جاوید خان صافی ﷾
اہل حدث عرف وکٹورین علماء دیوبند پر بھتان لگاتے ہیں کہ علماء دیوبند وحدتُ الوجود کا عقیدہ رکھتے ہیں جوکہ ایک کفریہ شرکیہ عقیدہ ہے ۰ یہ بہتان فرقہ جدید اہل حدیث میں شامل چند جہلاء نے پھیلایا ہوا ہے اور اپنی طرف سے عوام کواس مطلب بتلاتے ہیں پھران سے کہتے ہیں یہ علماء دیوبند کا عقیدہ ہے ، اس باب میں ایک مختصر مگرجامع مضمون لکھنا چاہتا ہوں ۔
1 ۔علماء حق علماء دیوبند پر ایک بہتان چند جہلاء ونام نہاد اہل حدیث کی طرف سے یہ بھی لگایا جاتا ہے کہ یہ لوگ اللہ تعالی کے لئے حُلول واتحاد کا عقیدہ رکھتے ہیں جس کو ” وحدتُ الوجود “ کہا جاتا ہے اور اس کا مطلب ومفہوم یہ لوگ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ( معاذاللہ ) اللہ تعالی تمام کائنات کے اجزا مثلا حیوانات جمادات نباتات وغیرہ ہر چیز میں حلول کیا ہوا ہے یعنی مخلوق بعینہ خالق بن گیا اور جتنی بھی مشاہدات ومحسوسات ہیں وہ بعینہ اللہ تعالی کی ذات ہے ۔)معاذاللہ ثم معاذاللہ وتعالی اللہ عن ذالک علوا کبیرا (
ناحق بہتان والزام لگانے والے جہال ومتعصبین کا منہ کوئی بند نہیں کرسکتا اور نہ کوئی مقرب جماعت علماء اس سے محفوظ رہ سکتی ہے اور ہرزمانے میں کمینے اور جاہل لوگوں نے علماء ربانیین کی مخالفت وعداوت کی ہے ،لہذا جولوگ اپنی طرف سے ” وحدتُ الوجود ” کا یہ معنی کرکے اس کو علماء دیوبند کی طرف منسوب کرتے ہیں اور عوام الناس کو گمراہ کرتے ہیں یقینا ایسے لوگ اللہ تعالی کے پکڑ سے نہیں بچ سکیں گے علماء دیوبند اور دیگر صوفیہ کرام ” وحدتُ الوجود “ کے اس کفریہ معنی ومفہوم سے بری ہیں ۔ واضح رہے کہ کچھ بدبخت لوگ اس بیان وتصریح کے بعد بھی یہ بہتان لگاتے رہیں گے کیونکہ ان کا مقصد حق بات کو قبول کرنا اور اس پرعمل کرنا نہیں ہے بلکہ ان کا مقصد وحید توابلیس کی پیروی کرتے ہوئے علماء حق علماء دیوبند کی مخالفت وعداوت ہی ہے چاہے علماء دیوبند ہزار باریہ کہیں کہ ہمارا یہ عقیدہ نہیں ہے ہماری نصیحت تو ایسے عام ناواقف لوگوں کے لئے ہے جوایسے جھوٹے اورجاہل لوگوں کی سنی سنائی باتوں کی اندھی تقلید کرکے اپنی عاقبت خراب کر رہے ہیں۔ اور اس بارے میں امام شعرانی شافعی رحمہ اللہ کے یہ نصیحت آمیز کلمات ذہن میں رکھیں قسم اٹھاکرفرماتے ہیں کہ:
جب بتوں کے پجاریوں کو یہ جراءت نہیں ہوئی کہ اپنے معبودان باطلہ کو عین اللہ تعالی کی ذات تصور کریں بلکہ انہوں نے بھی یہ کہا جیسا کہ قرآن میں ہے
مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ ( سورہ ٣٩،الزمر: 3 )
یعنی ہم ان بتوں کی عبادت اس لئے کرتے ہیں تاکہ یہ ہمیں اللہ کے قریب کردیں تو اولیاء اللہ کے متعلق یہ بہتان لگانا کہ وہ ، حلول واتحاد ، کا عقیدہ رکھتے تھے سراسر بہتان اور جھوٹ ہے اور ان کے حق میں ایک محال وناممکن دعوی ہے جس کو جاہل واحمق ہی قبول کریگا۔
2 ۔جن صوفیہ کرام اور بزرگان دین کے کلام میں ” وحدتُ الوجود “ کا کلمہ موجود ہے اور ایسے لوگوں کی فضل وعلم تقوی و ورع کی شہادت کے ساتھ ان کی پوری زندگی اتباع شرع میں گذری ہے تو اس حالت میں ان کے اس کلام کی اچھی تاویل کی جائے گی جیسا کہ علماء محققین کا طریقہ ہے اس قسم کے امور میں ۔اور وہ تاویل اس طرح کہ ایسے حضرات کی مراد ” وحدتُ الوجود ” سے وہ نہیں ہے جو ملحد و زندیق لوگوں نے مراد لیا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے ۔ اس کلمہ اور اس طرح کے دیگر کلمات جو صوفیہ کرام کی کتب میں وارد ہوئے ہیں جو بظا ہر خلاف شرع معلوم ہوتے ہیں ان کی مثال اس اعرابی کی طرح ہے جس کی دفاع خود آپ ﷺ نے کی ہے صحیح بخاری ومسلم کی روایت ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ وہ جنگل بیابان میں اپنی سواری پر سفر کر رہا تھا اس پر اس کا کھانا پینا بھی تھا لہذا وہ تھکاوٹ کی وجہ سے آرام کے کے لئے ایک درخت کے سایہ میں لیٹ گیا جب اٹھا تو دیکھا کہ سواری سامان سمیت غائب ہے وہ اس کو تلاش کرنے کے لئے گیا لیکن اس کو نہیں ملا لہذا پھر اس درخت کے نیچے مایوس ہو کرلوٹ آیا اور موت کے انتظار میں سو گیا پھر جب اس کی آنکھ کھلی تو کیا دیکھتا ہے کہ اس کی سواری بھی موجود ہے اور کھانا پینا بھی وہ اتنا خوش ہوا بلکہ خوشی وفرحت کے اس انتہا پہنچا کہ اس کی زبان سے یہ الفاظ نکل گئے
ﺍﻟﻠﻬﻢ ﺍﻧﺖَ ﻋﺒﺪﯼ ﻭﺍﻧﺎ ﺭﺑُﮏ
یعنی اے اللہ تو میرا بندہ میں تیرا رب ، اسی حدیث میں ہے کہ اللہ تعالی بندہ کی توبہ سے اِس آدمی سے بھی زیادہ خوش ہوتے ہیں ۔
جاء فی الحدیث الذی رواہ الإمام مسلم للہ أشد فرحاً بتوبة عبدہ حین یتوب إلیہ من أحدکم کان على راحلتہ بأرض فلاة فانفلتت منہ وعلیھا طعامہ وشرابہ فأیس منھا فأتى شجرة فاضطجع فی ظلھا وقد أیس من راحلتہ فبینما ھو کذلک إذ ھو بھا قائمة عندہ بخطامھا ، ثم قال من شدة الفرح : اللھم أنت عبدی وأنا ربک ! أخطأ من شدة الفرح
اوکما قال النبی ﷺ
اب اس حدیث میں اس آدمی کا قول اے اللہ تو میرابندہ میں تیرا رب کیا ان ظاہری الفاظ کو دیکھ کر نام نہاد اہل حدیث وہی حکم لگا ئیں گے جو دیگر اولیاء وعلماء کے ظاہری الفاظ کو لے کر اپنی طرف سے معنی کرکے حکم لگاتے ہیں ؟ یا حدیث کے ان ظاہری الفاظ کی تاویل کریں گے ؟خوب یاد رکھیں کہ ” وحدتُ الوجود “ کا مسئلہ نہ ہمارے عقائد میں سے ہے نہ ضروریات دین میں سے ہے، نہ ضروریات اہل سنت میں سے، نہ احکام کا مسئلہ ہے کہ فرض واجب سنت مستحب مباح کہا جائے بلکہ صوفیہ کرام کے یہاں یہ ایک اصطلاحی لفظ ہے اور یہ صوفیہ کرام کے یہاں محض احوال کا مسئلہ ہے فقط اور اس سے وہ صحیح معنی ومفہوم مراد لیتے ہیں ۔
٭٭٭
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں