبوتی‘‘کا اضافہ کردیا۔
(۲)اور ترجمہ بھی اس اضافی جملے کا لکھ دیا جبکہ یہ اصل حدیث میں موجود نہیں ہے۔
(۳۵) الفاظ حدیث میں مختلف تبدیلیاں
احمد رضا خان نے حضرت ابراھیم علیہ السلام کا واقعہ یوں نقل کیا ہے:
’’جب آپ کو گو پھن میں بٹھا کر پھینکا ۔آپ آگ کی محاذات پر آئے جبریل علیہ السلام حاضر ہوئے عرض کی :الک حاجۃ؟ابراھیم کوئی حاجت ہے۔فرمایا :امامنک فلا،ہے تو مگر تم سے نہیں ،عرض کی تو جس سے ہے اسی سے کہئے ۔فرمایا:علمہ بحالی کفا نی عن سوالی ۔وہ خود جانتا ہے عرض کی ضرورت نہیں۔‘‘ (ملفوظات اعلٰی حضرت، حصہ چہارم، صفحہ۳۸۲،نوری کتب خانہ لاہور) اصل واقعہ کے الفاظ:
اس واقعہ کے اصل الفاظ اسطرح ہیں:
’’ان ابراھیم حین قیدوہ لیلقوہ فی النار قال لاالہٰ الا انت سبحانک رب العالمین لک الحمد ولک الملک لا شریک لک قال ثمہ رموابہ فی المنجنیق من مضرب شاسع فاستقبلہ جبریل فقال:یا ابراھیم الک حاجۃ؟ قال اماالیک فلا ،فقال جبریل فاسأل ربکفقال حسبی من سؤالی علمہ بحالی‘‘ (فی تفسیر ابن کثیر ،ص۲۴۵ ج ،۳ قدیمی کتب خانہ، قرطبی الانبیاء تحت الآیۃ ۶۹ ص ۲۶۵ ج ۱۱ مکتبہ رشید کوئٹہ ) غلطیوں کی نشاندھی:
’’حضرت ابراھیم علیہ السلام نے حضرت جبریل ؑ کو یہ جواب دیا ’’اماالیک فلا‘‘ان کے الفاظ کو احمد رضا نے ’’امامنک فلا‘‘لکھا ہے۔‘‘
اور جملہ ’’علمہ بحالی کفا نی عن سوالی ‘‘کو احمد رضا نے ’’حسبی من سؤالی علمہ بحالی‘‘کے الفاظ سے نقل کیا ۔(یہ جملہ ابن کثیر میں نہیں ہے)
(۳۶) حدیث کی خود ساختہ ترتیب
حدیث میں ہے ایک شخص نے دربار اقدس میں ڈکار لی۔فرمایا:
’’کف عنا حشیائک فان المول الناس جوعاً یوم القیٰمۃ شبعاً فی الدنیا‘‘
ترجمہ احمد رضا:ہم سے اپنی ڈکار دور رکھ کہ دنیا میں جو زیادہ مدت تک پیٹ بھرے تھے وہ قیامت کے دن زیادہ مدت تک بھوکے رھیں گے۔
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ دوم، صفحہ۲۱۹،نوری کتب خانہ لاہور)
اصل حدیث کے الفاظ:
اصل حدیث ان الفاظ کے ساتھ نہیں ہے بلک اصل حدیث میں مختلف الفاظ وارد ہیں:
(۱)’’لاتفعل یا ابا جحیفۃ ان اطول الناس جو عاً یوم القیامۃ اطولھم شبعاً فی الدنیا‘‘۔
(کنز العمال ص ۸۷ ج ۳ ادارہ تالیف اشرفیہ ملتان حدیث ۶۲۱۶ )
(۲)حدیث ۶۲۱۷ کے الفاظ اس طرح ہیں:
’’اکفف من جشائک فان اکثر الناس فی الدنیا شبعاً اکثر ھم فی الآخرۃ جوعاً‘‘۔(عن ابی جحیفہ)
(۳) حدیث ۶۲۱۸ کے الفاظ یوں ہیں :
’’یا ابا جحیفہ اقصر من جشائک فان المول الناس جوعاً یوم القیامۃ اکثرھم شبعاً فی الدنیا۔‘‘
(۴)حدیث ۶۲۱۹ کے الفاظ اس طرح مذکور ہیں:
’’یاھذا اکفف من جشائک فان اکثر الناس فی الدنیا شبعاً اکثر ھم الآخرۃ جوعاً‘‘
(کنز العمال ،کتاب الاخلاق قسم الاقوال ص ۸۷ ج ۳ ادارہ تالیفات اشرفیہ )
’’انا امۃ امیۃً لا نکتب ولا نحسب اشھر ھٰکذا وھکذا وھکذا فان غم علیکم فعدواثلثین‘‘
ترجمہ احمد رضا :ہم امت امیۃ ہیں نہ لکھتے ہیں نہ حساب کرتے ہیں ۔مہینہ ۲۹ کا ہے یا ۳۰ کا تو اگر تمہیں شبہ پڑجائے تو ۳۰ کی گنتی پوری کرلو۔
حدیث میں غلطیاں:
اس جگہ احمد رضا خان نے دو حدیثوں کو جمع کر دیا ہے۔
کسی ایک حدیث میں یہ جملے نہیں ہیں۔
(۱) ’’انا اُمَّۃ امیّۃً ‘‘سے ’’وَھٰکذا‘‘تک ایک حدیث کے الفاظ ہیں ۔
(ابوداؤ ص ۳۳۷ج ۱ کتاب الصیام ، باب الشھریکون تحا وعشرین حدیث ۲۳۱۹)
حدیث کے دوسرے جملے (فان غم علیکم فعدواثلثین)کے الفاظ کسی حدیث کی کتاب میں وارد نہیں ہیں۔
حدیث میں مختلف الفاظ آئے ہیں لیکن احمد رضا کے نقل کردہ الفاظ خود ساختہ ہیں۔
(۱)’’فان غم علیکم فاتمواثلاثین۔‘‘
(نسائی کتاب الصوم ،باب اکمال شعبان ص ۳۰۱ ج ۱ )
(۲) ’’فان غم علیکم الشھر فعدواثلاثین۔‘‘
(مشکوٰۃ ۱۷۴ ج ۱)
اس جگہ تو احمد رضا نے دو حدیثوں کوخواہ مخواہ جمع کر دیا
(۲) اور دوسری غلطی یہ کی کہ حدیث کے الفاظ احمد رضا نے خود ساختہ نقل کر دیئے ۔
(۳۷)حدیث میں اپنی طرف سے ’’فاخبروہ ‘ ‘ کا اضافی کر دیا
عرض:داڑھی چڑھانا کیسا ہے؟
ارشاد:حدیث میں ہے:من عقد لحیۃ فاخبروہ ان محمدﷺمنہ برئی۔
ترجمہ:جو شخص داڑھی باندھے یسے خبر دیدو کی محمدﷺ اس سے بیزار ہیں‘‘۔
(ملفوظات صفحہ ۲۱۲ حصہ دوم نوری کتب خانی لاہور)
احمد رضا خان سے یہی سوال و جوابات حصہ سوئم میں بھی مذکور ہے ۔وہاں احمد رضاخان نے اس طرح جواب دیاہے:
ارشاد:نسائی شریف میں ہے :’’من عقد لحیۃ فاخبروہ ان محمدﷺ برئی منہ۔‘‘الخ
(ملفوظات صفحہ ۲۶۱ حصہ سوئم نوری کتب خانی لاہور)
حدیث کے اصل الفاظ:
جبکہ نسائی شریف میں یہ روایت ان لفظوں کے ساتھ منقول ہے :
’’من عقد لحیۃ ان محمدﷺمنہ برئی۔‘‘
(نسائی شریف کتاب الزینتہ باب عقد الحیتہ ص۱۳۶ ج۸ دارالکتب العلمیہ بیروت)
غلطیاں:
(۱)حصہ دوئم و سوئم کے دونوں حوالوں میں احمد رضا نے حدیث میں فاخبرہ کے الفاظ کا اضافہ کیا ہے۔
(۲)اور ترجمہ میں بھی یہ اضافت موجود ہے۔
(۳)اور حصہ سوئم میں ’’منہ برئی‘‘کو’’ برئی منہ‘‘ سے تبدیل کر دیا۔
(۳۸)تبدیلی اور اضافہ کا ایک اور نمونہ
احمد رضا سود سے متعلق روایت نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
دوسری صحیح حدیث میں ہے۔رسول اکرمﷺ فرماتے ہیں:
’’الربوٰ ثلاثۃو سبعون جوباً ایسرھنّ ان یقع الرجل علی امّہ‘‘
سود۷۳ گناہ کے برابر ہے۔جن میں سب سے ہلکا یہ کے آدمی اپنی ماں کے ساتھ زنا کرے‘‘۔
(ملفوظات صفحہ ۲۱۲ و۲۱۳ حصہ دوم نوری کتب خانہ لاہور)
حدیث کے اصل الفاظ:
حلانکہ حدیث کے اصل الفاظ اس طرح ہیں:
’’الربوٰ ثلاثۃو سبعون باًباً ایسرھا ان ینکح الرجل امّہ۔‘‘
(عن ابن مسعود)
(کنزالعمال کتا ب البیوع قسم القول حدیث ص ۹۷۵ج۴دار الکتب العلمیہ بیروت۔ادارہ تالیفات اشرفیہ ملتان)
غلطیوں کی نشاندہی:
(۱)اس روایت میں احمد رضا نے’’باًباً ‘‘ کے لفظ کو’’جوباً ‘‘سے
(۲)’’ایسرھا‘‘ کو ’’‘ایسرھنّ‘سے
(۳)اور’’ینکح‘‘ کو ’’یقع‘‘ سے تبدیل کر دیا۔
(۴)اور آخر میں علیٰ کے لفظ کا اضافہ بھی کر دیا۔
(۵)اور ترجمہ بھی اپنی نقل کردہ حدیث کا کیا۔احمد رضا کے نقل کردہ الفاظ حدیث کنزالعمال کے کسی جلد کے کسی صفحے پر نہیں ہیں۔
(۳۹)لفظ کلھماکا اضافہ
’’صحیح حدیث فرمایا:
الراشی والمرتشی کلھما فی النار
ترجمہ:رشوت لینے والا اور دینے والا دنوں جہنمی ہیں‘‘۔
(ملفوظات صفحہ ۵۶ حصہ اول سن اشاعت ۲۰۰۰نوری کتب خانہ لاہور)
اصل الفاظ یوں ہیں:
’’الراشی والمرتشی فی النار‘‘
ترجمہ:رشوت لینے والا اور دینے والا دنوں جہنمی ہیں۔
(مجمع الزوئد کتاب الاحکام باب فی الرشاء حدیث۷۰۲۷ ج۴ ص۳۵۹ دارالفکر بیروت)
(۴۰)غلظ حدیث لکھنے کا ایک اور ثبوت
’’شب معراج حضور اقدس ﷺ نے ملاحظہ فرمایا کہ کوئی ژخص رب عزوجل کے حضور بلند آواز میں ہم کلام کر رہا ہے ۔ارشاد فرمایا :اے جبریل یہ کون شخص ہیں۔عرض کی موسیٰ ہیں ۔فرمایا:کیا اپنے رب پر تیزی کرتے ہیں۔عرض کیا :قدعرف ربہ حدتہ انکا رب جانتا ہے انکا مزاج تیز ہے‘‘۔ (ملفوظات صفحہ۹ ۲۲ حصہ سوئم نوری کتب خانہ لاہور) حدیث کے اصل الفاظ:
جبکہ اصل الفاظ یہ ہیں:
’’ان اﷲقدعرف لہ حدتہ‘‘
(عمدۃالقاری کتاب مناقب الانصار باب المعراج ج۱۱ ص۶۰۵)
غلطیاں:
اس حدیث میں احمد رضا نے لفظ ان اﷲکو بالکل حذف کر دیا اور اس کی جگہ لفظ ربہ کا اضافہ کر دیا۔اور لفظ لہ کو بھی گیارھویں کا حلوہ سمجھ کر کھا گئے۔
(۴۱)حدیث کے الفاظ میں تبدیلی اور کمی
عرض :حضور یہ صحیح ہے کہ عالم کی زیارت کا ثواب ہے۔
ارشاد:ہا ں صحیح حدیث میں وارد ہوا :’’النظر الیٰ وجہ العالم عبادۃ النظر الیٰ الکعبہ عبادۃ النظر الیٰ المصحف عبادۃ‘‘
ترجمہ:عالم کے چہرہ کو دیکھنا عبادت ہے ،کعبہ معظمہ کو دیکھنا عبادت ہے،قرآن عظیم کو دیکھنا عبادت ہے‘‘۔
(ملفوظات صفحہ۲۹۳ حصہ سوئم نوری کتب خانہ لاہور)
حدیث کے اصل الفاظ
’’من العبادۃالنظر الیٰ الکعبہ والنظر الیٰ المصحف والنظر الیٰ وجہ العالم۔‘‘
(کنزالعمال کتاب المواعظ جلد۱۵ ص۳۷۱ حدیث۴۳۴۸۶)
حدیث نقل کرنے میں غلطیاں
۱)اس حدیث میں احمد رضا نے لفظ من العبادۃ کو ختم کر دیا ۔
۲)اور لفظ عبادۃ کوجملے کے بعد زیادہ کر دیا۔
۳)اور النظر الیٰ وجہ العالم جو اصل حدیث میں سب سے آخر میں تھا سب سے پہلے ذکر کر دیا۔
۴)النظر الیٰ المصحف کا لفظ جوحدیث کے درمیان میں تھا اسے بالکل آخر میں کر دیا۔
۵)اور اسی طرح لفظ النظر الیٰ الکعبہ کے بالکل شروع میں جسے احمد رضا نے درمیان میں کر دیا۔
۶)اور ترجمہ بھی اسی ترتیب پر کیا جس ترتیب پر الفاظ حدیث نقل کئے ہیں۔
(۴۲)ایک جھوٹی حدیث کے غلط الفاظ
’’مؤلف : اعلیٰحضرت قبلہ کی حدت مزاج کا تذکرہ تھا ۔ایک صاحب نے ذکر کیا ایک تو مزاج گرم اس پر علم کی گرمی اس پر ارشاد فرمایا : حدیث میں ہے’’ ان الحدۃ تعتری قراء امتی لعزۃ القرآن فی اجوافھم قراء محاورۃ ‘‘ حدیث میں علماء کو کہتے ہیں۔یعنی میری امت کے علماء کو گرمی پیش آئے گی۔قرآن کی عزت کے سبب جوان کے دلوں میں ہے‘‘۔
(ملفوظات صفحہ۳۳۱حصہ چہارم نوری کتب خانہ)
جملے کے الفاظ
’’ ان الحدۃ تعتری قراء امتی لعزۃ القرآن فی اجوافھم قراء محاورۃ ‘‘۔
(المعجم الکبیر للطبرانی حرف الحاء حدیث۱۱۴۷۱ ج۱۱ ص۱۰۰)
اس جگہ احمد رضا نے جہاں ایک جھوٹی حدیث سے استدلال کیا دوسری طرف اس کے الفاظ بھی غلط نقل کئے ہیں۔اس حدیث کی سند میں ابو البختری وھب بن وھب ہے جو کذاب (جھوٹا) اور وضاع (جھوٹی حدیثیں گھڑ نے والا )ہے۔
علامہ ذھبی فرماتے ہیں:’’ھذہ احادیث مکذوبتہ علیٰ رسول اﷲﷺ‘‘
(میزان الاعتدال ص۳۵۴ج۴)
یہ وہ حدیث ہیں جو آپ ﷺ پر جھوٹ باندھی گئی ہیں آپ نے نہیں کہی۔ (مطالعہ بریلویت ج۲ ص۸۹)
٭٭٭
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں