جب کبھی دل سے آہ کرتا ہوں |
منزلیں پیشِ راہ کرتا ہوں |
عشق کی نامراد وادی میں |
اپنے غم سے نباہ کرتا ہوں |
ساری خلقت سے دور ہو کے کبھی |
دشت کو خواب گاہ کرتا ہوں |
صبر کو شکوہ و گلہ کیوں ہے |
ضبطِ غم بے پناہ کرتا ہوں |
گریۂ اشک عشق میں کیا ہے |
گریۂ خوں بھی گاہ کرتا ہوں |
دردِ دل جب شدید ہوتا ہے |
یاد میں اُن کی آہ کرتا ہوں |
لذتِ ذکر کیا کہوں اخترؔ |
جھوم کر واہ واہ کرتا ہوں |
بدھ، 13 ستمبر، 2017
حضرت گنگوہیؒ پر تکذیب رب العزت کا بہتان اور اس کا جواب
عورتوں کی امامت کا مسئلہ اور غیر مقلد علماء کا جھوٹ، خیانت اور دھوکہ
حافظ محمود احمد(عرف عبد الباری محمود)
قارئین کرام! علمائے اہلحدیث (غیر مقلدین علماء) کو احناف اور فقہ حنفی سے اس قدر چڑٓ ہے کہ وہ جہل، جھوٹ، خیانت اور بد دیانتی کا سہارا لیکر آۓ دن فقہ حنفی اور احناف کو بدنام کرتے رہتے ہیں جس کا ایک نمونہ یہاں پیش کیا جاتا ہے ملاحظہ فرمائیں۔
فرقہ اہلحدیث کے ایک بہت بڑے عالم جنکا نام ابوالاقبال سلفی ہے، اپنی کتاب "اصلی اسلام کیا ہے؟ اور جعلی اسلام کیا؟" میں جگہ جگہ جھوٹ، خیانت اور بد دیانتی کا مظاہرہ کیا ہے، (تفصیل جاننے کیلئے دیکھئے: مولانا مرتضیٰ حسن صاحب سدھارتھ نگری کی کتاب "ضدی ابلیس" اور "پردہ اُٹھ رہا ہے")
اس کتاب کے صفحہ۴۷۹/پر عورتوں کی امامت سے متعلق دو روایتیں نقل کرتے ہیں:
عَنْ اُمِّ وَرَقَۃَ اَمَرَھَا اَنْ تَؤُمَّ اَھْلَ دَارِھَا. (ابوداؤد باب امامت النساء)
رسول اللہ ﷺ نے (حضرت، ناقل) ام ورقہ(رضی اللہ عنہا، ناقل) کو اپنے گھر والوں کی امامت کرانے کا حکم دیا۔
عَنْ عَائِشَۃَ اَنَّھَا تَؤُمُّ النِّسَاءَ وَتَقُوْمُ وَسْطَھُنَّ. (مستدرک حاکم باب امامت المرأۃ)
حضرت عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا صف کے بیچ میں کھڑی ہوکر عورتوں کی امامت کراتی تھیں۔"
پھر لکھتے ہیں:
"دونوں حدیثیں بالکل صاف اور واضح ہیں۔ ایک میں رسول کا حکم ہے ... دوسری میں زوجۂ رسولؐ کا اس پر عمل ہے۔ لیکن حنفی مذہب اللہ کے رسول کے اس حکم کو نہیں مانتا۔ نہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ کے اس حکم (یہاں سلفی صاحب نے اپنی جہالت سے حضرت عائشہ صدیقہؓ کے "عمل" کو "حکم" بنا دیا ہے، ناقل) پرعمل کرنے کو پسند کرتا ہے۔ بلکہ اپنی طرف سے گڑھ کر فتوی دیتا ہے۔ اور اس حکم رسولؐ کی مخالفت کرتا ہے۔"
یہی سلفی صاحب اپنی ایک دوسری کتاب میں لکھتے ہیں:
"ناظرین یہ ہیں صحیح احادیث جن سے صاف طور پر ثابت ہے کہ عورتیں عورتوں کی امامت کرسکتی ہیں۔ لیکن حقانی اور حنفیہ ان تمام صحیح حدیثوں کو نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ عورت عورتوں کی امامت نہیں کراسکتی۔ یہ امت حنفیہ ہے اس لئے اسلام کے رسول کا حکم یہ کیوں کر مان سکتی ہے۔ " (مذہبِ حنفی کا دینِ اسلام سے اختلاف، صفحہ ۴۵)
اس فرقہ کے ایک اور بڑے عالم حکیم صادق سیالکوٹی اپنی کتاب "سبیل الرسول" میں لکھتے ہیں:
"حنفی بھائیو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو صرف عورتوں کو بھی جماعت سے نماز پڑھنے کی اجازت دیں۔ عورت کی امامت عورت کے لئے روا رکھی، لیکن فقہ میں یہ کام منع قرار پائے کہ حدیث کی برابری کتنی بری چیز ہے" (صفحہ ۱۵۷)
اسی فرقہ کے ایک اور مشہور غیر مقلد عالم فاروق الرحمٰن صاحب یزدانی حضرت عائشہؓ کی مستدرک حاکم اور ابوداؤد کے حوالہ سے روایت مع ترجمہ نقل کرکے لکھتے ہیں:
"اس روایت سے کس قدر واضح ہے کہ عورت عورتوں کی امامت کراسکتی ہے۔ ابوداؤد شریف کی روایت میں ام ورقہ رضی اللہ تعالی عنہا کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود جماعت کرانے کا حکم دیا ہے اور مستدرک حاکم کی روایت میں فرض نماز کا بھی ذکر ہےکہ وہ امامت فرض نماز کی ہوتی تھی۔ مگر کیا کیا جائے اس رائے و قیاس کے مرض کا کہ حدیث پیغمر صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت اس نے اپنا شعار بنالیا ہے چناچہ فقہ حنفی میں لکھاہے:
ویکرہ للنساء ان یصلین وحدھن الجماعۃ [ہدایہ ج۱،ص۱۲۵، کتاب الصلوٰۃ، باب الامامۃ، شرح وقایہ ۱۷۶/۱، قدوری ص۴۴]
یعنی مکروہ سمجھا گیا ہے کہ عورتیں علیحدہ جماعت سے نماز پڑھیں۔ یعنی مردوں کی جماعت کے علاوہ جماعت کرائیں۔"
مزید لکھتے ہیں:
"قارئین اوپر آپ نے حدیث پڑھی اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام ورقہؓ کو جماعت کرانے کا حکم دیا ہے مگر یہ فقہ حنفی ہے کہ اسے مکروہ سمجھ رہی ہے۔ تو گویا جس کام کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کرنے کا مشورہ ہی نہیں بلکہ کرنے کا حکم دیں لیکن فقاہت کا تقاضہ ہے کہ اس کو نا پسند کیا جائے۔ یہ حال ہے امت کے دعویداروں کا۔" (احناف کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اختلاف، صفحہ ۳۱۸ و ۳۱۹)
***الجواب***
قارئین کرام! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو اس کی اجازت دے رکھی تھی کہ اگر عورتیں اپنی جماعت کریں تو ان کی نماز باطل نہیں ہوگی بلکہ جائز ہوگی لیکن ابوالاقبال سلفی، حکیم صادق سیالکوٹی اور فاروق الرحمٰن یزدانی نے اس کو ایسا بیان کیا ہے کہ گویا صحابہ کرام اور اس سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اس پر برابر عمل ہوتا رہا ہے جبکہ صورت حال یہ ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے زمانہ میں استمرار کے ساتھ اس پر عمل نہیں تھا (جیسا کہ آگے چل کر معلوم ہوگا)
لیکن ابوالاقبال سلفی، حکیم صادق سیالکوٹی اور فاروق الرحمٰن یزدانی کو چونکہ فقہ حنفی کو بدنام کرنا تھا اس لئے ایسا بیان کیا۔
قارئین کرام! ابوالاقبال سلفی اور صادق سیالکوٹی نے ہدایہ کو حدیث کے خلاف بتانے کے لئے ایک عبارت تو نقل کردی لیکن وہ عبارت اڑا دی جس سے کہ حدیث کے خلاف نہیں بلکہ اس کے موافق ہو رہی تھی. دیکھئے ہدایہ میں صاف لکھا ہے:
وان فعلن قامۃ الامام وسطهن
یعنی عورتیں اگر خود جماعت کریں تو جو عورت امام ہو ان کے بیچ میں کھڑی ہو. (دلیلیں آگے آرہی ہیں)
قارئین! ہدایہ کی یہ عبارت کتنی صاف ہے کہ اگر عورتیں ایسا کریں تو ان کی نماز درست ہوگی اور انکی جماعت کا طریقہ بھی بتلادیا مگر اقبال سلفی اور صادق سیالکوٹی نے از راہ خیانت اس عبارت کو گول کر دیا اور جھوٹ بولتے ہوئے یہ بتلایا کہ فقہ حنفی میں عورتوں کی جماعت منع ہے. (لعنت اللہ علی الکٰذبین)
قارئین! رہا مسئلہ فقہ حنفی میں عورتوں کی جماعت کے مکروہ ہونے کا،، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ حدیث میں خود اس کو نا پسند کیا گیا ہے۔ دیکھئے عورتوں کی جماعت سے متعلق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
"لا خیر فی جماعۃ النساء الا فی المسجد او فی جنازۃ قتیل
یعنی عورتوں کی جماعت میں کوئ بھلائی نہیں ہے الا یہ کہ مسجد میں یا مقتول کے جنازہ میں"
(رواہ احمد والطبرانی فی الاوسط بحوالہ اعلاء السنن جلد۴ صفحہ ۲۴۲)
اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کی جماعت میں خیریت (یعنی بھلائی) کی نفی فرمائی ہے جو اس کے کراہیت کی کافی دلیل ہے۔
اور خلیفۂ راشد حضرت علی فرماتے ہیں:
"لا تؤم المرأۃ ۔یعنی عورت امامت نہ کرے " (المدونۃ الکبریٰ جلد ۱ صفحہ ۸۶)
*مرد و عورت کی امامت کی جائے قیام میں فرق کی دلیل*
مرد امامت میں آگے کھڑا ہوگا اس لئے کہ حضرت سمرہ بن جندبؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم کو حکم دیا کہ جب ہم تین (آدمی) ہوں (اور با جماعت نماز پڑھنے لگیں) تو ہم میں ایک آگے ہو جایا کرے۔ (ترمذی شریف جلد ۱، باب ماجاء فی الرجل یصلی مع الرجلین)
اور حضرت جابرؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس سلسلہ کا اپنا واقعہ یوں بیان کیا ہے ایک موقع پر:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھنے کھڑے ہوئے تو میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں جانب کھڑا ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور گھما کر مجھے اپنی داہنی طرف کھڑا کر لیا، اتنے میں (حضرت) جبار بن صخرؓ بھی وضو کرکے آگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم دونوں کے ہاتھ پکڑ کر پیچھے کر دیا (اب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے آگے)۔ دیکھیے: صحیح مسلم، کتاب الزہد والرقاق)
جبکہ عورت امام کی جائے قیام کے بارے میں درج ذیل روایتیں آئی ہیں۔
(۱) حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ: "تؤم المرأۃ النساء تقوم فی وسطھن
یعنی عورت (اگر) عورتوں کی امام بنے تو ان کے درمیان کھڑی ہو" (مصنف عبدالرزاق جلد ۳ صفحہ ۱۴۰)
(۲) حضرت ریطہ حنفیہؓ روایت کرتی ہیں:
(ایک دفعہ) حضرت عائشہؓ نے فرض نماز میں عورتوں کی امامت کرائیں تو ان کے درمیان کھڑی ہوئیں۔ (مصنف عبدالرزاق، جلد ۳ صفحہ۱۴۱)
(۳) یحیٰ بن سعید خبر دیتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ نفل نماز میں عورتوں کی امامت کراتی تھیں تو ان کے صف میں کھڑی ہوتی تھیں۔(حوالہ سابق)
(۴) حضرت عائشہؓ ماہ رمضان میں عورتوں کی امامت کرتی تھیں تو بیچ میں کھڑی ہوتی تھیں۔
(کتاب الآثار ، باب المرأۃ النساء...)
(۵) نصب الرایہ کتاب الصلاۃ میں ہے کہ:
عن ام الحسن انھا رأت ام سلمۃ زوج النبی صلی اللہ علیہ وسلم تؤم النساء فتقوم معھن فی صفھن
یعنی حضرت ام حسن سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی حضرت ام سلمہؓ کو دیکھا کہ وہ عورتوں کی امامت کرتی تھیں تو ان کے ساتھ ان کے صف میں کھڑی ہوتی تھیں.
فائدہ: ان احادیث و آثار سے معلوم ہوا کہ مرد امامت میں صف میں آگے کھڑا ہوگا، جبکہ عورت امامت میں صف کے آگے نہیں، بلکہ درمیانِ صف کھڑی ہوگی۔ اور یہ بھی صاف معلوم ہوا کہ عورتوں کی اپنی جماعت فی نفسہ جائز ہے لہذا اگر وہ اپنی جماعت کرنا چاہیں تو منع نہیں ہے، لیکن شریعت کی نظر میں یہ بہتر و پسندیدہ بھی نہیں ہے جیساکہ اوپر میں گزرچکا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں خیریت (یعنی بھلائی) کی نفی کی ہے جو "لا خیر فی جماعۃ النساء الا فی المسجد او فی جنازۃ قتیل" سے واضح ہے۔
یہی وجہ ہے کہ زمانہ خیر القرون میں اس کا رواج نہ تھا۔ حضرت عائشہؓ، حضرت ام سلمہؓ نے جو امامت کرائ ہیں تو یہ ابتداء اسلام میں تھا، بعد میں منسوخ ہو گیا۔ چنانچہ ابوداؤد کی شرح بذل المجہود میں ہے:
الا ﺍﻥ ﺟﻤﺎﻋﺘﮭﻦ ﻣﮑﺮﻭھۃ ﻋﻨﺪﻧﺎ ﻭ ﻋﻨﺪ ﺍﻟﺸﺎﻓﻌﯽ مستحبۃ ﮐﺠﻤﺎعۃ ﺍﻟﺮﺟﺎﻝ ﻭ ﯾﺮﻭﯼ ﻓﯽ ﺫﻟﮏ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﻟﮑﻦ ﺗﻠﮏ ﮐﺎﻧﺖ ﻓﯽ ﺍﺑﺘﺪﺍﺀ ﺍﻻﺳﻼﻡ ﺛﻢ ﻧﺴﺨﺖ ...
"یعنی ہمارے نزدیک عورتوں کی جماعت مکروہ ہے امام شافعیؒ کے نزدیک مستحب ہے جیسے مرد کی جماعت اور یہ کہ جو روایت کی گئی ہے عورتیں امامت کرواتی تھیں تو یہ ابتداء اسلام میں تھا بعد میں منسوخ ہوگیا" (جلد ۴ صفحہ ۲۰۹)
اسی طرح مولانا عبدالحئ لکھنویؒ فرماتے ہیں:
ﻓﺎین ﺫﺍﻟﻚ ﻣﻦ ﺍﺑﺘﺪﺍﺀ ﺍﻻﺳﻼﻡ
ﻟﻜﻦ یمکن ﺍﻥ یقال ﺍﻧﻪ ﻣﻨﺴﻮﺥ
"یعنی تو ایسا ہے کہ یہ ابتداء اسلام سے، لیکن ممکن ہے کہ اسے منسوخ کہا جائے" دیکھئے: (حاشیۂ ہدایہ)
لہذا خلاصہ کلام یہ کہ:
عورتوں کی اپنی جماعت فی نفسہ جائز ہے لہذا اگر وہ اپنی جماعت کرنا چاہیں تو منع نہیں ہے، لیکن شریعت کی نظر میں یہ بہتر و پسندیدہ بھی نہیں ہے۔
اللہ پاک ہم کو صحیح سمجھ کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
٭٭٭