Qadianiat Rebuttal Course- Part 8 |
خلاصۂ کلام :
کلام سابق سے یہ بات روز روشن سے زیادہ واضح ہوگئی کہ اصل بحث رفع و نزل کی ہے نہ کہ موت وحیات کی جس کو مرزائیوں نے اپنی چالاکی اور عیاری سے موضوع بحث بنا رکھا ہے ۔٭وجہ اول
اس لئے کہ موت حیات رفع و نزول کو لازم ہے نہ کہ رفع و نزول موت وحیات کو ، لہذا اگر بحث کی جائے تو اس وقت تک تمام نہیں ہوگی جب تک حیاۃ کے بعد رفع کو ثابت نہ کیا جائے اور موت کے بعد عدم رفع ثابت نہ کیاجائے تو معلوم ہوا کہ اصل بحث رفع و نزول کی ہے ۔
٭وجہ دوم
اس لئے کہ رفع ونزول عیسائیوں کا عقیدہ ہے اگر یہ بھی مثل دوسرے عقائد کے غلط ہے تو قرآن و حدیث کو اس کی تردید کرنی چاہیے تھی حالانکہ قرآن وحدیث نے اس کی تردید نہیں کہ بلکہ ان کے اس عقیدہ کی تائیداو رتصدیق کی ہے جسے ہم بعون اﷲ قرآن وحدیث واجماع امت اور اقوال مراز سے ثابت کریں گے اگر قرآن وحدیث اس عقیدے کی تائید میں کچھ بھی نہ کہے تو بھی مرزا کے مسلمہ اصول کے مطابق یہ عقیدہ صحیح ثابت ہوجا تا ہے ۔
اثبات رفع و نزول باقوال مرزا از روئے قرآن مجید
- حوالہ نمبر ۱
’’ اب اس تحقیق سے ثابت ہے کہ مسیح ابن مریم کی آخری زمانے میں آنے کی قرآن شریف میں پیشین گوئی موجود ہے ۔‘‘
(ازالہ اوہام حصہ دوم ص۶۷۵ روحانی خزائن ص۴۶۴ ج۳ )
- حوالہ نمبر ۲
’’ ھوالذی ارسل رسولہ بالھدیٰ ودین الحق ‘‘
(اﷲ تعالیٰ وہ ذات ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت او ردین حق دے کر بھیجا)
﴿پارہ ۱۰ توبہ ع ۵ آیت ۳۲ ،پارہ ۲۶فتح ع۴ آیت ۲۸،پارہ ۲۸ صف ع۱ آیت ۹﴾
یہ آیت جسمانی اور سیاست ملکی کے طورپرحضرت مسیح کے حق میں پیشین گوئی ہے اور جس غلبہ کاملہ دین اسلام کا وعدہ دیا گیا ہے وہ غلبہ مسیح کے ذریعہ سے ظہور میں آئے گا اورجب حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق واقطار میں پھیل جائے گا……حضرت مسیح کی پیش گوئی متذکرہ بالا کا ظاہری اور جسمانی طور پر مصداق ہے اور یہ عاجز روحانی اور معقولی طور پر اس کا محل اور مورد ہے ۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ چہارم برحاشیہ طبع اول ص۴۹۸،۴۹۹ قدیم ، ص
۴۵۸ جدید ، روحانی خزائن ج۱ص ۵۹۳)
- حوالہ نمبر۳
’’ عسی ربکم ان یرحمکم وان عدتم عدنا‘‘
﴿پ ۱۵ ع۱ آیت ۸﴾
یہ آیت اس مقام میں حضرت مسیح علیہ السلام کے جلالی طور پر ظاہر ہونے کا اشارہ ہے یعنی اگر طریق رفق اور نرمی اور لطف اوراحسان کو قبول نہیں کریں گے اور حق محض جو دلائل واضحہ اور آیات بینہ سے کھل گیا ہے اس سے سرکش رہیں گے تو وہ زمانہ بھی آنے والا ہے جب خدا تعالیٰ مجرمین کے لئے شدت اور عنف اور قہر اور سختی کو استعمال میں لائے گا اور حضرت مسیح نہایت جلالیت کے ساتھ دنیا میں اتریں گے اور تمام راہوں اورسڑکوں کو خس وخاشاک سے صاف کردیں گے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ ۴ ص۴۶۵ حاشیہ ص۴۵۹ روحانی خزائن ص۶۰۱،۶۰۲ ج۱)
مرزائی عذر
ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ مرزا نے براہین احمدیہ کے ان حوالوں میں عیسیٰ علیہ السلام کی آمد ثانی کے عقید ہ کو صراحتاً تسلیم کیا ہے لیکن یہ محض رسمی طورپر لکھ دیا گیا ہے جیسا کہ مرزا نے اعجاز احمدی ص۷ ج ۱۹ ،پر اعتراف کیا ہے (روحانی خزائن ص۱۱۳ ج۹ )جواب نمبر ۱
یہ عقیدہ رسمی نہیں بن سکتا اس لئے کہ مرز ا نے اس کے ثابت کرنے میں آیات قرآنیہ پیش کی ہیں جن سے ثابت ہوتاہے کہ انہوں نے یہ عقیدہ رسمی طور پر نہیں لکھا بلکہ یہ قرآنی طور پر لکھا ہے ۔
جواب نمبر ۲
مرزا قادیانی نے جس کتاب میں یہ عقیدہ لکھا ہے وہ بغرض اصلاح و تجدید دین تالیف کی گئی ہے مؤلف اس وقت خدائے تعالیٰ کی طرف سے ملہم اور مامور تھا اور اس کتاب پر دس ہزار کا اشتہار بھی دیا گیا ہے ۔(تبلیغ رسالت مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۱۸ روحانی خزائن ص۲۴ تا ۵۲ ج۱،ملحقہ براہین احمدیہ وملحقہ آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن ص۶۵۷ج۵ وسرمہ چشم آریہ جدید ص۳۱۹ ج۲ )
مجدد کی تعریف :
’’ جولوگ خدا کی طرف سے مجددیت کی قوت پاتے ہیں وہ نرے استخواں فروش نہیں ہوتے بلکہ وہ واقعی طور پر نائب رسول ﷺ اور روحانی طور پر آنجناب کے خلیفہ ہوتے ہیں خدا تعالیٰ انہیں ان تمام نعمتوں کا وارث بناتا ہے جونبیوں اور رسولوں کو دی جاتی ہیں اور ان کی باتیں از قبیل جوشیدن ہوتی ہیں نہ محض از قبیل
کوشیدن اور وہ حال سے بولتے ہیں نہ مجرد قال سے اور خداتعالیٰ کے الہام کی تجلی ان کے دلوں پر ہوتی ہے اور وہ ہر ایک مشکل کیوقت روح القدس سے سکھلائے جاتے ہیں اور ان کی گفتار وکردار میں دنیا پرستی کی ملونی نہیں ہوتی کیونکہ وہ کلی مصفی کیے گئے اور باتمام وکمال کھینچے گئے ہیں ۔‘‘
(فتح اسلام حاشیہ روحانی خزائن ص۷ ج۳)
’’وہ مجدد خدا تعالیٰ کی طرف سے آئے گا یعنی علوم لدنیہ اور آیات سماویہ کے ساتھ ‘‘
(ازالہ اوہام ص۱۵۴ روحانی خزائن ج۳ص۱۷۹)
جواب نمبر ۳
یہ رسمی عقیدہ یا اجتہادی غلطی اس لئے بھی نہیں ہو سکتی کہ یہ کتاب بقول مرزا صاحب نبی اکرم ﷺ کے ہاتھوں میں پہنچ چکی ہے اور اس کانام ’’ قطبی ‘‘ بتایا گیا ہے یعنی قطب ستارہ کی طرح غیر متزلزل اور مستحکم ہے ۔ (براہین احمدیہ قدیم ایڈیشن ص۲۴۸ ، ۲۴۹ روحانی خزائن ج۱ص۲۷۵) تو اگر اس کے اس عقیدہ کو رسمی عقیدہ یا اجتہادی غلطی کہہ کر غلط قرار دیا گیا تو یہ قطبی نہیں رہے گی اور اس کے دلائل مستحکم اور غیر متزلزل نہیں ہوں گے خصوصاً جب کہ نبی اکرم ﷺ کے مبارک ہاتھوں میں آچکی او رآپ کی مبارک نظر سے گذرچکی تو آپ نے ایسی فاش غلطی جو مرزا صاحب کے نزدیک شرک عظیم ہے اس کو آپ نے کس طرح نظر انداز کر دیا۔
دیکھو مرزا کے نزدیک عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ ماننا شرک عظیم ہے :
’’ فمن سوء الا دب ان یقال ان عیسی مامات وان ھو الا شرک عظیم یاکل الحسنات ویخالف الحصات بل ھو توفی کمثل اخوانہ ومات کمثل اھل زمانہ وان عقیدۃ حیاتہ قد جاء ت فی المسلمین من الملۃ النصرانیہ۔‘‘
(الاستفتاء ضمیمہ حقیقت الوحی ص۳۹ ، روحانی خزائن ص۶۶۰ ج ۲۲)
جواب نمبر ۴
یہ اجتہادی غلطی اس لیے بھی نہیں بن سکتی کہ مرزا صاحب خود تسلیم کرتے ہیں کہ ہم نے اس کتاب میں کوئی دعویٰ اور کوئی دلیل اپنے قیاس سے نہیں لکھی ۔
(براہین احمدیہ حصہ دوم ص۵۰،۵۱ ،روحانی خزائن ج۱ ص۸۸ حاشیہ والا۹۹)
اثبات رفع ونزول از روئے احادیث باقوال مرز ا
- حوالہ نمبر ۱
’’ مسیح ابن مریم کے آنے کی پیش گوئی ایک اول درجہ کی پیش گوئی ہے جس کو سب نے باتفاق قبول کیا ہے جس قدر صحاح میں پیش گوئیاں لکھی گئی ہیں کوئی پیش گوئی اس کے ہم پہلو اور ہم وزن ثابت نہیں ہوتی تواتر کا اول درجہ اس کو حاصل ہے ……الخ۔‘‘
(ازالہ اوھام ۵۵۷ روحانی خزائن ج ۳ ص۴۰۰)
تواتر کی تعریف بھی مرزا صاحب کے زبانی سن لیجئے : ’’ تواتر ایسی چیز ہے کہ اگر غیر قوموں کی تواریخ کی رو سے بھی پایا جائے تو تب بھی ہمیں قبول کرنا ہی پڑتا ہے ۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۵۵۶ روحانی خزائن ج۳ص۳۹۹)
- حوالہ نمبر ۲:
’’ اب پہلے ہم صفائی بیان کیلئے یہ لکھناچاہتے ہیں کہ بائبل اور ہماری احادیث اور اخبار کی کتابوں کی رو سے جن نبیوں کا اس وجود عنصری کیساتھ آسمان پر جانا تصور کیا گیا وہ دو نبی ہیں ایک یوحنا جس کا نام ایلیا اور ادریس بھی ہے دوسرا مسیح ابن مریم جن کو عیسیٰ اور یسوع بھی کہتے ہیں ان دونوں نبیوں کی نسبت عہد قدیم اور جدید کے بعض صحیفے بیان کر رہے ہیں کہ وہ دونوں آسمان کی طرف اٹھائے گئے ہیں اور پھر کسی زمانہ میں زمین پراتریں گے اور تم ان کو آسمان سے آتے دیکھو گے انہی کتابوں سے کسی قدر ملتے جلتے الفاظ احادیث نبویہ میں بھی پائے جاتے ہیں ۔‘‘
(توضیح المرام ص۴ ،روحانی خزائن ج۳ ص۵۲ )
- حوالہ نمبر ۳:
’’ صحیح مسلم کی حدیث میں جویہ لفظ موجود ہے کہ حضرت مسیح جب آسمان سے اتریں گے تو ان کا لباس زرد رنگ کا ہوگا۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۶ روحانی خزائن ص۱۴۲ ج۳)
نوٹ﴾ یہ حدیث صحیح مسلم میں نہیں بلکہ سنن ابی داؤد ج ۲ کتاب الملاحم باب خروج الدجال میں مذکور ہے۔ قادیانیوں کیلئے چونکہ مرزا قادیانی کی تحریرات حجت ہیں اس لئے الزامی طور پر مذکورہ حوالہ لکھا جاتا ہے ۔
اثبات رفع و نزول مسیح از روئے اجماع امت
(۱) حیاۃ المسیح بجسمہ الی الیوم ونزولہ من السماء بجسمہ العنصری مما اجمع علیہ الامۃ وتواتر بہ الا حادیث۔(تفیسرالبحر المحیط ج۲ ص۲۷۳)
(۲) والاجماع علی انہ حی فی السماء ینزل ویقتل الدجال ویؤید الدین (تفیسر جامع البیان تحت آیت انی متوفیک)
(۳) الاجماع علی انہ رفع ببدنہ حیا قالہ الحافظ ابن حجر فی تلخیص الجبیر
(۴) فتح الباری میں بھی ذکر ادریس میں حضرت مسیح کے نزول پر اجماع منقول ہے ۔
(۵) تفسیر ابن کثیر میں تواتر نزول کی صراحت کی گئی ہے ۔
مرزائیوں کی شہادت کہ رفع و نزول عیسیٰ پر تمام مفسرین کا اجماع ہے حافظ ابن حجر عسقلانی نے اپنی کتاب تلخیص الجبیر کے صفحہ ۳۱۹ ،۳۲۰ پر عام مفسرین کا اجماع نقل کیا ہے ۔ (عسل مصفیٰ ص ۱۶۴)
مرزائیوں کے نزدیک بھی حافظ ابن حجر عسقلانی آٹھویں صدی کے مجدد ہیں ، یہ مجددین کی اس فہرست میں داخل ہیں جوکہ عسل مصفی کے صفحہ ۱۶۲ ق،۱۱۷ سے شروع ہوتی ہے اور کتاب ہذا مرزا کی مصدقہ ہے ۔
٭ایک اہم اصول
مرزائیوں کے ساتھ بحث کرنے سے پہلے یہ طے کرلیناچاہیے کہ فریقین اگر آیات قرآنی کی تفسیر وتشریح اپنی مرضی ورائے سے کریں گے توبحث کا کوئی فائد ہ نہ ہوگا، تم اپنے معنی بیان کرو گے اور ہم اپنا حلفی بیان کریں گے اور بحث کا حاصل کچھ نہ نکلے گا ،اسلئے مناسب ہے کہ تیرہ صدیوں میں سے چند ایسے مفسرین ومجددین کا انتخاب کرلیں جن کی بات ہر دو فریق تسلیم کریں ۔چودھویں صدی کے مفسرین ومجددین کی بات بے شک نہ مانو، تیرہ صدیوں میں سے ایک مفسر ومجدد کا انتخاب کرلو جس کا بیان کیاہوا معنی اور تفسیر معتبر اور قول آخر مانی جائے گی اور مجددین میں سے ان مجددین کا انتخاب کرتے ہیں جو فریقین کے نزدیک مسلم ہیں اور مرزائیوں کے مسلم مجددین کی فہرست کتاب’’ عسل مصفی‘‘ میں موجود ہے. واضح ہو کہ یہ کتاب عسل مصفی وہ کتاب ہے جومرزا صاحب کے ایک مرید مرزا خدا بخش نے لکھی او رہر روز جو لکھی جاتی وہ باقاعدہ مرز اصاحب کو سنائی جاتی اگر کبھی وہ اتفاقاً مرزا صاحب کو نہ سناتا تو مرزا صاحب بڑے اہتمام کے ساتھ اس کے متعلق استفسار کرتے کہ آج تم نے مجھے اس کتاب کا مسودہ کیوں نہیں سنایا غرضیکہ یہ پوری کتاب مرز اغلام احمد قادیانی نے پورے اہتمام کے ساتھ سنی گویا یہ مرزا صاحب کی مصدقہ کتاب ہے اور اس کے اندر جو مجددین کی فہرست ہے وہ مرزا غلام احمد کے نزدیک بھی مسلم مجددین ہیں اب ہم کتاب عسل مصفی سے وہ فہرست نقل کرتے ہیں ۔
( عسل مصفی مصنفہ مرزاخدا بخش ص۱۱۷ ج۱)
پہلی صدی میں اصحاب ذیل مجدد تسلیم کئے گئے ہیں
(۱) عمر بن عبدالعزیز (۲) سالم (۳) قاسم (۴) مکحول
علاوہ ان کے اور بھی اس صدی کے مجدد مانے گئے ہیں چونکہ جو مجدد جامع صفات حسنی ہوتا ہے وہ سب کا سردار اور فی الحقیقت وہی مجدد فی نفسہ ماناجاتا ہے اور باقی اس کی ذیل سمجھے جاتے ہیں جیسے انبیاء بنی اسرائیل میں ایک نبی بڑا ہوتا تھاتو دوسرے اس کے تابع ہو کر کاروائی کرتے تھے چنانچہ صدی اول کے مجدد متصف بجمیع صفات حسنی حضرت عمر بن عبدالعزیز تھے ۔(نجم الثاقب ج۲ ص۹ ،وقرۃ العیون ومجالس الابرار)
دوسری صدی کے مجدد اصحاب ذیل ہیں
(۱) امام محمد ادریس ابو عبداﷲ شافعی (۲) احمد بن محمد بن حنبل شیبانی (۳) یحیٰ بن عون غطفانی (۴) اشہب بن عبدالعزیز بن داؤد قیس (۵) ابو عمرو مالکی مصری (۶) خلیفہ مامون رشید بن ہارون (۷) قاضی حسن بن زیاد حنفی (۸) جنیدبن محمد بغدادی صوفی (۹) سہل بن ابی سہل بن ریحلہ الشافعی (۱۰) بقول امام شعرانی حارث بن اسعد محاسبی ابو عبداﷲ صوفی بغدادی (۱۱) او ربقول قاضی القضاۃ علامہ عینی احمد بن خالد الخلال ابو جعفر حنبلی بغدادی ۔ (نجم الثاقب ج۲ ص۱۴ ،قرۃ العیون ومجالس الابرار)
تیسری صدی کے مجددین
(۱) قاضی احمد بن شریح بغدادی شافعی (۲) ابو الحسن اشعری متکلم شافعی (۳) ابو جعفر طحاوی ازدی حنفی (۴) احمد بن شعیب(۵) ابو عبدالرحمن نسائی (۶)خلیفہ مقتدر باﷲ عباسی (۷) حضرت شبلی صوفی(۸) عبیداﷲ بن حسین (۹) ابو الحسن کرخی وصوفی حنفی
(۱۰) امام بقی بن مخلد قرطبی مجدد اندلس اہل حدیث ۔
چوتھی صدی کے مجددین
(۱) اما م ابوبکر باقلانی (۲) خلیفہ قادر باﷲ عباسی (۳) ابوحامداسفرانی (۴) حافظ ابو نعیم (۵) ابو بکر خوارزمی حنفی (۶) بقول شاہ ولی اﷲ ابو عبداﷲ محمد بن عبداﷲ المعروف بالحاکم نیشاپوری (۷) اما م بیہقی (۸) حضرت ابو طالب ولی اﷲ صاحب قوت القلوب جوطبقہ صوفیاء سے ہیں (۹) حافظ احمد بن علی بن ثابت خطیب بغداد (۱۰) ابو اسحاق شیرازی (۱۱) ابراہیم بن علی بن یوسف فقیہ المحدث
پانچویں صدی کے مجدد اصحاب
(۱) محمد بن محمد ابو حامد امام غزالی (۲) بقول عینی و کرمانی حضرت راعونی حنفی (۳) خلیفہ مستظہر بالدین مقتدی باﷲ عباسی (۴) عبداﷲ محمد بن محمد انصاری ابو اسماعیل ہروی (۵) ابو طاہر سلفی (۶) محمدبن احمد ابوبکر شمس الدین سرخسی فقیہ حنفی
چھٹی صدی کے مجددین
(۱) محمد بن عبداﷲ فخرالدین رازی (۲) علی بن محمد (۳) عزالدین بن کثیر (۴) امام رافعی شافعی صاحب زبدہ شرح شفا(۵) یحیٰ بن حبش بن میرک حضرت شہاب الدین سہروردی شہید امام طریقت (۶) یحیٰ بن اشرف بن حسن محی الدین لوذی (۷) حافظ عبدالرحمن ابن جوزی
ساتویں صدی کے مجدد اصحاب
(۱) احمد بن عبدالحلیم نقی الدین ابن تیمیہ حنبلی (۲) تقی الدین ابن دقیق العید (۳) شاہ شرف الدین مخدوم بہائی سندی (۴) حضرت معین الدین چشتی (۵) حافظ ابن القیم جوزی شمس الدین محمد بن ابی بکر بن ایوب بن سعد بن القیم الجوزی ورعی دمشقی حنبلی (۶) عبداﷲ بن اسعد بن علی بن سلیمان بن خلاج ابو محمد عفیف الدین یافعی شافعی (۷) قاضی بدرالدین محمد بن عبداﷲ الشبلی حنفی دمشقی
آٹھویں صدی کے مجددین
(۱) حافظ علی بن حجر عسقلانی شافعی (۲) حافظ زین الدین عراقی شافعی (۳) صالح بن عمر بن ارسلان قاضی بلقینی (۴) علامہ ناصر الدین شازلی بن سنت میلی
نویں صدی کے مجدد اصحاب
(۱) عبدالرحمن کمال الدین شافعی معروف بہ امام جلال الدین سیوطی (۲) محمد بن عبدالرحمن سخاوی شافعی (۳) سید محمد جونپوری مہدی اور بقول بعض دسویں صدی کے مجدد ہیں ۔
دسویں صدی کے مجدد اصحاب یہ ہیں
(۱) ملا علی قاری (۲) محمد طاہر فتنی گجراتی ، محی الدین محی السنہ (۳) حضرت علی بن حسام الدین معروف بہ علی متقی ہندی مکی
گیارہویں صدی کے مجددین
(۱) عالم گیر بادشاہ غازی اورنگ زیب (۲) حضرت آدم بنوی صوفی (۳) شیخ احمد بن عبدالاحد بن زین العابدین فاروقی سرہندی معروف بامام ربانی مجدد الف ثانی
بارہویں صدی کے مجدد اصحاب ذیل ہیں
(۱) محمد بن عبدالوہاب بن سلیمان نجدی (۲) مرز امظہر جان جاناں دہلوی (۳) سید عبدالقادر بن احمد بن عبدالقادر حسنی کوکیانی (۴) حضرت احمد شاہ ولی اﷲ صاحب محدث دہلوی (۵) اما م شوکانی (۶) علامہ سیدمحمد بن اسما عیل امیر یمن (۷) محمد حیات بن ملازیہ سندھی مدنی
تیرھویں صدی کے مجددین
(۱) سید احمد بریلوی (۲) شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی (۳) مولوی محمد اسماعیل شہید دہلوی (۴) بعض کے نزدیک شاہ رفیع الدین صاحب بھی مجدد ہیں (۵) بعض نے شاہ عبدالقادر کو مجدد تسلیم کیا ہے ، ہم اس کا انکا ر نہیں کرسکتے کہ بعض ممالک میں بعض بزرگ ایسے بھی ہوں گے جن کو مجدد مانا گیا ہو اور ہمیں اطلاع نہ ملی ہو۔
نوٹ﴾مرز اخدا بخش کی اس دی گئی فہرست میں تیرہ صدیوں کے مجددین کی تعداد اکیاسی بنتی ہے۔
مرزائی سوال
مرزائی عموماً سوال کرتے ہیں کہ چودہویں صدی کامجدد کون ہے واضح ہو کہ ان کے نزدیک آنجہانی مرزا غلام احمد قادیانی ہی چودہویں صدی کا مجدد ہے ۔جواب:
ہم جواب میں چودھویں صدی کے مجددین کے ضمن میں یہ نام پیش کرتے ہیں :
(۱) حضرت مولا نا محمد قاسم نانوتوی بانی دارالعلوم دیوبند(۲) حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (۳) مفسر قرآن حضرت مولانا حسین علی (۴) شیخ العرب والعجم حضرت مولانا حسین احمد مدنی (۵) حضرت مولا نا محمد الیاس کاندھلوی بانی تبلیغ جماعت (۶) سید المحدثین حضرت مولانا سید علامہ انور شاہ کشمیری (۷) شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری (۸) حضرت شاہ عبدالقادر رائپوری (۹) حضرت خلیفہ غلام محمد، دین پورشریف
(جاری ہے...)
٭٭٭