پیر، 19 اکتوبر، 2015

ادبی منافقت

"سربکف" میگزین 1-جولائی،اگست 2015
عالم نقوی

یہ بحث بہت پرانی ہے کہ ادب برائے زندگی ہو یا محض ۔ برائے شعر گفتن۔ اور اگر چہ یہ سوال کسی دل جلے ہی نے کیا ہے کہ شعر گفتن چہ ضرور؟ لیکن اس کے مختلف و النّوع جوابات سے دفتر کے دفتر بھرے پڑے ہیں۔
فضیل جعفری افسانوں کے مجموعے’’شیر آہو خانہ‘‘ میں اس کے خالق قمر احسن اعظمی کے اسلوب کا ذکر کرتے ہوئے یہ تأثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ’’گردو پیش کے حالات اور مسائل کی عکاسی اپنے زاویۂ نگاہ سے بلکہ خالصتاًاپنی مرضی سے کرنا چاہیے‘‘ اور عام قاری کے رد عمل کی پروا ہ نہ کرنی چاہیے۔ یایہ کہ ’’شاعر یا ادیب کے لیے اپنے ہر تجربے، ہر جذبے یا ہر احساس کی توضیح مناسب نہیں‘‘ ۔ اور وہ اس کی توجیح یہ پیش کرتے ہیں کہ۔ ’’ جو شخص دوسروں سے الگ اپنے لیے ایک راستہ بنانا چاہتا ہے اور اپنی ایک منفرد شناخت قائم کرنا چاہتا ہے اسے عام قاریوں کی طرف سے ملنے والی ناپسندیدگی کی قیمت تو چکانی ہی پڑے گی۔(1)
جہاں تک اپنی راہ الگ بنانے اور اپنی شناخت قائم کرنے کی بات ہے تو اس میں کسی کو اعتراض نہیں ہو سکتا لیکن، کہیں اس کلمۂ حق کا استعمال باطل کے لیے تو نہیں ہو رہا ہے؟
کچھ لوگوں نے ، جو اس بحث میں پڑنا ہی نہیں چاہتے،گریز کی ایک نئی راہ نکالی ہے۔ مثلاً عبد الاحدسازؔ اپنے مجموعۂ کلام’’خموشی بول اٹھی ہے‘‘ کے دیباچے میں لکھتے ہیں کہ ۔ ’’جدید شاعری جسے اب عصری شاعری کہنا زیادہ مناسب ہے اپنے دائرہ سفر کی ایک بڑی قوس پوری کرکے متوازن ہو چلی ہے‘‘(2)اس بیان میں وہ یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ ادھر انحراف تھا۔ مگر فوراً ہی صفائی بھی دیتے ہیں کہ اب وہ راہ راست پر آلگی ہے۔
لیکن، ہم ایک اور سوال اٹھانا چاہتے ہیں۔ اور وہ یہ کہ ادیب و شاعر کے بے حسن ،خیر اور صداقت پر مشتمل جوہر انسانیت کا حامل انسان ہونا بھی ضروری ہے یا نہیں؟ کیا بڑا ادب یا ’ادب عالیہ اور آفاقی شعر صرف اس لیے ہوتا ہے کہ اس پر عالمانہ اور فلسفیانہ بحثیں کی جائیں یا اس کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیے جائیں اور بس؟ قاری یا سامع کی ذمہ داری ختم ؟ اس بڑے ادیب ، بڑے شاعر یا اس کے ’شاہکار‘ کا حق ادا ہوگیا؟
رگھوپتی سہائے فراقؔ بیسویں صدی کے ایک بہت بڑے شاعر تھے قمر احسن کے لایعنی و بے معنی افسانوں کا دفاع کرنے والے نقاد تو انہیں میرؔ و غالبؔ کے ہم پلّہ شاعر قرار دیتے ہیں۔ وہ فراقؔ ۔ہم جنسی کے مریض تھے۔ (اب جن کے نزدیک ہم جنسی کوئی مرض نہیں بلکہ محض ایک Normal Sexual Manifestationہے ،سرَ دست وہ ہمارے مخاطب بھی نہیں ہیں)یا ۔ ایک اور بڑے شاعر تھے فیض احمد فیضؔ ۔ ان کی حسن پرستی (افلاطونی یا تصوفانہ(؟)نہیں) بلکہ گوشت پوست کے حسینوں کی پرستش کا یہ حال تھا کہ دوستوں کی بیویاں بھی ان کے تصرف سے نہ بچتی تھیں۔ یہاں تک کہ جب وہ مرے تو ان کی ایک فین(Fan)نے (جو خیر سے باشوہر بھی ہیں)اپنے اور اس عظیم شاعر کے درمیان ہونے والی خط و کتابت باقاعدہ کتابی صورت میں شایع کروادی، جس میں ’’معاملات‘‘ کا وہ بیان بھی شامل ہے جو نظم میں کالی داس سے لے کر شعرائے اودھ کی مثنویات سے ہوتے ہوئے کمار پاشی اور میراجی تک اور نثر میں الف لیلیٰ سے لے کر ڈی ایچ لارنس کی لیڈی چیٹرلیز لورLady Chatterley\'s Loverاور قاضی عبد الستار کی ’حضرت جان‘ سے ہوتے ہوئے منٹوؔ اور عصمت تک کم یا زیادہ ، تھوڑا یا بہت، پوشیدہ یا علانیہ، ہر جگہ موجود ہے۔ یقین نہ آئے تو محترمہ سرفراز اقبال کی تالیف کردہ کتاب ’دامن یوسف‘ اٹھا کے دیکھ لیجئے، بقول ’خامہ بگوش‘ (مشفق خواجہ مرحوم) ان خطوں میں کیا کچھ ہوگا، ذیل کے اقتباس سے اس کا اندازہ بآسانی لگا یا جاسکتا ہے:
’’جو تم نے لکھا ہے، کیفیت اپنی بھی کچھ ایسی ہی ہے، یعنی جہاں تک بدعادتوں کا تعلق ہے، تمہاری عادت ہمیں کچھ اتنی پڑچکی ہے کہ آنکھ کھلتے ہی’’صبا کے ہاتھ میں نرمی ہے ان کے ہاتھوں کی ‘ ‘ والا مضمون ذہن میں آتا ہے۔ (ص61)‘‘
بیسویں صدی میں ایک اور بڑے شاعر تھے جون ایلیا، جو اس مسئلے میں گرفتار تھے کہ اگر ’’انسانی ناف کے اوپر بالوں کی لکیر نہ پائی جاتی تو آخر کس نظامیت بدنی کو نقصان پہنچ جاتا؟‘‘ 90کے دہے میں جب ان کا مجموعۂ کلام ’’شاید‘‘ شایع ہو اتھا جس کے دیباچے میں انھوں نے مذکورہ اعتراض فرمایا ہے اس وقت وہ ماشاء اللہ ایک عدد جرنلسٹ اور کالم نگار بیوی ’زاہدہ حنا‘اور کچھ جوان بچوں کے باپ تھے۔ بعد میں زاہدہ حنا نے ان سے طلاق لے لی اور اب تو جون ایلیا بھی دنیا سے رخصت ہو کر اسی خالق حقیقی کے پاس پہنچ چکے ہیں جس کے وہ شاکی تھے ۔
شاعر بزرگ مذکور نے ’شاید‘ کے دیباچہ میں لکھا ہے کہ’’میں نے اپنی بعض محبوبات کی پنڈلیوں پر بالوں کی جھلک دیکھی ہے اور بعض کی پنڈلیاں بالکل صاف پائی ہیں۔ بعض محبوبات کا (خیال رہے کہ دونوں مقام پر صیغۂ جمع ارشاد ہوا ہے) پیالۂ ناف گہرا پایا ہے اور بعض کا اُتھلا۔ میں شاعر، عاشق اور معشوق کے طورپر (یہ معشوق ہونا، کہیں ان کی کسی اور’ ’خصوصیت‘‘ کا اعتراف تو نہیں؟)ان مظاہر کی توجیح کرنے کا قطعاً ذمہ دار نہیں ہوں۔ مگر ایک سوچنے والے غیر جذباتی فرد کے طورپر سوال کرنے کا حق رکھتا ہوں کہ ایسا کیوں ہے؟ اس’’بے نظامی‘‘ کوکس نظام کا نتیجہ قرار دیا جائے؟‘‘(3)
یہ اور بات ہے کہ دنیا کے تمام سائنسدانوں کا (جو شاعر بے شک نہیں تھے) اس بات پر اتفاق ہے کہ اس کائنات کے حقیر ترین ذرّے ایٹم سے لے کر نظام شمسی تک اور ہماری کہکشاں سے (کہ ہمارا نظام شمسی جس کا ایک معمولی سا حصہ ہے) خلاے بسیط کی محدود وسعتوں تک پھیلے ہوئے معلوم و نا معلوم اجرامِ فلکی تک ایک حیرت انگیز ’’نظام ‘‘ یا ’’نظم و انتظام‘‘ پایا جاتا ہے کہ جس میں ایک سکنڈ کے کروڑویں حصّے کا فرق بھی اس پورے نظام کو تہ و بالا کر سکتا ہے!
جو ن ایلیا ایک طرف اپنے ’عالمِ و فلسفی ‘ ہونے کا دعویدار تھے اور دوسری طرف ’یقینیات ‘ سے محرومی کا شکوہ بھی کرتے تھے۔ وہ فرماتے ہیں۔ ’’ یہ کائنات ایک واقعہ ہے جو عظیم الشان پیمانے پر متصلاً پیش آرہا ہے۔ وہ شے جو زمانی اور مکانی طورپر واقع نہ ہو یا پیش نہ آئے غیر موجود ہوتی ہے۔ خدا زمانی یا مکانی طورپر واقع نہیں یا پیش نہیں آتا ، اس لیے وہ غیر موجود ہے‘‘(4)انھیں یہ مسئلہ پریشان کرتا ہے کہ ’’کائنات کی کوئی غایت ہے یا نہیں؟ ارسطو یا ہٹلر کے پیدا ہونے کی آخری کیا غایت تھی، اگر ہمالیہ شمال کے بجائے جنوب میں واقع ہوتا تو اس میں کیا استحالہ تھا‘‘(١)(5)
یہ پریشاں خیالی اور ژولیدہ فکری ثبوت اس بات کا ہے کہ کائنات پر غور کرتے ہوئے انھوں نے اپنے سمندذہن و توَسنِ عقل کو حکمت کی لگام کے ساتھ آزاد نہیں چھوڑا بلکہ محض چند ’انسان ساختہ‘ فلسفوں کے مطالع تک خود کو محدود رکھا اور کیا فلسفہ؟ جو خود ایک بہت بڑے فلسفی کے نزدیک ’’ ہمبگ‘‘ Humbugہے تشکیک کی وادی میں بھٹکنے کے باوجود اُس فلسفۂ حیات و کائنات سے وہ قصداً گریزاں رہے جس کے مطالعے اور اس پر غور فکر سے عین ممکن تھا کہ وہ ’’یقینیات‘‘ سے محروم ہونے کے بجائے ’اہل یقین‘ میں شامل ہو جاتے کیونکہ قرآن ہانکے پکارے کہہ رہا ہے کہ ’’ بے شک آسمان و زمین کی خلقت میں اور لیل و نہار کے اختلاف میں ارباب عقل کے لیے نشانیاں موجود ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جو ہر وقت خواہ کھڑے ہوئے ہوں یا بیٹھے ہوں یا پہلو کے بھل لیٹے ہوئے ہوں۔ آسمان و زمین کی خلقت میں غور فکر کرتے رہتے ہیں اور (اس نتیجے پر پہنچتے ہیں) کہ رَبَّناَ ماَخَلَقْتَ ھٰذا باطِلاًپالنے والے تونے ان تمام اشیا کو بے کار نہیں خلق کیا ہے(آل عمران190.91)
حقیقت یہ ہے کہ ’’نظامیت بدلنی‘‘ اور کائنات میں بے نظمی کا شکوہ کرنے والے یہ لوگ بھی بیکار نہیں خلق  (١)جب انسان خود کو "بحمد اللہ" کے بغیر "عقلمند" سمجھنے لگتا ہے، اور اللہ عزوجل   پر سے اس کی نگاہ ہٹ جاتی ہے تو اُس سے یوں ہی "عقلمندیاں" سرزد ہوتی ہیں۔ (مدیر)
کیے گئے ہیں۔ بلکہ ان جیسے لوگ گروہ’’ یعقلون‘‘ کے لیے نمونۂ عبرت ہیں کہ دیکھو اور غور کرو کہ جب عقل کے شہ زور گھوڑے کے منھ پر’حکمت‘ کی لگام نہیں دی جاتی تو معلم الملکوت سے ابلیس بننے میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔
غرض کہ سنسکرت، عربی انگریزی اور اردو ادیبوں شاعروں اور آرٹسٹوں کی ایک طویل فہرست ہے کہ جس میں شامل افراد کا نام دنیا ئے ادب و فنون لطیفہ میں نہایت ادب و احترام سے لیا جاتا ہے لیکن ان کی نجی زندگی کے جو احوال تحریری طورپر ہم تک پہنچے ہیں وہ اس کا ثبوت ہیں کہ وہ ’عظیم‘ لوگ نہایت گھٹیا قسم کے نفس پرست ضلالت میں پڑے ہوئے کمزور انسان تھے۔ اچھا وہ بہت بڑے ادیب و شاعر یافن کار بھی تھے۔ تو پھر؟؟ ان کی لفظی بازی گری یا برش کی مشاقی سے انسان کا کیا بھلا ہوا؟ انھوں نے تہذیب او رمہذب سماج کے ارتقا میں کیا رول ادا کیا؟ انھوں نے انسان اور انسانیت اور معاشرے کو کیا دیا؟ ہاں یہ ضرور ہوا کہ ہم جیسے چھُٹ بھیوّں کے لیے ان کا نمونۂ عمل کھل کھیلنے کے واسطے بنے بنائے ’جواز‘ کی شکل اختیار کر گیا ۔ ہم آج کتنے ہی ایسے ادبیوں ،شاعروں، دانشوروں اور اساتذہ کو جانتے ہیں کہ جو مے نوشی اور ہوس پر ستی کو’’دانشورانہ فضیلت‘ ‘ سمجھتے ہوئے شعوری طورپر اپنائے ہوئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کسی کی نجی زندگی سے ہمیں کیا لینا؟ ہر شخص کو اپنی فکر اور اپنے ارادے کے مطابق اپنی ذاتی زندگی کو گزارنے کا اختیار ہے ۔ اور کسی کو حق نہیں کہ اس میں جھانکنے کی کوشش کرے یا اسی پر اس کے ادب اور شعر کو محمول کرکے رائے قائم کرے۔ دانشوران شعرو ادب ہم جیسے’’غیر ادیب‘‘ غیر شاعر اور غیر دانشور‘‘ لوگوں کو چپ کر انے کے لیے اسی طرح کی باتیں کرتے ہیں۔
بے شک کسی کو حق نہیں کہ وہ تاکا جھانکی کرتا پھر ے یا دوسروں کی ٹوہ میں رہے ہم نے کب کہا؟ یہ تو’’زندگی کے ٹھیکے داروں کا شغل ہے کہ ’’سماج کے ناسور‘‘یا اس کا ’حسن ‘دکھانے کے لیے گلی گلی، کمرے کمرے ٹوہ لیتے اور جھانکتے پھرتے ہیں اور پھر جو کچھ نظر آتا ہے اسے اور’’مزے دار‘‘ بنا کر قاری یا سامع یا ناظر کے چٹخاروں کے لیے پیش کردیتے ہیں اور اسی خمیر سے بنے ہوئے نقلی وتقلیدی نقادوں کی ٹولیاں ادب یا آرٹ میں اس فن پارے کا مقام تلاش کرنے کے لیے’’دانشورانہ‘‘ موشگافیوں میں مشغول ہو جاتی ہیں۔
یہاں تو حال یہ ہے کہ دانشور حضرات خود ہی اپنی تحریروں، فن پاروں سوانحی خاکوں سفرناموں یا انٹر ویو ز میں اپنے’’عادات و اوصاف‘‘ کا اعلان کرتے رہتے ہیں اور تاکا جھانکی کا شوق رکھنے والوں کو زحمت مزید سے بچا لیتے ہیں۔ توپھر ہمیں پر یہ قدغن کیوں کہ ہم ادب یا آرٹ میں ان کا مقام متعین کرنے کے لیے ان کی نجی زندگی اور ان کے معائب و محاسن پر نظر نہ رکھیں اور یہ دیکھنے کی کوشش نہ کریں کہ ان کے قول و فعل میں تضاد تو نہیں؟ وہ جو بڑی بڑی اور اچھی اچھی باتیں کرتے نہیں تھکتے۔ خود بھی ان کے عامل ہیں؟
رہی یہ بات کہ کسی ادیب ، آرٹسٹ یا شاعر کی قدرو منزلت آنکنے کے لیے اس کے کردار پر نگاہ نہ ڈالی جائے بذات خود مہمل ہے۔
تھوڑی دیر کے لیے یہ نرالی منطق مان بھی لی جائے تو فرائڈ Frued اس کے فن تحلیل نفسی(Psyeo analyses)اور تحت الشعور و لاشعور کی تھیوریوں کا کیا ہوگا؟ جن پر ماہرین نفسیات سے زیادہ ادیبوں شاعروں اور نقادوں نے بغلیں بجائی ہیں اور فرائڈسے سیکڑوں سال قبل کے فن کاروں تک کی تحلیل نفسی کر ڈالی ہے۔ جی، فن تحلیل نفسی کی خدمت کے لیے نہیں، بلکہ خو پر اٹھنے والی انگلیوں کا رخ موڑنے کے لیے کہ دیکھو وہ اور وہ بھی تو’’ایسے ‘‘ اور ’’ویسے‘‘ تھے مگر اس کے باوجود وہ کتنے ’’بڑے ‘‘ تھے!
لہٰذا ہم یہی سوال اٹھانا چاہتے ہیں کہ بالفرض کوئی بڑا آرٹسٹ بڑا ناول نگار، بڑا افسانہ نگار یا بڑا شاعر ہے...........تو پھر؟؟
اوّل تو یہ ’’بڑے‘‘ کا سابقہ ہی مہمل ہے۔ یہاں تو یہی چیز محّلِ نظر ہے کہ اگر وہ آدمی کو انسان بننے میں مدد نہ دے سکے، ’بھیڑ‘ کے’ معاشرے‘میں تبدیل ہونے کے عمل میں معاون نہ ہو سکے اور’’تلاش کمال‘‘ میں آدمی کو انسانی حدّ کمال کے قریب تک نہ لے جا سکے تو اس کے بڑا ادیب شاعر آرٹسٹ یا نقاد ہونے سے فائدہ ؟
احسنؔ جو نہ بدلے قسمت دل اس حرف و نواسے کیا حاصل؟
بنیاد ستم جو ڈھانہ سکے، وہ شعر ہے کیا؟ تقریر ہے کیا؟

جو یہ چاہتے ہیں کہ اگر وہ شراب و شباب میں غرق رہیں تو کوئی ان پر انگلی نہ اٹھائے۔ وہ اگر جنسی بے راہ روی کے شکار ہوں اور ’ ہم جنسی‘ ان کے لیے شہوانی خواہشات کا فطری نکاس Out letہوتو کوئی ان پر اعتراض نہ کرے۔ وہ اگر شادی شدہ ہوتے ہوئے بھی جس کسی پر دل آجائے اسے اپنے تصرف میں لانا اپنا’’حق دانشوری‘ سمجھتے ہوں تو کوئی ٹوکنے روکنے کی جرأت نہ کرے۔ وہ اگر اپنی محبوبات کے پیالۂ ناف کے اتھلے پن یا گہرائی کے بیان میں فخر کریں تو آپ اپنا سر شرم سے نہ جھکائیں۔
وہ اگر یہ کہے کہ ’’فن کے تعلق سے ہر وہ اخلاقیات جو جمالیات کے مفہوم سے کم یا زیادہ مفہوم رکھتی ہو وہ اخلاقیات نہیں ہوتی بلکہ ’عقیدہ‘ ہوتی ہے اور عقیدوں کا حسن اور فن سے کوئی غیر مشروط تعلق نہیں ہوتا۔ عقیدوں کے نظام ۔ غیر مشروط حسن، خیراور فن سے تضاد کی نسبت رکھتے ہیں۔ چنانچہ ’مابعد الطبعیِ ‘ حقائق کے شاعر (جیسے مولانا رومؒ اور اقبالؒ ) شاعر سے بلند مرتبے کے حقدار تو ہو سکتے ہیں مگر شاعر نہیں ہو سکتے.......‘‘(6)
تو آپ ان لوگوں کی گرفت نہ کریں انھیں بڑا شاعر مانیں اور ان کے قصیدے پڑھیں کیونکہ وہ فراقؔ ، فیضؔ اورجونؔ ایلیا جو ہیں!
ہم جب بڑے ادیبوں ، شاعروں اور فن کاروں ، فرانسیسی نظریہ سازوں، یونانی مفکروں، اور انگریزی و عربی کے بعض ادیبوں او رشاعروں کی زندگی پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں واضح طورپر دوگروہ نظرآتے ہیں ۔ ایک تو وہ جو مظاہرفطرت اور اپنے درون و برون پر غور فکر کے بعد کسی نتیجے پر پہنچے اور پھر اپنی پوری زندگی اپنے تلاش کردہ(یا ایجاد کردہ) فلسفے ، نظریے اور نظام میں ڈھال دی۔ یعنی جو کچھ کہا اسے کر کے اور برت کے دکھادیا۔ مارکس، نطشیے میراجی اور دریداؔ اس فہرست کے چند نمائندہ نام ہیں۔ ان سب کی فکر صراط مستقیمی بھلے ہی نہ ہو لیکن وہ بذات خود اپنے نظریے اور فلسفے کے تئیں مخلص تھے۔
اور دوسرے گروہ میں وہ لوگ شامل ہیں جو ساری زندگی تبلیغ تو ایک نظریے کی کرتے رہے لیکن نجی زندگی دوسرے کے مطابق گزاری۔ ہمارے نزدیک فرائیڈ،ڈارون، ن۔ م ۔ راشد، گیان چند جین، گوپی چند نارنگ، قاضی افضال اور شمس الرحمن فاروقی اسی گروہ ثانی سے تعلق رکھتے ہیں۔ گیان چند کی آخری کتاب ایک بھاشا دو لکھاوٹ دو ادب، گوپی چند نارنگ کی وہ سبھی کتابیں اور مضامین جو مابعد جدید یت کی تشریح و تفسیر اور اشاعت کے لیے لکھے گئے اور شمس الرحمن فاروقی کے ’سوار اور دوسرے افسانے‘ اور ناول’ کئی چاند تھے سر آسماں‘ اس کا ثبوت ہیں۔ مثال کے طورپر آخرالذکر کی پوری زندگی شب خونی جدیدیت کے پر چار میں گزری لیکن جب شاعری کی، افسانے لکھے اور ناول لکھا، تو اس پر چیستانیت ، محیرالعقولیت، کرب تحقیق اور المیۂ ذات کے فلسفۂ جدیدیت کی کوئی چھاپ نظر نہیں آتی۔ فاروقی نے قمر احسن اعظمی کو تو اسپ کشت مات میں پھنسا رکھ کر نا کارہ بنا دیا اور خود میرؔ غالبؔ مصحفیؔ اور داغؔ اور ان کے ہر دم تغیر پذیر اور زوال آمادہ عہد پر شاہکار ناول اور افسانے لکھ ڈالے ! اگر یہی صحیح تھا تو قمر احسنوں کو کیوں غارت کیا اور اگر شب خونی نظر یہ و اسلوب درست تھا تو خود سیدھے سادھے بیانیہ والے اسلوب کو کیوں اپنایا؟کوئی ہمیں بتائے کہ اگر یہ منافقت  Hypocrisyنہیں تو پھر کیا ہے؟
یہی حال شاعروں کا ہے۔ بلکہ ان کا تو زیادہ برا حال ہے۔ کیونکہ ان میں اکثر کے لیے تو قرآن ہانکے پکارے کہہ رہا ہے کہ وہ تلامیذ الرحمن نہیں تلامذۂ شیطان ہوتے ہیں اور شیاطین جھوٹوں اور بدکرداروں ہی پر نازل ہو سکتے ہیں۔ ایسے شاعروں کی پیروی صرف گمراہ کرتے ہیں کیونکہ یہ تخیل کی وادیوں میں مارے مارے پھرتے ہیں اور ایسی باتیں کہتے ہیں جن پر خود کبھی عمل نہیں کرتے۔
مگر منافقین اور مخلصین کے دوگروہ یہاں بھی ہیں۔ بلکہ شعرا میں تو اکثر یت منافقین کی ہے اور ان میں چھوٹے اور بڑے اچھے اور برے تحت خواں اور گلے بازاساتذہ اور تلامذہ سب ایک ہی کشتی کے سوار ہیں۔ غالب ہوں یا انشاء فراق ہوں یا فیض ، مجاز ہوں یا جون ایلیا، کم یا زیادہ ، تھوڑا یا بہت ، قول فعل کا تضاد اور آفاقی اخلاقی قدروں سے انحراف ہر ایک کے یہاں موجود ہے۔
لیکن اس ہجوم میں وہ لوگ بھی ہیں جو اَنَّھُمْ یَقولُونَ مَالا یَفْعَلُونَ کے زمرے میں نہیں آتے بلکہِ الَّا اَلّذِینَ آمنُو وَ عَمِلُوالصّٰلِحٰتِ وَذکُرُواللّٰہ کثیراً کے اقلیتی گروہ میں شامل ہیں۔ وہ محض دون کی نہیں ہانکتے ۔ نہ فلسفیانہ کج بحشی ان کا شیوہ ہے نہ شعربرائے شعر ان کا نظریہ۔ حق گوئی و بیباکی ان کا وطیرہ ہوتا ہے اور فروتنی وانکساری ان کا مزاج ، ان کے درون کا انسان ان کے اندر کے شاعر پر حاوی رہتا ہے۔ انھیں ہر وقت یاد رہتا ہے۔ کہ انھیں ایک ایک لفظ اور ایک ایک حرف کا حساب دینا ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ ان سے پوچھا جائے گا کہ تم جو کہتے تھے اس پر خود عمل کیا؟ اس فہرست شعرا میں فرزدق ، حسان بن ثابت اور کمیت اسدی سے لے کر مولانا روم تک اور پھر اقبال ، اکبرالہٰ بادی ، حفیظ جالندھری ، ماہر القادری، سے لے کر عامرؔ عثمانی ، انجم فوقی بدایونی ، نعیم صدیقی، رشید کوثرؔ فاروقی اور حفیظ الرحمن احسن مجاہد ،سید ، اور خردؔ فیض آبادی تک ایک خاصی طویل فہرست ہے جو گروہ اوّل کی اکثریت کے مقابل اقلیت میں
سہی لیکن کم مّن فئَۃٍ قلیِلَتہٍ غلبت فِئَۃٍ کَثِیرَۃ کی مصداق ہے۔
کسی ادیب یا شاعر پر کوئی نظریاتی لیبل چسپا ں کرنا درست نہیں کیونکہ ادب ہو یا شعر اس کی دو ہی قسمیں ہو سکتی ہیں اچھا ادب اور اچھا شعر۔ برا ادب اور برا شعر ۔ اور اگر دائرے کو مزید محدود کرنا چاہیں تو یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ۔ ادب یا غیر ادب، شعر یا غیر شعر۔ اس لیے اتنی شرط ضرور لگائی جانی چاہیے کہ اچھا ادیب اور اچھا شاعر ایک اچھا انسان بھی ہو۔ بلکہ ادیب اور شاعر کے لیے ’انسان‘ ہونا لازمی ہے۔ رشید احمد صدیقی کے بقول ’’جب تک انسانیت کے بہتر ین مقاصد انسانیت ہی کے بہترین طور طریقوں سے پورے نہ کیے جائیں گے، نہ اعلیٰ انسان وجود میں آئے گا اور نہ اعلیٰ ادب۔‘‘
اگر کوئی فنکار ادیب یا شاعر جمالیات بغیر اخلاقیات اور حسن بغیر خیر کا قائل ہے اور ازلی صداقتوں کا انکار کرکے زندگی کی سچائیوں کی مجرد تصویر کشی کرتا ہے تو وہ خائن بھی ہے اور گمراہ بھی اس کے اچھے ادیب اچھے فن کار یا اچھے شاعر ہونے سے کوئی فائدہ نہیں بلکہ ۔ نقصان زیادہ ہے۔
کیونکہ اس کا فن پارہ ، شعر ، یا اعلیٰ نثری نمونہ قاری کو کم متاثر کرتا ہے اور خود اس ادیب شاعر یا فنکار کا کردار زیادہ ۔ ہم سوچتے ہیں کہ جب غالبؔ شراب پینے کے باوجود غالبؔ ہو سکتے ہیں تو بذات خود نہ شراب کوئی بری چیز ہے نہ اس کا پینا کوئی مذموم فعل ۔ جب ایک بہت بڑا شاعر فلسفی نظریہ ساز اور پینٹر ہم جنسی کا عادی ہے اور اپنے اس عیب کو ہنر اور مرض کو شفا سمجھتا ہے تو اس کے معنی ہیں کہ ہم جنسی بجنسہٰ کوئی بری یا قابل نفرین شے نہیں ہو سکتی۔ جب ایک بین اقوامی شہرت کا حامل، ترقی پسند و ں کا خدا وند، عظیم شاعر اپنی حسین اور وفاشعار بیوی کے ہوتے ہوئے بھی پرائی عورتوں ، دوستوں کی بیویوں اور اپنی مداح خواتین کو بلا جھجک اپنے تصرف میں لا سکتا ہے اور ایسا کرنے سے سماج میں اس کے عزت و وقار اور مقام بلند کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا تو ہمارے لیے بھی حسب دل خواہ من چاہی عورتوں سے اپنی خواہش پوری کرنا کوئی عیب نہیں ہو سکتا
غرض یہ کہ خود کو اپنے ہیرو کے ساتھ Identifyکرنے کا یہ فطری جذبہ ان نام نہاد بڑے لوگوں کی اچھائیوں سے زیادہ ان کی برائیوں اور ان کے انحرافات کے فروغ کا سبب بن جاتا ہے
ہو سکتا ہے کچھ لوگ اس بحت کا یہ مطلب نکالیں کہ پھر شعر فکشن، تنقید ادب کی دیگر قسموں اور آرٹ کے نخلستان کو صحرابنا دینا چاہیے کہ پھر کوئی نہ اس سے لطف اندوز ہو سکے اور نہ ہی اس کی خدمت کر سکے۔ جی نہیں۔ بالکل نہیں۔ ہم صرف یہ کہنا چاہتے ہین کہ کوئی ناول نگار ہو یا شاعر ، کہانی کار ہو یا نقاد ، صنّاع ہو یا خطّاط اسے ترقی کی سمت اپنے اپنے ہنر کے مدارج طے کرنے کے ساتھ ساتھ ایک اچھاانسان بھی ہونا چاہیے تا کہ اس کی ذات اور اس کا فن’انسان‘اس کی حیات اور اس دنیا کو بھی فائدہ پہنچا سکے۔ وہ صرف اپنی زندگی نہ جیے بلکہ دوسروں کو اپنی ذات پر مقدم رکھے۔ اپنی ذات کی تلاش اور شناخت میں اس لیے سر گرداں رہے کہ نہ صرف دوسروں کے دکھ دور ضرورتوں اور مسائل کو پہچان کر ان کا مداوا ڈھونڈ سکے بلکہ اس وسیلے سے اس ذات واجب تک جا پہنچے یا پہنچنے کی کوشش کرے کہ جس نے نہ صرف یہ کہ اسے خلق کیا ہے بلکہ اس کو وہ عقل و بصیرت بھی دی ہے کہ جو اَنفُسْ اور آفاق کےِ ادراک میں اس کی رہنمائی کرتی ہے۔
کوئی ہماری بات توجہ سے سنے یا ہنسی میں اڑا دے۔ کان دھرے یا برسر پیکار ہو جائے۔ ہمیں معلوم ہے کہ ابھی لِیُظْھِرَہٗ علی الدّین کلہ کا وعدہ پورا ہونا ہے ۔ لیکن ۔ اس وقت کے انتظار میں ہم ہاتھوں پر ہاتھ دھرے بیٹھے تو نہیں رہ سکتے ۔
یہ رزم خیر و شر ہے تو الجھیں گے بار بار
دلدادگان صبح سے وابستگان شب!

حواشی:
(1)فیضل جعفری۔ قمر احسن کی کتاب ’شیر آہوخانہ ‘ کے گرد پوش پرشایع اقتباس
(2)عبد الاحد سازؔ مجموعہ کلام’خموشی بول اٹھی ہے‘ کا دیباچہ ’ خط ترسیل ‘ ص 9
(3,4,5)جون ایلیا، مجموعہ کلام’شاید‘ (1991)کا دیباچہ ص31۔36
نوٹ: مضمون میں درج دونوں شعر حفیظ الرحمن احسن کے ہیں اور ان کے مجموعہ کلام’فصل زیاں‘سے لیے گئے ہیں۔
(نوٹ: محترم عالم نقوی کے اس مضمون کو میں یونی کوڈمیں پیش کر رہا ہوں تاکہ سبھی حضرات اسے پڑھ سکیں۔مجھے ذاتی طور پر یہ مضمون بہت ہی اچھا لگا۔ عالم نقوی صاحب مبارک باد کے مستحق ہیں۔ فریاد آزر)(١)
(١)بشکریہ سرور عالم راز "سرورؔ"-یو ایس اے        یونیکوڈ فائل : فریاد آذر
     

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں