پیر، 19 اکتوبر، 2015

صفت احسان اور دیدار الٰہی-2


"سربکف" میگزین 2-ستمبر، اکتوبر 2015

قاری  معاذ شاہد حفظہ اللہ
 
٤

...اَن تَعبُدَاللہَ کَاَنّکَ تَرَاہ فَاِلَّم تَکُن تَرَاہُ فَاِنّہ یَرَاکَ ...

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا «««« نماز مؤمن کی معراج ہے »»»» اور معراج میں تین چیزیں ہیں :
1 : قرب الہی     2: دیدار الہی    3: ہم کلامی
 حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو تینوں چیزیں معراج میں نصیب ہوئیں ... قرب کی انتہاء ، دیدار بھی ، اور اللہ تعالی سے ہم کلام ہونے کا شرف بھی حاصل ہوگیا ۔
     لیکن مؤمن کی معراج صفت احسان کے ساتھ ہی نصیب ہو گی۔ جب آدمی نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے اور الحمدلللہ ربّ العلمین کہتا ہے اللہ کی طرف سے جواب آتا ہے حمدنی عبدی تواس طرح ہم کلام ہوگیا ... اور جب سجدہ کرتا ہے تو گویا سر رحمٰن کے قدموں میں رکھ دیاہے تو قرب بھی نصیب ہوگیا اور نماز میں مؤمن دل کی آنکھوں سے اللہ تعالی کو دیکھ رہا ہے اور اسکا دیدار کررہاہے اور الفاظ بھی مخاطب حاضر کے ،ایّاکَ نَعبُدُ٭، تیری عبادت جیسے کہ وہ آمنے سامنے ہوں گویا کہ وہ اسے دیکھ رہاہے جب یہ تینوں صفات پائی جائیں گی تو مؤمن کی معراج بنے گی اگر ان میں سے ایک چیز بھی نکل گئی ۔جیسے کانک تراہ۔ یعنی رویت کا استحضار نہ ہوا تو مؤمن کی معراج ادھوری ہو گی تو گویا صفت احسان سے خالی نماز پُھسپُھسی اور بے جان ہو گی اور اس پر وہ اثرات مرتب نہ ہوں گے جو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کی نمازوں پر ہوتے تھے
جلد اٹھنے نہ دے سر سجدے سے میرے مولا
 اور کچھ دیر مجھے یونہی پڑا رہنے دے
ذکر میں صفت احسان
 ٭ شاہ عبدالعزیز( رحمۃ اللہ علیہ) نے فضائل ذکر میں فرمایا کہ روح کا یہ دھیان کہ اللہ دیکھ رہا ہے اسی کو استحضار کہتے ہیں اور دوامِ استحضار کا نام ہی معیت ہے ۔ع
جدھر دیکھتا ہوں ادھر تو ہی تو ہے
٭ جب بھی ہم ذکر کرنے بیٹھیں تو اللہ تعالی کے اس قول کا استحضار کریں فَاذکُرُونِی اَذکُرکُم ...تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا اور اس حدیث قدسی کا دھیان رکھتے ہوئے ذکر کریں اَنا جَلِیسُ مَن ذَکَرَنِی ...۔میں اس کا ہم نشین ہوتا ہوں جو میرا ذکر(یاد) کرتا ہے
درود پاک میں صفت احسان
آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پاک پڑھتے ہوئے اس بات کا استحضار کریں کہ اے اللہ تو بھیج رحمت اور سلامتی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اور اللہ تعالی کی رحمتیں اور سلامتیاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر اتر رہی ہیں اور میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہء اقدس کے ساتھ بیٹھا ہوں اور مجھ پر بھی ان کے چھینٹے پڑ رہے ہیں
 نام لیتا ہوں محمد کا زباں سے میں
رحمتیں عرش والے کی مجھ کو گھیر لیتی ہیں
 اور جو ان صفات کے ساتھ کثرت سے درود پاک پڑھے گا اللہ تعالی اسے دنیا میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت اور قیامت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قرب نصیب فرمائیں گے اور جو ذکر الہی کثرت سے کرے گا اللہ تعالی اسے حلاوت ایمانی نصیب فرمائیں گے ...۔۔ ایک بزرگ فرمانے لگے کہ جب میں اللہ کا نام لیتا ہوں تو میرا منہ میٹھا ہو جاتا ہے
اللہ اللہ کیسا پیارا نام ہے
عاشقوں کا مینا اور جام ھے
٥
ذکر میں پانچ چیزیں ہیں اور ان سب میں صفت احسان ضروری ہے
:::1::: اللہ تعالی کی صفات اور بڑائی کے کلمات کا ذکر ، :::2 ::: استغفار ، :::3::: تلاوت قرآن ، ::4::: درود پاک ، :::5::: ہر موقع کی دعا
     حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ نے مولانا عبد الغنی پھول پُوری کو خواب میں فرمایا کہ میں تمہیں ایسا اللہ اللہ سکھاتا ہوں جس کو سو مرتبہ پڑھو گے تو چوبیس ہزار مرتبہ پڑھنے کا اثر پیدا ہو گا پہلی بار اللہ کرو تو یہ تصور باندھو کہ میرا دل اللہ اللہ کر رہا ہے پھر یہ استحضار کرو کہ اب میرے جسم کا بال بال اور رُوّاں رُوّاں اللہ اللہ کر رہا ہے اس کے بعد اس چیز کا استحضار کرو کہ میرے ساتھ کائنات کی ہر ہر چیز اللہ اللہ کر رہی ہے ریت کے زرّے ، پہاڑ ، دریا ، سمندر کی لہریں ، بارش کے قطرے ، درختوں کے پتّے ، میرا دل بھی اللہ اللہ کر رہا ہے، اور میرے جسم کا رُوّاں رُوّاں بھی اللہ اللہ کر رہا ہے کائنات کی ہر چیز میرے ساتھ اللہ اللہ کر رہی ہے ، اگر اس تاثر کے ساتھ اللہ کا نام ایک سو مرتبہ لیں گے تو چوبیس ہزار مرتبہ اللہ اللہ کہنے کا تاثر پیدا ہو گا
    مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب میں اللہ اللہ کرتا ہوں تو میرے بال بال سے گویا شہد کے سمندر جاری ہوجاتے ہیں اور فرمایا شکّر زیادہ میٹھی ہے کہ شکّر کو پیدا کرنے والا ، ایک اور جگہ فرمایا کہ جب میں اللہ اللہ کرتا ہوں تو اللہ تعالی کی طرف سے مجھے وہ لذتیں حاصل ہوتی ہیں کہ تمام دنیا کی زبانیں اس کو بیان کرنے سے عاجز آجاتی ہیں
نام لیتے ہی نشہ سا چھا گیا
ذکر میں تاثیرِ دورِ جام  ہے
لا الہ الا اللہ کے ذکر میں تین چیزیں ہیں اور اس میں صفت احسان ضروری ہے
1۔دل سے اللہ تعالی کے غیر کو نکالنے کا استحضار یہ استحضار کرنا ہے کہ لا الہ کہنے پر اللہ کا سارا غیر دل سے نکل رہا ہے اور دل سے نشانہ بناکر اس سے اللہ کے غیر کو باہر کھینچنا ہے اور الااللہ پر اللہ کی ذات کے دل میں آنے کا استحضار کرنا ہے
نکالو دل سے یاد حسینوں کی اے مجذوب
 خدا کے گھر پئے عشقِ بُتاں نہیں ہوتا
2۔ اس حدیث مبارک کا استحضار کرنا ہے لا الہ الا اللہ لیس لہا حجاب دون اللہ، کہ میرے اس لاالہ الااللہ اور اللہ کے درمیان میں کوئی حجاب اور پردہ نہیں ہے ...۔۔ میں تو یہاں ہوں لیکن میری لاالہ الااللہ. اللہ تعالی کے عرش پر اللہ کے پاس ہے اور گویا کہ اللہ سے ملاقات کر رہی ہے میں تو فرش پر ہوں لیکن لاالہ الااللہ کے ذریعے عرش والے سے مل رہا ہوں میں تو یہاں ہوں اور میرے تذکرے عرش پر ہورہے ہیں اس حدیث قدسی کو سوچتے ہوئے کہ تم مجھے فرش پر یاد کرو میں تمہیں عرش پر یاد کروں گا
 غیر سے بالکل ہی اٹھ جائے نظر
 تو ہی تو آئے نظر دیکھوں جدھر
 3۔اس کا استحضار کہ میری لاالہ الااللہ ۔ اللہ تعالی تک پہنچ رہی ہے اور الااللہ ۔ اللہ کا. نور لیکر میرے دل کے اوپر آرہی ہے اور اس نور کے طفیل میرا دل جگمگا رہا ہے جسکو اس دعا میں ذکر فرمایا ہے ...۔
اللہمَّ جعل فی قلبی نورا ......۔ اے اللہ میرے دل میں نور پیدا فرمائیے ۔۔ اور دل سے نکل کر وہ نور کانوں کو آنکھوں کو گوشت پوست کو ہڈیوں کو بال بال کو نورانی کر رہا ہے اور پھر وہ نور مجھے گھیر رہا ہے ... اب وہ نور میرے دائیں جانب بھی ہے بائیں جانب بھی اوپر بھی نیچے بھی اور وہ نور مجھے سراپا نور کر رہا ہے ایک مخلوق پر خالق کا نور پڑ رہا ہے ... اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعا کو سامنے رکھنا ہے اے اللہ تیرے چہرے کے اس نور کے طفیل جس سے تمام اندھیریاں روشن ہو گئیں اور جس سے سب کام بنتے ہیں ... اور اس بات کا تصور کرنا ہے کہ اس نور طفیل دل سے حسد کی ظلمت اور اندھیرا ،، کبر اور بڑائی کا اندھیرا ، خود پسندی اور خود رائی کا اندھیرا ، اور جملہ اعمال بد کے اندھیرے دور ہو رہے ہیں اور دل جگمگا رہا ہے اور اس کے اندر صفات آرہی ہیں قرآن مجید میں ہے: اللہُ نورُ السموٰتِ والارض ،  اللہ نور ہے آسمانوں اور زمین کا ۔۔ اور وہ نور میرے دل میں ارہا ہے ...جس دل میں یہ نور آجاتا ہے اس دل کے سامنے سورج کی روشنی کی بھی کوئی حیثیت نہیں ۔۔ کیونکہ سورج مخلوق ہے اسکی روشنی بھی مخلوق ہے اللہ خالق ہے اسکا نور بھی خالق ہے سورج محدود ہے اسکی روشنی بھی محدود ہے اللہ لا محدود ہے اسکا نور بھی لا محدود ہے سورج فانی ہے اسکی روشنی بھی فانی ہے اللہ غیر فانی ہے اسکا نور بھی غیر فانی ہے سورج کی روشنی کو اس نور سے کیا نسبت ہے …
جو دل پے ہم ان کا کرم دیکھتے ہیں
 تو دل کو بے حد جامِ جَم دیکھتے ہیں
     

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں