پیر، 19 اکتوبر، 2015

حجۃ الاسلام حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ پر انکارِ ختمِ نبوت کے الزام کا جواب

"سربکف" میگزین 1-جولائی،اگست 2015
مولانا ساجد خان نقشبندی حفظہ اللہ

بہتان: مولانا محمد قاسم نا نو تویؒ ختم نبوت کے قائل نہیں۔
پہلا بہتان جو علماء سُوء  کی طرف سے شیخ الاسلام مولانا محمد قاسم نا نو تویؒ پر لگا یا جاتاہے ، وہ یہ ہے کہ آپ  اجراءِ  نبوت کے قائل ہیں ۔ان کے خیال میں بانی دارا العلوم دیو بند نے اس عقیدہ کا ذکر اپنی کتاب ’’ تخد یر الناس ‘‘ میں کیا ہے یہ عقیدہ رکھنا کہ حضور ﷺکے بعد بھی اگر کوئی نبی آ جائے تو حضور ﷺکی ختم نبوت میں کوئی فر ق نہیں آ تا ہے ۔یہ عقیدہ کفر ہے اس لئے محمد قاسم نانو توی اور ان کے متبعین کا فر اور مرتد ہیں ۔
یہ اعتر اض سب سے پہلے علماء سوء کے امام مو لوی احمد رضاخاں صاحب نے حضرت نانو توی پر کیا ہے۔جس کا ذکر انہوں نے اپنی کتاب ’’ حسام الحر مین ‘‘ میں کیا ہے ۔اس اعتر اض کے متعلق بس مختصر الفا ظ میں یہی کہہ سکتے ہیں کہ لعنۃ اللہ علی الکا ذ بین، اللہ تعالیٰ منکر ین ختم نبوت پر بھی لعنت کریں اور جھو ٹے الزام لگا نے والوں پر بھی خدا کی لعنت ہو ۔دیو بند یوں میں سے کوئی ختم نبوت کا انکار نہیں کرتا ۔
تحقیقی جواب
حسام الحر مین کی عبارت: ہم ذیل میں وہ عبارت مولوی احمد رضا خاں صاحب بر یلوی کی کتاب حسام الحر مین کی نقل کرتے ہیں جو انہوں نے حر مین الشر یفین کے علماء کو حضرت نانو توی ؒ کے متعلق لکھی اور ان سے خواہش کی کہ وہ ایسا عقیدہ رکھنے والے پر کفر کا فتوی صادر فر مائیں ۔
اور قا سمیہ قاسم نا نو توی کی طرف منسو ب کی جس کی تخدیر النا س ہے اور اس نے اپنے اس رسالے میں کہا ہے ۔
’’ بلکہ اگر بالفر ض آپ کے زمانہ میں بھی کہیں اور نبی ہو ۔جب بھی آپ کا خاتم ہونا بد ستور باقی رہتا ہے ۔بلکہ اگر با لفر ض بعد زمانہ نبوت میں بھی کوئی نبی پیدا ہو توخاتمیت محمدی میں کچھ فر ق نہیں آ ئے گا ۔عوام کے خیال میں تو رسول اللہ کا خاتم ہو نا بایں معنی ہے ۔ کہ آپ سب میں آ خر نبی ہیں ۔مگر اہل فہم پر رو شن ہے کہ تقدم یا تا خر زمانہ میں بالذ ات کچھ فضلیت نہیں ۔
مولوی احمد رضا خان صاحب کی دیانت کا ادنی نمونہ
مذکورہ بالا حوالہ سے پہلے ہم طائفہ بر یلویہ کے امام کی جس علمی دیانت کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں ۔وہ مندرجہ ذیل ہے ۔
او لاً : مولوی صاحب نے حضرت نانو تویؒ کی اُردو عبارت کو جو معنی پہنا ئے ہیں اس سے ہر اہل علم مولوی احمد رضا خان صاحب کی علمی دیانت کا اندازہ لگا سکتا ہے ۔

ثا نیاً : یہ عبارت مولانا نا نو توی ؒ کی تخدیر الناس میں مسلسل نہیں ہے بلکہ تین مختلف مقامات پر ہے (١)جہاں سے آ دھا آ دھا فقرہ لے کر ایک مسلسل عبارت بنا دی گئی ہے ۔ آپ جانتے ہیں اگر آ دھا فقرہ دوسرے صفحہ ایک فقرہ دس صفحے اور اگلا فقرہ بیس صفحے سے لے کرمسلسل عبارت بنا دی جائے تو اس کا اصل مفہوم اور مقصد کے ساتھ کیا تعلق ہو گا ۔پس یہی حشر مولوی احمد رضاخان صاحب نے مولانا نا نو توی کے حوالے کے ساتھ کیا ہے اب ملا حظہ فر مائیں کہ اس عبارت کے فقر ات اصل کتاب کے کن کن صفحات پر ہیں ۔اور کس بد دیانتی سے ایک جگہ اکٹھا کر کے حضرت نا نو توی اور علماء دیو بند کو بد نام کیا گیا ہے ۔کہ نعو ذ باللہ حضرت نا نو توی اور علماء دیو بند ختم نبوت کے منکر ہیں ۔
ثا لثاً : در میان میں فقرہ ختم ہونے کی نشانی یعنی ڈیش  بھی نہیں لگائی ۔
(i) بلکہ اگر با لفرض آپ کے زمانے میں بھی کہیں اور نبی ہو ،جب بھی آپ کا خا تم ہونا بد ستور باقی رہتا ہے ۔( یہ صفحہ ۱۸ پر ہے ۔)
(ii) بلکہ اگر با لفر ض بعد زمانہ نبوی ﷺ بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خا تمیت محمدی میں کچھ فرق نہیں آئے گا۔ ( صفحہ ۳۴)
(iii) عوام کے خیال میں تو رسول اللہ کا خاتم ہونا یا یں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانہ کے بعد
(١)کہتے ہیں بریلوی مکتبِ فکر کے " اعلیٰ حضرت" خاتم المجددین تھے۔(پاسبانِ مجدد نمبر سنہ٥٩ءبحوالہ دیوبند سے بریلی تک ص١٥٦)   اعلیٰ حضرت کی اِس    "دیانت" سے اُن کی شانِ مجددی کا بخوبی پتہ چلتا ہے۔ اُنہوں نے بشمول دین کے، ہر چیز کی تجدید کر کے  یہ ثابت کردیا ہے کہ واقعی وہ "مجدد" ہیں۔(مدیر)
اور آپ سب میں آخری نبی ہیں ۔مگراہل فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم یا تا خر کے زمانے میں بالذات کچھ
فضیلت نہیں ( صفحہ نمبر ۳۸)
خا تمیت ایک جنس ہے جس کی دو قسمیں ہیں ایک زمانی اور دوسری رتبی خاتمیت زما نیہ کے معنی یہ ہیں کہ حضو ر ﷺسب سے اخیر زمانے تمام انبیاء کے بعد مبعو ث ہوئے ۔اور اب آپﷺ کے بعد قیامت تک کوئی نبی مبعو ث نہیں ہو گا اور خاتمیت رتبیہ کے معنی یہ ہیں کہ نبوت و رسالت کے تمام کمالات اور مراتب حضور کی ذات بابر کات پر ختم ہیں ۔اور حضورﷺ پر نور دونوں اعتبار سے خاتم النبین ہیں ۔زمانہ کے لحاظ سے بھی آپ خاتم ہیں ۔اور مراتب نبوت اور کمالات رسالت کے اعتبار سے بھی خاتم ہیں ۔حضور کی خاتمیت فقط زمانی نہیں بلکہ زمانی اوررتبی دونوں قسم کی خاتمیت حضور کو حاصل ہے ۔اس لئے کمال مدح جب ہی ہوگی کہ جب دونوں قسم کی خاتمیت ثابت ہو ۔
مولانا محمد قاسم فر ماتے ہیں کہ حضور کی خاتمیت زمانیہ قر آن اور حدیث متواتر اور اجماع امت سے ثابت ہے ۔چنانچہ اسی کتاب تخدیر الناس کے صفحہ پر تحریر فر ماتے ہیں ۔
’’ سو اگر اطلاق او رعموم ہے تب تو خاتمیت ظاہر ہے ورنہ تسلیم لز وم خاتمیت زمانی بد لالت التزامی ضرور ثابت ہے ۔ادھر تصر یحات نبوی مثل انت منی بمنز لۃ ھارون من موسی الا انہ لا نبی بعدی او کماقال
جو بظاہر بطر ز مذکور اسی لفظ خاتم النبین سے ماخوذ ہے اس باب میں کافی ہے ۔کیونکہ یہ مضمون درجہ تو اتر کو پہنچ چکا ہے ۔پھراس پر اجماع بھی منعقد ہو گیا ہے ۔گو الفاظ مذکور بسند متواتر منقول نہ ہو ں سویہ عدم تو اتر الفاظ با و جود تواتر معنوی یہاں ایسا ہی ہو گا ۔جیسا کہ تواتر عدد رکعات فر ائض وتر وغیرہ ۔با وجودیکہ الفاظ حدیث مشعر تعداد رکعات متوا تر نہیں ۔جیسا کہ اس کا منکر کافر ہے ایسا ہی اس کا منکر بھی کافر ہے ۔
مولانا محمد قاسم نا نوتوی کی اس عبارت میں ا س امر کی صاف تصر یح موجود ہے ۔کہ خاتمیت زمانیہ کا منکر ایساہی کافر ہے جیسا کہ تعداد رکعات کا منکر کافر ہے ۔مولانا نانو توی اس خاتمیت زمانیہ کے علاوہ حضور کے لئے ایک اور معنی کو خاتمیت فر ماتے ہیں جس سے حضور کا تمام او لین و آخرین سے افضل و اعلم ہو نا ثابت ہو جائے ۔وہ یہ کہ حضور پر نور کمالات نبوت کے منتہی اور خاتم ہیں ۔اور علوم اولین و آ خرین کے منبع اور معدن ہیں ۔جس طرح تمام رو شنیوں کا سلسلہ آفتاب پر ختم ہوتا ہے ۔اسی طرح تمام علوم اور کمالات کا سلسلہ حضور پر ختم ہو تا ہے ۔
معاذاللہ مو لانا مر حوم خاتمیت زمانیہ کے منکر نہیں بلکہ زمانیہ کے منکر کو کافر سمجھتے ہیں لیکن اس خاتمیت زمانیہ کی فضیلت کے علاوہ خاتمیت رتبیہ کی فضیلت بھی حضور ﷺکے لئے ثابت کر نا چاہتے ہیں ۔تاکہ آپﷺ کی تمام اولین او آخرین پر فضیلت و سیادت ثابت ہو اور خاتمیت زمانی کے اعتبار سے بفر ض محال اگر حضور کے بعد بھی نبی مبعو ث ہوتو حضور کی خاتمیت رتبیہ میں کوئی فر ق نہیں آئے گا۔ آفتا ب اگر تمام ستاروں سے پہلے طلوع کر ے یا درمیان میں طلوع کرے آفتاب کے منبع نور ہونے میں کچھ فرق نہیں آتا اسی طرح با لفر ض اگر حضور پر نور تمام انبیاء سے پہلے مبعو ث ہوں یادر میان میں مبعو ث ہوتے تو آپ کے منبع کمالات ہونے میں کچھ فرق نہ آتا اور یہ فر ض بھی احتمال عقلی کے درجہ میں ہے ۔ورنہ جس طرح خاتمیت زمانیہ میں حضور کے بعد نبی کا آنا محال ہے ۔اسی طرح خاتمیت رتبیہ بھی آپ کے بعد نبی کا آنا محال ہے اس لئے اگر انبیاء متا خرین کا دین دین محمدی کے مخالفت ہو اتو اعلیٰ کا ادنیٰ سے منسو خ ہونا لازم آ ئے گا ۔جو حق تعالیٰ کے اس قول ماننسخ من ایۃ او ننسھا نات بخیر منھا کے خلاف ہے نیز جب علم ممکن للبشر آپ ﷺپر ختم ہو چکا تو آپﷺ کے بعد کسی نبی کا مبعو ث ہونا بالکل عبث اور بے کار ہوگا ۔حاصل یہ نکلا کہ خاتمیت رتبیہ کے لئے خاتمیت زمانیہ بھی لازم ہے ۔
لفظ با لفر ض کی تحقیق
مولانا مرحوم کے نزدیک اگرحضور کے بعد کوئی نبی مبعوث ہونا شر عا جائز ہوتا تو لفظ بالفر ض استعمال نہ فر ماتے ۔مولانا مرحوم کا یہ فر مانا کہ بالفرض اگرآپ کے بعد کوئی نبی یہ لفظ بالفرض خود اس کے محال ہونے پر دلالت کرتا ہے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ بات محال ہے کسی طرح ممکن نہیں لیکن اگر بفرض محال تھوڑی دیرکے لئے اس محال کو بھی تسلیم کر لیا جائے تب بھی حضور ﷺکی خاتمیت رتبیہ اور آپ ﷺکی افضلیت و سیادت میں کوئی فر ق نہیں آتا ۔
یہ ایسا ہی ہے جیسے حضور ﷺکا یہ فر مانا لو کان من بعدی نبی لکان عمر اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا عمر ہوتا تو ظاہر ہے کہ حضور کا مقصو د یہ نہیں کہ آ پ ﷺکے بعد نبی کا آنا ممکن ہے بلکہ یہ بتلانا مقصود ہے کہ میں خاتم النبین ہوں میرے بعد کوئی نبی ہو تا تو عمر ہوتا ۔اس ارشاد سے حضور ﷺکی خاتمیت اور عمرؓ کی فضیلت ثابت کر نا مقصود ہے ۔اس کو اس طرح سمجھو کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اگر ایک چاند نہیں بالفرض ہزاروں چاند ہوں تب بھی ان کا نورآفتاب ہی سے مستفاد ہو گا تو اس کا یہ مطلب کرتا ہے کہ آفتاب تمام انوار اور شعاعوں کا ایسا حاکم ہے اور منتہاہے کہ اگر بالفرض ہزاروں چاند بھی ہوں تو ان کا نور بھی اسی آفتاب سے مستفاد ہو گا ۔
اسطرح بالفرض ہزار چاند کہنے سے آفتاب کی فضیلت دو بالا ہو جائے گی ۔کہ آفتاب فقط اس موجودہ قمر سے افضل نہیں بلکہ اگر جس قمر کے اور بھی ہز اروں افراد فرض کر لئے جائیں تب بھی آفتاب ان سب سے افضل اور بہترہو گا ۔
با لفر ض و اگر کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ مولانا نانوتویؒ کے نزدیک نبی کا پیدا ہو نا ناممکن اور محال کے قبیل سے ہے ۔کیونکہ قر آ ن پاک میں کئی محال چیزوں کو فر ض کیا گیا ہے ۔
(1) اگر رحمن کا بیٹا ہوتا تو میں پہلا عا بد ہوتا (القر آن )
(2) اگر زمین و آسمان میں کئی الہ ہوتے تو فسا د ہوجاتا (القرآن)
(3) اگر اللہ مجھے اور میرے سا تھیوں کو ہلاک کردے (القرآن)
تو ایسی بے شمار مثا لیں آپکو قر آن پاک میں مل جائیں گی ۔جو قضیہ شر طیہ کی قبیل میں سے ہیں اور یہ مسئلہ بھی قضیہ شر طیہ میں سے ہے اور قضیہ شر طیہ کے متعلق مولوی ابو الحسنات قادری لکھتے ہیں
(1) یہ قضیہ شر طیہ ہے اور قضیہ شر طیہ کے صد ق کیلئے یہ لازم نہیں کہ اس کے طر فین صا دق ہوں مثلاً اگر کوئی ضعیف بو ڑھا آدمی کہے کہ میں جوان ہو جا ؤں تو فلاں کام کروں گا ۔ظا ہر ہے کہ ا س کا جوان ہونا او ر اس کام کا وجو د میں آنا ناممکن ہے ۔ (تفسیر الحسنات۔ ج1 ۔ص 283)
(2) اور یہی بات مفتی احمد یار نعیمی لکھتے ہیں
نہ خدا کا بیٹا ہونا ممکن ہے اور نہ ہی حضور ﷺ کا ان بے دینو ں کی طرف مائل ہونا۔ قضیہ شر طیہ محض تعلق بتا تا ہے اسے مقد موں کے امکان سے کوئی تعلق نہیں ۔ (تفسیر نعیمی ۔ج 1۔ ص 603)
(3) دو سری جگہ لکھتے ہیں با لکل نا ممکن چیز کو ناممکن پر معلق کر دیا جاتا ہے۔ (تفسیر نعیمی۔ ج ا۔ ص 670)
معلوم ہو گیا کہ نہ تو رحمت کائنات ﷺ کے بعد نبی آنا ممکن ہے اور نہ ہی فرق پڑ نا ممکن ۔بلکہ یہ تو محض قضیہ شر طیہ ہے کہ دو نوں جز و ں کے وقو ع اور امکان کو ثابت نہیں کر رہا جیسا کہ مفتی احمد یار نعیمی نے لکھا ہے یہ قاعدہ ہی سرے سے غلط ہے کہ یہ جملہ شر طیہ جس کا مقصد ہوتا ہے سببیت کا بیان کرنا یعنی شرط سبب ہے جز ا کی اسکا ذکر نہیں ہوتا کہ یہ دونوں و اقع یا ممکن ہیں ۔ (تفسیر نعیمی ۔ج ا۔ ص 670)
اب ا س سے یہ گمان کرنا کہ مولانا نانوتوی ؒ نے نبی کے آنے کو جائز قر ار دیا با طل ٹھہر ا۔
اسی طرح نبی کریم ﷺ کی تمام افراد نبوت پر فضیلت او ر بر تری بتلانا مقصود ہے خواہ افراد ذہنی ہوں یا خارجی محقق ہوں یا مقدر ممکن ہوں یا محال اور یہ کہ حضور پر نور پر سلسلہ نبوت علی الا طلاق ختم ہے زمانی بھی اور رتبی بھی ۔
مولانا نے یہ کہیں نہیں فرمایا کہ سرور عالم ﷺ کے بعد نبی کا آنا شرعا جائز ہے ۔بلکہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ جو شخص اس امر کو جائز سمجھے کہ حضور کے بعد نبی کا آنا شر عاً ممکن الو قوع ہے وہ قطعا دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔
چنا نچہ حضرت نا تو توی ’’ منا ظرہ عجیبہ کے صفحہ ۳۹ پر لکھتے ہیں " خاتمیت زمانیہ اپنا دین وایمان ہے ۔ناحق کی تہمت کا البتہ کوئی علاج نہیں ۔"
پھر اسی کتاب کے صفحۃ ۱۰۲ پر لکھتے ہیں
" امتناع بالغیر میں کسے کلا م ہے اپنا دین وایمان ہے کہ بعد رسول اللہ ﷺ کے کسی اور نبی کے ہونے کااحتمال نہیں جو اس کا قائل ہو ۔اسے کافر سمجھتا ہوں ۔"
مزیداعتر اض
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں اعتر اض ا س بات پر ہے کہ فر ق نہیں آئیگا ۔
الجو اب :
(1) بات پیچھے گذری کہ قضیہ شر طیہ سے وقوع یا امکان سمجھنا غلط ہے لہذا جب اسکا وقو ع اور امکان ہی نہیں تو اعترا ض کیسا ۔
(2) سورج چمک رہا ہو اور اگر بالفر ض تار ا نکل آئے تو سورج کی چمک دمک میں فر ق آئیگا ؟بالکل نہیں ایسے ہی فرق یہاں بھی نہیں آئے گا ۔
الز امی جواب:
(1)بر یلوی اکا بر ین کے دو مختلف کونسلیں تحذیر النا س کے متعلق فیصلہ دے چکے ہیں ۔
پہلی کونسل:
(5)    خواجہ قمر الدین سیا لوی صاحب (ii) مولانا محبوب الرسول للہ شریف جہلم (iii) قار ی الحاج محمد حنیف صاحب سجادہ نشین کوٹ مومن (iv) مولانا حکیم صدیق صاحب سند یا فتہ لکھنو (v)مولانا محمد تا ج ا لملو ک صا حب فا ضل خطیب جامع شا ہ پورہ گجرات (vi) حضرت مولانا محمد فضل حق خطیب میلو والی ضلع سر گو دھا (vii)مولوی مولانا غریب اللہ صاحب صد ر مدرس مدرسہ عزیزیہ شاہی مسجد بھیرہ (viii) مولانا الحاج مفتی محمد سعید صا حب نمک میانی (ix) حضرت پیر سید حامد شاہ خطیب جامع مسجد متصل ہسپتا ل(x) حضرت پیر سید محمد صا حب خطیب جامع مسجد پویس لائن سر گو دھا۔
دو سری کونسل علماء بر یلویہ:
پیر کرم شاہ بھیروی کی زیر نگرانی میں ان کے مدرسہ کے اسا تذہ یعنی دارالعلوم محمد یہ غو ثیہ کے اسا تذہ نے مل کر تحقیق کی ۔
اور با لآ خر اس کونسل نے جو نتیجہ نکالا وہ یہ تھا جو پیر کرم شاہ نے اپنے لفظوں سے لکھا ’’ جو تحذیر النا س میری نظر میں‘‘کے آخر میں درج ہے ۔
یہ کہنا درست نہیں سمجھتا کہ مولانا نوتوی عقیدہ ختم نبوت کے منکر تھے کیونکہ یہ اقتباسات بطور عبارۃ النص اور اشا رۃ النص اس امر پر بلا شبہ دلالت کرتے ہیں کہ مو لانا نانو توی ختم نبوت زمانی کو ضر وریات دین سے یقین کرتے تھے ۔اور اس کے دلائل کو قطعی اور متو اتر سمجھتے تھے ۔انہوں نے ا س بات کو صر ا حۃً ذکر کیا ہے کہ جو حضو ر ﷺ کی ختم نبوت زمانی کا منکر ہے و ہ کافر ہے او ردائرہ اسلام سے خارج ہے ۔ ( تحذیر النا س میری نظر میں ۔ص 58) (جمال کرم۔ ج ا۔ص694)
اور پہلے اکا برین کی فہرست میں سے ہم صرف خواجہ قمر الدین سیالوی کا ارشاد عر ض کرتے ہیں
میں نے تحذیر النا س کو دیکھا میں مولانا قاسم صا حب کو اعلیٰ در جے کا مسلمان سمجھتا ہوں مجھے فخر ہے میری حدیث کی سند میں انکا نام موجو دہے ۔خاتم النبین کا معنیٰ بیا ن کرتے ہوئے جہاں تک مولانا کا دماغ پہنچاہے ۔وہاں تک معتر ضین کی سمجھ نہیں گئی ۔قضیہ فر ضیہ کو واقعہ حقیقیہ سمجھ لیا گیا ہے ۔(ڈھول کی آواز ۔ص116۔117)
(2) مولوی سعید احمد کاظمی لکھتے ہیں
ہمیں نا نو تو ی صا حب سے یہ شکوہ نہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کیلئے تا خر زمانی تسلیم نہیں کیا یا یہ کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے بعد مدعیان نبوت کی تکذیب و تکفیر نہیں کی ۔انہوں نے یہ سب کچھ کیا (مقالات کا ظمی ۔ج 2۔ ص360)
(3) مفتی جلال الدین امجدی صا حب لکھتے ہیں
بے شک سر کار اقد س ﷺ کے بعد کسی نبی کا پید اہونا شرعامحال اور عقلاً ممکن با لذات ہے ۔ (فتا وٰی فیض الرسول۔ ج 1۔ص 9)
(4)مفتی خلیل احمد خان قا دری بر کاتی لکھتے ہیں
مولوی محمد قاسم مر حوم کی تصانیف کے مطالعہ سے ثابت ہوتاہے کہ و ہ خا تمیت زمانی یعنی نبی پاک ﷺ کے آخری ہونے کے منکر نہیں بلکہ مثبت ہیں ۔اس لیے کفری قول کو ان کی طرف نسبت کرنا ہر گز صیحح نہیں (انکشاف حق۔ ص 114)
(5) مفتی احمد یار خان نعیمی لکھتے ہیں
اگر قادیانی نبی ہوتا تو وہ دنیا میں کسی کا شاگرد نہ ہوتا ۔ (نور العر فان۔ ص 166)
دو سری جگہ لکھتے ہیں
اگر مر زا قادیانی نبی ہو تا تو پٹھا نوں کے خوف سے حج جیسے فر یضہ سے محروم نہ رہتا ۔ (نور العر فا ن۔ ص 806)
ایک جگہ لکھتے ہیں
اگر قادیانی نبی ہوتا تو حضرت ابر اہیم علیہ السلام کی اولاد میں ہوتا ۔ (نور ا لعر فان۔ ص166)
     

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں