عباس خان﷾
فرقہ اہلحدیث ائمہ اربعہؒ کے اجتہادی اختلافات کو قرآن و حدیث کی طرف لوٹا کر ختم کرنے کے دعوے میں بری طرح نا کام
ان کے عقائد میں بھی آپس میں اختلافات ہیں اور یہ وہ اختلافات ہیں جن میں ایک فریق کا گمراہی پر ہونا لازم آتا ہے۔ جیسے شیعہ اور مرزئی اپنے عقائد کی بنا پر صریح گمراہ بلکہ کافر ہیں عقائد کا اختلاف جو گمراہی سے شروع ہوتا اور حد کفر تک پہنچتا ہے۔
۱۔ اللہ کہاں ہے؟
آج کل غیرمقلدین کہتے ہیں کہ اللہ تعالٰی صرف عرش پر ہے اور کہیں بھی نہیں۔
جبکہ ان کے شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری صاحب لکھتے ہیں:
” اللہ بذات خود اور بعلم خود ہر چیز پر ہر کام پر حاضر ہے“
(تفسیر ثنائیہ ص347)
غیرمقلدین کے مجدد العصر نواب صدیق حسن خان صاحب لکھتے ہیں:
”ہمارے نزدیک راجح بات یہ ہے کہ استواء علی العرش اور اللہ کا آسمان پر ہونا اور مخلوق سے بائن ہونا اور اس کا قر اور معیت اور جو بھی صفات آئی ہیں کیفیت بتانے اور علم و قدرت کے ساتھ تاویل کرنے کے بغیر ظاہر پر جاری ہیں“۔
(کتاب الجوائز والصلات ص262)
جبکہ آج کل ہر جاہل غیرمقلد اس کی علم کے ساتھ تاویل صرف حقیقت کا انکار کرنے کیلئے کرتا ہے۔ وہ اللہ کو ذات کے ساتھ قریب نہیں مانتا لیکن اللہ قریب ہے کو علم کے ساتھ تاویل کرکے جان چھڑانے کی کوشش کرتا ہے۔
غیرمقلدین کے شیخ الکل میاں نذیر حسین دہلوی صاحب ایک سوال ” قریب و معین و احاطہ جو صفات باری تعالٰی ہیں آیا یہ بالذات ہیں یا با العلم ہیں“ کے جواب میں لکھتے ہیں :
”قریب و معین و غیرہ صفات میں بہت اختلاف ہے بعض با الذات مراد سے تاویلات کرتے ہیں اور بعض بالعلم لیتے ہیں لیکن تحقیق مذہب جمہور کا یہ ہے کہ جملہ صفات باری کا ایمان بغیر سوال کیف اور بلا تشبیہ لانا چاہئے یہ تحقیق مطابق مذہب اہل سنت ہے“۔
(فتاویٰ نذیریہ ج1 صفحہ 4)
اگے لکھتے ہیں:
” ہر جگہ حاضر و ناظر ہونا اور ہر چیز کی ہر وقت خبر رکھنا خاص ذات وحدہ لا شریک لہ باری تعالیٰ کے واسطہ ہے۔ کسی دوسرے کے واسطے اس صفت کو لگانا یا سمجھنا کھلا ہوا شرک ہے۔
(فتاویٰ نذیریہ ج1 ص7)
تبصرہ : جب بریلوی حضرات نبیﷺ کو بذات خود ہر جگہ حاضر مانتے ہیں تو غیرمقلدین انہیں مشرک کیوں کہتے ہیں؟ جبکہ غیرمقلدین کے نزدیک اللہ تعالیٰ ہر جگہ حاضر ناظر نہیں تو پھر رسول اللہﷺ کو یا کسی اور کو ہر جگہ حاضر ناظر ماننے سے اللہ کے ساتھ شرک کیسے ہو سکتا ہے۔ اگر اللہ رب العزت ہر جگہ حاضر و ناظر ہیں اور بے شک ہیں تو پھر اس کے بعد اگر کوئی بندہ کسی اور کو ہر جگہ حاضر ناظر سمجھے گا تو اس طرح سے اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا ہو گا جبکہ آج کل کے غیرمقلدین اللہ تعالیٰ کو ہر جگہ حاضر ناظر ماننے کا ہی انکار کرتے ہیں معاذ اللہ۔
۲۔ عقیدہ حیات النبیﷺ
آج کل بعض غیرمقلدین حیات النبیﷺ کا انکار کرتے ہیں اللہ کے نبیﷺ اور بقیہ تمام لوگوں کے صرف روح کے عذاب و ثواب کے قائل ہیں اور جسم کے بارے میں ان کا عقیدہ یہ ہے کہ جسم کو نہ عذاب ہو تا ہے نہ ثواب ہوتا ہے عذاب و ثواب صرف روح کو ہوتا ہے۔ جبکہ غیرمقلدین کے ایک بزرگ اور فتاویٰ ستاریہ کے مصنف لکھتے ہیں:
”جو شخص آپﷺ کی قبر پر جا کر سلا م کہتا ہے اس کا سلام آپ خود سنتے ہیں یہاں سے نہیں سنتے کیونکہ فرشتے پہنچانے کیلئے اللہ نے مقرر فرمائے ہیں“۔
(فتاویٰ ستاریہ ج4 ص91)
قبر کے قریب آپﷺ خود درود سنتے ہیں اور قبر سے دور اگر کوئی درود پڑے تو اسے فرشتے پہنچا دیتے ہیں اس مطلب صاف ظاہر ہے کہ یہی اس دنیا والی قبر میں موجود برزخی زندگی کا حامل جسم میں حیات بے شک موجود ہے جس کا شعور ہم نہیں رکھ سکتے۔
غیرمقلدین کے شیخ الکل فی الکل میاں نذیر حسین دہلوی صاحب بھی حیات النبیﷺ کے قائل تھے اور یہی بات وہ بھی تحریر فرماتے ہیں۔(فتاویٰ نذیریہ ج1 ص7)
یاد رہے یہ عقائد کا مسئلہ ہے اس میں اجتہادات کرکے اختلاف رکھنے کی گنجائش نہیں ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایک حدیث کے صحیح یا ضعیف ہونے پر عقائد تبدیل ہو جائے۔ بعد والا اگر کہے کہ میں نے تحقیق کرکے ان کے عقائد کی دلیل کو کمزور ثابت کرکے عقیدہ بدل لیا ہے تو یہ اس کی اپنی گمراہی ہے ۔عقائد شروع اسلام سے ایک ہی چلے آرہے ہیں۔ اس لئے غیرمقلدین انکی پیش کردہ اس روایت پر جرح کے کے جان نہیں چھڑا سکتے انہیں ماننا پڑے گا کہ یا تو وہ خود گمراہ ہیں یا پھر ان کے یہ بڑے گمراہ تھے۔
۳۔ سماع موتی
یہ مسئلہ اتنا اہم اور بحث طلب کبھی نہیں رہا آج کل غیرمقلدین نے اسے کفر اسلام کاپیمانہ بنا رکھا ہے، صحیح بخاری کی حدیث ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ
”دفنانے کے بعد مت جوتیوں کی آواز سن رہی ہوتی ہے“۔
(صحیح بخاری ج ۱ص۱۷۸)
بے شک آپﷺ نے سچ فرمایا اس سے مردوں کا سننا ثابت ہو گیا۔ لیکن مردہ سن کر ہماری بات کا جواب نہیں دے سکتا نہ اس کو کچھ سنانے کا اسے کچھ فائدہ ہے نہ ہمیں کوئی فائدہ ہے اسلئے اس موقع پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ مردہ سنتا نہیں سن کر جواب نہ دینے سے مردوں کا نہ سننا ثابت نہیں ہوتاکراماً کاتبین بھی ہمارے کندھوں پر بیٹھے ہیں ہم انہیں نہیں سن سکتے وہ ہمیں سن سکتے ہیں دیکھ سکتے ہیں اب کوئی کہے انہیں کچھ سنانا ہے تو کہا جاسکتا ہے کہ یہ سنتے نہیں۔
سماع موتی کے قائل کے بارے میں آج کل کچھ جاہل غیرمقلدین شرک و کفر کا فتویٰ لگتے ہیں جبکہ ان کے ایک بزرگ مولانا عبدالرحمٰن کیلانی صاحب لکھتے ہیں:
” حافظ ابن تیمیہؒ اور حافظ ابن قیمؒ دونوں بزرگ نہ صرف سماع موتی کے قائل تھے بلکہ اسی طبقات صوفیہ سے تعلق رکھتے تھے“۔
(روح عذاب قبر اور سماع موتیٰ ص 55)
گویا اگر سماع موتیٰ کا قائل مشرک ہے تو ابن تیمیہؒ اور ابن قیمؒ دونوں مشرک ہوئے۔ العیاذ باللہ۔ جاہل غیرمقلدین کو بے تکے فتوے دینے سے پہلے تھوڑا سوچ لینا چاہئے۔
غیرمقلدین کے امام شوکانی صاحب لکھتے ہیں:
” ہر مردہ سنتا ہے سماع ہر مردے کیلئے ہے“۔
(نیل الاوطار ج5 ص264)
لطیفہ
سماع موتی کے متعلق غیرمقلدین کے کچھ پڑھے لکھے جاہلوں کے نزدیک ایک عجیب و غریب فلسفہ پایا جاتا ہے۔ غیرمقلدین کے ایک پروفیسر طالب الرحمٰن صاحب نے تو ایک ہی صفحے پر بڑی ہی عجیب بات لکھ دی چنانچہ فرماتے ہیں :
”مردے نہیں سنتے، وہ مردہ ہی کیا جو سنے“۔ (آیئے عقیدہ سیکھئے صفحہ 177)
”مردہ جوتیوں کی آواز سنتا ہے“۔ (آیئے عقیدہ سیکھئے صفحہ 177)
تبصرہ : پروفیسر صاحب کیا یہ اب مردہ نہیں رہا جو سن رہا ہے؟
۴۔ صرف روح کو عذاب و ثواب ہوتا ہے یا روح اور جسم دونوں کو
آج کل کئی غیرمقلدین حضرات خاص کر حیات النبیﷺ کے منکر صرف روح کیلئے عذاب و ثواب کے قائل ہیں جسم کو عذاب و ثواب ہونے کا انکار کرتے ہیں۔ یہ ان کا ایک غلط عقیدہ ہے۔ اگر جسم کے ساتھ بھی عذاب و ثواب کا معاملہ مان لیا جائے تو حیات النبیﷺ کا عقیدہ ثابت ہو جائے گا کیونکہ اگر عام مردے کا جسم عذاب و ثواب کا ذائقہ چکھ سکتا ہے تو انبیاءؑ کو کیا اتنا بھی حق نہیں کہ ان کا جسم عذاب تو نہیں لیکن ثواب کا مزہ چکھ سکے اور اس قدر چکھ رہا ہے کہ قرآن نے ان کو مردہ گمان کرنے سے بھی انکار کر دیا ہے۔
غیرمقلد زبیر علی زئی کے استاد حافظ عبدلمنان نورپوری صاحب لکھتے ہیں:
عذاب و ثواب جسم اور روح دونوں کو ہوتا ہے۔
(قرآن و سنت کی روشنی میں احکام و مسائل جلد ۱صفحہ ۶۵)
مولوی صاحب عام مردے کیلئے جسم اور روح دونوں کیلئے عذاب و ثواب مان رہے ہیں اب سوال یہ ہے کہ عام مردے کو تو روح اور جسم دونوں کے ساتھ عذاب و ثواب مانا جارہا ہے اور شہداء اور انبیاء کومعاذ اللہ اتنی بھی سہولت حاصل نہیں کہ بغیر جسم کے ثواب مانا جارہا ہے۔ اگر جسم کو عذاب و ثواب ہو سکتا ہے تو انبیاء اور شہداء کے جسموں کو یقیناً عذاب نہیں ثواب ہی ہے جو کہ ان کے جسم محسوس کر سکتے ہیں اور یہی حیات الانبیاء اور حیات الشہداء ہے ، اب اللہ تعالٰی روح کے ساتھ یا جسم کے ساتھ جیسا بھی معاملہ کریں اس سے نہ جسم کی حیات کا انکار لازم آئے گا نہ ہی روح کی حیات کا انکار لازم آسکتا ہے ، اللہ جو چاہے ان کے ساتھ معاملہ کریں ہم اسے اللہ ہی کی قدرت سمجھنا ہو گا۔
اور اگر ہمارا کوئی غیرمقلد دوست اس کے بعد بھی بھول کر یہ کہہ دے کہ میں جسم کیلئے عذاب و ثواب نہیں مانتا تو اس کیلئے امام ابن تیمیہؒ کا قول نقل کر دیتے ہیں چناچہ فرماتے ہیں :
”جو شخص یہ کہے کہ عذاب صرف روح کو ہوتا ہے جسم کو نہیں تو ایسا شخص بالاجماع کافر ہے“۔
(فتاوی ابن تیمیہ جلد 4 صفحہ 282)
۵۔ اللہ کی صفت ”ید“
فرقہ اہل حدیث کے ایک بزرگ بدیع الدین راشدی صاحب جنہیں یہ فرقہ شیخ العرب والعجم کہتا ہے فرماتے ہیں:۔
”صفات باری تعالٰی پر مشتمل تمام آیات قرآنی متشابہات کے دائرہ میں آتی ہیں“۔
(امامت کا اہل کون ص10)
دوسری طرف زبیر علی زئی صاحب جو کہ اس فرقے کے محدث العصر کہلائے جاتے ہیں فرماتے ہیں:
”اللہ کی صفت ”ید“ کو متشابہات میں سے کہنا اہل بدعت کا مسلک ہے“۔
(اصول المصابیح ص38)
ان میں سے کون سا اہل حدیث سچا ہے اور کون سا اہل حدیث جھوٹا ؟ ان میں سے کون بدعتی ہے اور کون نہیں؟ ان میں کس کی بات صحیح ہے اور کس کی صحیح نہیں؟
ثابت یہ ہوا کہ زبیر علی زئی کے مطابق اس کا استاد شیخ العرب والجعم بدیع الدین راشدی بدعتی تھا۔
۶۔ اعادۂ روح
یعنی مرنے کے بعد قبر میں روح کا لوٹنا
آج کل بعض لوگ اپنے آپ کو اہل حدیث کہلانے والے مماتیوں اور مسعودیوں (یعنی جماعت المسلمین ) کی طرح اعادۂ روح کا بھی انکار کرتے ہیں۔ جبکہ فتاویٰ علمائے اہل حدیث میں ان کے ایک مولوی صاحب عقائد علماء اہل حدیث کا عنوان قائم کرکے کچھ عقائد لکھتے ہیں:
” قبر میں روح کا اعادہ برحق ہے“۔
(فتاویٰ علمائے اہل حدیث ج10 ص 254)
ثنا ء اللہ امرتسری صاحب امام ابو حنیفہؒ کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ:
”قبر میں روح کا واپس آنا حق ہے“ ۔
(فتاویٰ ثنائیہ ج1 ص 315)
عبد المنان نور پوری صاحب نے تو ایک ایسی بات لکھی ہے جس سے ساری غیرمقلدیت پر چھری پھر جاتی ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
”روح رسول اللہﷺ میں ایک مرتبہ لوٹا دینے کے بعد نکالنے کا کوئی ثبوت نہیں “۔
(قرآن و سنت کی روشنی میں احکام و مسائل ج 2 ص 122)
دوسری جگہ فرماتے ہیں :
” مومن کی روح بدن میں بھی ہوتی ہے اور جنت میں بھی “
(قرآن و سنت کی روشنی میں احکام و مسائل ج2 ص 395)
۷۔ روح کا بدن کے ساتھ تعلق
فرقہ اہل حدیث میں آج کل مرنے کے بعد روح کا بدن کے ساتھ تعلق کے منکر بھی ہیں جبکہ فرقہ اہل حدیث کے شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی صاحب ایک سوال ”موت کے بعد غسل ، جنازے اور دفن ہونے تک انسانی روح پر کیا بیتتی ہے“ کے جواب میں فرماتے ہیں:
” اس دوران میں بھی من وجہ روح کا تعلق بلا اعادہ بدن سے قائم رہتا ہے جس کا احساس اسے مختلف امور میں کرادیا جاتا ہے“۔
(فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ ج 1 ص 244)
یعنی جس وقت میت کو ابھی دفنایا نہیں گیا ہوتا اور ابھی اس میں روح نہیں لوٹی ہوتی تب بھی روح کا تعلق بدن سے قائم رہتا ہے۔
۸۔ تعویذ کا مسئلہ
آج کل کی جاہل غیرمقلد عوام اور ان کے جاہل علماء کو تعویذ اور تمیمہ میں کوئی بھی فرق معلوم نہیں اسلئے ان کے نزدیک تعویذ مطلقاً شرک اور حرام ہے۔ اور یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔
شمیم احمد سلفی غیرمقلد لکھتے ہیں کہ :
تعویذ گنڈے کوڑی وغیرہ لٹکانا حرام ہے۔۔۔۔ تعویذ چاہے قرآن آیات اور اذکار مسنونہ پر مشتمل ہو حرام ہے۔
(تعویذ گنڈہ کی شرعی حیثیت ص 10)
جبکہ ان کے بڑے بڑے علماء اسے ثابت اور جائز مانتے ہیں اور اس غیرمقلد کے فتوے کے مطابق حرامی ہوئے۔٭
چنانچہ فرقہ اہلحدیث کے شیخ الکل میاں نذیر حسن دہلوی صاحب لکھتے ہیں:
”تعویذ لکھ کر گلے میں ڈالنا جائز ہے کوئی حرج نہیں“۔
( فتاویٰ نذیریہ ج 3 ص 298)
فرقہ اہلحدیث کے مجدد نواب صدیق حسن خان صاحب نے کتاب الداء والدواء کتاب التعویذات نام کی پوری کتاب لکھی ہے۔
فرقہ اہلحدیث کے ایک بڑے محدث عبد الرحمٰن مبارک پوری صاحب لکھتے ہیں:
قرآن اور سنت کے علاوہ بھی تعویذ جائز ہے۔
(تحفۃ الاحوذی ص 169)
۹۔توسل
فرقہ اہلحدیث کے امام اہلحدیث نواب وحید الزمان صاحب لکھتے ہیں:
توسل بعد الموت جائز ہے۔
(ہدیۃ المدی ص 48)
فرقہ اہلحدیث کے امام شوکانی صاحب توسل کے قائل ہیں اوراس بات کو انہوں نے اپنی کئی تصنیفات میں بیان بھی کیاہے۔
وَفِي الحَدِيث دَلِيل على جَوَاز التوسل برَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم إِلَى الله عز وَجل مَعَ اعْتِقَاد أَن الْفَاعِل هُوَ الله سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى وَأَنه الْمُعْطِي الْمَانِع مَا شَاءَ كَانَ وَمَا يَشَأْ لم يكن
(تحفۃ الذاکرین211)
فرقہ اہلحدیث کے مجدد نواب صدیق حسن خان صاحب لکھتے ہیں:
”کسی نبی یا ولی یا عالم کے ساتھ توسل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے“۔
(مجموعہ رسائل عقیدہ ص 402)
دوسری طرف اسی فرقے کے کئی جاہل جن میں ان کے علماء بھی شامل ہیں مختلف حیلے بہانے کرکے توسل کا انکار کرتے ہیں۔
(عقیدہ مسلم ص 126وغیرہ)
۱۰۔ حجت اجماع
اس میں تو شک نہیں کہ عملاً غیرمقلدین اجماع کے منکر ہیں مگر تقیہ کرکے ان کے بعض علماء اجماع کو تسلیم بھی کرتے ہیں:
جیسے ایک مولوی صاحب ایک حنفی عالم کے خلاف بکتے ہوئے لکھتے ہیں:
اہل حدیث کا مذہب ہے کہ دین کے اصول چار ہیں:
1۔قرآن 2۔ حدیث 3۔ اجماع امت 4۔ قیاس مجتہد
(اہلحدیث کا مذہب ص 58)
اگر یہ بیان پڑھا ہے تو تمہارا اعتراض باطل ہوا اور اگر نہیں پڑھا تو اپنی انکھوں کا علاج کروا لو“۔
(الحدیث 105 ص 46)
مگر دوسری طرف ان کے عالم عبد المننان نور پوری صاحب لکھتے ہیں:
” اجماع صحابہ اور اجماع ائمہ مجتہدین کا دین میں حجت ہونا قرآن و حدیث سے ثابت نہیں“۔
(مکالمات نورپوری ص 85)
نور الحسن خان صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں:
اجماع اور قیاس کی کوئی حیثیت نہیں۔
(عرف الجادی ص 3)
۱۱۔ حجت رائے و قیاس
فرقہ اہلحدیث کے محدث عبد الرحمٰن مبارک پوری صاحب لکھتے ہیں:
”اس حدیث سے قیاس کی مشروعیت ثابت ہے “۔
(تحفۃ الاحوذی ج 2 ص 43)
زبیر علی زئی غیرمقلد لکھتے ہیں:
سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ کتاب اللہ پھر سنت رسول ﷺ اور پھر آثار ابی بکر و عمرؓ سے فیصلہ کرتے تھے اور اگر کوئی مسئلہ ان سے نہ ملتا تو پھر اپنی رائے سے اجتہاد کرتے تھے۔
(فتاویٰ علمیہ ص 22)
فرقہ اہلحدیث کے امام شوکانی صاحب شرعی دلائل کی ترتیب میں لکھتے ہیں:
” سب سے پہلے قرآن اس کے بعد سنت اس کے بعد اجماع اور آخر میں قیاس“۔
(فقہ الحدیث ج1 ص 105)
دوسری طرف فرقہ اہلحدیث کے مولوی نور الحسن صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں:
اجماع اور قیاس کی کوئی حیثیت نہیں۔
(عرف الجادی ص 3)
عبد المنان نوری پوری صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں:
اجماع و قیاس کا قانون سازی کی بنیاد ہونا قرآن و حدیث سے ثابت نہیں۔
(مکالمات نور پوری ص 85)
فرقہ اہلحدیث کے امام العصر محمد جونا گڑھی صاحب اپنی جہلات بکھیرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”تعجب ہے جس دین میں نبی کی رائے حجت نہ ہو اس دین والے آج ایک امتی کی رائے کو دلیل اور حجت سمجنے لگے“۔
(طریق محمدی ص 40-41)
غیرمقلدین کے ایک مولوی ڈاکٹر بہاوالدین صاحب نے ایک بات لکھی ہے آج غیرمقلد پر پوری فٹ آتی ہے ۔
ہاں بعض عوام کالانعام گروہ اہل حدیث میں ایسے بھی ہیں جو اہل حدیث کہلانے کے مستحق نہیں۔ ان کو لامذہب بد مذہب ضال منصل جو کچھ کہو زیبا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نہ خود کتاب و سنت کا علم رکھتے ہیں نہ اپنے گروہ کے اہل علم کا اتباع کرتے ہیں۔ کسی سے کوئی حدیث سن کر یا کسی اردو مترجم کتاب میں دیکھ کر نہ صرف اس کے ظاہری معنی کے موافق عمل کرنے پر صبر و اکتفا کرتے ہیں۔ بلکہ اس میں اپنی خواہش نفس کے موافق استنباط و اجتہاد بھی شروع کر دیتے ہیں۔ جس میں وہ خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔
(تاریخ اہل حدیث ص164)
یہ تمام باتیں کافی ہیں غیرمقلدین کا عمل بالحدیث اور صرف قرآن حدیث کے جھوٹے نعرے اور دعوے کی پول کھولنے کیلئے۔ اور یہ لوگ ائمہ اربعہؒ کی تقلید سے نکال کر صرف اپنے جاہل مولویوں کی تحقیق کے پیچھے لگاتے ہیں اور خود بھی اسی پر چلتے ہیں۔ اگر ان جہلا سے ہی کسی مسئلہ کو راجح مرجوع کروانا ہے تو کیا یہ بہتر نہیں کہ ائمہ اربعہؒ میں سے ہی کسی ایک کی تقلید کا پابند رہا جائے؟
غیرمقلد عوام کو اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ انکے علماء ائمہ اربعہؒ کی تقلید سے ہٹا کر کوئی اللہ رسول کی طرف نہیں لے جاتے بلکہ اپنی اپنی تحقیقی کے پیچھے آپ لوگوں کو چلا رہے ہیں۔
مورخ اسلام علامہ ابن خلدون ؒ(المتوفی 808 ھ)لکھتے ہیں:
جب مرتبہ اجتہاد تک پہنچنا رک گیا اور اس کا بھی خطرہ تھا کہ اجتہاد نا اہلوں اور ان لوگوں کے قبضہ میں چلاجائےگا جن کی رائے اور دین پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا بڑے بڑے علماء نے اجتہاد سے عجز اور درماندگی کا اعلان کردیا اور لوگوں کو ان چاروں ائمہ کی تقلید پر لگادیا ہر شخص جس کی وہ تقلیدکرتاہے اس کے ساتھ رہے۔اور لوگوں کو اس سے خبردار کیا کہ وہ ائمہ کی تقلید بدل بدل کر نہ کریں یہ تو دین سے کھیلنا ہوجائے گا اس کے سواکوئی صورت ہی نہیں کہ انہی ائمہ اربعہ کے مذاہب آگے نقل کیے جائیں۔
(مقدمہ ابن خلدون باب 6 فصل 7 ص 448 مصر)
سوالات
1: ان دونوں فریقوں میں سے حق پر کون ہے؟
2: کیا جماعت اہل حدیث اس دعویٰ میں جھوٹی ثابت ہو گئی جو وہ کیا کرتی تھی کہ ہم نے ائمہ ابعہؒ کے اجتہادی اختلاف کو اللہ رسول کی طرف لوٹا کر اختلافات ختم کر رہے ہیں؟
3:ان میں سے آپ جس فریق کے مسئلہ کو ٹھیک نہیں سمجھتے تو اس کے بارے میں آپ کا کیا حکم ہے؟ کہ وہ گمراہ ہے بدعتی ہے فاسق ہے اور ایسا عقیدہ یا مسئلہ اپنانے والا کیا ہے؟
4: ان میں سے جس فریق کے مسئلہ کو صحیح نہیں سمجھتے تو اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں کہ وہ اہلسنت میں شامل ہے کہ اس سے خارج ہے اور اس مسئلہ پر وہ گنہگار ہو گا ؟
5: آپ کس طرح سے پتا لگائیں گے کہ کس کا مسئلہ 100 فیصد صحیح ہے اور کون صریح غلطی پر ہے؟ اور کیسے کہہ سکتے ہیں کہ آپ کی اس پر کی جانے والی تحقیق 100 فیصد درست ہی ہوگی؟
6: اجتہادی اختلاف کیا ہوتا ہے؟ کون کرتا ہے اجتہاد ؟ جو نہیں جانتا اجتہاد وہ کیا کرے؟ اور کس کو اجتہاد کی اجازت نہیں؟
7: اصولی اختلاف کیا ہوتا ہے؟ عقائد میں اختلاف کسے کہتے ہیں؟
8: اگر آپ کے یہ بڑے بڑے محقق اور اپنے وقت کے محدث شیخ الکل فلاں کہلانے والے اگر گمراہی پر تھے تو آپ کے بارے میں بندہ کیسے کہے کہ آپ حق پر ہیں ؟
9: جب آپ کے یہ بڑ ے بڑے علماء قرآن حدیث کا دعوی ٰ کرنے والے قرآن حدیث کے خلاف عمل کرتے رہے تو آپ کے بارے میں بندہ کیسے کہے کہ آپ قرآن حدیث زیادہ سمجھ لیتے ہیں؟
10: جو لوگ اتنا علم نہیں رکھتے کہ خود قرآن و حدیث کی تحقیق کر سکیں اور وہ آپ کے علماء پر بھروسہ کرکے بیٹھے ہوئے ہیں ان کے بارے میں آپ کا کیا حکم ہے ؟ اس اختلاف کے بعد تو وہ آپ کے علماء کی طرح ہی گمراہ قرار نہیں دیئے جائیں گے؟
11: آپ کا یہ کہنا کہ مذہب اربعہ حنفی شافعی مالکی حنبلی میں سے حق پر کون ہے آج آپ بتائے کہ آپ میں سے کون حق پر ہے اور کون گمراہی پر جو حق پر ہےاسے حق پر کہنے سے اور دوسرے کو باطل قرار دینے سے کیوں گھبراتے ہیں؟ جیسے مذہب اربعہ کے متعلق آپ کا ہر ایک عالم و جاہل بے سوچے سمجھے کہا کرتا ہے۔
12: کیا آپ کہ ان علماء کا یہ دعویٰ نہیں تھا کہ ہم صرف قرآن حدیث مانتے ؟ کیا آپ کا بھی یہ دعویٰ نہیں ؟ اگر آپ کے علماء واقعی میں اس دعویٰ میں سچے تھے تو پھر یہ ایسے اختلافات کہاں سے آ گئے ؟
13: اگر ان میں سے کوئی ایک ہی حق پر ہے اور دوسرا باطل ہے تو کیا آپ لوگ اپنی جماعت کی بدنامی کے ڈر سے حق کو چھپا کر رکھیں گے اور باطل کو پنا دے کر رکھیں گے؟
14: جب کبھی بھی آپ کے سامنے آپ کے علماء کے حوالہ پیش کیئے جاتے ہیں تو آپ کا جاہل سے لے کر عالم تک ہر ایک یہی کہتا ہے کہ ہم ان کی مقلد نہیں ہم قرآن حدیث مانتے ہیں سوال یہ ہے کیا آپ لوگوں نے قرآن حدیث کو صرف جان چھڑانے کا ذریعہ بنا لیا ہے اور کیا جن کے حوالے آپ کو پیش کیئے جاتے ہیں وہ قرآن حدیث کے منکر تھے؟ اور وہ کس کے مقلد تھے ؟ وہ بھی تو یہی کہتے تھے کہ ہم قرآن حدیث مانتے ہیں ؟ پھر بھی گمراہ ہو گے؟
٭٭٭
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں