"سربکف" میگزین 1-جولائی،اگست 2015
عبد الرحمٰن صدیقی حفظہ اللہ
"پہلے اپنے پیروں پر کھڑے ہوجاؤ پھر شادی کی سوچنا"
یہ ایک جملہ ہے جو ہمارے عہد کے بہت سارے کنواروں کے دل پر بجلی بن کر گرتا ہےاور ان کی سلگتی تمنّاؤں اور امنگتی آرزوں کو خاکستر کردیتا ہے ۔ ہمارےیہاں لڑکے کے لیے پیروں پر کھڑا ہونے معیار اتنی بلندی پر رکھا گیا ہے کہ وہاں تک پہنچتے پہنچتے لڑکے کی عمر اس مرحلہ میں پہنچ جاتی ہے جہاں گھٹنوں کا درد شروع ہوجاتا ہے ۔ لیکن گھنٹے میں درد شروع ہوجانے کی اور بھی کئی ساری وجوہات ہوتی ہیں ۔
عجیب معاملہ یہ ہے کہ تیس سال سے پہلے تو یہ سمجھا ہی نہیں جاتا کہ بچّہ اب بچّہ نہیں رہا۔ جوان ہوچکا ہے ۔ آرزوئیں اب اس کےدل میں بھی کچوکے لگاتی ہیں ، خواب اب اس کی راتوں کو سونے نہیں دیتے ۔بے چارہ نوجوان شرم اور بے شرمی کے بیچ جھولتا رہتا ہے اس فکر میں کہ آخر بے شرمی کی کون سی حد تک جائے کہ گھر والے اس کا مسئلہ سمجھ پائیں ۔ کبھی حیا اس کو ہاتھ پکڑ کر روک لیتی ہے تو کبھی کنوارگی کا درد اس کو مجبور کرتا ہے کہ" اتر جاؤ بے شرمی پر اور رکھ دو دل کا درد کھول کر سب کے سامنے ۔"
پھر جب عمر کی دہائی پر جب 3 آکر لگتا ہے تو گھر والوں کو لگتا ہے بچّہ اب شادی کے لائق ہوگیا ۔پھر رخ کیا جاتا ہے منڈی کی طرف ۔ لڑکے پر حسب لیاقت و صلاحیت قیمت کے ٹیگ لگتے ہیں ۔ خریدارکی تلاش ہوتی ہے ۔ دلالوں سے کانٹیکٹ کیا جاتا ہے۔ بولیاں لگتی ہیں ۔ مول بھائی ہوتا ہے۔ نیلامی ہوتی ہے ۔ اور تلاش ہوتی ہے صحیح خریدار اور مناسب دام کی ۔
مردوں کی منڈی میں ہر طرح دلہے بکنے کو دستیاب ہوتےہیں ۔ ہر قسم کے دلہے کہ اپنی ولیو ہوتی ہے ۔ ڈاکٹر اور انجینر اور باہر ملکوں میں مقیم سب سے اعلیٰ نسل کے دلہے سمجھے جاتے ہیں منڈی میں جہاں اس نسل کے دولہے بکتے ہیں وہاں کی انٹری فیس بھی بڑی ہوتی ہے ۔ جو صرف انتہائی امیر گھرانے کے لڑکی والے ہی ادا کرپاتے ہیں ۔
متوسظ قسم کے مالداروں اور خوشحال گھرانوں کا بھاؤ کافی عروج پر ہے آج کل ۔ اور انگریجی پڑھائی پڑھنے والوں کی بھی کافی مانگ ہے ۔
منڈی ایک کونے مولوی بھی بکتے ہیں ۔ کیونکہ مولوی نسل کے دولہوں کے بارے میں خریداروں کی رائے یہ ہے کہ اس نسل کے دولہے کسی نا کسی طرح اپنے بال بچّوں کا پیٹ پال ہی لیتے ہیں ، اس لیے مارکیٹ میں ان کا بھی ریٹ کافی اچھا ہوگیا ہے ۔ بلکہ شاید یہی ایک مارکیٹ ہے جہاں ان کی ویلیو تھوڑی ٹھیک ٹھاک ہے ۔ دو پہیہ سے کم اب کوئی مولوی فروخت نہیں ہوتا ۔ الا من شاء ربک
لیکن مسئلہ صرف صحیح خریدار اور مناسب قیمت ملنے کا بھی نہیں ہے۔ یہ بازار ایسا ہے کہ بکنے والے کو خریدار بھی پسند آنا چاہے ورنہ ڈیل کینسل ۔
ذہنیت یہ بن گئی ہے کہ جب تک دس بیس گھرانے کی دعوتیں اڑا کر ان کی لڑکیاں ریجیکٹ نہ کردی جائیں لڑکے کے گھر والوں کو تسکین نہیں ہوتی ۔(١)
وہی ہوتا ہے کہ لڑکے کا تھوبڑا چاہے دیکھنے لائق نہ ہو ۔گھر والوں کی فکر لگی ہوتی ہے ، ۔ "وہ پری کہاں سے لاؤں ، تیری دلہن کسے بناؤں" لڑکی چاہیے حور پری ۔ لڑکے کو چاہے بات کرنے کی تمیز نہ ہو لڑکی چاہیے بے اے ایم اے ۔
لڑکیوں کو ریجکٹ کرنے کےلیے ایسے ایسے کمنٹ سنے گئے ہیں :
"رنگ سانولا ہے ۔ میرے بھائی کو گوری لڑکی چاہیے ۔ "
"بال دیکھے تھے اپّی کتنے چھوٹے تھے اس کے ۔ "
"اس کی ایڑیاں پھٹی ہوئی ہیں میں نے چپ کے سے موزہ اتروا کے دیکھ لی تھی"
"قد چھوٹا ہے نہیں جمے گی بھائی کو "
" ماسٹر ہی تو ہے ابّا لڑکی کے ۔ کچھ بھی دے لیں تو کتنا دیں لیں گے آخر"
(١) یہ صورتِ حال اکثر جگہوں پر دیکھی گئی ہے اور انتہائی شرم کا مقام ہے۔ اِن میں بلامبالغہ صرف عورتیں ہی پیش پیش رہتی ہیں۔ کاش کہ "مرد" حضرات اپنی "مردانگی" کا پاس کرلیں اور نبی اکرم ﷺ کے فرمانِ عالیشان فلیغیرہ بیدہ کا خیال کرلیں۔ (مدیر)
" چودھری تو ہیں وہ لوگ لیکن چھوٹے چودھری ہیں ۔ ہم بڑے چودھری کے گھر کی لڑکی لائیں
گے"
"ہم انصاری لوگ شیخوں کے یہاں شادی نہیں کرتے"
اور بعض مرتبہ بہانہ ہوتا ہے ۔
"لڑکی سمجھ نہیں آرہی ہے "
الغرض اس طرح پسندیدہ خریدار اور مناسب دام ملتے ملتے لڑکا 35 / 40 کراس کرچکا ہوتا ہے ۔
اب بھلا بتائیے کہ کہ ایک ایسے زمانہ میں جب تقویٰ مسجد کی صفوں میں بھی دکھائی نہیں دیتا ، ایک لڑکے سے جس کی ضرورت 15 /16 سال سے ہی شروع ہو گئی تھی آپ بیس سال تک روزے پر کیسے گذارا کراسکتے ہیں ۔ پھر آپ کہتے ہیں کہ معاشرہ میں فحاشی بڑھ گئی ہے ۔ تو بھائی جہاں نکاح مشکل ہوگا وہاں زنا اپنے لیے راستے آسان کر ہی لے گا۔
بہت سارے معاملا ت میں نے دیکھے ہیں کہ لڑکے جہیز کی لالچ نہیں رکھتے لیکن ان کی جوانی گھر والوں کی لالچ کی بھینٹ چڑھا جاتی ہے ۔
میں اپنے عہد کے کنواروں کو بغاوت پر ابھارتا ہوں ۔ دوستو! اصل کھیلنے کے دن تو یہ بیس کی دہائی کے ہی ہوتے ہیں ۔ یہ ایک ایک دن بڑے قیمتی ہیں ۔ ان کو اپنی کنوارگی میں ضائع مت کرو، نا جوانی کی اس پاک دامنی پر بد کرداری کا داغ نہ لگنے دو۔ تمہارے نبی کی تعلیم ہے کہ اگر بیوی کا نان نفقہ برداشت کرسکتے ہو تو شادی کرلو۔ اس سے نگاہیں جھک جاتی ہیں اور شرمگاہیں محفوظ ہوجاتی ہے ۔
یہ خوبصورت لمحے لالچی گھر والوں کی بھینٹ مت چڑھاؤ ۔ یہ لالچی لوگ تمہاری جوانی واپس نہیں لاکر دینے والے ۔ لڑکے کو شادی کےلیے ولی کی ضرورت نہیں ۔ قدم آگےبڑھاؤ اور گھر دلہن لےآؤ۔ ورنہ تیس کے بعد حور پری بھی مل جائے تونوجوانی کا یہ لطف نہیں ملنے والا۔
دیکھو تمھارے لیے بھی آسمان سے اتر کر حوریں نہیں آنے والی ۔ دنیا ہی کی کسی لڑکی سے کام چلانا پڑے گا۔ بقیہ خواہشیں پوری کرنے کے لیے دینداری اختیار کرو اور جنّت کا انتظار۔ دنیا کےلیے تو رسول کی یہی ہےہدایت ہے کہ :
تُنْکَحُ الْمَرْأَةُ لِأَرْبَعٍ لِمَالِهَا وَلِحَسَبِهَا وَجَمَالِهَا وَلِدِينِهَا فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاکَ
"عورت سے چار وجہوں سے شادی کی جاتی ہے ۔ مال ،جمال ، نسب اور دین ۔ دین دار لڑکی سے شادی کرکے کامیاب ہولے ۔ " ( متفق علیہ)
٭٭٭
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں