پیر، 11 مارچ، 2019

(غزل) جو ہوا سو ہوا- ندا فاضلی

ندا فاضلی

اٹھ کے کپڑے بدل گھر سے باہر نکل جو ہوا سو ہوا
رات کے بعد دن آج کے بعد کل جو ہوا سو ہوا

جب تلک سانس ہے بھوک ہے پیاس ہے یہ ہی اتہاس ہے
رکھ کے کاندھے پہ ہل کھیت کی اور چل جو ہوا سو ہوا

جو مرا کیوں مرا؟ جو لٹا کیوں لُٹا؟ جو جلا کیوں جلا؟
مدتوں سے ہیں گم ان سوالوں کے حل جو ہوا سو ہوا

خون سے تر بتر کر کے ہر رہ گزر تھک چکے جانور
لکڑیوں کی طرح پھر سے چولہے میں جل جو ہوا سو ہوا

مندروں میں بھجن مسجدوں میں اذاں آدمی ہے کہاں؟
آدمی کے لیے ایک تازہ غزل جو ہوا سو ہوا

     

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں