"سربکف" میگزین 1-جولائی،اگست 2015
مفتی آرزومند سعد حفظہ اللہ
جھوٹ نمبر ٥:
غیر مقلدین کا ایک اور بڑا جھوٹ:حنفیہ فاتحہ کی احادیث کو نہیں مانتے۔
اس سے بڑا جھوٹ دنیا میں نہیں ہوسکتا۔احادیث میں آتا ہے کہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔احناف کے نزدیک نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنا واجب ہے۔اگر کوئی قصدا عمدا چھوڑ دے تو نماز نہ ہوگی اور اگر سہواً رہ جائے تو سجدہ سہو لازم ہوگا۔
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع - (2 / 137)
أَمَّا الْوَاجِبَاتُ الْأَصْلِيَّةُ فِي الصَّلَاةِ فَسِتَّةٌ : مِنْهَا قِرَاءَةُ الْفَاتِحَةِ وَالسُّورَةِ
اختلاف اس مسئلہ میں قطعا نہیں اختلاف اس مسئلہ میں ہے کہ کیا امام کی پڑھی ہوئی فاتحہ مقتدی کی طرف سے ہوجاتی ہے یا نہیں ۔تو صحیح احادیث کی روشنی میں احناف کا مسلک یہ ہے کہ امام کی پڑھی ہوئی فاتحہ مقتدی کی طرف سے بھی ہوجاتی ہے ۔مقتدی کو الگ سے فاتحہ پڑھنے کی ضرورت نہیں ۔ان شاء اللہ غیر مقلدین قیامت کی صبح تک کوئی ایسی حدیث پیش نہیں کرسکتے کہ امام کی پڑھی ہوئی فاتحہ مقتدی کے لئے کافی نہیں ۔مقتدی کو الگ سے فاتحہ پڑھنا فرض یا واجب ہے۔
جھوٹ نمبر۶ :
غیر مقلدین کا ایک اور جھوٹ:۔مذہب حنفی کا دین اسلام سے اختلاف کے مصنف ابوالاقبال سلفی لکھتا ہے ۔احناف نے جو طریقہ قاعدہ کا بیان کیا ہے کہ ایک پاؤں بچا کر اس پر بیٹھا جائے یہ طریقہ انتہائی تکلیف دہ ہے۔٭
الجواب:یہ طریقہ احناف نے اپنی طرف سے نہیں بنایا بلکہ صحیح احادیث اس پر موجود ہیں۔
سنن أبي داود ـ محقق وبتعليق الألباني - (1 / 361)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ عَنْ مَالِكٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ سُنَّةُ الصَّلاَةِ أَنْ تَنْصِبَ رِجْلَكَ الْيُمْنَى وَتَثْنِىَ رِجْلَكَ الْيُسْرَى.
سنن أبي داود ـ محقق وبتعليق الألباني - (1 / 362)
حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِىِّ عَنْ وَكِيعٍ عَنْ سُفْيَانَ عَنِ الزُّبَيْرِ بْنِ عَدِىٍّ عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ كَانَ النَّبِىُّ -صلى الله عليه وسلم- إِذَا جَلَسَ فِى الصَّلاَةِ اافْتَرَشَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى حَتَّى اسْوَدَّ ظَهْرُ قَدَمِهِ.
سنن الترمذي - شاكر + ألباني - (2 / 85)
حدثنا أبو كريب حدثنا عبد الله بن إدريس حدثنا عاصم بن كليب [ الجرمي ] عن أبيه عن وائل بن حجر قال : قدمت المدينة قلت لأنظرن إلى صلاة رسول الله صلى الله عليه سولم فلما جلس يعني للتشهد افترش رجله اليسرى ووضع يده اليسرى يعني على فخذه اليسرى ونصب رجله اليمنى
قال أبو عيسى هذا حديث حسن صحيح والعمل عليه عند أكثر أهل العلم وهو قول سفيان الثوري وأهل الكوفة و ابن المبارك قال الشيخ الألباني : صحيح
الغرض یہ طریقہ صحیح احادیث میں موجود ہے۔لیکن غیر مقلد نے انتہائی خیانت اور جھوٹ سے کام لیکر اسکو اس طرح بیان کیا کہ دیکھنے والا یہ سمجھتا ہے کہ یہ طریقہ احناف کا ایجاد کردہ ہے ۔مصنف نے مزید لکھا ہے کہ انکا مذہب حنفی ہے انکا مذہب اسلام نہیں ۔ناظرین دیکھیں کس طرح حضور ﷺ کی سنتوں کو یہ لوگ برملا تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔
جھوٹ نمبر ۷:
غیر مقلد ابواقبال سلفی لکھتا ہے کہ حنفیہ عمامہ پر مسح کے قائل نہیں ہے اور یہ احادیث کے خلاف ہے ۔
الجواب:۔ احادیث میں سرے سے یہ بات موجود نہیں ہے کہ حضور ﷺ نے صرف عمامہ پر مسح کیا ہے سر پر مسح نہیں کیا ۔چنانچہ خود ہی اس نے مسلم شریف کی روایت نقل کی ہے جس میں اس کی تفسیر موجود ہے کہ حضور ﷺ نے سر پر مسح کیا اور پھر عمامہ پر مسح کیا ۔ابوداؤد کی روایت میں ہے کہ حضور ﷺ نے عمامہ کے نیچے ہاتھ لے جا کر سر پر مسح کیا ۔اسی کے حنفیہ قائل ہیں۔یعنی احناف کا مسلک یہ ہے کہ فرض مقدار کے برابر سر پر مسح کرنا ضروری ہے اگر کسی نے صرف عمامہ پر مسح کیا اور سر پر مسح بالکل نہیں کیا تو اسکا وضو نہیں ہوگا۔
جس مسئلے کو یہ غیر مقلد حدیث کا خلاف بتا رہا ہے وہ جمہور کا مسلک ہے ۔چنانچہ فتح الباری میں ہے۔
فتح الباري - ابن حجر - (1 / 309)
وقد اختلف السلف في معنى المسح على العمامة فقيل إنه كمل عليها بعد مسح الناصية وقد تقدمت رواية مسلم بما يدل على ذلك وإلى عدم الاقتصار على المسح عليها ذهب الجمهور وقال الخطابي فرض الله مسح الرأس والحديث في مسح العمامة محتمل للتأويل فلا يترك المتيقن للمحتمل۔
یعنی صرف عمامہ پر مسح کا اقتصار کرنا جمہور امت کے نزدیک جائز نہیں ہے۔
(جاری ہے.........)
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں