پیر، 11 مارچ، 2019

ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت کا جائزہ (قسط۔۳)

مولانامفتی نجیب اللہ عمر ﷾(کراچی، پاکستان)

۱۵)  حدیث میں تبدیلی کا قصور
عرض :علاج کرنا سنت ہے یا نہ کرنا؟
ارشاد:دونوں سنت ہیں۔یہ بھی ارشاد ہوا ہے
 ’’تداء وا عباد اﷲ فان الذی،  انزل الداء انزل الدواء لکل دائٍ‘‘
ترجمہ احمد رضا:علاج کرو اے اﷲ کے بندوں کہ جس نے مرض انارا ہے اس نے ہر مرض کی دوا بھی اتاری ہے۔
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ سوم صفحہ۲۵۴نوری کتب خانہ لاہور)
حدیث کے اصل الفاظ:
اس حدیث کے اصل الفاظ یہ ہیں:
’’تداو وعباداﷲ لایضع وائً اِلاَّ وَضَعَ لَہُ دوائً‘‘(عن اسامۃ بن شریک)
(کنز العمال ،کتاب الطبّ:الباب الاول فی الطبّ حدیث ۲۸۰۷۲  حدیث ۲۸۰۸۹ ج  ۱۰ ص ۴۳ دارالکتب العلمیہ بیروت)
حدیث کے لکھنے میں غلطیاں:
(۱)  اس حدیث میں احمد رضا خان نے اپنے سوء حافظہ یا عادت ِ تحریفانہ کی بنیاد پر ’’فان اﷲ ‘‘کے بجائے ’’فان الذی‘‘لکھ دیا۔
(۲) اور حدیث کے اگلے جملے کو اپنی طرف سے بدل دیا اصل الفاظ یوں تھے
’’لایضع داء اِلاّوضع لہُ دوائً‘‘
لیکن احمد رضا نے یہ الفاظ بدل کر اسطرح لکھ دیئے:
’’انزل الداء انزل الدواء لکل دائٍ‘‘
(۳) اور ترجمہ بھی اسی طرح کیا ہے جسطرح کے الفاظ نقل کیے ہیں جو اس بات کی گواہی ہے کہ اسمیں احمد رضا کے سواء کسی کا قصور نہیں۔
۱۶)  تبدیلی الفاظِ حدیث کی ایک نئی مثال
صدیق ؓوفاروق  ؓکے وصال کو تیرہ سو برس۱۳۰۰سے زائد ہوئے ۔اسوقت تک تبرّے سے انھیں نجات نہیں یہ کیوں۔اسلئے کہ غاشیہ اٹھایا حق کا اپنے کندھوں پر اور دور مٹایا اھل باطل کا 
’’رحم اﷲ عمر ترکہ الحق مالہ من صدیق‘‘ ۔
اللہ رحمت کرے عمر پر کہ حق گوئی نے اسے ایسا کر دیا کہ اسکا کوئی دوست نہ رہا۔
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ سوم صفحہ۲۶۰،۲۶۱نوری کتب خانہ لاہور)
روایت کے اصل الفاظ:
اس حدیث میں عربی جملہ کے الفاظ اصل میں اسطرح ہیں :
’’رحم اللہ عمر ترکہ الحق لیس لہ من صدیق‘‘
(التمھید لابن عبداللہ  ج  ۵  ص  ۱۲۲ مکتبہ )
غلطی کی نشاندھی :
(۱)اس حدیث میں احمد رضا نے ’’لَیْسَ‘‘کو ’’ما‘‘سے بدل دیا اور یہ بھی احمد رضا کی قوت حافظہ کی بہترین دلیل ہے۔
۱۷)  تبدیلی اور بڑھانے کا جرم
بعض صحابہ ء کرام ؓ نے جو نئے مسلمان ہوئے تھے نماز میں حضور اقدس ﷺ پر سبقت کی بعد نماز کو حضور نے ارشاد فرمایا۔
’’اترون ان قبلتی امامی انی اری من خلفی کما اری من امامی ‘‘
ترجمہ احمد رضا:کیا تم دیکھتے ہو کہ میرا منہ قبلہ کو ہے ۔میں ایسا ہی اپنے پیچھے دیکھتا ہوں جیسا آگے۔
(ملفوظات اعلی حضرت حصہ سوم صفحہ۲۶۸نوری کتب خانہ لاہور)
حدیث کے اصل الفاظ:
اس حدیث سے الفاظ اس طرح ہیں:
’’ھل ترون قبلتی ھا ھنا أنی اریٰ من خلفی کما اریٰ من امامی ‘‘
(المعجم الاوسط ،حدیث ۴۹۶۶ ج  ۳  ص  ۴۰۸  دار الکتب العلمیہ بیروت)
حدیث سے نقل کی غلطیاں :
(۱) اس حدیث میں احمد رضا نے ’’ھل‘‘کو ’’اَ‘‘سے
(۲) اور ’’ھاھنا‘‘کو ’’امامی‘‘سے تبدیل کر دیا۔
(۳) اور پھر اپنی طرف ’’شبلتی‘‘سے پہلے ’’انّ مشہ بالفعل ‘‘بڑھا دیا اور یہ سب احمد رضا کی ذہانت اور حافظہ کی کارستانی ہے یا پھر ذوق ِتحریف کا نمونہ ہے۔
۱۸)الفاظ حدیث میں بے ترتیبی
’’چھپا کر دینا محتاجوں کو اعلیٰ وافضل ہے۔حدیث میں ارشاد فرمایا:
’’صدقہ السرّ تدفع میتۃ السوء وتطفئے غضب الربّ‘‘
ترجمہ احمد رضا:چھپا کر صدقہ دینا بُری موت سے بچاتا ہے اور رب العزت جل جلالہ کو غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے۔
(ملفوظات اعلی حضرت حصہ سوم صفحہ۲۷۴نوری کتب خانہ لاہور)
حدیث کے اصل الفاظ :
اس مذکورہ بالا حدیث کے اصل لفظ یوں ہیں:
’’صدقہ السرّ تطفئی غضب الرب وتدفع میتۃ السوء ‘‘
(المعجم الکبیر حدیث  ۱۰۱۸  جلد ۱۹  ص ۴۲۱)
(صحیح ابن حبان،کتاب الزکاۃ باب صدقۃ التطوع  حدیث  ۳۲۹۸ ج  ۵  ص  ۱۳۱)
احمد رضا نے اس حدیث کی ترتیب بدل دی ہے اور ’’تطفی غضب الرَّب ‘‘(جو کہ مقدم تھا)اسے مؤخر کردیا اور 
’’تدفع میتۃ السوء ‘‘(جو کہ مؤخر تھا )اسے مقدم کردیا ۔
اور ترجمہ بھی اسی غلط ترتیب کے مطابق کیا ہے جو کہ احمد رضا کی کندذھنی کی زندہ مثال ہے۔
۱۹)  حدیث میں اضافہ کرنے کی غلطی
(پھر فرمایا)زندگی میں اپنے واسطے صدقہ کرنا بعد موت کے صدقہ سے افضل ہے۔حدیث میں ارشاد فرمایا:
’’افضل الصدقۃ ان تصدق  وانت  صحیح شحیح  ولا تمھل حتی اذا بلغت الحلقوم قلت لفلان کذاولفلان کذا الاو قد کان لفلان تامل الغنی وتخشی الفقر‘‘
ترجمہ احمد رضا:افضل صدقہ یہ ہے کہ تو صدقہ کرے اس حال میں کہ تو تندرست ہو اور مال پر حریص ۔خواہشمندی سے دولت کی تمنّا رکھتا ہو اور محتاجی سے ڈرتا ہو یہ نہ ہو کہ جب دم گلے میں اٹکے اس وقت کہے کہ فلاں کو اتنا فلاں کو اتنا کہ اب تو فلاں کیلئے ہو ہی چکا ۔
(ملفوظات اعلی حضرت حصہ سوم صفحہ۲۷۴نوری کتب خانہ لاہور)
حدیث کے اصل الفاظ:
جبکہ حدیث کے الفاظ اصل میں ایسے ہیں:
’’قال رجل للنبی ﷺ ای الصدقۃ افضل قال ان تصدّق وانت صحیح حریص تامل الغنی وتخشی الفقر ولاتمھل حتی  اذا بلغت الحلقوم قلت لفلانٍ کذا ولفلانٍ کذا وقد کان لفلانٍ‘‘
(بخاری ص  ۳۸۴  جلد  اول ، کتاب الوصایا ،باب الصدقۃ عند الموت ۔قدیمی کتب خانہ)
نقلِ حدیث میں غلطیاں :
(۱) بانیٔ بریلویت احمد رضا نے اس حدیث کی ابتداء میں ’’افضل الصدقہ‘‘کو جواباً بڑھا دیا ہے۔
(۲) اور لفظ ’’حرَیْص‘‘ہٹا کر اپنی طرف سے لفظ ’’شحیح ‘‘زائد کردیا۔
(۳) اور لفظ ’’تامل الغنی وتخشی الفقر‘‘جو کہ ’’حریص‘‘کے بعد تھا اسے احمد رضا نے حدیث سے بالکل آخر میں کردیا۔
(۴) اور ’’وقد کان لفلان ‘‘کو خان صاحب نے ’’الّاوقد کان لفلان‘‘سے بدل دیا۔
۲۰)  ’’خیر ھم‘‘کے بجائے ’’آخر ھم‘‘لکھ دیا اور اضافہ کردیا
عرض :حضور وسط کے معنٰی  افضل کے بھی آتے ہیں جیسے ’’وجعلنکم امۃ وسطاً‘‘
ارشاد:ہاں وسط کیلئے افضلیت لازم ہے آیت کے معنٰی یہ ہیں ’’ہم نے تم کو بہتریں امت بنایا۔
حدیث میں ارشاد ہوا۔
’’انتم تتمون سبعین اُمّۃ من قبلکم وانتم آخر ھم‘‘
ترجمہ احمد رضا:تم سے پہلے ۶۹ امتیں گزریں اور تم سب سے پچھلے ہو۔
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ سوم صفحہ۲۸۶نوری کتب خانہ لاہور)
حدیث کے اصل الفاظ:
حالانکہ حدیث کے الفاظ اس طرح وارد ہیں:
’’انتم تتمون سبعین اُمّۃ انتم خیر ھا‘‘
(مستدرک علیٰ الصحیحین ،کتاب معرفۃ الصحابہ باب ذکر فضائل ھذہ الامۃ  ج ۴  ص  ۹۴  
مکتبہ دارالمعرفۃ بیروت  دارلکتب العمیہ بیروت ۶۹۸۷)
نقل حدیث میں غلطیاں:
(۱)اس حدیث میں احمد رضا نے لفظ ’’خیرھا ‘‘کو بدل کر ’’آخرھم‘‘لکھ دیا جو خان صاحب کے قوت حافظہ کا نمونہ ہے۔
(۲) اور ’’من قبلکم‘‘کا جملہ بھی اپنی طرف سے بڑھا دیا ۔
(۳)  اور’’واؤ‘‘کا اضافہ بھی اپنی جانب سے کردیا۔
(۴)  اور احمد رضاکی یہ سب غلطیاں انکے ترجمہ میں بھی نمایاں ہیں اسلئے ان غلطیوں کو کاتب یا مرتب یا ناشر کی طرف منسوب کرنا حقیقت کے ساتھ کھلا ظلم ہو گا۔
(جاری ہے۔۔۔)
٭٭٭

     

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں