"سربکف" میگزین 3-نومبر، دسمبر 2015
منظور احمد چنیوٹی رحمۃ اللہ علیہ
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
الحمدﷲ وحدہ والصلوۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ ،
اما بعد:
دارالعلوم الاسلامیہ ٹنڈو الہ یار سندھ سے فراغت کے بعد ملتان میں امیر شریعت سید عطااﷲ شاہ صاحب بخاری ؒ کے قائم کردہ ختم نبوت مدرسہ میں رد قادیانیت کی تربیت حاصل کرنے کیلئے 1951ء میں بندہ ناچیز داخل ہوا ، فاتح قادیان استاذ محترم حضرت مولانا محمد حیات صاحب ؒ سے تربیت حاصل کی ، ہم کل چار ؍پانچ ساتھی تھے ۔ 1952 کے اوائل میں فارغ ہوا اور اس کے بعد مدرسہ دارالہدی ٰ چوکیرہ ضلع سرگودہا میں تدریس کی خدمت پر مامور ہوگیا ، درسی کتب پڑھانے کے ساتھ ساتھ طلبا ء کو رد قادیانیت کی تربیت دینا بھی شروع کردی ، وہاں سے 1954ء میں اپنے آبائی شہر چنیوٹ آکر جامعہ عربیہ کی بنیاد رکھی ،اورحسب معمول طلباء کی تربیت جاری رہی ، پھر میرے مربی اور شفیق استاد حضرت علامہ مولانا سید محمد یوسف بنوری ؒ کے حکم پر شعبان کی تعطیلات میں کراچی میں ان کے جامعہ علوم الاسلامیہ میں مدت تک یہی خدمت سرانجام دینے کی سعادت حاصل کرتا رہا ، اسی طرح تنظیم اہل سنت کے زیر اہتمام ملتان میں بھی حضرت علامہ دوست محمد قریشی ؒ اور حضرت علامہ عبدالستار تونسوی مدظلہ کے حکم پر دس ؍پندرہ روزہ تربیتی کورس کراتا رہا ۔ اپنی کاپی جو راقم نے اپنے استاد مرحوم فاتح قادیان سے دوران تربیت لکھی تھی اس سے ضروری حوالہ جات طلبا ء کو
لکھواتا تھا اور بندہ نے اپنے تجربہ کی روشنی میں ایک نئی ترتیب دیدی جس میں استاد محترم کی تربیت کے برعکس پہلا موضوع بجائے’’حیات عیسی علیہ السلام‘‘ کے ’’ مرزا قادیانی کے صدق وکذب ‘‘ کواصل موضوع قرار دیا اور قادیانیوں سے موضوع گفتگو طے کرنے کیلئے عقلی اور نقلی دلائل سے ثابت کیا کہ اصل موضوع مدعی نبوت کی ذات اور کردار ہے ۔اگر وہ ایک سچا اور شریف النفس انسان بھی ثابت ہوجائے تو ہمیں دوسری بحثوں ’’حیات مسیح علیہ السلام ‘‘ او ر’’ختم نبوت‘‘ کے موضوعات پرگفتگو کرنے اور فریقین کا وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں ،ہم بغیر کسی قسم کی بحث کئے اسے اپنے تمام دعاوی میں سچا مان لیں گے او ر اگر وہ اپنی تحریرات سے شریف اور سچا انسان ہی ثابت نہ ہو بلکہ پرلے درجہ کا کذاب ،بدزبان،بدکردار،بداخلاق،شرابی اور زانی ، انگریز کا ٹاؤٹ ثابت ہورہا ہو تو پھر دوسری بحثوں میں پڑنا فریقین کا وقت ضائع کرنا ہے جیسا کہ مرزا قادیانی اور اسکے دونوں جانشینوں نے خود اس بات کا فیصلہ دے دیا ہے اس لئے میری ترتیب میں پہلا عنوان ’’تعین موضوع‘‘ ہے اور یہی اصل موضوع ہے جس پر راقم نے عقلی ،نقلی دلائل پیش کئے ہیں اس موضوع کو طے کرلینے کے بعدحدیث رسول کریم ﷺ کی مطابق قادیانی کے کذاب ودجال ہونے پر چند دلائل دیے گئے ہیں اس کے بعد ’’ حیات مسیح‘‘ پھر ’’ ختم نبوت‘‘کا موضوع پیش کیا گیا ہے ۔
جامعہ علوم اسلامیہ اور دفتر تنظیم اہلسنت میں تیاری کراتے ہوئے شریک درس طلباء سے نوٹس تیار کرنے کیلئے کہا ،ان نوٹس کی جانچ پڑتال کرکے ایک کاپی تیار کی ۔آئندہ ہرسال اسی کاپی کی فوٹو سٹیٹ اپنے طلبہ میں تقسیم کردی جاتی ۔اس طرح ان نوٹس سے طلبا ء کا وقت بھی بچا اور دوران تحریروہ عجیب غریب غلطیوں ے بھی بچ گئے۔ دوران کورس قادیانی کتب سے حوالہ جات دکھا دیے جاتے تاکہ انہیں عین الیقین ہوجائے اور حوالہ جات کی مزید تشریح زبانی کردی جاتی ۔
اسی کاپی کی مدد سے مسجد نبوی شریف میں کئی سال مغرب اور عشاء کے درمیان یونیورسٹی کے طلبہ کوعربی میں پڑھاتا رہا ۔ ۱۹۸۵ء میں مدینہ یونیورسٹی کے چانسلر نے شاہ فہد کی خصوصی اجازت سے سرکاری طور پر اس حقیر کو دعو ت دی توبندہ یونیورسٹی میں طلبا ء کو عصر سے مغرب تک اسی کاپی کی مدد سے تیاری کراتارہا ۔ ایشیاکی عظیم اسلامی یونیورسٹی او رہماری مادر علمی دارلعلوم دیوبند کے منتظمین نے 1990ء میں دارالعلوم میں ایک تربیتی کیمپ کا انتظام کیا ، پورے ہندوستان سے منتخب علما ء کو جمع کیا گیا اور دارالعلوم سے فارغ ہونے والے طلبا ء کی ایک کثیر تعداد اس کے علاوہ تھی ۔
بندہ نے ان نوٹس کی ایک کاپی وہاں ارسال کی کہ اس کی فوٹو سٹیٹ کروالیں تاکہ حاضرین کورس میں تقسیم کی جاسکے ۔ چونکہ حاضرین کی تعداد زیادہ تھی اسلئے انہوں نے دو ہزار کے قریب اسی کاپی کو چھپوا لیا ۔
چونکہ قلمی کاپی کی نسبت پرنٹ کاپی کے صفحات کی تعداد کم تھی نیز اکابرین علماء دیوبند کی خواہش تھی کہ اس کاپی کو کتابی شکل میں بھی شائع کیا جائے ،اگرچہ راقم اس رائے سے کچھ زیادہ متفق نہیں تھا کیونکہ اس کا کامل فائدہ باضابطہ پڑھنے سے ہی ہوتا ہے ، لیکن اکابر کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے بندہ ناچیز نے اس کی اجازت دے دی ۔ چنانچہ میرے مشورہ اور رائے سے اس میں چند مفید اضافے کرکے اور کچھ ترتیب درست کرکے عزیز محترم مولانا سلمان منصور پوری اطال اﷲ عمرہ نائب مفتی واستاذ جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مرادآباد، نواسہ حضرت شیخ العرب والعجم مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ نے اسے کتابی شکل میں ترتیب دیدیا۔میری نظر ثانی اور چند ضروری اضافہ جات کے بعد اب یہی کتاب ’’ رد مرزائیت کے سنہری اصول‘‘ کے عنوان سے کتابی شکل میں تقریباً اڑھائی سو صفحات پر مشتمل کتاب دارالعلوم دیوبند کی کل ہندمجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام چھپ چکی ہے اور وہاں سے دستیاب ہوسکتی ہے ۔
اس تمام وضاحت کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ یہ واضح ہوجائے کہ یہ کوئی باضابطہ تصنیف نہیں ہے بلکہ میرے ضروری نوٹس ہیں ۔اگرچہ ہر اردو پڑھا لکھا عالم ،غیر عالم اپنی استعداد کے مطابق اس سے استفادہ کرسکتا ہے مگر اس سے مکمل استفادہ وہی کرسکتا ہے جو شریک دورہ ہو کر باضابطہ طور پر پڑھے اور سمجھے کیونکہ دوران تدریس ان حوالہ جات کی تشریح میں اور کئی مفید با تیں بھی آجاتی ہیں جو اس پندرہ روزہ کورس میں درج نہیں یا جو صرف دوران سبق ہی بتائی او رسمجھائی جاسکتی ہیں ۔
اﷲتعالیٰ راقم موصوف کی اس کاوش اور محنت کو قبول فرمائیں اور گم گشتہ راہ قادیانیوں کے لئے ذریعہ ہدایت بنائیں ۔
بندہ نے اس میں مزید اضافہ کرکے اسے ایک مستقل کتاب ’’ردّمرزائیت کے زرّیں اصول ‘‘ کے عنوان سے ترتیب دے دیا ہے۔جو کہ ادارہ مرکزیہ دعوت وارشاد چنیوٹ سے دستیاب ہے ۔
تمام حضرات سے درخواست ہے دعا کریں کہ اﷲ تعالیٰ میری اس خدمت کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت بخشیں ۔ آمین
احقر
منظور احمد چنیوٹی عفااﷲ عنہ
﴿باب اول ﴾
مرزا غلام احمد قادیانی کا مختصر تعارف
خاندانی پس منظر:
’’ میں ایک ایسے خاندان سے ہوں کہ جو اس گورنمنٹ (برطانیہ) کا پکا خیر خواہ ہے ۔ میرا والد مرزا غلام مرتضیٰ گورنمنٹ کی نظر میں ایک وفاداراور خیر خواہ آدمی تھا جن کودربارگورنری میں کرسی ملتی تھی اور جن کا ذکر مسٹر گریفن صاحب کی تاریخ رئیسان پنجاب میں ہے اور۱۸۵۷ء میں انہوں نے اپنی طاقت سے بڑھکر سرکار انگریزی کومدد دی تھی یعنی پچاس سوار اور گھوڑے بہم پہنچاکر عین زمانہ غدر کے وقت سرکار انگریز ی کی امداد میں دیے تھے ان خدمات کی وجہ سے جو چھٹیات خوشنودی حکام ان کو ملی تھیں مجھے افسوس ہے کہ بہت سی ان میں سے گم ہوگئیں مگر تین چھٹیات جو مدت سے چھپ چکی ہیں ان کی نقلیں حاشیہ میں درج کی گئی ہیں پھر میرے والد صاحب کی وفات کے بعد میرا بڑا بھائی مرزا غلام قادر خدمات سرکاری میں مصروف رہا اور جب تیموں کے گزر پر مفسدوں کا سرکار انگریزی کی فوج سے مقابلہ ہوا تو وہ سرکار انگریزی کی طرف سے لڑائی میں شریک تھا ۔ پھر میں اپنے والد اور بھائی کی وفات کے بعد ایک گوشہ نشین آدمی تھا تاہم سترہ برس سے سرکار انگریزی کی امداد اور تائید میں اپنی قلم سے کام لیتا ہوں ۔‘‘
(کتاب البریہ مندرجہ روحانی خزائن جلد ۱۳ ص۴ تا ۶(
نام و نسب:
’’اب میرے سوانح اس طرح پر ہیں کہ میرا نام غلام احمد میرے والد کا نام غلام مرتضی اور دادا صاحب کا نام عطاء محمد اور میرے پرداد اصاحب کا نام گل محمد تھا اور جیسا کہ بیان کیا گیا ہے ہماری قوم مغل برلاس ہے اور میرے بزرگوں کے پرانے کاغذات سے جو اَب تک محفوظ ہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس ملک میں سمر قند سے آئے تھے ۔‘‘
(کتاب البریہ ص۱۴۴ بر حاشیہ روحانی خزائن ص ۱۶۲،۶۳ ج ۱۳،مثلہ سیرۃ المہدی حصہ اول ج۱ ص۱۱۶(
تاریخ ومقام پیدائش:
مرزا غلام احمد قادیانی بھارت کے مشرقی پنجاب ضلع گورداسپور تحصیل بٹالہ قصبہ قادیان میں پیدا ہوا ۔ اپنی تاریخ پیدائش کے بارے میں اس نے یہ وضاحت کی ہے :
’’ اب میرے ذاتی سوانح یہ ہیں کہ میری پیدائش۱۸۳۹ء یا ۱۸۴۰ء میں سکھوں کے آخری وقت میں ہوئی ہے اور میں ۱۸۵۷ء میں سولہ برس کا یا سترھویں برس میں تھا۔‘‘
(کتاب البریہ ص۱۵۹ حاشیہ روحانی خزائن ص۱۷۷ ج۱۳(
ابتدائی تعلیم :
مرزا قادیانی نے قادیان ہی میں رہ کر متعدد اساتذہ سے تعلیم حاصل کی جس کی تفصیل خوداس کی زبانی حسب ذیل ہے :
’’ بچپن کے زمانہ میں میری تعلیم اس طرح ہوئی کہ جب میں چھ سات سال کا تھا تو ایک فارسی خواں معلم میرے لئے نوکر رکھا گیا۔جنہوں نے قرآن شریف اور چند فارسی کتابیں مجھے پڑھائیں اور اس بزرگ کا نام فضل الہی تھا ۔اور جب میری عمر تقریباً دس برس کی ہوئی تو ایک عربی خواں مولوی صاحب میری تربیت کیلئے مقرر کئے گئے جن کا نام فضل احمد تھا میں خیال کرتا ہوں کہ چونکہ میری تعلیم خدائے تعالی کے فضل کی ایک ابتدائی تخم ریزی تھی اس لئے ان استادوں کے نام کا پہلا لفظ’ فضل‘ ہی تھا۔ مولوی صاحب موصوف جو ایک دیندار اور بزرگوار آدمی تھے وہ بہت توجہ اور محنت سے پڑھاتے رہے اور میں نے صرَف کی بعض کتابیں او رکچھ قواعد نحو اِن سے پڑھے اور بعد اس کے جب میں سترہ یا اٹھارہ سال کا ہوا تو ایک اور مولوی صاحب سے چند سال پڑھنے کا اتفاق ہوا ۔ان کا نا م گل علی شاہ تھا ان کو بھی میرے والد نے نوکر رکھ کر قادیان میں پڑھانے کیلئے مقرر کیا تھا اور ان آخر الذکر مولوی صاحب سے میں نے نحو اور منطق اور حکمت وغیرہ علوم مروجہ کو جہاں تک خداتعالی نے چاہا حاصل کیا اور بعض طبابت کی کتابیں میں نے اپنے والد صاحب سے پڑھیں اور وہ فن طبابت میں بڑے حاذق طبیب تھے ۔‘‘
(کتاب البریہ بر حاشیہ۶۱ ۱تا۱۶۳۔روحانی خزائن ج ۱۳ ص ۱۷۹ تا ۱۸۱(
جبکہ مرزا غلام احمد قادیانی خود لکھتا ہے کہ
’’ تمام نفوس قدسیہ انبیاء کو بغیر کسی استاد یا اتالیق کے آپ ہی تعلیم اور تادیب فرما کر اپنے فیوض قدیم کا نشان ظاہر فرمایا۔‘‘
(دیباچہ براھین احمدیہ ص ۷، روحانی خزائن ص۱۶ج۱(
ملازمت:
مرزا غلام احمد قادیانی کا بیٹا لکھتا ہے :
’’ بیان کیامجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ اپنی جوانی کے زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام تمہارے دادا کی پنشن وصول کرنے گئے تو پیچھے پیچھے مرزا امام الدین بھی چلا گیا جب آپ نے پنشن وصول کرلی تو وہ آپ کو پھسلا کر اور دھوکہ دے کر بجائے قادیان آنے کے باہر لے گیا اور ادھر اؑدھر پھراتا رہا پھر اتارہاپھر جب آپ نے سارا روپیہ اڑا کر ختم کردیا تو آپ کو چھوڑ کر کہیں اور چلا گیا ۔ حضرت مسیح موعود اس شرم سے واپس گھر نہیں آئے اور چونکہ تمہارے دادا کا منشاء رہتا تھا کہ آپ کہیں ملازم ہوجائیں اس لئے آپ سیالکوٹ شہر میں ڈپٹی کمشنر کی کچہری میں قلیل تنخواہ پر ملازم ہوگئے ۔ ‘ ‘
(سیرۃ المہدی حصہ اول ص ۴۳ روایت نمبر ۴۹ ،مصنفہ صاحبزادہ بشیر احمد صاحب قادیانی )
واضح رہے کہ پنشن کی یہ رقم سات صد روپیہ تھی۔
(سیرۃ المہدی ج ۱ ص ۱۳۱ روایت نمبر ۱۲۲(
منکوحات مرزا :
مرزا غلام احمد قادیانی کی تین بیویاں تھیں ، پہلی بیوی جس کو ’ پھجے کی ماں‘ کہا جاتاہے اور اس کا نام حرمت بی بی تھا اس سے ۱۸۵۲ء یا ۱۸۵۳ ء میں شادی ہوئی ۔
دوسری بیوی جس کا نام نصرت جہاں بیگم ہے اس سے نکاح ۱۸۸۴ء میں ہوا ۔ اس کی ایک او ربیوی بھی تھی جس کے ساتھ بقول اسکے اس کا نکاح آسمانوں پر ہوا تھا،جس کا نام محمدی بیگم تھامگر اس کے ساتھ اس کی شادی ساری زندگی نہ ہوسکی اس کا مفصل تذکرہ آئندہ پیش گوئی نمبر۶ کے ذیل میں آئے گا۔
اولاد :
۱۔ مرزا سلطان احمد
۲۔مرزا فضل احمد
یہ دونوں مرزا پر ایمان نہ لائے تھے میرزا فضل احمد مرزا قادیانی کی زندگی میں مر گیا لیکن مرزا نے اس کا جنازہ نہ پڑھا۔
( روزنامہ الفضل قادیان ۷ جولائی۱۹۴۳ء ص ۳ )
جبکہ مرزا سلطان احمدکو مرزا نے عاق کردیاتھا ۔
مرزا کی دوسری بیوی سے درج ذیل اولاد ہوئی :
لڑکے﴾مرزا محمود احمد ۔مرزا شوکت احمد۔ مرزا بشیر احمداول ۔ مرز اشریف احمد۔ مبارک احمد ۔بشیر احمد ایم اے۔
لڑکیاں﴾مبارکہ بیگم ۔ امۃالنصیر ۔ امۃ الحفیظ بیگم ۔عصمت
ان میں سے فضل احمد ، بشیر اول، شوکت احمد ،مبارک احمد ،عصمت اور امۃ النصیرکا مرزا کی زندگی میں ہی انتقال ہوگیا تھا جبکہ باقی اولاد( سلطان احمد ،محمود احمد ، بشیر احمد ،شریف احمد ،مبارک بیگم ،امۃ الحفیظ بیگم ) مرزا قادیانی کی موت کے بعد بھی زندہ رہی ۔
(دیکھئے نسب نامہ مرزا ،سیرۃ المہدی حصہ اول ص ۱۱۶ روایت ۱۱۶(
خلاصہ کلام یہ ہے کہ مرزا کے ہاں دونوں بیویوں سے آٹھ لڑکے اور چار لڑکیاں پیدا ہوئی تھیں ۔چارلڑکے اور دو لڑکیاں مرزا کی زندگی میں انتقال کر گئیں جبکہ چار لڑکے اور دو لڑکیاں زندہ رہیں ۔٭
(جاری ہے...)
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں