پیر، 19 اکتوبر، 2015

عشقِ الہٰی کے اثرات

"سربکف" میگزین 1-جولائی،اگست 2015
مرشدی و مولائی حضرت مولانا  پیر ذوالفقار احمد نقشبندی دامت برکاتہم

محترم قارئین! کتنے ہی ہم علم والے ہو جائیں،  مناظر و محقق بن جائیں، اصل تو عمل اور پھر رب کے دربار میں قبولیت ہے۔ رب کا عشق اور رضا مقصودِ حقیقی ہے، اور یہ عشق دنیا میں بھی اپنا اثر دکھاتا ہے۔ زیرِ نظر مظمون صدق دل سے پڑھیں اور اپنی عبادات میں اللہ کا عشق لائیں۔ رب کے سامنے کھڑے ہوتے وقت ہم نہ مناظر ہوں نہ محققِ اسلام،  نہ خطیب ہوں نہ مبلغ! بس، ہم ہوں  اللہ، اور کیفیتِ "کَاَنَّکَ تَرَاہُ" کی تصویر ہو۔   (مدیر)



    عشقِ الہٰی کی برکات اتنی زیادہ ہیں کہ جس انسان کے دل میں یہ پیدا ہوجاتی ہیں اس کو سر سے لیکر پاؤں تک منور کر دیتی ہیں۔
چہرے میں تاثر
عاشق صادق کا چہرہ عشقِ الہٰی کے انوار سے منور ہوتا ہے۔ عام لوگوں کی نظریں جب اس کے چہرے پر پڑتی ہیں تو اُن کے دل کی گرہ کھل جاتی ہے۔
•    ایک مرتبہ کچھ ہندوؤں نے اسلام  قبول کیا۔ دوسرے لوگوں نے اس سے پوچھا کہ تو نے ایسا کیوں کیا؟ تو اس نے علامہ انور شاہ کشمیریؒ کے چہرے کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ یہ چہرہ کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہوسکتا۔ چونکہ یہ مسلمان ہے، اس لیے ہم بھی مسلمان بن گئے ہیں۔
•    حضرت مرشد عالمؒ ایک مرتبہ حرم شریف میں تھے کہ آپ کی نظر حضرت مولانا قاری محمد طیب ؒ کے چہرے پر پڑی۔ آپؒ نے اُن سے ملاقات کی  اور پوچھا کہ قاری صاحب، آپ نے یہ نورانی چہرہ کیسے بنایا؟انہوں نے مسکرا کے کہا"یہ میں نے نہیں ،میرے شیخ نے بنایا ہے"
حدیثِ پاک میں اللہ  والوں کی یہ پہچان بتائی گئی ہے کہ اَلَّذِیْنَ اِذَا رَاُوْ ا ذُکِرَ اللہُ (وہ لوگ جنہیں تم دیکھو تو اللہ یاد آئے) گویا اللہ والوں کے چہروں پر اتنے انوار ہوتے ہیں کہ اُنہیں دیکھ کر اللہ یاد آتا ہے۔ قرآن مجید میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں ہے سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُودِۚ[سورة الفتح,٢٩](ان کے نشانی ان کے چہروں میں ہے سجدوں کے اثر سے) گویا سجدوں  کی عبادتیں چہرے پر نور بناکر سجادی جاتی ہیں۔
•    بعض صحابہ کرام  فرمایا کرتے تھےکہ جب نبی اکرم کی طبیعت بہت زیادہ  ناساز تھی اور حضرت ابوبکر  نماز کی امامت کررہے تھے تو ایک نماز کے بعد نبی اکرم ﷺ نے گھر کا دروازہ کھول کر مسجد میں دیکھا تو ہمیں  آپ کا چہرہ یوں لگا کَاَنَّہٗ وَرْقَۃُ مُصْحَفٍ (جیسے وہ قرآن کا ورق ہو) حضرت عطاء اللہ شاہ بخاریؒ فرمایا کرتے تھے  کہ جب غارِ ثور میں حضرت ابوبکر اپنی گود میں نبی اکرم ﷺ کا سرمبارک لے کر بیٹھے تھے اور ان کے چہرہ انور کو دیکھ رہے تھے تو فرماتے ہیں کہ مجھے اپنے تصور میں یوں لگتا ہے  کہ اے ابوبکرتیری گود رحل کی مانند ہے اور نبی اکرم ﷺ کا چہرہ انور قرآن کی مانند ہے اور اے ابوبکر  تو قاری ہے جو بیٹھا قرآن پڑھ رہا ہے۔
•    ایک مرتبہ حضرت خواجہ ابوالحسن خرقانی ؒ نے فرمایا کہ بایزید بسطامیؒ  کہ چہرے پر اتنا نور تھا کہ جو دیکھتا تھا اس کی گرہ کھل جاتی تھی۔ ایک صاحب نے اعتراض کیا"ابوجہل نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا تو اس کی گرہ نہ کھلی۔۔۔آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ بایزیدؒ بسطامی  کے چہرے کو دیکھ کرلوگوں کے دل کی گرہ کھل جاتی تھی۔حضرت خواجہ ابوالحسن خرقانی ؒ نے فرمایا ارے نامعقول ! ابو جہل نے نبی اکرمﷺ کے چہرہ انور کو دیکھا ہی کب تھا؟ وہ شخص  حیران ہوکر کہنے لگا کہ دیکھا کیوں  نہیں تھا؟فرمایا ابوجہل نے محمدؐ بن عبداللہ کو دیکھا تھا۔ ایک مرتبہ بھی محمد الرسول اللہ ﷺ سمجھ کر نگاہ ڈال لیتا تو ہدایت سے محروم نہ رہتا۔
•    حضرت عبداللہ بن سلام  یہود کے بڑے عالم تھے۔ نبی اکرمﷺ سے تین سوال پوچھنے کے لیے آئے مگر  چہرہ انور کو دیکھ کر اسلام قبول کرلیا۔ کسی نے کہا آپ آئے تو کسی اور مقصد سے تھے، یہ  کیا ہوا؟ نبی اکرمﷺ کے چہرہ انور کی طرف اشارہ کرکے کہا واللہ ہذا الوجہ لیس وجہ  الکذاب (اللہ کی قسم یہ چہرہ کسی جھوٹے کا نہیں ہوسکتا)
•    تابعین حضرات  میں سے بعض حکام نے اپنے لوگوں کو کفار کے پاس جزیہ وصوال کرنے کے لیے بھیجا تو انہوں نے انکار کردیا۔ پوچھا کہ کیا وجہ ہے ؟ ہمارے باپ دادا کو تو تم جزیہ دیتے تھے۔انہوں نے کہا ہاں! وہ لوگ آتے تھے تو ان کے کپڑے پھٹے پرانے ، ان کے بال بکھرے ہوئے، آنکھوں میں رات کی عبادتوں کی وجہ سے سرخ ڈورے پڑے ہوئے ہوتے تھے مگر چہروں پر اتنا رعب ہوتا تھا کہ ہم آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتے تھے۔تم میں وہ اوصاف نہیں، جاؤ! ہم تمہیں  کچھ نہیں دے سکتے۔(١)
٭٭٭
(١) ماخوذ از "عشقِ الٰہی" –پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مجددی دامت برکاتہم ص٢٣،٢٤،٢٥،تاریخِ اشاعت غیر مذکور
     

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں