"سربکف" میگزین 2-ستمبر، اکتوبر 2015
مدیر کے قلم سے
(ایجنسی) ہند میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے ایک مسئلہ اس عید قرباں پر یہ آکھڑا ہوا تھا کہ آیا ملک کے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 'گئو ماتا' کی قربانی کی جائے یا نہیں؟ واضح رہے کہ گائے کی قربانی، اور گوشت و کھال کے کاروبار پر ہند کی ریاستوں میں پابندی عائد ہے۔ گائے کا مسئلہ ہمیشہ سے متنازع فیہ رہا ہے، کیونکہ ملک میں بسنے والے ہندو بھائیوں کے عقائد کے مطابق گائے اُن کی ماں ہے، بھگوان ہے، اور بعض کے مطابق ہندوؤں کے ٣٣کروڑ بھگوان گائے کے سر سے دُم تک جمع ہیں۔٭
٭ اِس پر عاجز نے ایک دوست سے پوچھا بھی تھا، کہ جب سارے بھگوان اسی میں یکجا ہیں تو سب کو چھوڑ کر اسی کو کیوں نہیں پوجتے؟(مدیر)
ملک کے حالات کے پیشِ نظر، اور امنِ سلامتی کی فضا کوبرقرار رکھنے کی خاطر تمام مکاتبِ فکر کے علماء نے متفقہ فیصلہ دیاکہ اس سال گائے کی قربانی نہ کی جائے، اور اس کی جگہ بھینس اور بکروں کو قربان کیا جائے۔ دارالعلوم دیوبند کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے تمام مکاتبِ فکر کے علماء نے عوام کو یہی مشورہ دیا۔ علماء کے مطابق نبی پاک ﷺ سے کوئی فضیلت ثابت نہیں کہ گائے ہی کی قربانی کی جائے، چنانچہ ہمیں غیر مسلم بھائیوں میں دعوت کے پیغام کو پہنچانے کے لیے دیگر جانور قربان کرنے چاہئیں۔ اور ان شاء اللہ گائے کی بڑھتی ہوئی تعداد کچھ ہی عرصے میں اُنہیں یہ پابندی ہٹانے پر مجبور کردے گی۔
علماء کے اس بروقت اور کارآمد فیصلے سے ملک میں سلامتی کی فضا بھی قائم رہی اور کوئی پولیس و کچہری کا معاملہ بھی پیش نہ آیا۔ بعض لوگوں نے گائیں بھی قربان کیں، ان لوگوں کے متعلق سادہ دل عوام یہ بھی کہتی سنائی دی کہ اِن کی قربانی نہیں ہوگی۔ علماء نے واضح کیا کہ شریعت نہیں بدلی، صرف ہم نے ایک فیصلہ حالات کو دیکھ کر دیا ہے، البتہ اگر گائے کو قربان کرنے والوں کے سبب کوئی حادثہ خدانخواستہ امتِ مسلمہ کو پیش آتا ہے تو اس کا گناہ اسی شخص کو جائے گا۔
ملک میں امن اور سلامتی کی فضا تاحال قائم ہے۔
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں