پیر، 11 مارچ، 2019

ہم بھول بھی چکے - عاقب انجم عثمانی

عاقب انجم عثمانی﷾(جموں، الہند)

گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث  پائی تھی
 ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا

اس شعر سے اپنی تحریر کی ابتداء کرنا ایک عجیب بات ہے۔ کچھ دن قبل کشمیر کے ایک انگریزی اخبار پہ ایک عجب تحریر  دیکھی۔ عنوان تھا”ہمیں اپنی میراث بھلا دینی چاہیے کیونکہ غیروں نے ہم سے یہ چھین لی ہے“۔ من میں خیال آئے، دل میں سوال آئے کہ باری تعالی یہ کیسا بندہ ہے، کہہ رہا ہے کہ ہمیں اپنی میراث بھلا دینی چاہیے؟ کئی روز اسی کشمکش میں گزرے کہ اس عنوان سے کچھ لکھوں، خیالوں میں عنوانات بھی آئے، ہم کیسے بھول جائیں؟ 

دل بضد رہا تو آخرکار  اس شعر کو اپنی تحریر کے عنوان کا مرکز بنایا

جس دور پہ نازاں تھی دنیا اب ہم وہ زمانہ بھول گئے
 دنیا کی کہانی یاد رہی اور اپنا فسانہ بھول گئے

آپ حضرات کے دل و دماغ میں بھی اس طرح کی باتیں گھوم رہی ہونگی، پر ظاہر کیسے کریں؟ اللہ کو بھلایا ہوا، پیغمبر و اصحابِ پیغمبر کی تعلیمات سے دور، دورِحاضر کا مسلمان کلہاڑی لئے ہماری بات کا انتظار کررہا ہے، کہ کب یہ سوئی قوم کو جگانے کی کوشش کرے اور میں اسے کچل دوں! 

جی میرے بھائیو! وہ عظیم میراث جسکی وجہ سے ہم کل تک رہبر و رہنماتھے، ہم بھول چکے ہیں اور اسی بھول نے ہمیں Follower بنادیا۔

دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
 اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

کون نہیں جانتا عظیم محدث و فقیہ علامہ سید محمد انور شاہ کشمیری ﷫کو؟ انہیں تو انگریز بھی چلتی ہوئی لائبریری کہتے تھے! میرا کشمیری بھائی، میری کشمیری بہن اپنے اس عظیم المرتبت بزرگ کو کیوں نہیں جانتے؟ 

کون فاتحِ قسطنطنیہ محمد الفاتح کو نہیں جانتا؟ انہوں نے جس طرح قسطنیہ کو فتح کیا تھا، دنیا حیران رہ گئی تھی، انگریزوں نے تو اسے معجزوں کا معجزہ کہہ دیا، لیکن میرے یارانِ سخن کیوں نہیں جانتے اسے؟ 

کہتے ہیں، جس وقت کوئی انسان اپنے ماضی کو بھلا بیٹھتا ہے تو اس پر مصیبتوں کا آنا لازم ہوجاتا ہے۔ کوئی پوچھے کیسے؟ 

ماں باپ اپنی اولاد کو کس طرح پالتے ہیں، اسے پڑھاتے ہیں، ایک تہذیب یافتہ اور باشعور انسان بناتے ہیں۔ لیکن جب یہی اولاد اپنے اس سنہرے ماضی کو بھول جاتی ہے، ماں باپ کا دامن تو چھوٹ گیا، رب کریم بھی ایسی اولاد سے رخ پھیر لیتا ہے ۔۔۔  اس سے بڑھ کر اور بڑی مصیبت کیا ہوگی؟ 

ہم نے اپنے اس سنہرے ماضی کو بھلا دیا، اسلاف کی اس میراث کو ہم نے خود غیروں کے حوالے کیا، وہ چھین کر نہیں لے گئے۔اندلس کی چابیاں ہمیں میں سے ابو عبد اللہ نے عیسائیوں کو دی تھی اور ہم نعرے لگا رہے ہیں کہ ہم پہ ظلم ہورہا ہے۔۔۔! میاں! ہم تو اسی کے لائق ہیں ۔ ہند و سندھ کی چابیاں انگریزوں کو کس نے دی؟ کس نے تحریک بالاکوٹ کو مردہ کردیا؟ کون ہے جس نے ۱۸۵۷ میں دلی کے دروازے کھول دیے؟ اس وقت بھی کون دشمنوں کی ہائے ہائے کررہا ہے؟ 

میرے اپنے لوگ Helping Nature٭ کے ذیل انگریزوں کی مثالیں دیتے ہیں، کیا دنیائے فانی نے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم جیسا محسن کوئی دیکھا ہے؟

٭ دوسروں کی مدد کرنے والا رویہ

دل نہیں جانتا  میں کیا لکھ رہا ہوں! بس کوشش ہے کہ اپنی ملت کی کھوئی زباں بن سکوں۔ اپنی قوم کی آواز بن سکوں۔ 

کیوں ہم اسلاف سے بیزار ہوگئے؟ کیا انہوں نے ہمارے لئے Property نہ کمائی تھی؟ کیا وہ ہمیں یاد نہ کرتے تھے؟ 

میرے بھائیوں، وہ تو حاکم تھے، کیوں کر نہ اپنی اولاد کے لئے سپنے دیکھتے؟ ہم ہی وہ ہیں، جنہوں نے میدانِ جنگ میں بھی ابو عبد اللہ بن کر ،عیسائیوں کا ساتھ دے کر، اپنے ابا جان کو شہید کروایا۔ہماری ہی ہماری غلطیاں ہیں! 

پھر بھی ہمارے نعرے، جرمنی و ہند و پاک و امریکہ، اللہ و رسول اللہ کی گستاخی کررہے ہیں، فوراً ایکشن لیا جائے!!

واہ واہ! کبھی خود کو آئینے میں دیکھا بھی ہم نے؟ ہم روزانہ کتنے فرائض و واجبات و سنن کو پامال کرتے ہیں؟

میرے یارو! ڈرنے کی بات نہیں، ایک پل بعد ہمارا تابناک مستقبل ہمارا انتظار کررہا ہے اور ہمیں یوں صدا دے رہا ہے۔

غائب ہوجاؤگے افسانوں میں کھو جاؤگے، اپنے مرکز سے اگر دور نکل جاؤگے
اپنی مٹی پہ تو چلنے کا سلیقہ سیکھو، سنگِ مرمر پہ چلو گے تو پھسل جاؤگے
دے رہے ہیں تمہیں جو لوگ رفاقت کا فریب، ان کی تاریخ پڑھوگے تو دہل جاؤگے
تیز قدموں سے چلو اور تصادم سے بچو، بھیڑ میں سست چلوگے تو کچل جاؤگے
اپنے پرچم کا کہیں رنگ بھلا مت دینا، سرخ شعلوں کہ چلوگے تو جل جاؤگے
تم ہو اک زندہ اجالے کی طرح، تم کوئی شام کا سورج ہو کہ ڈھل جاؤگے٭

٭ آخری شعر بحر سے خارج ہے۔ ہو سکتا ہے ناقل سے اشعار نقل کرنے میں چوک ہوئی ہو۔ (مدیر)

تابناک مستقبل ہمارے بدلاؤ کا انتظار کررہا ہے کہ کب ہم اللہ تعالیٰ کے ہوجائیں۔

”صبغتہ اللہ“

ان اشعار پہ اپنے الفاظ کو مکمل کرتا ہوں؛ 
سکھایا تھا تم ہی نے قوم کو یہ شور و شر سارا
 جو اس کی انتہاء وہ ہیں تو اس کہ ابتداء تم ہو
نہ وہ بدلا نہ تم بدلے، نہ یارانِ سخن بدلے
 میں کیسے اعتبارِ انقلابِ آسماں کرلوں؟
٭٭٭
ِ


     

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں