فاروق درویش
جہانِ شب ہے دھواں صبحِ انقلاب بنو
جلا دو تختِ بتاں دستِ احتساب بنو
لہو کے دیپ جلاؤ کے شب طویل ہوئی
محل سے روشنی چھینو سحر کی تاب بنو
تڑپ رہے ہو جزیرہ نما تنوروں میں
ہوا کے دوش پہ اڑتے ہوئے سحاب بنو
اگر ہو لیلیٰ تو صحرا میں چھوڑ دو محمل
بنو جو قیس تو پھر عشق کی کتاب بنو
عتابِ زرد میں خاموش خود کشی ہوگی
سکوتِ مرگ میں نعرۂ اضطراب بنو
جو ظلمتوں کے بیاباں سے ڈر گئے درویشؔ
انہیں کہو کہ اٹھو! جہدِ بو تراب بنو
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں