مولانا سید ابوالحسن علی ندوی
اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے ہمیں اسلام عطا فرمایا
اللہ تعالیٰ کاشکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں مسلمان پیدا کیا، مسلمان گھروں میں پیدا کیااور ایمان نصیب فرمایااور شریف گھرانوں میں ہم نے آنکھیں کھولیں اور پھر اللہ تعالیٰ کااور زیادہ فضل ہے کہ دین دار گھرانوں میں ہماری پرورش ہوئی اور پھر یہ احسان عظیم فرمایا کہ مردوں سے اللہ تعالیٰ نے تبلیغی کام شروع کرایااور اس کی برکت گھروں تک پہنچی او راب تو اللہ کے فضل وکرم سے گھروں میں ہماری مائیں اور بہنیں تبلیغی کام کرنے لگی ہیں ۔ اس کی برکت سے ہم اچھابرا سمجھنے لگے، حرام وحلال، نیک وبد، جائز وناجائز، اللہ کس چیز سے راضی یاناراض ہوتا ہے، اس کی کچھ سوجھ بوجھ ہونے لگی اور اس کی پوچھ گچھ بھی شروع ہوئی کہ زندگی کی کون سی چیزیں اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند ہیں اور کون کون سی چیزیں ایسی ہیں جو اللہ کوناپسند ہیں، معاشرت کیسی ہونی چاہیے؟ گھروں میں رہنا سہنا کیسا ہونا چاہیے؟ لباس اور کپڑے کس طرح کے ہونے چاہئیں کہ شریعت کے مطابق ہوں اور کون سے شریعت کے خلاف ہیں؟ ان باتوں کااب گھروں میں تذکرہ ہونے لگا ہے۔
مغربی تہذیب کااصول " کھاؤ پیو، مست رہو"
آپ سب اس ملک میں ہیں، یہاں بہت دنوں سے یاسیکڑوں برس سے خدا کاخوف، شرم وحیا، لحاظ اور تہذیب نہیں رہی، یہاں صرف ایک ہی کام رہا کھاؤ پیواور مست رہو، چناں چہ انگریزوں میں کہاوت ہے ” کھاؤ، پیو، مست رہو، مگن رہو“ یہ مگن رہنا ان کے یہاں زندگی کااصول ہے، جس میں آدمی مگن رہے اور مست ر ہے موت کبھی بھول کر بھی یاد نہ آئے کہ ہمیں مرنا ہے، ہمیں خدا کے سامنے جانا ہے، یہاں جو مزے اڑائے ہیں، گلچھرے اڑائے ہیں ان کاجواب دینا ہے، یہاں جو موج اڑائی ہے اس کا پائی پائی کاحساب دینا ہے۔
یہاں زندگی کااصول یہ ہے کہ آدمی موت کوبھولا رہے، آخرت کوبھولا رہے، اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑے رہے اور صرف عمدہ سے عمدہ کھانا، اچھی سے اچھی صحت بنانا، جوانی کامزہ اڑانا اور دولت کے مزے اڑانا یاد رکھے، یہ یہاں کی زندگی کااصول بن گیا ہے۔
لیکن خدا کے فضل وکرم سے ہمارا جس مذہب سے تعلق ہے اور جس ملک سے تعلق ہے اور جن لوگوں سے تعلق ہے، ان کی زندگی کااصول یہ نہیں ہے۔ ان کوتو یہ بتایاگیا ہے کہ دنیاتو کافر کی جنت اور مسلمانوں کاجیل خانہ ہے، جیل خانہ میں آدمی موج نہیں اڑاتا، جیل خانہ میں آدمی آزاد نہیں ہوتا کہ گھومنے پر آیاتو گھومتا چلا گیا، جو دل میں بات آئی، جو من میں چاہت ہوئی بس وہ کر گزرا، کوئی روک ٹوک نہیں، کوئی پابندی نہیں، جیل خانہ میں گھومنے پھرنے کی جگہ بھی نپی تلی ۔ کھانے کاحساب بھی نپاتلا، کھانے کوجی کچھ چاہتا ہے مل کچھ رہا ہے، پسند کچھ ہے اورکھِلایا کچھ جارہا ہے، کبھی پہننے کوجی چاہا، کبھی سیر کاجی چاہا، ہوا خوری کاجی چاہا، مگر یہ تو چہار دیواری ہے، یہ تو جیل کی کوٹھری ہے اور کافر کے لیے کیا ہے؟ بس ایک بہت بڑا پارک، ایک بہت بڑاباغ، ایک بہت بڑا چمن، چاہے لوٹے پوٹے، چاہے گھومے، چاہے ننگا پھرے، چاہے چہکے، چاہے بیل کی طرح چلے، کھائے پئے، کوئی بولنے والا نہیں، کوئی پوچھنے والا نہیں، تو ” دنیا کافر کی جنت اور مومن کاجیل خانہ ہے ۔“
دنیامیں اس طرح رہوجیسے کہ تم پردیس میں ہو
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” کن فی الدنیا کأنک غریب او عابر سبیل۔“
(دنیامیں اس طرح رہوجیسا کہ تم پردیس میں ہویا کہ راستہ چلتے مسافر۔)
جو مسافر ہوتا ہے اس کاجی نہیں لگتا، وہ کسی جگہ اپنا گھر نہیں بناتا، کسی اسٹیشن پرٹھہر نہیں جاتا، دیکھتا سب کچھ ہے، گزرتا سب جگہ سے ہے، لیکن اپنے وطن کونہیں بھولتا اور نہ اپنی منزل کوبھولتا ہے، کہاں سے چلے تھے اور کہاں جانا ہے اور جہاں جانا ہے وہاں سے کام کرکے فوراً آنا ہے، جیسے چڑیاں دن بھر اڑتی رہتی ہیں، جیسے کبوتر اور میناہوں، جو دن بھر اڑتی رہتی ہیں اور دن بھر جگہ جگہ سے دانہ چگتی جاتی ہیں، لیکن اپنے آشیانہ، اپنے گھونسلہ کوبھولتی نہیں کہ کہیں اور پہنچ جائیں، شام ہوئی تو سیدھے اپنے گھر واپس آتی ہیں، کسی شاخ پر وہی تنکوں اور پتیوں کابنا ہوا گھونسلہ، دن بھر چاہے کسی امیر کے محل پر جاکر، کسی اونچی سے اونچی کوٹھی پر جاکر اپنا چارہ تلاش کرے، شام ہوئی تو اپنا گھر یاد آیا، بال بچے یاد آئے، اڑکروہیں پہنچیں، یہی مؤمن کاحال ہے کہ دنیامیں سارا دن گھومتا پھرتا رہے، کام کاج کرے، دکان پر بیٹھے، دس دس گھنٹے یوٹی دے، لیکن اس کواصلی بستی نہیں بھولتی، اس کوقبر کا کونا نہیں بھولتا، وہاں سیکڑوں ہزاروں برس سونا ہے، اس کوآخرت نہیں بھولتی، بس شام ہوئی، یعنی جیسے ہی دنیا کا کام ختم ہوا، اپنے اصلی وطن کی راہ لی۔
مسلمان کواپنا اصلی وطن نہیں بھولنا چاہیے
مسلمان کی زندگی ایسی ہی ہونی چاہیے، ہمارے لیے ہندوستان، فرانس، جرمنی اور بڑے سے بڑے ملک امریکا، کینی اسب برابر ہیں، ہم کہیں بھی ہوں اپنا وطن نہیں بھولنا چاہیے، چاہے وہ محل ہو یاجھونپڑا، لیکن دل ہمارا خدا کے پاس رہنا چاہیے، ہمارا جسم کہیں بھی ہو، ہم کواصل جگہ کبھی نہیں بھولنی چاہیے، جہاں ہم کومدتوں رہنا ہے، وہ قبر کا کونا ہے، جہاں اندھیرا ہے، قبرستان جو جنگل میں ہے، شہر کی آبادی سے دور، جہاں نہ شہر کے بچوں کی آواز پہنچ سکتی ہے، نہ بڑوں کی، وہاں تو آدمی ہے اور اس کاعمل، جو نمازیں ٹوٹی پھوٹی پڑھیں، جو کلمہ پڑھا، درود شریف پڑھا، وہ وہاں کام دے گا، اسی سے وہاں دل لگے گا، وہی وہاں کاتکیہ، وہی وہاں کابچھونا، وہی وہاں کی روشنی، وہی وہاں کا چراغ، وہاں کی گنجائش اور وسعت، ورنہ وہ کونا جہاں آدمی کروٹ بھی نہ لے سکے، وہاں جو کچھ کام آئے گا، وہ نور ایمان کام آئے گا، اللہ کانام کام آئے گا، زندگی میں اللہ کے ساتھ جو تعلق پیدا کیا ہے وہ کام آئے گا، نماز میں اگر یہاں دل لگا ہے تو وہاں بھی دل خوش ہوگا، اگر کلمہ، نماز اور ایمان کی باتوں میں دل نہیں لگا ہے اور طبیعت ہمیشہ اچاٹ رہی اور وہی کپڑوں میں، زیور میں، کھانے پینے میں، کوٹھی میں، موٹر میں اگر وہ پھنسا رہاتو وہاں وحشت ہوگی، وہاں ان میں سے کوئی چیز موجودہ نہ ہوگی، یہ چیزیں تو کیا ہوں گی، باپ مدد کرنے کے لیے، ماں بھی دلاسہ دینے کے لیے، بیٹی بھی خدمت کرنے کے لیے، بیٹے بھی سلوک کرنے کے لیے وہاں موجود نہ ہوں گے، وہاں وہی ایک نام اللہ کا، اللہ کانام کام آئے گا اور ایمان کانور کام آئے گا، نماز روزہ کانور کام آئے گا، قرآن کی روشنی کام آئے گی اور جو اللہ کاذکر کیابس وہی کام آئے گا۔
حدیث میں ہے کہ ” قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہوگی یادوزخ کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا۔” وہاں جو کام آنے والی چیزیں ہیں، وہ خود کچھ نہیں، یہیں کے اچھے عمل باغ بن جائیں گے، انہی اچھے اعمال سے جنت کی ہوائیں آئیں گی، حدیث میں آتا ہے کہ قبر کی کھڑکی کھول دی جاتی ہے، وہاں ان کو پہلے سے جنت کی ہواؤں کے جھونکے آنے لگتے ہیں، خوشبوئیں آنے لگتی ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہی ہمارا ٹھکانا ہے اور حدیث میں یہ بھی آتا ہے کہ مرنے کے وقت اور مرنے کے بعد اس کا ٹھکانا اس کودکھا یاجائے گا کہ تمہارا ٹھکانہ جہنم ہے یاجنت اور یہ بھی حدیث میں ہے کہ اگر کسی کے اچھے عمل ہیں، ایمان سلامت لے کر گیا ہے تو اس سے کہاجاتا ہے”نم کنومۃ العروس“ ”سوجا جیسے دلہن سوتی ہے“۔
قبر کی فکر ہی اصل فکر ہے
اس گھر کی فکر کرنی چاہیے اور جو چیزیں وہاں کام آنے والی ہیں، ان کی فکر کرنی چاہیے، یہاں کے سامان کاحال یہ ہے کہ بچپن کاسامان جوانی میں کام نہیں آتا، جوانی کاسامان بڑھاپے میں کام نہیں آتا، بچپن میں جو کپڑے تھے جوانی میں پہنے نہیں جاتے او رجوانی میں جو کپڑے ہیں وہ بڑھاپے میں پہننا مناسب نہیں، یہ تو جوانی کے شوق تھے، بڑھاپے کا کپڑااور ہوتا ہے اور اب تو دو مہینے کے کپڑے اس زمانہ میں کام نہیں آتے، یہاں یورپ پر ایسی مصیبت آئی ہے اور اس کی بدولت ساری دنیا پر، یہاں مہینے دو مہینے میں فیشن بدلتے ہیں، پہلے فیشن کے مطابق جو کپڑے بنالیے، اب جب فیشن بدل گیاتو بالکل پرانے اور دقیانویسی معلوم ہونے لگتے ہیں اور ان کو پہن کر شادیوں میں جانا معیوب سمجھاجاتا ہے، ایسی بے مروت، آنکھ چرانے والی او رمنھ موڑنے والی اور جلدی سے جلدی بدل جانے والی تہذیب! اس پرا گر دل لگائے تو اس سے زیادہ بے عقل کون ہوگا؟!
حضرت ابراہیم علیہ السلام کاواقعہ
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب ستارہ دیکھاتو کہا کہ یہ تو بڑا چمک دار ہے، کچھ عجب نہیں کہ دنیا کا پیدا کرنے والا ہو ۔ اب جو ستارہ غروب ہوا اور وب گیاتو انہوں نے کہا کہ یہ تو کچھ نہیں، اس کا کوئی بھروسہ نہیں ۔ پھر جاند دیکھاتو کہاسبحان اللہ، چاند کا کیا کہنا، کیسی روشنی، ساری دنیاروشن، ساری دنیامیں چاندنی پھیلی ہوئی ہے، انہوں نے کہا، شاید یہی خالق ہو۔ پھر وہ غروب ہوا تو کہنے لگے یہ بھی کچھ نہیں، اس کابھی کچھ زور نہیں، اس کابھی بھروسہ نہیں۔ پھر جب سورج نکلا اور انہوں نے اس کی چمک دیکھی اور دن ہوا تو کہنے لگے واہ واہ، اس سے بڑھ کر تو کوئی روشن نہیں، ستارہ بھی اس کے سامنے ماند اور چاند بھی اس کے سامنے شرمندہ، بس یہ سورج ہی سورج ہے، پھر جب سورج بھی وبنے لگا، تو کہنے لگے، ” لا أحب الآفلین“ میں ایسے منھ چھپانے والوں اور ایسے بے مروتوں اور ایسے آنکھ بند کرنے والوں سے اپنا دل نہیں لگا سکتا، جس کے ساتھ دل لگایاجائے وہ ” حی قیوم“ ہمیشہ رہنے والی ذات ہو، ہمیشہ ساتھ دینے والی ذات ہو۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کادیا ہوا سبق یاد رکھنا چاہیے
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے، جو ہمارے آپ کے مورث اور پیغمبر ہیں اور سب سے آخر میں آنے والے پیغمبر کے دادا بھی ہیں، انہوں نے یہ سبق دیا کہ جو بے مروت ہو، جو آنکھیں پھیرنے والا ہو، اس سے دل نہیں لگاناچاہیے، جوانی بھی ایسی ہی دولت ہے اور طاقت، زندگی یہ سب منھ چھپانے والے، بچھڑ جانے والے اور بے وفا اور بے مروت، طوطا چشم، ان سے دل لگائے تو اس سے بڑھ کر کوئی حماقت نہیں، اگر کسی نے یہ سمجھا کہ جوانی میں جوانی کے کام کرنے چاہئیں او رکچھ لحاظ نہ کرنا چاہیے، تو جب بڑھاپاآئے گا اور یہ رنگ روپ، یہ شکل وصورت باقی نہیں رہے گی، اس وقت معلوم ہوگا کہ ہم نے اس بے وفا جوانی کی وجہ سے اس رحمان ورحیم خداکی نافرمانی کی، خدا کی رحمت کبھی ساتھ نہیں چھوڑتی، وہ ہمیشہ کام آتی ہے، وہ اندھیرے میں، اجالے میں، امیری میں، غریبی میں، جوانی وبڑھاپے میں، وطن وپردیس میں ہر جگہ اور ہمیشہ ساتھ دینے والی ہے ”اللہ معکم“ اللہ تمہارے ساتھ ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم تین ہوتے ہوتو، چوتھاخدا ہوتا ہے، چار ہوتے ہوتو پانچواں خدا ہوتا ہے، تھوڑے ہوتے ہو یابہت ہوتے ہو، بازار میں ہوتے ہو یاگھر میں ہوتے ہو ہم ساتھ ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے، ہر ایک کودیکھنے والا ہے، ہر ایک کی مدد کرنے والا ہے ۔ ﴿ واذا سألک عبادی عنی فانی قریب﴾ جب میرے بندے میرے متعلق پوچھتے ہیں کہ خدا کہاں ہے؟ تو کہہ دو کہ میں قریب ہوں۔ وہ ہر پکارنے والے کی پکار سنتا ہے، تو ایسے خدا، ایسے مالک ومہربان، ایسے شفیق ورحیم، ایسے کریم، ناصر ومعین، ایسے مدد کرنے والے، ایسے رحم کھانے والے، ایسے سہارا دینے والے خدا کاساتھ دیاجائے، یابے وفا جوانی کا، بے وفا حسن وجمال کا، یابے وفا ساتھیوں اور بے وفا رفیقوں کا، یاباتیں بنانے والی سہیلیوں اور بہنوں کا، یاایسے فیشن کاجو صبح ہے تو شام کواس کا ٹھکانہ نہیں، شام ہے تو صبح اس کا ٹھکانا نہیں، اس کاساتھ دے کر اللہ کی نافرمانی کرے، اس سے بڑھ کر کون سی حماقت اور بے عقلی ہوسکتی ہے؟ اس خدا کا کیوں ساتھ نہ دیں جو ہر وقت ہمارے ساتھ ہے، یہاں بھی کام آئے اور قبر میں بھی؟ اسی کی ہی دست گیری کام آئے گی اور حشر میں وہی ہے اور کوئی ہے ہی نہیں، اس خدا سے تعلق پیدا کرنا چاہیے، اس سے انس پیدا کرنا چاہیے، اس سے ایسی جان پہچان پیدا کر لینی چاہیے، اس پر ایسا بھروسہ ہونا چاہیے، ایسا اس کے ساتھ تعلق ہونا چاہیے کہ آدمی کو ہر وقت ایک ڈھارس رہے، ہر وقت حوصلہ رہے، ہمارا خدا ہمارے ساتھ ہے، ہمارا کوئی کیابگاڑ سکتا ہے، ہماری دولت کو کوئی اگر لے لے تو ہمارا ایمان تو کسی نے نہیں لیا ۔ اگر ہماری جوانی ختم ہوگئی ایمان تو ختم نہیں ہوا، خدا کاساتھ تو نہیں چھوٹا، اگر دولت نے منھ چھپالیااور بے وفائی کی، اگر شوہر نے بھی بے وفائی کی تو کوئی رنج نہیں، ہمارا خدا تو ہمارے ساتھ ہے، اگر خدا ہمارے ساتھ ہے تو سب کچھ ہمارے ساتھ ہے۔
جس نے بادشاہ کولیااس کوسب ملا
ایک قصہ ہے کہ ایک بادشاہ نے بہت موج میں آکر رعیت سے کہا کہ آج جو جس چیز پر ہاتھ رکھ دے گا، وہ چیز اس کی ہوجائے گی، بس کیا پوچھنا، بن آئی لوگوں کی، وہاں جو امرا وزرا، غلام، باندیاں اور خواص موجود تھے، جس کوجو چیز پسند آئی، اس نے اس پر ہاتھ رکھ دیا، کسی نے بادشاہ کے تاج پر ہاتھ رکھا، کسی نے تخت پر ہاتھ رکھا، کسی نے فانوس پر، غرض کہ جو جس پر ہاتھ رکھتا گیا، وہ چیز اس کی ہوتی گئی، ایک غلام کھڑا ہوا تھا، اس نے کچھ نہ کہا، بت بنا کھڑارہا، بادشاہ کی نظر جب اس پر پڑی تو اس نے کہا، کیاتم کو یقین نہیں آیا، دیکھتے نہیں کہ جس نے جس چیز پر ہاتھ رکھ دیاوہ اس کامالک ہوگیا، اس نے جواب دیا کیاواقعی ایسی بات ہے، بادشاہ نے کہا کہ اللہ کے بندے کیاتو دیکھ نہیں رہا ہے، کیاقسم کھانے، تحریر لکھنے کی ضرورت ہے؟ اس نے کہا کہ یہ تو ہیں بے وقوف، مجھے اللہ نے عقل وسمجھ دی ہے، کسی نے تاج لیا، کسی نے تخت، کسی نے موتی لیاتو ہیرا نہیں ملا، کسی نے ہیرا لیاتو موتی نہیں ملا، کسی نے گھوڑالیاتو پالکی سے محروم رہا، پالکی لے لی تو گھوڑانہیں آیا، یہ کہہ کر اس نے بادشاہ پر ہاتھ رکھ دیا کہ میں نے تو اس کولیا، جس نے بادشاد کولیا، اس کوتخت بھی ملا، تاج بھی، گھوڑابھی ملا، طاؤس بھی، گھر بھی ملا، گھر کاسامان بھی، اس کوعزت بھی ملی اور طاقت بھی۔
یہی ہماری مثال ہونی چاہیے، آج ایسے افراد ہر جانب ملیں گے جو فیشن پر جان دینے والے، کپڑوں، موٹروں کے شوقین، جوانی اور دولت پر فدا ہونے والے ہوں گے، لیکن مسلمان عورتوں کوتو صرف اللہ کاطالب ہونا چاہیے اللہ کی محبت حاصل کرنے کی کوششکرنی چاہیے کہ اللہ کی نظر عنایت اس کی طرف ہوجائے، پھر سب کچھ اس کا ہے۔
بی بی مرغی پال لو
خاندان مجددی کے ایک بزرگ شاہ محمد یعقوب صاحب مجدد کہانیوں اور قصوں میں بڑی اونچی اونچی باتیں سمجھایا کرتے تھے، انہوں نے ایک قصہ سنایا۔
”بھوپال میں بیگمات کادور تھا، ایک بیگم بہت پریشان تھیں، ایک پیر صاحب کے پاس آئیں، کہنے لگیں، پیر صاحب! میں بہت پریشان ہوں، میرے شوہر مجھے پوچھتے نہیں، پہلے تو بہت خیال کرتے تھے، لیکن اب ان کادل مجھ سے بھر گیا ہے، مجھے سخت تکلیف ہے، اولاد بھی میرا خیال نہیں کرتی، شوہر کی نگاہ کیا پھری، ساری دنیا کی نگاہیں پھر گئیں، سر کار میرے لیے دعا کریں ۔ انہوں نے پوری رام کہانی سنی اور کہنے لگے، بی بی! مرغی پال لو، اب وہ بڑی پریشان، کہ پیر صاحب کو کیا ہوگیا؟ کل تک تو خوب سنتے تھے، اب اونچاسننے لگے ۔ ذرا زور سے پکار کر کہاحضرت صاحب میرے لیے دعا کیجیے میں بہت پریشان ہوں۔ پیر صاحب نے آہستہ سے کہابی بی! میں کہہ رہا ہوں مرغی پال لو۔ اب وہ پریشان کہ آج پیر صاحب کو کیا ہوگیا ہے، میں تو ان سے دعا کے لیے کہتی ہوں اور پیر صاحب مرغی پالنے کو کہتے ہیں؟ پھرعرض کیا کہ حضرت میں سمجھی نہیں، آپ ذرا اچھی طرح سمجھادیں، تو پیر صاحب نے فرمایابی بی صاحبہ! ایک قصہ ہے، قصہ سے بات خوب سمجھ میں آجائے گی، دو گھر قریب قریب تھے، ایک امیر گھر تھا، کھاتا پیتا اور ایک ذرا غریب گھر تھا، بیچ میں ایک دیوار تھی، اس دیوار میں ایک کھڑکی تھی، تو جب اس غریب گھرمیں کوئی مہمان آتا تو غریب گھر والی پڑوس کے گھر منھ ال کر کہتی کہ مہمان ناوقت آگئے ہیں، کچھ انتظام ممکن نہیں ہے، ایک ان ادے تو کام چل جائے۔ ایک بار ہوا، دو بار ہوا اور جب بار بار یہ واقعہ پیش آیاتو جل کر کہنے لگی کہ بی بی ہمسائی! ایک مرغی پال لو، قصہ ختم ہوجائے گا، فرصت ہوجائے گی۔ تو بیگم صاحبہ میں تم سے وہی کہتا ہوں کہ اللہ کے ساتھ تعلق قائم کر لو، اللہ سے دعا کرنا، مانگنا سیکھ لو، سب مشکلیں آسان ہوجائیں گی۔“
سب کاموں کی کنجی اللہ سے تعلق
وہی میں آپ سب سے کہتا ہوں، اللہ کو یاد کرنا، اللہ سے مانگنا، اللہ کوراضی رکھنا سیکھ لیجیے، سب کام بن جائیں گے، دنیا کی جتنی چیزیں ہیں، سب بے وفا، بے مروت، طوطا چشم ہیں، جوانی ہے صحت خراب، قصہ ختم۔ صحت ٹھیک تو کاروبار فیل تو سب بے کار، اگر خدا کومحبوب رکھے تو جوانی بھی ہے صحت بھی ہے اور سب کچھ ہے ۔
ساری مشکلوں، مصیبتوں کاعلاج ایک اللہ کاتعلق پیدا کرنا ہے، وہی سب کچھ کرتا ہے، اللہ کی نیک بندیوں کے حالات پڑھو کہ انہوں نے کسی چیز میں دل نہیں لگایا، نہ جوانی میں، صحت میں، نہ طاقت اور حسن وجمال میں، انہوں نے صرف اللہ کے ساتھ تعلق پیدا کیا، اللہ کانام لینا، راتوں کواٹھنا، توبہ استغفار کرنا، درود شریف پڑھنا، تلاوت قرآن کرنا، اسلامی عقائد پر بچوں کی پرورش کرنا، توحید کے بیج ان کے دل میں بونا، گناہ کی نفرت پیدا کرنا، اللہ کانام سکھانا، اسلامی آداب واخلاق کی تعلیم دینا یہ ان کے مشغلے رہے، نتیجہ یہ کہ گھر کاماحول اسلامی، دل خوش، اللہ راضی تو سب راضی، اگر اللہ ناراض تو سب ناراض ہیں۔
﴿ ولا تبرجن تبرج الجاہلیۃ الاولیا﴾ ۔ (سورہ احزاب رکوع: 4)
(اورجاہلیت قدیم کے مطابق اپنے کودکھاتی مت پھرو۔)
تمہارا دل گھروں میں لگنا چاہیے، سینما گھروں میں نہیں، محفلوں اور بازاروں میں نہیں، تمہاری جگہ، تمہاری سلطنت تمہارا گھر ہے، غریب ہو یاامیر باہر نکلو گی تو تم وہ نہ رہوگی جو گھر میں ہو، گھر میں تمہارا حکم چلے گا، اولاد تمہاری خدمت کرے گی، گھر سکون واطمینان کی جگہ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے لیے جو پسند کیاوہی تم کواپنے لیے پسند کرنا چاہیے، وہی ہمارے لیے نمونہ ہے، اسلام سے پہلے کازمانہ جو جاہلیت کازمانہ تھااس کی طرح بناؤ سنگار نہ کرو، نماز پڑھو، زکواۃ دو، نماز کے لیے جگہ مقرر کرو، جگہ پاک وصاف ہو کہ وہاں تسبیح پڑھ سکو، دینی کتابوں کامطالعہ کر سکو، اپنے بچوں کودین کی باتیں سکھاسکو، جو وقت بچے اس میں شوہر کی خدمت کرو۔
حضرت مولانا الیاس صاحب ، مولانا یوسف اور شیخ الحدیث مولانا محمد زکریارحمۃ اللہ علیہم کی ماؤں کے قصے پڑھیے، وہ کیسی عابدہ، زاہدہ تھیں، ان کی راتیں کیسے گزرتی تھیں، دن کیسے گزرتے تھے، نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کوایسے فرزند عطا فرمائے، جن کے نور سے سارا عالم منور ہے۔
اب جو اولاد ماں کی گود میں پلتی ہیں، ظاہر ہے کہ وہ کیسی ہوں گی، جیسی گودویسی اولاد، جب وہ زبان سے اللہ کانام نہ لیں گی، تلاوت نہ کریں گی، تو کیااثر ہوگا؟ ٭
٭٭٭
٭ ماخوذ از ماہنامہ الفاروق، کراچی، جلد ۲۵ شمارہ ۴
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں