مولوی ابوالبرکات حمیدی
متعلّم دارالعلوم دیوبند
ابتدائے اسلام سے لے کر آج تک تاریخ اسلام کا کوئی ایسا دور نہیں گذرا جس میں اسلام کے خلاف محاذ آرائی و ہرزہ سرائی نہ کی گئی ہو۔ دشمنانِ اسلام نے اسلام کے صادق و شفاف چہرے کو داغ دار کرنے کے لئے ہرممکن کوششیں کیں ، اسلامی احکام وتعلیمات، شعائر و تخصصات، پیغمبر اسلام کی سیاسی، سماجی، معاملاتی، انفرادی و اجتماعی زندگی غرض کہ ہر چہار جانب سے اسلام پر حملہ کیا۔ اشاعت اسلام کے پہلے دور میں ابوجہل، ابولہب، عتبہ، شیبہ اور امیہ بن خلف وغیرہ ائمہٴ کفر نے حق کی آواز کو اپنی قوت سے روکنا چاہا پھر بعد کی تاریخ میں چنگیز، ہلاکو اور تاتار جیسی بے رحم و سفاک قوم نے جنونِ خودداری و پنداری اوراسلام دشمنی میں ہزاروں سیکڑوں مسلمانوں کو تہ تیغ کیا اور موجودہ ایام میں سوامی سردھا نند، سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین جیسی بدبخت قلم کاروں نے اپنی تالیفات، تصنیفات بلکہ فحش نگارشات کے ذریعہ نئی نسل کے ذہن کو اسلام کے تئیں پراگندہ کئے اور کررہے ہیں اور اپنی اسلام دشمنی کا اظہار کررہے ہیں۔ اس طرح کی تمام سرگرمیوں کا پیش خیمہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے مذہب، مذہبی تعلیمات، مذہبی عقیدت سے دل برداستہ ہوجائیں، ان کے دلوں سے نبی کا مرتبہ اس عبقری شخصیت کا ادب و احترام نکل جائے، آنے والی نسل یہ سوچنے لگے کہ اسلام کی تعلیمات زیادتی و بربریت پر مبنی ہے، محمد کسی خدائی پیمبر کا نام نہیں جس نے اپنے اخلاق فاضلہ کے ذریعہ تڑپتی انسانیت کو سکون و راحت کا سامان، زندگی گذارنے کا مکمل قانون و نظام عطاء کیا، بلکہ محمد (نعوذ باللہ) ایسے شخص کا نام ہے جس نے دنیا میں قتل وغارت گری، حوس پرستی و فحش کاری غرض کہ جملہ بدکاری کو فروغ دیا ، لیکن عقل سلیم جب انصاف کے ساتھ تاریخ اسلام، احکام قرآن اور سیرت نبوی کا مطالعہ کرتی ہے تو خود بخود اعتراف کرتی ہے کہ بخدا یہ تمام اعتراضات جو اسلام کے خلاف کئے گئے ہیں سب جھوٹ ہیں جو تعصب و تنگ نظری کا نتیجہ ہیں، حقیقت اس سے کوسوں دور ہے۔
اگر میں اپنی جانب سے اسلام کے لئے وکالت کروں تو منھ میاں مٹھو بننے کا الزام آئے گا۔ لیجئے ان لوگوں کی زبانی جن کی گھٹی میں اسلام دشمنی پڑی ہوئی تھی، لیکن جب انھوں نے اسلام کو انصاف کی نظر سے مطالعہ کیا تو پھر اس کے پاکیزہ و صاف ستھرے نظام زندگی و بندگی، رسول کریم ﷺ کے اعلیٰ و ارفع اخلاق و کردار سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور اپنے آپ کو دامن اسلام سے وابستہ کرکے اسلام کے عالمی اخوت میں شریک ہوگئے، صرف یہی نہیں کہ وہ مسلمان ہوئے بلکہ اسلام پر عائد کئے گئے جملہ اعتراض کا منھ توڑ جواب بھی دیا اور سچے پکے مبلغ اسلام بن گئے تو لیجئے سب سے پہلے پڑوسی ملک پاکستان کے سابق کرکیٹر عمران خاں کی اہلیہ محترمہ کے تاثرات کو ملاحظہ فرمائیے۔
* جمایما خان (پاکستان) کہتی ہیں:
خدا کا شکر ہے کہ اسلام قبول کرنے سے پہلے بھی میں تثلیث کی قائل نہیں تھی اور توحید پر یقین رکھتی تھی۔ اس لئے جب میں نے توحید خداوندی کے بارے میں پڑھا تو میرے ذہن نے اس کی حقانیت کو فوراً تسلیم کرلیا۔ اسلام کے اس پہلو نے مجھ کو بہت متاثر کیا کہ یہ ایک مکمل نظام حیات ہے اور زندگی کے ایک ایک شعبے کی رہنمائی کرتا ہے۔ چنانچہ نہانے دھونے سے لے کر خاندانی تعلقات اور معاشرتی روابط کے حوالے سے ایک ایک معاملہ میں یہ دین ٹھوس اور فطری رہبری کرتا ہے۔
* محترمہ امینہ لکھائی (امریکہ) فرماتی ہیں:
اسلام وہ مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں انسانی زندگی کی پاکیزگی پر زور دیا جاتا ہے۔ خواہ وہ انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی۔ خصوصاً اللہ کی نظر میں عورت کو ایک خاص حیثیت حاصل ہے۔ جبکہ مغربی دنیا میں یہ محض تجارتی اشتہار بازی کا آلہ ہے اسلام میں عورتوں کے استحصال کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔ کاروباری مقاصد کیلئے نہ تو کسی عورت کو بیچا جاتا ہے اور نہ ہی اس کے حوالے سے اس کی توہین و تذلیل کی جاتی ہے۔
* محترمہ میریولازِیسنی (پولینڈ) کہتی ہیں :
چرچ والوں کا یہ پیچیدہ فلسفہ کہ ”خدا اس کا بیٹا اور روح القدس مل کر ایک ہوتا ہے“ نے مجھے الجھن میں ڈالا جس سے دین عیسائیت کی نفرت دل میں بیٹھ گئی پھر جستجوئےحق نے اسلام کی چوکھٹ پہ لاکھڑا کیا اور میں نے اسلام قبول کرلیا۔ قرآن کریم سے سب سے زیادہ متاثر ہوئی۔
* محترمہ اریکہ سیفرٹ (جرمنی) برلن یونیورسٹی کی طالبہ ہیں، فرماتی ہیں:
آزادیٴ نسواں کے نام پر ملنے والی بے حیائی، عزت و ناموس کو کھلونا بنانے اور معراج انسانی پانے کا دعویٰ کرنے والی تہذیب سے نفرت نے اسلامی لٹریچروں کی طرف رہنمائی کی اور اس نے اسلام کی طرف۔اسلام ایک حقیقت سے پُرسیدھا راستہ ہے۔ اسلامی زندگی اسلامی معاشرہ کی بنیادی یونٹ ہے۔ اسلام خصوصی طورپر عورتوں کا بہت احترام کرتاہے اسلام میں خواتین و بچوں کو خصوصی تحفظ حاصل ہے۔
* محترمہ میری کالونی (اسٹریلیا) کہتی ہیں:
میں دل ہی دل عیسائیت کے توہمانہ و پراسرار عقیدۂ توحید اور کراماتی تعلیمات سے بیزار تھی، میری طبیعت کیلئے اس میں کوئی چیز باعث کشش نہ تھی کہ اچانک اسلامیات کی ایک کتاب ہاتھ لگ گئی۔ اس کو پڑھنا شروع کیا آہستہ آہستہ نورِ ایمان سے میرا دل منور ہونے لگا اور جب کتاب ختم ہوئی تو میری کیفیت بالکل بدل گئی تھی اور اب میں مسلمان تھی۔ اگر آپ یہ سوال کریں کہ اسلام کے کس پہلونے آپ کو سب سے زیادہ متاثر کیا؟ تو میں کہوں گی نماز نے؛ کیوں کہ عیسائیت کی عبادت میں حضرتِ عیسیٰ علیہ السلام کو واسطہ بناکر خدا سے دنیاوی نعمتیں طلب کی جاتی ہیں، جب کہ نماز میں براہ راست خدا سے تعلق قائم ہوتا ہے۔ بندہ اپنے رب کی حمدوثنا کرتا ہے اور اس سے دنیا و آخرت کی نعمتیں وبھلائیاں طلب کرتا ہے، ظاہر ہے دونوں میں آسمان و زمین کا فرق ہے۔
* محترمہ اونا ولیمز (اسٹریلیا) کہتی ہیں:
مجھ کو مطالعہ کرنے کا جنون کی حد تک شوق تھا، اسی شوق و ذوق نے قرآن کے مطالعہ کی طرف راغب کیا میں نے خصوصی طور پر سورہ مریم کی تفسیر کا مطالعہ کیا جس سے مریم عليها السلام کے متعلق تفصیلی جانکاری حاصل ہوئی۔ قرآن کی صدق بیانی و سحرانگیزی نے مجھے اسلام قبول کرنے پرمجبور کیا۔ الحمد للہ اب میں مسلمان ہوں پہلے اور اب کی زندگی میں دن رات کا فرق ہے۔ میں مسرور و خوش ہوں کہ اسلام نے مجھے روحانی و قلبی اطمینان و سکون بخشا جو دنیا کے کسی بھی مذہب میں نہیں پایا جاتا۔
* مسٹرگریگ نوح (امریکہ) کہتے ہیں:
جب کوئی آبائی دین چھوڑ کر اسلام قبول کرتا ہے تو اس سے اسباب دریافت کئے جاتے ہیں۔ جس میں اسلامی خوبیوں کی فہرست لگانی ہوتی ہے۔ میں جہاں تک خیال کرتا ہوں کہ اسلام کے بارے میں اس طرح سوال کرنا اسلام کی خوبصورتی و دلکشی کو کم کرنے کے مترادف ہے تاہم میرے قبول اسلام کے نمایاں تین سبب تھے۔
(1) اسلام کا یوم حساب کا نظریہ
(2) ہر مسلمان کا بغیر کسی پادری کے واسطے کے قرب الٰہی حاصل کرنا
(3) قرآن کریم کے صدیوں گذرجانے کے بعد بھی غیرمحرف ہونا۔
* محترمہ ثریا (امریکہ) ایسٹرن یونیورسٹی کی نومسلم طالبہ ہیں، کہتی ہیں :
اسلام پر یہ الزام ہے کہ وہ عورتوں پر ظلم کرتا ہے۔ ان کو کما حقہ حق نہیں دیتا۔ یہ الزام و بہتان وہی لگاسکتا ہے جو اسلامی تعلیمات سے یکسر بے بہرہ ہو۔ اسلام عورتوں کو ان کا عرفی حق دیتا ہے، عورتوں پر ظلم ایسا معیار اسلام میں ہرگز نہیں۔
* جناب عبداللّٰہ اڈیار (سابق ایڈیٹر روزنامہ نروتم تمل زبان ۔ ہندوستان) محسن انسانیت ﷺ کے متعلق لکھتے ہیں۔
سارے عالم کو سیدھی راہ دکھانے والے، خداکی طرف سے بھیجے ہوئے قائد، عربوں کو حکمت و شعور کی دولت سے مالا مال کرنے والے، روم کی طاقت کو شکست فاش دینے والے آقا حکمت وعمل کی دنیا کے سارے ہی خزانوں کو اسلام کے پیروں پر نثار کرنے والے عظیم قائد! شہنشاہ اعظم نے بچپن میں اجرت پر بکریاں بھی چرائیں۔ کتنے مشکلات کے آپ شکار ہوئے اس تصور سے ہماری آنکھیں اشک بار ہوجاتی ہیں۔ اس خلق عظیم سے متصف شخصیت کی قیادت مسلمانوں کو حاصل ہے۔ یقینا مسلمان خوش قسمت ہیں۔
* ڈاکٹر لیلہ عائشہ عبداللّٰہ (ہندوستان) جنوبی ہند بنگلور کی رہنے والی ہیں، اسلام کے بارے میں ان کا تاثر ہے:
مجھے عبادت کی سادگی ویک رنگی نے بہت متاثر کیا۔ ہر وہ شخص جو کلمہ طیبہ پڑھ لیتا ہے، اخوت و بھائی چارگی کے رشتہ سے منسلک ہوجاتا ہے اور رنگ ونسل سے بالاتر ایک طرف منھ کرکے ایک ساتھ نماز ادا کرتا ہے۔ اسلام سے پہلے میں برہمن نہ ہونے کی وجہ سے برہمن سے نہیں مل سکتی تھی حالانکہ میں میڈیکل سائنس کی اعلیٰ ڈگری یافتہ تھی۔
* ڈاکٹر مچل، ایچ، ہارٹ (Dr. Mechel H. Heart)برطانیہ کے ایک مشہور صحافی ہیں، جناب نبی ﷺ کی رحیمانہ و کریمانہ ذات اور ہمہ گیر شخصیت سے متاثر ہوکر لکھتے ہیں:
میں نے لقمان کی دانائی پڑھی، ارسطو کی منطق و فلسفہ پڑھا، بوعلی سینا کی حذاقت و طبابت پڑھی، رستم و سہراب کے قصوں کا جائزہ لیا، لینن و کارل مارکس کے فارمولے پڑھے، مشرق و مغرب کی ساری لیڈرشپ اور عرب وعجم کے تمام لیڈران کا جائزہ لیا، لیکن مجھے ایسا قائد جس کی شخصیت کا ہر پہلو بے داغ ، جس سے اپنے پرائے محبت کرنے پر مجبور ہوجائیں ان میں کوئی نظر نہیں آتا سوائے محمد عربی ﷺ کے اس لئے کہ دوسرے کسی میں اگر کوئی خوبی ہے تو وہ وقتی، علاقائی یا پھر اس کی اپنی قوم سے تعلق رکھتی ہے۔
”مشت نمونہ از خروارے“ کے تحت یہ ایک جھلک ہے جس سے یہ معلوم کرنا بالکل آسان ہوجاتا ہے کہ اسلام ایک پاکیزہ اور عند اللہ برگزیدہ دین ہے اس کی تعلیمات نقائص سے پاک ہے، مکمل ضابطہ زندگی وبندگی ہے، پیار ومحبت، اخوت و بھائی چارگی کا دین ہے۔ اسلام نے انسانوں کو انسانیت سکھایا حیوانیت کی زندگی بسر کرنے والوں کو سلیقہ، تہذیب اور ڈسپلن دیا، نسلی رنگ و روپ قومی تعصب و بربریت کی ردائے خاردار کو تار تار کیا، عورتوں کو جائز حقوق عطاء کیا، ان کو شمع انجمن و رونق محفل بننے سے روکا، مردوں کی ہوس سے بچایا، ان کی زندگی کا مقصد ومعراج عطاء کیا، دنیا سے خوں ریزی، شخصیت حکمرانوں کی بالادستی، بیجا تسلط کو ختم کیا، متکبرین کو خدا کا خوف یاد دلایا، اسلام کا پیام صرف اور صرف مسلمانوں کے نہیں بلکہ پوری دنیا کے لئے عام ہے۔ اسی طرح جناب نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کی نبوت و رسالت بھی آفاقی و عالمگیری ہے آپ کی ذات رحمة للعالمین ہے۔ آپ کے مثل نہ دنیا میں کوئی آیا نہ آسکتا ہے، دنیا کی مشہور ہستیاں خواہ وہ کارل مارکس ہوں، لیوٹالسٹائے ہوں، روسو ہوں یا ابراہم لنکن ہو تمام آپ کے سامنے ہیچ ہیں، بلکہ میں تو کہتاہوں کہ ان تمام مذکورہ شخصیات پر چھٹی صدی میں طلوع ہونے والے آفتابِ رسالت ﷺ کا عکس و پرتو ہے آپﷺ نے نہ تو دہشت گردی کی تعلیم دی ہے اور نہ ظلم کو روا رکھا، آپ ﷺ نے رواداری سکھایا، آپ کی بعثت کا مقصد دنیاکو توحید سے باخبر کرنا تھا لوگوں کو احکام ربانی ونور ایمانی سے لبریز کرنا تھا، آپ نے مٹی کے ذروں، پانی کے قطروں، امنڈتے بادلوں، چڑھتی گھٹاؤں ، کوندتی بجلیوں، زمین کی خشکیوں ، پستیوں غرض کہ ہر ذرہ کائنات میں خدا کے جلوے دکھائے۔ دشمن کو اپنی دلفریب تعلیم و تربیت سے اپنا جاں نثار بنایا دنیا کے تمام مسلمانوں کو اخوت کے رشتہ میں جوڑا یہ چشم کشا حقیقتیں ہیں جن کو بھلے اسلام دشمنی میں چور و مخمور دشمنان اسلام بھلادیں لیکن دنیا کا ایک بہت بڑا طبقہ جو حقیقت پسندانہ و منصفانہ اور غیرجانبدارانہ مزاج رکھتا ہے ان حقائق سے کبھی آنکھیں نہیں چراسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام آج بھی تمام تر ریشہ دوانیوں کے باوجود تیزی سے پھیلتا جارہا ہے اور پھیلتا رہے گا اور باری تعالیٰ کا کیا ہوا وعدہ پورا ہوتا رہے گا۔
نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا٭
٭ بشکریہ ماہنامہ دار العلوم دیوبند، جولائی ۲۰۰۸ء
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں