پیر، 11 مارچ، 2019

فرائض و سنت و نوافل وغیرہ کی تقسیم

نعمان محمد﷾( ڈیرہ اسماعیل خان ، پاکستان)

ایک تحریر بھیج رہا ہوں۔ یہ میں نے دار العلوم سے سوال پوچھا تھا جس کا تفصیلی جواب دیا گیا ہے۔ 
”فرائض و سنت و نوافل وغیرہ کی تقسیم کی گئی غیر شرعی، فضول، ایجاد کردہ اور بدعت ہے ...؟“
(نعمان محمد)

احکامِ شرعیہ کا مدار دلائل پر ہوتا ہے، شریعت کا کوئی بھی حکم ایسا نہیں ہے کہ اس کی بنیاد دلیلِ شرعی پر نہ ہو، بلکہ شریعت کا جو بھی حکم آپ دیکھیں گے اس کا مدار کسی نہ کسی دلیل پر ہوگا، اور یہ بات واضح ہے کہ دلائل سب کے سب برابر درجہ کے نہیں ہیں، بلکہ ثبوت و دلالت کے اعتبار سے دلائل باہم متفاوت ہیں، چنانچہ اس اعتبار سے دلائل کے چار درجے ہیں: 
1. وہ دلائل جو ثبوت و دلالت دونوں اعتبار سے قطعی و یقینی ہوں جیسے قرآن کریم کی وہ آیات جو محکم اور واضح الدلالة ہیں، اسی طرح وہ آیات جن کی تفسیر خود قرآن کریم میں مذکور ہے، یا جناب رسول اللہ ﷺ نے ان کی تفسیر کر دی ہے، اسی طرح اس قسم میں وہ احادیث بھی شامل ہیں جو تواتر کے ساتھ منقول ہیں اور ان کے مفاہیم بھی قطعی ہیں۔
2. وہ دلائل جو ثبوتاً قطعی ہوں البتہ دلالت علی المفہوم کے اعتبار سے قطعی نہ ہوں بلکہ ظنی ہوں جیسے وہ آیت جو موٴول ہیں، یہ آیات ثبوتا تو قطعی ہیں لیکن مفہوم پر دلالت کرنے میں قطعی نہیں ہیں۔
3. وہ دلائل جو ثبوتاً ظنی ہوں البتہ دلالت علی المفہوم کے اعتبار سے قطعی و یقینی ہوں، یعنی ان دلائل کے ثبوت میں ایک گونہ شبہ ہونے کی بنا پر یہ دلائل ثبوتاً قطعی نہ ہوں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ اپنے مفہوم کے اعتبار سے قطعی و یقینی ہوں جیسے وہ اخبارِ آحاد جن کے مفاہیم قطعی ہیں (اخبار آحاد کے ثبوت میں ایک گونہ شبہ ہوتا ہے اس لیے وہ ثبوتاً قطعی نہیں رہتے بلکہ ظنی ہو جاتے ہیں، البتہ دلالت علی المفہوم کے اعتبار سے قطعی بھی ہوتے ہیں اور ظنی بھی)
4. وہ دلائل جو ثبوت و دلالت دونوں اعتبار سے ظنی ہوں جیسے اخبارِ آحاد جو اپنے مفہوم پر دلالت کرنے میں بھی ظنی ہیں، الحاصل ثبوت و دلالت علی المفہوم کے اعتبار سے دلائل کے یہ چار درجے ہیں، جن میں سے بعض کو دوسرے بعض پر قوت کے اعتبار سے ترجیح حاصل ہے، اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ چاروں قسم کے دلائل سے ایک ہی طرح کے احکام ثابت نہیں ہوں گے، بلکہ جس طرح دلائل میں تفاوت ہے اسی طرح احکام میں بھی تفاوت ہوگا، لہٰذا دلیل میں جتنی قوت ہوگی اس سے ثابت ہونے والا حکم بھی اتنا ہی قوی ہوگا۔
اس بنا پر دلائل کی مذکورہ چاروں قسموں میں سے پہلی قسم چونکہ قوت میں سب سے بڑھ کر ہے اس لیے اس سے ثابت ہونے والا حکم بھی سب سے قوی ہوگا اور وہ جانب امر میں فرض اور جانب نہی میں حرام ہے، دلائل کی دوسری اور تیسری قسم چونکہ قوت میں پہلی قسم سے کم درجہ کی ہیں، اس لیے ان سے ثابت ہونے والا حکم بھی پہلے حکم سے کم درجہ کا ہوگا اور وہ جانب امر میں وجوب اور جانب نہی میں مکروہ تحریمی ہے، رہی دلائل کی چوتھی قسم تو چونکہ وہ قوت میں تمام قسموں سے کمتر ہے اس سے ثابت ہونے والا حکم بھی سب سے کم درجہ کا ہوگا، اور وہ ہے جانب امر میں سنت و استحباب اور جانب نہی میں مکروہ تنزیہی، تو جب دلائل ہی میں مختلف درجات ہیں اور انہی دلائل پر احکام کا مدار بھی ہے تو لازمی طور پر احکام میں بھی مختلف درجات ہوں گے، اور انہی کو فرائض، واجبات، سنن، و نوافل سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ قال في الشامي:
”إن الأدلة السمعیة أربعة: الأول قطعي الثبوت والدلالة کنصوص القرآن المفسرة أو المحکمة والسنة المتواترة التي مفھومھا قطعي․ الثاني: قطعي الثبوت ظني الدلالة کالآیات المؤولة․ الثالث: عکسہ کأخبار الآحاد التي مفھومھا قطعي․ الرابع: ظنیھما کأخبار الآحاد التي مفھومھا ظنی، فبالأول یثبت الافتراض والتحریم، وبالثاني والثالث الإیجاب وکراھة التحریم؛ وبالرابع تثبت السنیة والاستحباب․ (الشامي: ۹/ ۴۰۹،ط: دار الکتاب) 
علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ کے تمام اوامر کو وجوب یا فرضیت پر محمول نہیں کیا جاسکتا بلکہ حسب قرائن وجوب ندب اباحت وغیرہ پر محمول کیا جائے گا مثال کے طور پر قرآن مجید میں ہے وإذا حلَلتُم فاصطادوا (المائدة آیۃ 2) کہ جب تم احرام سے حلال ہو جاؤ تو شکار کرو۔  فقہاء و مفسرین فرماتے ہیں کہ یہاں امر وجوب کے لیے نہیں ہے بلکہ اباحت کے لیے ہے، تو جس شکار سے حالت احرام میں منع کیا گیا تھا اس کی اجازت دی جا رہی ہے کہ اب شکار کر سکتے ہو، غیر مقلدین اگر اباحت وغیرہ کا وجود نہیں مانتے ہیں اور ان کو اس بات پر اصرار ہے کہ شارع سے ثابت ہونے والی تمام چیزیں فرض اور ضروری ہیں تو یہاں بھی حالت احرام سے نکلنے کے بعد وجوبی طور پر شکار کی تلاش میں نکلیں، نیز حضور ﷺ نے جتنے بھی کام کیے ہیں سب کو امت پر فرض اور ضروری قرار نہیں دیا جا سکتا، نمونہ کے طور پر ایک حدیث پیش کی جا رہی ہے جس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ غیر مقلدین کی باتوں کی کیا حیثیت ہے، حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: کہ نجد سے ایک صاحب حضور ﷺ کی خدمت میں تشریف لائے اور انھوں نے اسلام کے بارے میں آپ ﷺ سے پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”خمس صلوات في الیوم واللیلة “ کہ رات و دن میں پانچ وقتوں کی نمازیں آپ کے ذمہ ہیں، سائل نے عرض کیا ”ہل علي غیرہن“ کہ کیا ان پنچ نمازوں کے علاوہ اور بھی کوئی نماز مجھ پر فرض ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا ”لاَ إلاَّ أن تطَوّعَ“ کہ نہیں البتہ اپنے اختیار سے نفل پڑھ سکتے ہو، اس کے بعد حضور ﷺ نے فرمایا: ”وصیامُ شہر رمضان“ کہ آپ پر رمضان کے روزے بھی فرض ہیں، سائل نے عرض کیا ”ہل عليَّ غیرہ؟“ کیا رمضان کے روزے کے علاوہ اور بھی کوئی روزہ مجھ پر فرض ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ”لاَ إِلاَّ أَن تَطَوّعَ“ کہ نہیں البتہ نفل رکھ سکتے ہو الخ۔
حدیث کے الفاظ یہ ہیں: 
عن أبي سہیل، عن أبیہ، أنہ سمع طلحة بن عبید اللہ، یقول: جاء رجل إلی رسول اللہ ﷺ من أہل نجد ثائر الرأس، نسمع دوي صوتہ، ولا نفقہ ما یقول حتی دنا من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فإذا ہو یسأل عن الإسلام، فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ”خمس صلوات في الیوم، واللیلة“ فقال: ہل علي غیرہن؟ قال: ”لا، إلا أن تطوع، وصیام شہر رمضان“ ، فقال: ہل علي غیرہ؟ فقال: ”لا، إلا أن تطوع“ ، وذکر لہ رسول اللہ ﷺ الزکاة، فقال: ہل علي غیرہا؟ قال: ”لا، إلا أن تطوع“ ، قال: فأدبر الرجل، وہو یقول: واللہ، لا أزید علی ہذا، ولا أنقص منہ، فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ”أفلح إن صدق“ 
(مسلم شریف: ۱/۳۰،ط: رحیمیہ دیوبند) 
اسی طرح رمضان المبارک کے سلسلہ میں حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزے تم پر فرض کیے اور میں نے قیام رمضان (تراویح) کو تمھارے لیے سنت قرار دیا، حدیث شریف کے الفاظ ملاحظہ ہوں۔
 عن عبد الرحمن بن عوف قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: إن اللہ تبارک وتعالیٰ فرض صیام رمضان علیکم، وسنت لکم قیامَہ فمن صامہ وقامہ إیمانًا واحتسابًا خرج من ذنوبہ کیوم ولدتہ أمہ، أخرجہ النسائی بسند حسن وسکت عنہ․ (إعلاء السنن ۷/ ۶۶، ۶۷،ط: مکتبہ اشرفیہ دیوبند) 
غیر مقلدین سے پوچھئے کہ ان احادیث سے سنن و نوافل کا ثبوت ہو رہا ہے یا نہیں؟ ایک اور حدیث ملاحظہ فرمائیے:
 ”عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا، أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ وَاصَلَ فِي رَمَضَانَ، فَوَاصَلَ النَّاسُ، فَنَہَاہُمْ قِیلَ لَہُ: أَنْتَ تُوَاصِلُ؟ قَالَ: ”إِنِّي لَسْتُ مِثْلَکُمْ إِنِّي أُطْعَمُ وَأُسْقَی“․ (مسلم شریف (۱/۳۵۱،ط: رحیمیہ دیوبند)
حدیث کا حاصل یہ ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے حضور ﷺ کو صوم وصال رکھتے ہوئے دیکھ کر وہ بھی صوم وصال رکھنے لگے تو آپ ﷺ نے ان کو منع فرما دیا صحابہ نے اعتراض کیا کہ آپ تو رکھتے ہیں تو حضور ﷺ نے فرمایا تم میں سے کون میرے مانند ہے؟ میں اپنے پروردگار کی طرف سے کھلایا پلایا جاتا ہوں، مطلب یہ کہ میں جو بھی کروں وہ سب کے سب تم پر ضروری نہیں، غیر مقلدین کو اگر اس بات پر اصرار ہے کہ حضور ﷺ سے ثابت تمام امور امت پر فرض اور ضروری ہیں تو وہ صوم وصال کی پابندی کریں کیونکہ وہ بھی حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہے، الغرض اس طرح کے بے شمار دلائل قرآن و احادیث میں موجود ہیں جن کی بنا پر فقہائے کرام نے بلکہ تمام علمائے اہل سنت والجماعت نے احکام میں درجہ بندی کی ہے۔
٭٭٭

     

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں