بدھ، 13 ستمبر، 2017

گریۂ خوں

عارف باللہ حضرت شاہ حکیم محمداختر صاحب رحمہ اللہ
جب کبھی دل سے آہ کرتا ہوں
منزلیں پیشِ راہ کرتا ہوں
عشق کی نامراد وادی میں
اپنے غم سے نباہ کرتا ہوں
ساری خلقت سے دور ہو کے کبھی
دشت کو خواب گاہ کرتا ہوں
صبر کو شکوہ و گلہ کیوں ہے
ضبطِ غم بے پناہ کرتا ہوں
گریۂ اشک عشق میں کیا ہے
گریۂ خوں بھی گاہ کرتا ہوں
دردِ دل جب شدید ہوتا ہے
یاد میں اُن کی آہ کرتا ہوں
لذتِ ذکر کیا کہوں اخترؔ
جھوم کر واہ واہ کرتا ہوں
     

حضرت گنگوہیؒ پر تکذیب رب العزت کا بہتان اور اس کا جواب

 مولانا ساجد خان نقشبندی ﷾
       
مولوی احمد رضاخان اپنی تکفیری دستاویز ’’حسام الحرمین‘‘ پر مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق لکھتے ہیں کہ :
     پھر تو ظلم و گمراہی میں اس کا حال یہاں تک بڑھا کہ اپنے ایک فتوے میں جو اس کا مہری دستخطی میں نے اپنی آنکھ سے دیکھا ہے بمبئی وغیرہ میں بارہا مع رد کے چھپا صاف لکھ دیا کہ جو اللہ سبحانہ و تعالی کو بالفعل جھوٹا مانے اور تصریح کردے کہ معاذ اللہ اللہ تعالی نے جھوٹ بولا اور یہ عیب اس سے صادر ہوچکا تو اسے کفر بالائے طاق،گمراہی درکنار،فاسق بھی نہ کہو اس لئے کہ بہت سے امام ایسا کہہ چکے ہیں جیسا اس نے کہا بس نہایت کار یہ ہے کہ اس نے تاویل میں خطا کی ۔۔۔یہی وہ ہیں جنھیں اللہ تعالی نے بہر ا کیا اور اس کی آنکھیں آندھی کردیں (حسام الحرمین مع تمہید ایمان ص 71مکتبۃ المدینہ)
     قارئین کرام حضرت گنگوہی ؒ کی طرف کسی ایسے فتوے کی نسبت کرنا سراسر افتراء اور بہتان ہے حسام الحرمین کی اس سے پہلی والی بحث یعنی تحذیر الناس میں تو مولوی احمد رضاخان نے تحذیر الناس کی متفرق عبارتیں جوڑ کر کفر کی مسل تیار بھی کرلی تھی یہاں تو یہ بھی ناممکن ہے ۔بحمد اللہ ہم پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ حضرت مرحوم کے کسی فتوے میں یہ الفاظ مرقوم نہیں ہیں نہ ہی کسی فتوے کا یہ مضمون ہے ۔بلکہ درحقیقت یہ صرف خان صاحب یاان کے کسی دوسرے ہم پیشہ بزرگ کا افتراء اور بہتان ہے ۔بفضلہ تعالی ہمارے اکابر اس شخص کو کافر ،مرتد ،ملعون سمجھتے ہیں جو خداوند تعالی کی طرف جھوٹ کی نسبت کرے اور اس سے بالفعل صدور کذب کا قائل ہو بلکہ جو بد نصیب اس کے کفر میں شک کرے ہم اس کو بھی خارج از اسلام سمجھتے ہیں ۔حضرت مولانا رشید احمد صاحب ؒ جن پر خان صاحب نے یہ ناپاک اور شیطانی بہتان لگایا خود انہی کے مطبوعہ فتا وی میں یہ فتوی موجود ہے :
     ذات پاک حق تعالی جل جلالہ کی پاک و منزہ ہے اس سے کہ متصف بوصف کذب کیا جائے ۔معاذ اللہ تعالی اس کے کلام میں ہرگز ہرگز شائبہ کذب کا نہیں قال اللہ تعالی: و من اصدق من اللہ قیلا(فتاوی رشیدیہ جلد اول ص118وتالیفات رشیدیہ ص96(
جو شخص اللہ تعالی کی نسبت یہ عقیدہ رکھے یا زبان سے کہے کہ وہ جھوٹ بولتا ہے وہ قطعا کافر و ملعون ہے اور مخالف قرآن و حدیث کا اور اجما ع امت کا ہے۔و ہ ہرگز مومن نہیں تعالی اللہ عما یقول الظلمون علوا کبیرا(ایضا)۔
ناظرین انصاف فرمائیں کہ اس صریح اور چھپے ہوئے فتوے کے ہوتے ہوئے حضرت ممدوح پر یہ افتراء کرنا کہ معاذ اللہ وہ خدا کو کاذب بالفعل مانتے ہیں یا ایسا بکنے والے کو مسلمان کہتے ہیں کس قدر شرمناک کاروائی ہے۔؟؟الحساب یو م الحساب ۔
شرم ۔۔۔شرم ۔۔۔شرم۔۔۔
رہا مولوی رضاخان صاحب کا یہ لکھنا کہ ’’میں نے ان کا وہ فتوی مع مہر و دستخط بچشم خود دیکھا‘‘اس کے جواب میں ہم صرف اتنا عرض کریں گے جب اس چودہویں صدی کا ایک عالم و مفتی ایک چھپی ہوئی کثیر الاشاعت کتاب (تحذیر الناس)کی عبارتوں میں قطع و برید کرکے ص3,14,28کی عبارتوں میں تحریف کرکے ایک کفریہ مضمون گھڑ کے تحذیر الناس کی طرف منسوب کرسکتا ہے تو کسی جعلساز کیلئے کسی کے مہر و دستخط بنا لینا کیا مشکل ہے؟ (آپ حضرات اکثر سنتے ہونگے اخبارات و ٹی وی میں کہ فلاں جگہ سے جعلساز پکڑے گئے جن سے جعلی سرکاری مہریں برآمد ہوئی ہیں جو پاسپورٹ پر لگانے کے کام آتی تھی وغیرہ وغیرہ )کیا دنیا میں جعلی سکے جعلی نوٹ جعلی دستاویز تیار کروانے والے موجود نہیں؟مشہور ہے کہ بریلی اور اس کے گرد و نواح میں اس فن کے بڑے بڑے ماہر رہتے ہیں جنکا ذریعہ معاش ہی یہی ہے۔
بہرحال مولوی احمد رضاخان نے حضرت گنگوہی ؒ کے جس فتوے کا ذکر کیا ہے اس کی کوئی اصل نہیں فتاوی رشیدیہ جو تین جلدوں میں چھپ کر آچکی ہے (اس وقت یہ مجموعہ تالیفات رشیدیہ کے ساتھ بھی چھپ چکا ہے جس میں حضرت گنگوہی ؒ کی تمام تصانیف کو جمع کردیا گیا ہے)وہ بھی ا س کے ذکرسے خالی ہے ۔بلکہ اس میں تو اس کے خلا ف چند فتوے موجود ہیں جن میں سے ایک اوپر نقل بھی کیا جاچکا ہے ۔اور اگر فی الواقع خان صاحب نے ا س قسم کا کوئی فتوی دیکھا ہے تو وہ یقیناًان کے کسی ہم پیشہ بزرگ یا ان کے کسی پیشرو کی جعلسازی اور دسیسہ کاریوں کا نتیجہ ہے۔
حضرات علمائے کرام و مشائخ کرام رحمھم اللہ کی عزت و عظمت کو مٹانے کیلئے حاسدوں نے اس سے پہلے بھی اس قسم کی کاروائیاں کی ہیں ۔اس سلسلے کے چند عبرت آموز واقعات ہم یہاں عرض کردیتے ہیں:
٭ امت کے جلیل القدر فقیہ اور محدث اعظم اما م احمد حنبل ؒ اس دنیا سے کوچ فرمارہے ہیں کہ اور کوئی بد نصیب حاسد عین اسی وقت تکیہ کے نیچے لکھے ہوئے کاغذات رکھ جاتا ہے جن میں خالص ملحدانہ عقائد اور زندیقانہ خیالات بھرے ہوئے ہیں ۔ کیوں؟صرف اس لئے کہ لوگ ان تحریرات کو امام احمد بن حنبل ؒ ہی کی کاوش دماغی کا نتیجہ سمجھیں گے اور جب ان کے مضامین تعلیمات اسلامی کے خلاف پائیں گے تو ان سے بد ظن ہوجائیں گے اور لوگوں ک دلوں سے ان کی عظمت نکل جائے گی ۔پھر ہماری دکان جو امام کے فیض عام سے پھیکی پڑ چکی تھی چمک اٹھے گی۔
٭ امام لغت علامہ فیروز آبادی صاحب قاموس ؒ زندہ تھے مشہور امام و مرجع خواص و عام تھے حافظ حجر عسقلانی ؒ نے ان کے خرمن علم سے خوشہ چینی کی۔حاسدین نے ان کی اس غیر معمولی مقبولیت کو دیکھ کر ان کی اس عظمت کو بڑ لگانے کیلئے ایک پوری کتاب حضرت امام ابو حنیفہ ؒ کی مطاعن میں تصنیف کر ڈالی جس میں خوب زور و شور سے امام اعظم ؒ کی تکفیر بھی کی اور یہ جعلی کتاب ان کی طرف منسوب کرکے دور دراز تک شائع کروادی۔حنفی دنیا میں علامہ فیرو ز آبادی ؒ کے خلا ف نہایت زبردست ہیجان پیدا ہوگیا لیکن بیچارے علامہ ؒ کو اس کی خبر بھی نہ تھی یہاں تک جب وہ کتاب ابو بکر الخیاط البغوی الیمانی کے پاس پہنچی تو انھوں نے علامہ فیروز آبادی کو خط لکھا کہ آپ نے یہ کیا کیا؟علامہ موصوف اس کے جواب میں لکھتے ہیں کہ :
     اگر وہ کتاب جو افتراء میں میری طرف منسوب کردی گئی ہے آپ کے پاس ہوتو فورا اس کو نذر آتش کردیں خدا کی پناہ !میں اور حضرت امام ابو حنیفہ ؒ کی تکفیرو انا اعظم المعتقدین فی امام ابی حنفیہ ۔اس کے بعد ایک ضخیم کتاب امام ابو حنیفہ ؒ کے مناقب میں لکھی۔
٭ امام مصطفی کرمانی حنفی ؒ نے نہایت جانکاہی سے ’’ مقدمہ ابو اللیث سمرقندی‘‘کی مبسوط شرح لکھی جب ختم کرچکے تو مصر کے علما ء کو دکھلانے کے بعد اس کی اشاعت کا ارداہ کیا ۔تصنیف الحمد اللہ کامیاب تھی۔بعض حاسدوں کی نظر میں کھٹک گئی انھوں نے سمجھ لیا کہ اس کی اشاعت سے ہماری دکانیں پھیکی پڑجائیں گی اور تو کچھ نہ کرسکے البتہ یہ خباثت کی کہ اس کے ’’باب آداب الخلاء‘‘کے اس مسئلہ کے حاجت کے وقت آفتاب وماہتاب کی طرف رخ نہ کرے ۔اپنی دسیسہ کاری سے اتنا اضافہ کردیا کہ ’’چونکہ ابراہیم ؑ ان دونوں کی عبادت کرتے تھے‘‘معاذ اللہ ۔علامہ کرمانی ؒ کو اس شرارت کی کیا خبر تھی انھوں نے لا علمی میں وہ کتاب مصر کے علماء کے سامنے پیش کردی جب ان کی نظر ا س دلیل پر پڑی تو سخت برہم ہوئے اور تمام مصر میں علامہ ؒ کے خلاف ہنگامہ کھڑ ا ہوگیا قاضی مصر نے واجب القتل قرار دے دیا۔بیچارے راتوں رات جان بچا کر مصر سے بھاگ گئے ورنہ سر دئے بغیر چھوٹنا مشکل تھا۔
یہ گنتی کے چند واقعات تھے ورنہ تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو حاسدوں کی ان شرارتوں سے تاریخ کے واقعات بھرے پڑے ہیں ۔
پس اگر بالفرض فاضل بریلوی اپنے اس بیان میں سچے ہیں کہ انھوں نے اس مضمون کا کوئی فتوی دیکھا ہے تو یقیناًوہ اسی قبیل سے ہے۔ لیکن پھر بھی فاضل بریلوی کو اس بنا پر کفر کا فتوی دینا ہرگز جائز نہ تھا جب تک کہ وہ خود خوب تحقیق نہ کرلیتے کہ یہ فتوی حضرت مولانا کا ہی ہے یا نہیں؟فقہ کا مسلم اور مشہور مسئلہ ہے کہ ’’الخط یشبہ الخط‘‘یعنی ایک انسان کا خط دوسرے انسان سے مل جاتا ہے اور خود خان صاحب بھی اس کی تصریح فرماتے ہیں کہ :
تمام کتابوں میں تصریح ہے کہ الخط یشبہ الخط ،الخط لا یعمل بہ (ملفوظات حصہ دوم ص170فرید بک اسٹال لاہور)۔
رہے وہ دلائل جو خان صاحب نے اس فتوے کے صحیح ہونے کیلئے اپنی کتاب تمہیدایمان میں لکھے تو وہ نہایت لچر اور تار عنکبوت سے زیادہ کمزور ہیں قارئین کرام ذرا ان کو بھی خود دیکھ لیں اور جانچ لیں:
یہ تکذیب خدا کا ناپاک فتوے اٹھارہ برس ہوئے 1308ھ میں رسالہ صیانۃ الناس کے ساتھ مطبع حدیقۃ العلوم میرٹھ میں مع رد کے شائع ہوچکا ہے ۔پھر 1318ھ میں مطبع گلزار حسینی بمبئی میں اس کا مفصل رد چھپا پھر 1320ھ میں پٹنہ عظیم آباد میں اس کا ایک قاہرہ رد چھپا اور فتوی دینے والا جمادی الاخر ۱۳۲۳ ھ میں مرا اور مرتے دم تک ساکت رہا نہ یہ کہا کہ وہ فتوی میرا نہیں حالانکہ خود چھپائی ہوئی کتابوں سے اس کا انکار کردینا سہل تھا نہ یہی بتلایا کہ وہ مطلب نہیں جو علمائے اہلسنت بتلارہے ہیں بلکہ میرا مطلب یہ ہے ۔ نہ کفر صریح کی نسبت کوئی سہل بات تھی جس پر التفات نہ کیا۔(تمہید ایمان ص 49)
حشو و زائد کو حذف کردینے کے بعد خان صاحب کی اس دلیل کا صرف حاصل یہ ہے کہ :
(١) یہ فتوی مع رد کے مولانا ممدوح ؒ کی زندگی میں تین دفعہ چھپا۔
(٢) انھوں نے تازیست اس فتوے سے انکار نہیں کیا نہ اس کا کوئی مطلب بتلایا۔
(٣) اور چونکہ معاملہ سنگین تھا اس لئے خاموشی کو عد م التفات پر بھی محمو ل نہیں کیا جاسکتا لہٰذا ثابت ہوگیا کہ یہ فتوے انہی کا ہے اور اسی بنا پر ہم نے ان کی تکفیر کی اور تکفیر بھی ایسی کہ من شک فی کفرہ فقد کفر۔
اگرچہ خان صاحب کے ان دلائل کا لچر پوچ و مہمل ہونا ہمارے نقد تبصرے کا محتاج نہیں ۔ہر معمولی سی عقل رکھنے والا بھی تھوڑے سے غور و فکر کے بعد اس کو لغویت سمجھے گا تاہم مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس کے ہر ہر جز پر تھوڑی سی روشنی ڈال دیجائے تاکہ آپ سے خان صاحب کے علم و مجددیت کی کچھ داد دلوادیجائے۔
خان صاحب کی پہلی دلیل کا بنیادی مقدمہ یہ ہے کہ:
یہ فتوے مولانا کی حیات میں تین دفعہ چھپے۔
اس مقدمے میں سے اتنا تو معلوم ہوگیا کہ یہ فتوے مولانا کے مخالفین نے چھاپے ۔مولانایا آپ کے متوسلین کی طرف سے کبھی اس کی اشاعت نہیں ہوئی (خیر اس راز کو تو اہل بصیرت ہی سمجھ سکتے ہیں )ہم کو تو اس کے متعلق صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ اگر خان صاحب کے بیان کو صحیح سمجھ لیا جائے کہ یہ فتوی متعدد بار بمع رد کے حضرت گنگوہی ؒ کی حیات میں شائع ہوا جب بھی لازم نہیں آتا کہ حضرت کے پاس بھی پہنچا ہو یاان کو اس کی اطلاع بھی ہوئی ہو۔اگر ان کے پاس بھیجا گیا تو سوال یہ ہے کہ ذریعہ قطعی تھا یا غیر قطعی؟پھر کیا خان صاحب کو اس کی وصولیابی کی اطلاع ہوئی ؟اگر ہوئی تو وہ ذریعہ قطعی تھا یا ظنی؟ بحث کے پہلوؤں سے چشم پوشی کرکے کفر کا قطعی فتوی دینا کیونکر صحیح ہوسکتا ہے ؟۔بہرحال جب تک قطعی طور پر ثابت نہ ہوجائے کہ فی الواقع حضرت گنگوہی ؒ نے کوئی ایسا فتوی لکھا تھا جس کا قطعی اور متعین مطلب وہی تھا جو مولوی احمد رضاخان نے لکھا اس وقت تک ان تخمینی بنیادوں پر تکفیر قطعا ناروا بلکہ معصیت ہے ۔حضرت مولانا ممدوح ؒ تو ایک گوشہ نشین عارف باللہ تھے جن کا حال بلا مبالغہ یہ تھا
بسو دائے جانان زجان مشتغل 
بذکر حبیب از جہاں مشتغل 
خان صاحب کے دوسرے مقدمہ کا خلاصہ یہ ہے کہ:
 مولانا ؒ نے اس فتوے کا انکار نہیں کیا نہ ا س کی تاویل کی۔
اس کے متعلق تو پہلی گزارش یہی ہے کہ جب اطلاع ہی ثابت نہیں تو انکار کس چیز کا اور تاویل کس بات کی ؟اور فرض کرلیجئے کہ ان کو اطلاع ہوئی لیکن انھوں نے ناخد ا ترس مفتریوں کی اس ناپاک حرکت کو ناقابل توجہ سمجھا ان کو بحوالہ خدا کرکے سکوت فرمایا۔
رہا یہ کہ کفر کی نسبت کوئی معمولی بات نہ تھی جس کی طرف التفات نہ کیا جائے ۔تو اول تو یہ ضروری نہیں کہ دوسرے بھی آپ کے نظریہ سے متفق ہوں ۔ہوسکتا ہے کہ انھوں نے اس کے انکار کی ضرورت نہ سمجھی ہو۔کہ ایمان والے خود ہی اس ناپاک افتراء کی تکذیب کردیں گے۔یا انھوں نے یہ خیال کیا ہو کہ اس گند کو اچھالنے والے علمی اور مذہبی دنیا میں کوئی مقام نہیں رکھتے لہٰذا ان کی بات کا کوئی اعتبار نہیں کرے گا ۔بہرحال سکوت کیلئے یہ وجوہ بھی ہوسکتی ہیں ۔پھر قطع نظر ان تمام باتوں سے یہ کہنا ہی غلط ہے کہ کفر کا معاملہ سنگین تھا بے شک خان صاحب کی ’’مجددیت ‘‘ کے دور سے پہلے تکفیر ایسی غیر معمولی اہمیت رکھتی تھی لیکن خان صاحب کی روح اور ان کی موجودہ ذریت مجھے معاف فرمائے کہ جس دن سے افتاء کا قلمدان خان صاحب کے بے باک ہاتھوں میں گیا ہے اس روز سے تو کفر اتنا سستا ہوگیا ہے کہ اللہ کی پناہ ۔ندوۃ العلماء والے کافر جو نہ مانے کافر،اہلحدیث کافر جو نہ مانے کافر،دیوبندی کافر جو نہ مانے کافر،مولانا عبد الباری فرنگی صاحب کافراور تو اور تحریک خلاف میں شرکت کے جرم اپنے برادران طریقت عبدالماجد صاحب بدایوانی ،عبد القادر بد ایوانی کافر اس کو بھی چھوڑو مصلی رسول ﷺ پرکھڑا ہونے والا شخص آئمہ اسلام سب کافر ۔کفر کی وہ بے پناہ مشین گن چلی کہ الٰہی توبہ! بریلی کے ڈھائی نفر انسانوں کے سوا کوئی مسلمان نہ رہا۔پس ہوسکتا ہے کہ خان صاحب کسی اللہ والے کو کافر کہیں اوروہ اللہ والا اس کو نباح الکلا ب (کتوں کا بھونکنا)سمجھتے ہوئے خاموشی اختیار کرے۔
اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مولانا مرحوم ؒ کو اس فتوے کی اطلاع ہوئی اور مولانا ؒ نے انکار بھی کیا ہو مگر خانصاحب کواس کی اطلاع نہ ہوئی پھر عدم اطلاع سے عدم انکار کیوں سمجھا جاسکتا ہے؟کیا عدم علم عدم الشئی کو مستلزم ہے؟۔اہل علم اور ارباب عقل و دانش غور فرمائیں کہ کیا اتنے احتمالات کے ہوتے ہوئے بھی تکفیر جائز ہوسکتی ہے ؟دعوی تو یہ تھا کہ :
ایسی عظیم احتیاط والے (یعنی خود بدولت جناب خانصاحب)نے ہر گز ان دشنامیوں (حضرت گنگوہی ؒ وغیرہ)کو کافر نہ کہا جب تک یقینی ،قطعی واضح،روشن،جلی طور سے ان کا صریح کفر آفتاب سے زیادہ روشن نہ ہوگیا ۔جس میں اصلا اصلا ہر گز کوئی گنجائش کوئی تاویل نہ نکل سکے۔(تمہید ایمان ص 55)
اور دلیل اس قدر لچر کے یقین کیا ظن کو بھی مفید نہیں۔اور اگر ایسی ہی دلیلوں سے کفر ثابت ہوتا ہے تو پھر تو اسلام اور مسلمانوں کا اللہ ہی حافظ ہے۔کوئی جاہل اور دیوانہ کسی با خدا کو کافر کہے اور وہ اس کو ناقابل خطاب سمجھتے ہوئے اعراض کرے اور ا سکے لئے اپنی صفائی پیش نہ کرے بس خان صاحب کی دلیل سے کافر ہوگیا۔چہ خوش ۔
گر ہمیں مفتی و ہمیں فتوی
 کار ایماں تمام خواہد شد
ادھر فقہاء کی یہ تصریحات کہ ۹۹ احتمالات کفر کے ہوں صرف ایک احتمال اسلام کا پھر بھی تکفیر جائز نہیں ادھر یہ مجدد کہ محض خیالی و وہمی مقدمے جوڑ کر کہتا ہے کہ من شک فی کفرہ فقد کفر ۔اللہ کی پناہ۔
یہی وہ خیالات و واقعات ہیں جسکی بنیاد پر ہم سمجھتے ہیں کہ خان صاحب نے فتاوی کفر کسی غلط فہمی یا علمی لغزش پر جاری نہ کئے تھے بلکہ درحقیقت اس کی تہ میں صرف حسد و جاہ پرستی اور نفس پرستی کا بے پناہ جذبہ کارفرماتھا۔
٭٭٭
     

عورتوں کی امامت کا مسئلہ اور غیر مقلد علماء کا جھوٹ، خیانت اور دھوکہ

حافظ محمود احمد(عرف عبد الباری محمود)


قارئین کرام! علمائے اہلحدیث (غیر مقلدین علماء) کو احناف اور فقہ حنفی سے اس قدر چڑٓ ہے کہ وہ جہل، جھوٹ، خیانت اور بد دیانتی کا سہارا لیکر آۓ دن فقہ حنفی اور احناف کو بدنام کرتے رہتے ہیں جس کا ایک نمونہ یہاں پیش کیا جاتا ہے ملاحظہ فرمائیں۔

فرقہ اہلحدیث کے ایک بہت بڑے عالم جنکا نام ابوالاقبال سلفی ہے، اپنی کتاب "اصلی اسلام کیا ہے؟ اور جعلی اسلام کیا؟" میں جگہ جگہ جھوٹ، خیانت اور بد دیانتی کا مظاہرہ کیا ہے، (تفصیل جاننے کیلئے دیکھئے: مولانا مرتضیٰ حسن صاحب سدھارتھ نگری کی کتاب "ضدی ابلیس" اور "پردہ اُٹھ رہا ہے") 

اس کتاب کے صفحہ۴۷۹/پر عورتوں کی امامت سے متعلق دو روایتیں نقل کرتے ہیں:

 عَنْ اُمِّ وَرَقَۃَ اَمَرَھَا اَنْ تَؤُمَّ اَھْلَ دَارِھَا. (ابوداؤد باب امامت النساء)

رسول اللہ ﷺ نے (حضرت، ناقل) ام ورقہ(رضی اللہ عنہا، ناقل) کو اپنے گھر والوں کی امامت کرانے کا حکم دیا۔ 

عَنْ عَائِشَۃَ اَنَّھَا تَؤُمُّ النِّسَاءَ وَتَقُوْمُ وَسْطَھُنَّ. (مستدرک حاکم باب امامت المرأۃ)

حضرت عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا صف کے بیچ میں کھڑی ہوکر عورتوں کی امامت کراتی تھیں۔"

 پھر لکھتے ہیں:

     "دونوں حدیثیں بالکل صاف اور واضح ہیں۔ ایک میں رسول کا حکم ہے ... دوسری میں زوجۂ رسولؐ کا اس پر عمل ہے۔ لیکن حنفی مذہب اللہ کے رسول کے اس حکم کو نہیں مانتا۔ نہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ﷝ کے اس حکم (یہاں سلفی صاحب نے اپنی جہالت سے حضرت عائشہ صدیقہؓ کے "عمل" کو "حکم" بنا دیا ہے، ناقل) پرعمل کرنے کو پسند کرتا ہے۔ بلکہ اپنی طرف سے گڑھ کر فتوی دیتا ہے۔ اور اس حکم رسولؐ کی مخالفت کرتا ہے۔"

یہی سلفی صاحب اپنی ایک دوسری کتاب میں لکھتے ہیں:

     "ناظرین یہ ہیں صحیح احادیث جن سے صاف طور پر ثابت ہے کہ عورتیں عورتوں کی امامت کرسکتی ہیں۔ لیکن حقانی اور حنفیہ ان تمام صحیح حدیثوں کو نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ عورت عورتوں کی امامت نہیں کراسکتی۔ یہ امت حنفیہ ہے اس لئے اسلام کے رسول کا حکم یہ کیوں کر مان سکتی ہے۔ " (مذہبِ حنفی کا دینِ اسلام سے اختلاف، صفحہ ۴۵) 

 اس فرقہ کے ایک اور بڑے عالم حکیم صادق سیالکوٹی  اپنی کتاب "سبیل الرسول" میں لکھتے ہیں:

     "حنفی بھائیو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو صرف عورتوں کو بھی جماعت سے نماز پڑھنے کی اجازت دیں۔ عورت کی امامت عورت کے لئے روا رکھی، لیکن فقہ میں یہ کام منع قرار پائے کہ حدیث کی برابری کتنی بری چیز ہے" (صفحہ ۱۵۷)

اسی فرقہ کے ایک اور مشہور غیر مقلد عالم فاروق الرحمٰن صاحب یزدانی حضرت عائشہؓ کی مستدرک حاکم اور ابوداؤد کے حوالہ سے روایت مع ترجمہ نقل کرکے لکھتے ہیں:

     "اس روایت سے کس قدر واضح ہے کہ عورت عورتوں کی امامت کراسکتی ہے۔ ابوداؤد شریف کی روایت میں ام ورقہ رضی اللہ تعالی عنہا کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے خود جماعت کرانے کا حکم دیا ہے اور مستدرک حاکم کی روایت میں فرض نماز کا بھی ذکر ہےکہ وہ امامت فرض نماز کی ہوتی تھی۔ مگر کیا کیا جائے اس رائے و قیاس کے مرض کا کہ حدیث پیغمر صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت اس نے اپنا شعار بنالیا ہے چناچہ فقہ حنفی میں لکھاہے: 

ویکرہ للنساء ان یصلین وحدھن الجماعۃ [ہدایہ ج۱،ص۱۲۵، کتاب الصلوٰۃ، باب الامامۃ، شرح وقایہ ۱۷۶/۱، قدوری ص۴۴] 

یعنی مکروہ سمجھا گیا ہے کہ عورتیں علیحدہ جماعت سے نماز پڑھیں۔ یعنی مردوں کی جماعت کے علاوہ جماعت کرائیں۔"

 مزید لکھتے ہیں:

     "قارئین اوپر آپ نے حدیث پڑھی اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام ورقہؓ کو جماعت کرانے کا حکم دیا ہے مگر یہ فقہ حنفی ہے کہ اسے مکروہ سمجھ رہی ہے۔ تو گویا جس کام کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کرنے کا مشورہ ہی نہیں بلکہ کرنے کا حکم دیں لیکن فقاہت کا تقاضہ ہے کہ اس کو نا پسند کیا جائے۔ یہ حال ہے امت کے دعویداروں کا۔" (احناف کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اختلاف، صفحہ ۳۱۸ و ۳۱۹)

 ***الجواب***

قارئین کرام! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو اس کی اجازت دے رکھی تھی کہ اگر عورتیں اپنی جماعت کریں تو ان کی نماز باطل نہیں ہوگی بلکہ جائز  ہوگی لیکن ابوالاقبال سلفی، حکیم صادق سیالکوٹی اور فاروق الرحمٰن یزدانی نے اس کو ایسا بیان کیا ہے کہ گویا صحابہ کرام﷢ اور اس سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اس پر برابر عمل ہوتا رہا ہے جبکہ صورت حال یہ ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام﷢ کے زمانہ میں استمرار کے ساتھ  اس پر عمل نہیں تھا (جیسا کہ آگے چل کر معلوم ہوگا)

 لیکن ابوالاقبال سلفی، حکیم صادق سیالکوٹی اور فاروق الرحمٰن یزدانی کو چونکہ فقہ حنفی کو بدنام کرنا تھا اس لئے ایسا بیان کیا۔

     قارئین کرام! ابوالاقبال سلفی اور صادق سیالکوٹی نے ہدایہ کو حدیث کے خلاف بتانے کے لئے ایک عبارت تو نقل کردی لیکن وہ عبارت اڑا دی جس سے کہ حدیث کے خلاف نہیں بلکہ اس کے موافق ہو رہی تھی. دیکھئے ہدایہ میں صاف لکھا ہے:

     وان فعلن قامۃ الامام وسطهن

یعنی عورتیں اگر خود جماعت کریں تو جو عورت امام ہو ان کے بیچ میں کھڑی ہو. (دلیلیں آگے آرہی ہیں) 

     قارئین! ہدایہ کی یہ عبارت کتنی صاف ہے کہ اگر عورتیں ایسا کریں تو ان کی  نماز درست ہوگی اور انکی جماعت کا طریقہ بھی بتلادیا مگر اقبال سلفی اور صادق سیالکوٹی نے از راہ خیانت اس عبارت کو گول کر دیا اور جھوٹ بولتے ہوئے یہ بتلایا کہ فقہ حنفی میں عورتوں کی جماعت منع ہے.  (لعنت اللہ علی الکٰذبین)

     قارئین! رہا مسئلہ فقہ حنفی میں عورتوں کی جماعت کے مکروہ ہونے کا،، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ حدیث میں خود اس کو نا پسند کیا گیا ہے۔ دیکھئے عورتوں کی جماعت سے متعلق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: 

"لا خیر فی جماعۃ النساء الا فی المسجد او فی جنازۃ قتیل

یعنی عورتوں کی جماعت میں کوئ بھلائی نہیں ہے الا یہ کہ مسجد  میں یا مقتول کے جنازہ میں" 

(رواہ احمد والطبرانی فی الاوسط بحوالہ اعلاء السنن جلد۴ صفحہ ۲۴۲)

اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کی جماعت میں خیریت (یعنی بھلائی) کی نفی فرمائی ہے جو اس کے کراہیت کی کافی دلیل ہے۔

اور خلیفۂ راشد حضرت علی﷛ فرماتے ہیں: 

"لا تؤم المرأۃ  ۔یعنی عورت امامت نہ کرے " (المدونۃ الکبریٰ جلد ۱ صفحہ ۸۶)

*مرد و عورت کی امامت کی جائے قیام میں فرق کی دلیل*

مرد امامت میں آگے کھڑا ہوگا اس لئے کہ حضرت سمرہ بن جندبؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم کو حکم دیا کہ جب ہم تین (آدمی) ہوں (اور با جماعت نماز پڑھنے لگیں) تو ہم میں ایک آگے ہو جایا کرے۔ (ترمذی شریف جلد ۱، باب ماجاء فی الرجل یصلی مع الرجلین) 

اور حضرت جابرؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس سلسلہ کا اپنا واقعہ یوں بیان کیا ہے ایک موقع پر:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھنے کھڑے ہوئے تو میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں جانب کھڑا ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور گھما کر مجھے اپنی داہنی طرف کھڑا کر لیا، اتنے میں (حضرت) جبار  بن صخرؓ بھی وضو کرکے آگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم دونوں کے ہاتھ پکڑ کر پیچھے کر دیا (اب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے آگے)۔ دیکھیے: صحیح مسلم، کتاب الزہد والرقاق) 

جبکہ عورت امام کی جائے قیام کے بارے میں درج ذیل روایتیں آئی ہیں۔

(۱) حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ: "تؤم المرأۃ النساء تقوم فی وسطھن 

یعنی عورت (اگر) عورتوں کی امام بنے تو ان کے درمیان کھڑی ہو" (مصنف عبدالرزاق جلد ۳ صفحہ ۱۴۰)

(۲) حضرت ریطہ حنفیہؓ روایت کرتی ہیں: 

(ایک دفعہ) حضرت عائشہؓ نے فرض نماز میں عورتوں کی امامت کرائیں تو ان کے درمیان کھڑی ہوئیں۔ (مصنف عبدالرزاق، جلد ۳ صفحہ۱۴۱)

(۳) یحیٰ بن سعید خبر دیتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ نفل نماز میں عورتوں کی امامت کراتی تھیں تو ان کے صف میں کھڑی ہوتی تھیں۔(حوالہ سابق)

(۴) حضرت عائشہؓ ماہ رمضان میں عورتوں کی امامت کرتی تھیں تو بیچ میں کھڑی ہوتی تھیں۔ 

(کتاب الآثار ، باب المرأۃ النساء...)

(۵) نصب الرایہ کتاب الصلاۃ میں ہے کہ:

عن ام الحسن انھا رأت ام سلمۃ زوج النبی صلی اللہ علیہ وسلم تؤم النساء فتقوم معھن فی صفھن

یعنی حضرت ام حسن سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی حضرت ام سلمہؓ کو دیکھا کہ وہ عورتوں کی امامت کرتی تھیں تو ان کے ساتھ ان کے صف میں کھڑی ہوتی تھیں.


فائدہ: ان احادیث و آثار سے معلوم ہوا کہ مرد امامت میں صف میں آگے کھڑا ہوگا، جبکہ عورت امامت میں صف کے آگے نہیں، بلکہ درمیانِ صف کھڑی ہوگی۔ اور یہ بھی صاف معلوم ہوا کہ عورتوں کی اپنی جماعت فی نفسہ جائز ہے  لہذا اگر وہ اپنی جماعت کرنا چاہیں تو منع نہیں ہے، لیکن شریعت کی نظر میں یہ بہتر و پسندیدہ بھی نہیں ہے جیساکہ اوپر میں گزرچکا ہے کہ  آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں خیریت (یعنی بھلائی) کی نفی کی ہے جو "لا خیر فی جماعۃ النساء الا فی المسجد او فی جنازۃ قتیل" سے واضح ہے۔

یہی وجہ ہے کہ زمانہ خیر القرون میں اس کا رواج نہ تھا۔ حضرت عائشہؓ، حضرت ام سلمہؓ نے جو امامت کرائ ہیں تو یہ ابتداء اسلام میں تھا، بعد میں منسوخ ہو گیا۔ چنانچہ ابوداؤد کی شرح بذل المجہود میں ہے:

الا ﺍﻥ ﺟﻤﺎﻋﺘﮭﻦ ﻣﮑﺮﻭھۃ ﻋﻨﺪﻧﺎ ﻭ ﻋﻨﺪ ﺍﻟﺸﺎﻓﻌﯽ مستحبۃ ﮐﺠﻤﺎعۃ ﺍﻟﺮﺟﺎﻝ ﻭ ﯾﺮﻭﯼ ﻓﯽ ﺫﻟﮏ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﻟﮑﻦ ﺗﻠﮏ ﮐﺎﻧﺖ ﻓﯽ ﺍﺑﺘﺪﺍﺀ ﺍﻻﺳﻼﻡ ﺛﻢ ﻧﺴﺨﺖ ...

"یعنی ہمارے نزدیک عورتوں کی جماعت مکروہ ہے امام شافعیؒ کے نزدیک مستحب ہے جیسے مرد کی جماعت اور یہ کہ جو روایت کی گئی ہے عورتیں امامت کرواتی تھیں تو یہ ابتداء اسلام میں تھا بعد میں منسوخ ہوگیا" (جلد ۴ صفحہ ۲۰۹)

اسی طرح مولانا عبدالحئ لکھنویؒ فرماتے ہیں:

ﻓﺎین ﺫﺍﻟﻚ ﻣﻦ ﺍﺑﺘﺪﺍﺀ ﺍﻻﺳﻼﻡ

ﻟﻜﻦ یمکن ﺍﻥ یقال ﺍﻧﻪ ﻣﻨﺴﻮﺥ

"یعنی تو ایسا ہے کہ یہ ابتداء اسلام سے، لیکن ممکن ہے کہ اسے منسوخ کہا جائے" دیکھئے: (حاشیۂ ہدایہ) 

لہذا خلاصہ کلام یہ کہ:

عورتوں کی اپنی جماعت فی نفسہ جائز ہے  لہذا اگر وہ اپنی جماعت کرنا چاہیں تو منع نہیں ہے، لیکن شریعت کی نظر میں یہ بہتر و پسندیدہ بھی نہیں ہے۔ 

اللہ پاک ہم کو صحیح سمجھ کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

٭٭٭


     

نام نہاد اہل حدیث کے پچاس سوالات کے جوابات

عبد الرشید قاسمی سدھارتھ نگری ﷾

(1) تقلید کسے کہتے ہیں؟
جواب: غیر منصوص مسائل میں مجتہد کے قول کو تسلیم کرلینے یا بالفاظ دیگر دلیل کی تحقیق اور مطالبہ کے بغیر محض اس حسن ظن پر کسی کا قول مان لینے کو تقلید کہتے ہیں کہ وہ دلیل کے موافق ہی بتائے گا۔
(2)تقلید ضروری کیوں ہے؟
جواب: اس لئے کہ ہرفرد شریعت کا مکلف ہے،اور اس کے احکامات پر عمل کرنا ضروری ہے، اور ہرکس وناکس براہ راست قرآن وحدیث سے مسائل کا استنباط واستخراج نہیں کرسکتا، اس لئے غیر مجتہد کے لئے تقلید ضروری ہے۔
(3)تقلید کس کی ضروری ہے؟
جواب: مجتہد، اہل الذکر، اولواالامر اور منیب الی اللہ کی۔
(4)کیوں میں حنفی ہوں؟
(5)کیوں میں مالکی ہوں؟
(6)کیوں میں شافعی ہوں؟
(7)کیوں میں حنبلی ہوں؟
جواب: آپ کچھ بھی نہیں ہیں، آپ کی تو دنیا ہی الگ ہے، ہاں جولوگ ائمہ اربعہ امام ابوحنیفہ امام مالک، امام شافعی اور امام احمد رحمہم اللہ کو مجتہد ومنیب الی اللہ سمجھ کر ان کے اجتہادی فیصلوں پر عمل کرتے ہیں، اور غیر منصوص مسائل میں ان کی اتباع اور تقلید کرتے ہیں، وہ اسی اتباع اور تقلید کی وجہ سے حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی کہلاتے ہیں۔
(8)کیا تقلید کرنا فرض ہے؟
جواب: تقلید فرض نہیں بلکہ واجب لغیرہ ہے، اور وہ غیر شریعت کی پاسداری ہے۔
(9)تقلید کب تک کرنا ضروری ہے؟
جواب: جب تک مکلف کے اندر اجتہادی اور استنباطی واستخراجی صلاحیت نہ ہوجائے۔
(10)جب عیسی علیہ السلام دنیا میں پھر سے نازل ہونگے تو ان چار اماموں میں سے کس کی تقلید کریں گے؟
جواب: کسی کی بھی نہیں، بلکہ وہ خود مجتہد ہوں گے، اور مجتہد کے لئے اجتہاد واجب اور تقلید حرام ہے۔
(11)عیسی علیہ السلام جس امام کی تقلید کریں گے وہ حق پر ہوگا کیوں کہ وہ اللہ کے رسول ہیں؟
جواب: کسی امام کی تقلید کریں گے ہی نہیں، پھر حق وناحق کا مسئلہ کیسا؟
(12)چار اماموں میں سے کسی ایک کی تقلید کرنے کا حکم کس نے دیا؟ اللہ نے؟ رسول نے؟ خود ان اماموں نے؟ یا آج کے مولویوں نے؟
جواب: سب نے دیا ہے، اللہ نے بھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی، اور خود ائمہ اور علماء نے بھی،
اس لئے کہ سب نے قرآن وسنت پر عمل کرنے کی ترغیب دی ہے، اور یہ غیر مجتہد کے لئے اجتہادی مسائل میں کسی مجتہد کے اجتہادی فیصلے کو تسلیم کئے بغیر ہو ہی نہیں سکتا، اور اسی کا نام تقلید ہے۔
(13)اسلام میں صرف چار طرح کا حکم ہے، فرض، واجب، سنت اور نفل، تو پھر ان چار اماموں میں سے کسی ایک کی تقلید کرنا کیا ہے، فرض، واجب، سنت یا نفل؟
جواب: واجب لغیرہ ہے، اور وہ غیر جس کی وجہ سے تقلید واجب ہوئی احکام شرعیہ کی پاسداری ہے
اگر نفل ہے تو پھر آپ کے لئے فرض کیسے بن گئی؟
جواب: کس نے کہا کہ فرض ہے؟
جب ہم نے نہ نفل کا دعوی کیا نہ فرض کا، تو نفل کا اثبات اور فرض کا استفہامیہ انکار چہ معنی دارد؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ اب تک جو تقلید آپ کے یہاں حرام، شرک، ناجائز اور نہ جانے کیا کیا تھی، وہ اب نفل ہوگئی؟
(14)صحابہ کون تھے؟ حنفی، مالکی، شافعی یا حنبلی؟
جواب: صحابہ کس کی قرآت پر قرآن کریم کی تلاوت کرتے تھے؟ اور حدیث کی کونسی کتاب پڑھتے تھے؟ بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی، ابوداؤد یا ابن ماجہ؟
جس طرح قراء سبعہ اور ائمہ محدثین سے پہلے صحابہ قرآن کریم کی تلاوت کرتے تھے اور حدیث پڑھتے پڑھاتے تھے، اسی طرح فقہ ائمہ اربعہ کی تدوین سے پہلے احکام شرعیہ پر عمل بھی کرتے تھے۔
(15)کیا صحابہ میں کوئی ایک صحابی اس قابل نہیں تھا کہ ان کو اپنا امام بنادیا جائے؟
جواب: کیا صحابہ میں کوئی اس قابل نہیں تھا کہ اس کی قرآت پر قرآن کریم کی تلاوت کیجائے اور اس کی کتاب پڑھی پڑھائی جائے اور اسی کو اپنا مستدل بنایا جائے؟
(16)صحابہ کا درجہ بڑا ہے یا بعد والے امتیوں کا؟ پھر ان میں سے کوئی امام کیوں نہیں بنا؟
جواب: صحابہ کا درجہ بڑا ہے یا بعد والے امتیوں کا؟ پھر ان کی قرآت اور کتاب کیوں نہیں پڑھی پڑھائی جاتی؟
(17)ہم تو چار امام کو مانتے ہیں، لیکن شیعہ تو بارہ امام کو مانتے ہیں، تو پھر ہم ان کو گمراہ کیوں کہتے ہیں؟
جواب: ائمہ کی تعداد گمراہی کا سبب نہیں، اور نہ ہم اس وجہ سے انہیں گمراہ کہتے ہیں، ورنہ تو آپ کو شیعوں سے بھی بڑھ کر گمراہ سمجھتے۔
بلکہ گمراہی کا سبب فساد عقیدہ ہے، ہم ائمہ اربعہ کو اولواالامر، اہل ذکر، مجتہد ومنیب، قانون دان، شارح اور غیر معصوم سمجھتے ہیں، جب کہ شیعہ اپنے بارہ ائمہ کو قانون ساز، شریعت ساز اور معصوم عن الخطاء سمجھتے ہیں، جو یقینا گمراہی ہے۔
(18)کیا ان چار اماموں میں سے کسی ایک امام کا نام قرآن وحدیث میں آیا ہے؟
جواب: جس طرح شریعت پر عمل کرنے اور قرآن کریم کی تلاوت کرنے کا حکم قرآن وحدیث میں آیا ہے، لیکن ائمہ محدثین اور قراء سبعہ کا نام نہیں آیا۔اسی طرح احکام شرعیہ کی پاسداری کا حکم تو قرآن وحدیث میں آیا ہے، لیکن ائمہ اربعہ کا نام نہیں آیا۔
(19)جو لوگ ان چار اماموں کے پیدا ہونےسے پہلے مرچکے ان کا کیا ہوگا ؟
جواب: ان کی فکر چھوڑیے، پہلے آپ اپنی فکر کیجئے کہ مرنے کے بعد آپ کا کیا ہوگا؟ اس لئے کہ ائمہ اربعہ سے پہلے کا زمانہ خیر القرون کا زمانہ تھا، لوگوں کے اندر تدین، تقوی، خوف آخرت، خشیت الہی اور اتباع شریعت کا غلبہ تھا، وہ آپ کی طرح خواہش پرست اور ہوا وہوس کے دلدادہ نہیں تھے کہ.....
میٹھا میٹھا ہپ ہپ
کڑوا کڑوا تھو تھو
(20)ان چار اماموں کے والدین کس امام کی تقلید کرتے تھے ؟
جواب: قراء سبعہ اور ائمہ محدثین کے والدین کس کی قرآت پر قرآن اور کس کی حدیث کی کتاب پڑھتے تھے ؟
(21)امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد (رحمہم اللہ) کونسے امام کو مانتے تھے؟
جواب: سارے ائمہ کو مانتے تھے، البتہ کسی امام کی تقلید نہیں کرتے تھے، اس لئے کہ وہ خود مجتہد ومستنبط تھے، اور مجتہد کے لئے اجتہاد واجب ہے۔
(22)اگر میں ایک امام کو مانتا ہوں تو کیا باقی امام حق پر نہیں؟
جواب: ہم تو سارے ائمہ کی امامت تسلیم کرتے بلکہ برحق مانتے ہیں،ہاں اگر ماننے کا مطلب اس کے فیصلہ کے مطابق شریعت پر عمل کرنا ہو، تو یہ بتادیں کہ اگر آپ ایک نبی کو مانتے ہیں اور ایک قاری کی قرات پر قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں، تو کیا باقی انبیاء اور قراء حق پر نہیں؟
(23)اگر سب امام حق پر ہیں تو پھر میں ایک ہی امام کے پیچھے کیوں ؟
جواب: اس لئے کہ آپ خواہش پرست اور ہوا وہوس کے دلدادہ ہیں، اور شریعت خواہش پرستی سے منع کرتی ہے۔
(24)امام ایک دوسرے کے استاذ شاگرد تھے تو پھر ان کی فقہ الگ الگ کیوں ؟
جواب: جس طرح ائمہ محدثین کی کتابیں ایک دوسرے کا شاگرد ہونے کے باوجود الگ الگ ہیں، اسی طرح ائمہ کی فقہ بھی الگ الگ ہوگئی۔
(25)اگر سب امام حق پر ہیں تو پھر ان کے اندر آپس میں اختلاف کیوں ؟
جواب: جس طرح سارے صحابہ اور سارے قراء کا حق پر ہونے کے باوجود آپس میں اختلاف ہے، اسی طرح ائمہ کا بھی اختلاف ہے، اس لئے کہ کسی بھی امام کا کوئی ایسا قول نہیں جو کسی صحابی سے ثابت نہ ہو۔
(26)ان چار اماموں میں سے باقی تین اماموں کی اپنی لکھی ہوئی کتاب آج بھی موجود ہے، لیکن ابوحنیفہ کی لکھی ہوئی کتاب کا نام کیا ہے؟ یہ کتاب حنفی مسجدوں میں کیوں نہیں پڑھائی جاتی؟
جواب: اگر اطاعت وفرماں برداری یا تقلید واتباع کے لئے مطاع ومتبوع کے ہاتھ کی لکھی ہوئی کتاب کا ہونا ضروری ہے، تو یہ بتائیے کہ امام الائمہ بلکہ امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک یا صحابہ کرام کے ہاتھ کی لکھی ہوئی کونسی کتاب دنیائے اہل حدیث میں موجود ہے، جسے آپ لوگ اپنی مساجد میں پڑھ پڑھا کر عمل کرتے ہیں؟
(27)اگر امام کو نہ ماننا گناہ ہے، تو ایک امام کو ماننے سے دوسرے تین امام چھوٹ جاتے ہیں، اس کا گناہ میرے سر پر کیوں؟
جواب: جس طرح ایک نبی اور ایک قاری کو ماننے سے باقی انبیاء اور قراء نہیں چھوٹتے، اسی طرح ایک امام کو ماننے سے دوسرے ائمہ بھی نہیں چھوٹتے، اس لئے کہ سب کی تعلیم ہے کہ شریعت پر عمل کرو اور خواہشات کی اتباع نہ کرو، اور یہ ایک امام کی مان کر ہی ہوسکتا ہے، آپ گناہ کی بالکل فکر نہ کریں۔
(28)جب اماموں نے اپنے آپ کو حنفی، شافعی، مالکی یا حنبلی جیسی نسبتوں سے نہیں جوڑا، تو پھر میں کیوں اپنے آپ کو ایسی نسبتوں سے جوڑتا/جوڑتی ہوں؟
جواب: جب امام الانبیاء خاتم النبین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپ کو محمدی، اہل حدیث، اہل اثر اور سلفی اثری وغیرہ نسبتوں سے نہیں جوڑا، تو پھر آپ کیوں آپ آپ کو ان نسبتوں سے جوڑتے/جوڑتی ہیں؟ اور ان ناموں سے متعارف کراتے /کراتی ہیں؟
(29)کیا ہمارے امام نے ہم سے کہا ہے کہ صرف میری ہی تقلید کرنا، اور میرے علاوہ کسی کی بھی تقلید نہ کرنا؟
جواب: امام نے یہ کہا ہے کہ قرآن وسنت پر عمل کرنا اور خواہشات کی پیروی مت کرنا، اور یہ ایک امام کی ہی تقلید سے ہوسکتا ہے، جیسا کہ علماء امت نے صراحت کی ہے۔
(30)کیا میرا منہج وہی ہے جو ہمارے امام کا تھا ؟
جواب: جی ہاں ہمارا منہج تو وہی ہے جو ہمارے امام کا ہے، البتہ چونکہ آپ کا کوئی امام ہی نہیں اس لئے آپ لامنہج اور لامذہب ضرور ہیں
(31)میں اپنے امام کے بارے میں کتنا جانتا ہوں ؟
جواب: جب آپ کا کوئی امام ہی نہیں، تو آپ کیا جانیں گے، البتہ اتنا ضرور بتادیجئے کہ جس نبی کا آپ کلمہ پڑھے ہیں، اور جن کی امامت اور رسالت ونبوت کا اقرار جزو ایمان ہے، ان کے بارے میں آپ کتنا جانتے ہیں ؟
(32)کتنی کتاب اب تک میں نے یا میرے گھر والوں نے اپنے امام کی پڑھی ہے ؟
جواب: جب آپ اور آپ کے گھر والوں کا کوئی امام ہی نہیں، تو اس کی کتاب کیا پڑھیں گے؟ ہاں یہ ضرور بتادیجئے کہ آپ یا آپ کے گھر والوں نے اب تک امام الائمہ بلکہ امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی اب تک کتنی کتابیں پڑھی ہیں ؟
(33)قبر میں فرشتے کیا مجھ سے یہ پوچھیں گے کہ بتا تیرا امام کون ہے؟ 
جواب: یہ تو نہیں پوچھیں گے، البتہ جو سوال کریں گے ان کا جواب ان ائمہ کی تقلید کے بغیر مشکل ہے۔
(34)قیامت کے دن کیا مجھ سے یہ سوال کیا جائے گا کہ بتا تیرا امام کون تھا؟ اور تو اس کی تقلید کرتا تھا؟
جواب: یہ پوچھا جائے گا کہ بتا تو نے شریعت کے احکامات پر عمل کیا یا نہیں؟ اور شریعت کے غیر منصوص احکام پر غیر مجتہد کے لئے کسی مجتہد کی تقلید کے بغیر عمل کرنا دشوار ہے ۔
(35)قبر میں یا قیامت کے دن باقی تین اماموں کے بارے میں کیا جواب دوں گا ؟
جواب: آپ اگر کسی ایک کی مان کر احکام شرعیہ پر عمل کرلئے تو باقی ائمہ کے بارے میں آپ سے پوچھا ہی نہیں جائے گا، تو جواب کی تیاری کیسی؟
ہاں اگر عامی اور جاہل ہونے کے باوجود کسی کی نہیں سنے، تو آپ کی جہالت آپ کو نہیں بچاسکے گی، اور یہ ضرور پوچھا جائے گا کہ جب معلوم نہیں تھا تو اپنی خواہش پرستی ونفس پرستی کے مقابلے میں کسی اولواالامر اور اہل ذکر سے پوچھ کر عمل کیوں نہیں کیا ؟
(36)اگر میں نے اپنے امام کا نام بتا بھی دیا، اور اگر مجھ سے یہ سوال ہوگیا کہ صرف اس امام ( مثلا امام شافعی) کی ہی تقلید کو کیوں چنا؟ تو اس کا میں کیا جواب دوں گا ؟؟
جواب: ایسی صورت میں کسی اور کے بارے میں پوچھا ہی نہیں جائے گا، اس لئے کہ کسی ایک امام کی تقلید سے مقصود اصلی (احکام شرعیہ پر عمل) حاصل ہوجاتا ہے۔
(37)کیا میری یا میرے والدین کی یا میرے علماؤوں ٭کی اتنی حیثیت ہے کہ کس امام کو مانا جائے اور کس کو چھوڑا جائے ؟
جواب: حیثیت نہیں، بلکہ بتوفیق الہی صحیح اور غلط، اور حق وباطل کی تمیز اور صحیح راستے کی رہنمائی ہے، جسے توفیق خداوندی اور ارائة الطریق کہا جاتا ہے، اور یہی ارائة الطریق کا فریضہ ہم آپ کے ساتھ بھی انجام دے رہے ہیں،
اللہ ہماری اور آپ کی راہ راست کی رہنمائی فرمائے، اور تاحیات اس پر قائم رکھے۔
(38)کیا یہ لوگ امام سے زیادہ تقوی والے اور علم والے ہیں ؟
جواب: امام سے زیادہ تو نہیں، البتہ آپ، آپ کے علماء اور والدین سے علم وتقوی میں زیادہ ہونے میں کوئی شک نہیں، اس لئے کہ آپ کے علماء (جو درحقیقت جہلاء ہیں) خود دین حق سے جاہل اور غلط راستے پر ہیں، تو پھر ان کے شانہ بشانہ چلنے والے آپ اور آپ کے والدین کے پاس کہاں سے علم اور تقوی آئے گا۔
(39)اور ایک خاص سوال یہ ہے کہ جب یہ امام نہیں تھے تو مسلمان کس کی تقلید کرتے تھے ؟
جواب: جس طرح قراء سبعہ اور ائمہ محدثین سے پہلے قرآن کریم کی تلاوت اور حدیث پڑھی پڑھائی جاتی تھی، اسی طرح غیر منصوص مسائل پر عمل بھی ہوتا تھا۔
٭بھائیو! اگر آپ کے پاس ان سوالات کے جوابات نہیں ہیں، تو معاف کرنا، آپ نہ حنفی ہیں، نہ مالکی اور نہ حنبلی
جواب: سارے سوالات کے جوات بحمد اللہ ہیں، بلکہ دے بھی دیئے، اور یقینا ہم مسلکا حنفی ہیں، والحمد للہ علی ذلک
٭اور شاید آپ کو یہ بھی نہیں پتہ کہ آپ کیا ہیں ؟؟
جواب: ہمیں تو اچھی طرح معلوم ہے کہ ہم دینا مسلم، مسلکا حنفی اور نسبتا دیوبندی ہیں، البتہ آپ کیا ہیں؟ اس کی وضاحت ضرور فرمادیں۔
اور کچھ سوالات:
جواب: جی! فرمائیں، ہم بھی خدمت کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔
(40)وہ کونسا امام ہوگا جو اللہ کے آگے ہماری سفارش کے لئے سجدہ میں جائے گا ؟
جواب: خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم، اور انہی کے لائے ہوئے دین پر عمل کرنے کے لئے ہم نے ائمہ کی تقلید اختیار کیا ہے۔
(41)وہ کونسا امام ہوگا جس کی سفارش ہمارے حق میں اللہ قبول کرے گا ؟
جواب: امام الانبیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم، اور دیگر مقبول بارگاہ خداوندی، جنہیں خاص اجازت حاصل ہوگی۔
(42)وہ کونسا امام ہوگا جو حوض کوثر پر کھڑا ہوگا ؟
جواب: خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہونگے، اور اپنے لائے ہوئے دین میں تبدیلی کرنے والوں کو سحقا سحقا لمن بدل دینی کہہ کر حوض سے دور بھگائیں ۔

(43)وہ کونسا امام ہوگا جس کے بارے میں ہم سے قبر میں سوال ہوگا ؟
جواب: خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، اور انہی کی شریعت پر عمل کرنے کے لئے ہم نے ائمہ مجتہدین کے دامن کو پکڑا ہے۔
(44)وہ کونسا امام ہے جس کی اطاعت اللہ کی اطاعت اور جس کی نافرمانی اللہ کی نافرمانی ہے؟ 
جواب: خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، اور اسی اطاعت کے جذبہ اور نافرمانی سے بچنے کے لئے ہم نے ائمہ مجتہدین کی تقلید اختیار کیا ہے۔
(45)وہ کونسا امام ہے جس کا کلمہ ہم نے پڑھا ہے؟
(46)وہ کونسا امام ہے جو اپنی امت کی خاطر رویا ہے؟
(47)وہ کونسا امام ہے جس کے لائے ہوئے دین پر ایمان لانا نجات کے لئے ضروری ہے؟ 
جواب: خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، اور انہی کے لائے ہوئے دین اور شریعت پر عمل کرنے اور خواہش پرستی سے بچنے کے لئے ہم نے ائمہ کی تقلید کی ہے۔
(48)سوچئے! کیا ہم اتنے غافل ہیں اسلام سے؟
جواب: اگر ہم اسلام سے غافل ہوتے، تو اس کے احکامات پر عمل کرنے کے لئے کسی اولواالامر اور اہل ذکر کی تقلید ہی کیوں کرتے؟ آپ کی طرح مادر پدر آزاد گھومتے پھرتے نہیں ؟؟
(49)کیا تقلید کی وجہ سے یہ امت فرقوں میں نہیں تی ؟
جواب: نہیں، اس لئے کہ مقلدین کا باہمی جو اختلاف ہے وہ وہی ہے جس میں صحابہ وتابعین باہم مختلف تھے، اور یہ کوئی معیوب نہیں!
البتہ اس سے شاید کسی بھی عقلمند کو انکار نہ ہو کہ جب تک ہند وپاک میں تقلید پر اتفاق رہا، سارے مسلمان باہم شیر وشکر تھے، کسی کے اندر اسلام کی طرف غلط نگاہ بھی اٹھانے کی ہمت نہیں تھی،لیکن افسوس! کہ جب آپ کے آباؤ واجداد نے ترک تقلید اور مادر پدر آزادی کا نعرہ لگایا، اسی وقت سے آج تک امت ایک پلیٹ فارم پر جمع نہیں ہوسکی، اور وہ مسلمان جو اب تک شیر وشکر تھے، باہم دست وگریباں ہونے لگے،اور آج اس کے نتیجہ میں جو کچھ مسلمانوں کے ساتھ ہورہا ہے، دنیا دیکھ رہی ہے،
یہ کوئی لفاظی نہیں بلکہ وہ حقائق ہیں جنہیں آپ کے بڑوں نے بھی تسلیم کیا ہے۔
(50)اگر اختلاف اس امت کے لئے رحمت ہے تو پھر ہم اور زیادہ اختلاف کریں ؟
جواب: ہند وپاک میں آپ کے جنم لئے ہوئے ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے، اور ان ایام میں آپ نے جمہور امت ( جو ائمہ اربعہ کی تقلید پر متفق تھی) سے قادیانیت، نیچریت، انکار حدیث، مودودیت اور نہ جانے کتنے فرقے اپنی کوکھ سے جنم دیئے، اب باقی کیا رہ گیا ہے، جو اور کریں گے۔
     خدا را امت کو اب اور فرقوں میں مت تقسیم کیجئے، بہت ہوگیا، اختلاف کا جو مقصد تھا وہ بھی آپ کو حاصل ہوگیا، جاگیریں اور جائیدادیں بھی ملیں، انگریز ملک چھوڑنے کے باوجود اب تک آپ کے احسانوں کو فراموش نہیں کرسکا، 
فی الحال اسلام پر ہرچہار جانب سے حملے ہورہے ہیں، سب کا نشانہ واحد اسلام ہے، سب کی نگاہیں اسلام کی طرف اٹھی ہوئی ہیں، ہر ایک موقع کی تلاش میں گھات لگائے بیٹھا ہے، ایسے وقت میں امت مسلمہ کے اتحاد کی سخت ضرورت ہے،
خدا را! خدا را! امت کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوشش کرو، اور جو ایک ہیں ان میں انتشار نہ پیدا کرو۔
اللہ ہم سب کو صحیح راستے پر چلنے اور باطل وگمراہ راستے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اللہم اھدنا الصراط المستقیم
اللھم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ۔
٭٭٭

     

عقیدہ وحدت الوجود

جاوید خان صافی ﷾
   
  اہل حدث عرف وکٹورین علماء دیوبند پر بھتان لگاتے ہیں کہ علماء دیوبند وحدتُ الوجود کا عقیدہ رکھتے ہیں جوکہ ایک کفریہ شرکیہ عقیدہ ہے ۰ یہ بہتان فرقہ جدید اہل حدیث میں شامل چند جہلاء نے پھیلایا ہوا ہے اور اپنی طرف سے عوام کواس مطلب بتلاتے ہیں پھران سے کہتے ہیں یہ علماء دیوبند کا عقیدہ ہے ، اس باب میں ایک مختصر مگرجامع مضمون لکھنا چاہتا ہوں ۔
     1 ۔علماء حق علماء دیوبند پر ایک بہتان چند جہلاء ونام نہاد اہل حدیث کی طرف سے یہ بھی لگایا جاتا ہے کہ یہ لوگ اللہ تعالی کے لئے حُلول واتحاد کا عقیدہ رکھتے ہیں جس کو ” وحدتُ الوجود “ کہا جاتا ہے اور اس کا مطلب ومفہوم یہ لوگ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ( معاذاللہ ) اللہ تعالی تمام کائنات کے اجزا مثلا حیوانات جمادات نباتات وغیرہ ہر چیز میں حلول کیا ہوا ہے یعنی مخلوق بعینہ خالق بن گیا اور جتنی بھی مشاہدات ومحسوسات ہیں وہ بعینہ اللہ تعالی کی ذات ہے ۔)معاذاللہ ثم معاذاللہ وتعالی اللہ عن ذالک علوا کبیرا (
     ناحق بہتان والزام لگانے والے جہال ومتعصبین کا منہ کوئی بند نہیں کرسکتا اور نہ کوئی مقرب جماعت علماء اس سے محفوظ رہ سکتی ہے اور ہرزمانے میں کمینے اور جاہل لوگوں نے علماء ربانیین کی مخالفت وعداوت کی ہے ،لہذا جولوگ اپنی طرف سے ” وحدتُ الوجود ” کا یہ معنی کرکے اس کو علماء دیوبند کی طرف منسوب کرتے ہیں اور عوام الناس کو گمراہ کرتے ہیں یقینا ایسے لوگ اللہ تعالی کے پکڑ سے نہیں بچ سکیں گے علماء دیوبند اور دیگر صوفیہ کرام ” وحدتُ الوجود “ کے اس کفریہ معنی ومفہوم سے بری ہیں ۔ واضح رہے کہ کچھ بدبخت لوگ اس بیان وتصریح کے بعد بھی یہ بہتان لگاتے رہیں گے کیونکہ ان کا مقصد حق بات کو قبول کرنا اور اس پرعمل کرنا نہیں ہے بلکہ ان کا مقصد وحید توابلیس کی پیروی کرتے ہوئے علماء حق علماء دیوبند کی مخالفت وعداوت ہی ہے چاہے علماء دیوبند ہزار باریہ کہیں کہ ہمارا یہ عقیدہ نہیں ہے ہماری نصیحت تو ایسے عام ناواقف لوگوں کے لئے ہے جوایسے جھوٹے اورجاہل لوگوں کی سنی سنائی باتوں کی اندھی تقلید کرکے اپنی عاقبت خراب کر رہے ہیں۔ اور اس بارے میں امام شعرانی شافعی رحمہ اللہ کے یہ نصیحت آمیز کلمات ذہن میں رکھیں قسم اٹھاکرفرماتے ہیں کہ:
     جب بتوں کے پجاریوں کو یہ جراءت نہیں ہوئی کہ اپنے معبودان باطلہ کو عین اللہ تعالی کی ذات تصور کریں بلکہ انہوں نے بھی یہ کہا جیسا کہ قرآن میں ہے
    مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ ( سورہ  ٣٩،الزمر: 3 )
     یعنی ہم ان بتوں کی عبادت اس لئے کرتے ہیں تاکہ یہ ہمیں اللہ کے قریب کردیں تو اولیاء اللہ کے متعلق یہ بہتان لگانا کہ وہ ، حلول واتحاد ، کا عقیدہ رکھتے تھے سراسر بہتان اور جھوٹ ہے اور ان کے حق میں ایک محال وناممکن دعوی ہے جس کو جاہل واحمق ہی قبول کریگا۔
     2 ۔جن صوفیہ کرام اور بزرگان دین کے کلام میں ” وحدتُ الوجود “ کا کلمہ موجود ہے اور ایسے لوگوں کی فضل وعلم تقوی و ورع کی شہادت کے ساتھ ان کی پوری زندگی اتباع شرع میں گذری ہے تو اس حالت میں ان کے اس کلام کی اچھی تاویل کی جائے گی جیسا کہ علماء محققین کا طریقہ ہے اس قسم کے امور میں ۔اور وہ تاویل اس طرح کہ ایسے حضرات کی مراد ” وحدتُ الوجود ” سے وہ نہیں ہے جو ملحد و زندیق لوگوں نے مراد لیا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے ۔ اس کلمہ اور اس طرح کے دیگر کلمات جو صوفیہ کرام کی کتب میں وارد ہوئے ہیں جو بظا ہر خلاف شرع معلوم ہوتے ہیں ان کی مثال اس اعرابی کی طرح ہے جس کی دفاع خود آپ ﷺ نے کی ہے صحیح بخاری ومسلم کی روایت ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ وہ جنگل بیابان میں اپنی سواری پر سفر کر رہا تھا اس پر اس کا کھانا پینا بھی تھا لہذا وہ تھکاوٹ کی وجہ سے آرام کے کے لئے ایک درخت کے سایہ میں لیٹ گیا جب اٹھا تو دیکھا کہ سواری سامان سمیت غائب ہے وہ اس کو تلاش کرنے کے لئے گیا لیکن اس کو نہیں ملا لہذا پھر اس درخت کے نیچے مایوس ہو کرلوٹ آیا اور موت کے انتظار میں سو گیا پھر جب اس کی آنکھ کھلی تو کیا دیکھتا ہے کہ اس کی سواری بھی موجود ہے اور کھانا پینا بھی وہ اتنا خوش ہوا بلکہ خوشی وفرحت کے اس انتہا پہنچا کہ اس کی زبان سے یہ الفاظ نکل گئے
ﺍﻟﻠﻬﻢ ﺍﻧﺖَ ﻋﺒﺪﯼ ﻭﺍﻧﺎ ﺭﺑُﮏ 
یعنی اے اللہ تو میرا بندہ میں تیرا رب ، اسی حدیث میں ہے کہ اللہ تعالی بندہ کی توبہ سے اِس آدمی سے بھی زیادہ خوش ہوتے ہیں ۔
جاء فی الحدیث الذی رواہ الإمام مسلم للہ أشد فرحاً بتوبة عبدہ حین یتوب إلیہ من أحدکم کان على راحلتہ بأرض فلاة فانفلتت منہ وعلیھا طعامہ وشرابہ فأیس منھا فأتى شجرة فاضطجع فی ظلھا وقد أیس من راحلتہ فبینما ھو کذلک إذ ھو بھا قائمة عندہ بخطامھا ، ثم قال من شدة الفرح : اللھم أنت عبدی وأنا ربک ! أخطأ من شدة الفرح 
 اوکما قال النبی ﷺ 
اب اس حدیث میں اس آدمی کا قول اے اللہ تو میرابندہ میں تیرا رب کیا ان ظاہری الفاظ کو دیکھ کر نام نہاد اہل حدیث وہی حکم لگا ئیں گے جو دیگر اولیاء وعلماء کے ظاہری الفاظ کو لے کر اپنی طرف سے معنی کرکے حکم لگاتے ہیں ؟ یا حدیث کے ان ظاہری الفاظ کی تاویل کریں گے ؟خوب یاد رکھیں کہ ” وحدتُ الوجود “ کا مسئلہ نہ ہمارے عقائد میں سے ہے نہ ضروریات دین میں سے ہے، نہ ضروریات اہل سنت میں سے، نہ احکام کا مسئلہ ہے کہ فرض واجب سنت مستحب مباح کہا جائے بلکہ صوفیہ کرام کے یہاں یہ ایک اصطلاحی لفظ ہے اور یہ صوفیہ کرام کے یہاں محض احوال کا مسئلہ ہے فقط اور اس سے وہ صحیح معنی ومفہوم مراد لیتے ہیں ۔
٭٭٭
     

عقائد علماء اہلحدیث...تیسری اور آخری قسط

عباس خان ﷾

عقیدہ نمبر 31
اگر امام کی نماز فاسد ہو جائے تو فقط امام نماز لوٹائے مقتدی نہیں۔
امام اہلحدیث نواب وحید الزمان صاحب فرماتے ہیں:
امام حالت جنابت یا بغیر وضو کے نماز پڑھا دے یا کسی وجہ سے اس کی نماز فاسد ہو جائے تو فقط امام اپنی نماز لوٹائے مقتدیوں کو لوٹانے کی ضرورت نہیں اور نہ  ہی امام کا ذمہ ہے کہ وہ مقتدیوں کو یہ بتائے کہ  میں نے اس حالت میں نماز پڑھا دی ہے۔ (نزل الابرار ج 1 ص 101)
جبکہ  نبی کریمﷺ نے امام کو ضامن قرار دیا ہے جسکا مطلب یہ ہے کہ اگر اسکی نماز صحیح ہو گی تو مقتدیوں کی بھی صحیح ہو گی اور اگر اس کی نماز فاسد ہو گی تو مقتدیوں کی بھی فاسد ہو گی۔
حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا امام ضامن ہوتا ہے اور مؤذن امانت دار ہوتا ہے ۔
(مسند احمد ج 9 ح 4341)

عقیدہ نمبر 32
نا پاک اور پلید کپڑوں میں نماز بلکل صحیح ہے۔
نواب نور الحسن صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں:
ناپاک کپڑوں (جن پر پیشاب ، پاخانہ  وغیرہ گند لگا ہو) میں نماز صحیح ہے۔(عرف الجادی ص 21)
نواب صدیق حسن خان صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں:
”نمازی کے جسم پر نجاست (پیشاب، پاخانہ) لگا ہوا ہوا ہو تو بھی نماز باطل نہیں“۔ (بدور الاہلہ ص 38)

عقیدہ نمبر 33
گدھی کتیا  سورنی سب کا دودھ اہلحدیث کے ہاں پاک ہے۔
مجدد اہلحدیث نواب صدیق حسن خان صاحب لکھتے ہیں
” گدھی کتیا ، سورنی سب کا دودھ پاک ہے“۔ (بدور الاہلہ ص 18)
امام اہلحدیث نواب وحید الزمان صاحب لکھتے ہیں:
”کتے اور خنزیر کا جھوٹا پانی ، دودھ وغیرہ بھی پاک ہے“۔ (نزل الابرار فقہ نبی المختار ج 1 ص 30)


عقیدہ نمبر 34
توسل شرک  اور ناجائز ہے۔
مولوی محمد احمد  غیرمقلد صاحب لکھتے ہیں:
وسیلہ کا یہی وہ غیر مشروط طریقہ ہے جو انسان کو شرک میں مبتلا کر دیتا ہے۔(فتاویٰ صراط مستقیم ص 75)
طالب الرحمٰن زیدی صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں:
کسی فوت شدہ نبی یا وی کا وسیلہ دینا جائز نہیں۔ (آئیے عقیدہ سیکھئے ص 159)
جبکہ حدیث  میں ہے کہ
حضرت انس  ؓ فرماتے ہیں  کہ جب حضرت عمرؓ کے زمانے میں قحط پڑتا تو حضرت عمرؓ حضرت عباسؓ کے وسیلے سے اس طرح دعا کرتے 
«اللَّهُمَّ إِنَّا كُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَسْقِينَا، وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِعَمِّ نَبِيِّنَا فَاسْقِنَا» (بخاری ج1 ص 137)
ایک اور حدیث میں  ہے
حَدَّثَنَا طَاهِرُ بْنُ عِيسَى بْنِ قَيْرَسَ المُقْرِي الْمِصْرِيُّ التَّمِيمِيُّ، حَدَّثَنَا أَصْبَغُ بْنُ الْفَرَجِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ شَبِيبِ بْنِ سَعِيدٍ الْمَكِّيِّ، عَنْ رَوْحِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الْخَطْمِيِّ الْمَدَنِيِّ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ، عَنْ عَمِّهِ عُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ ” أَنَّ رَجُلًا كَانَ يَخْتَلِفُ إِلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي حَاجَةٍ لَهُ , فَكَانَ عُثْمَانُ لَا يَلْتَفِتُ إِلَيْهِ , وَلَا يَنْظُرُ فِي حَاجَتِهِ , فَلَقِيَ عُثْمَانَ بْنَ حَنِيفٍ , فَشَكَا ذَلِكَ إِلَيْهِ , فَقَالَ لَهُ عُثْمَانُ بْنُ حَنِيفٍ: ائْتِ الْمِيضَأَةَ فَتَوَضَّأْ , ثُمَّ ائْتِ الْمَسْجِدَ فَصَلِّ فِيهِ رَكْعَتَيْنِ , ثُمَّ قُلِ: اللَّهُمَّ , إِنِّي أَسْأَلُكَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ يَا مُحَمَّدُ إِنِّي أَتَوَجَّهُ بِكَ إِلَى رَبِّكَ عَزَّ وَجَلَّ فَيَقْضِي لِي حَاجَتِي , وَتَذْكُرُ حَاجَتَكَ , وَرُحْ إِلَيَّ حَتَّى أَرُوحَ مَعَكَ , فَانْطَلَقَ الرَّجُلُ , فَصَنَعَ مَا قَالَ لَهُ عُثْمَانُ , ثُمَّ أَتَى بَابَ عُثْمَانَ , فَجَاءَ الْبَوَّابُ حَتَّى أَخَذَ بِيَدِهِ , فَأَدْخَلَهُ عَلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ , فَأَجْلَسَهُ مَعَهُ عَلَى الطِّنْفِسَةِ , وَقَالَ: حَاجَتُكَ؟ فَذَكَرَ حَاجَتَهُ , فَقَضَاهَا لَهُ , ثُمَّ قَالَ لَهُ: مَا ذَكَرْتَ حَاجَتَكَ حَتَّى كَانَتْ هَذِهِ السَّاعَةُ , وَقَالَ: مَا كَانَتْ لَكَ مِنْ حَاجَةٍ , فَأْتِنَا , ثُمَّ إِنَّ الرَّجُلَ خَرَجَ مِنْ عِنْدِهِ , فَلَقِيَ عُثْمَانَ بْنَ حُنَيْفٍ , فَقَالَ: لَهُ جَزَاكَ اللَّهُ خَيْرًا , مَا كَانَ يَنْظُرُ فِي حَاجَتِي , وَلَا يَلْتَفِتُ إِلَيَّ حَتَّى كَلَّمْتَهُ
حضرت عثمانؓ بن حنیفؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص حضرت عثمانؓ کے پاس ضرورت کیلئے آیا جایا کرتا تھا اور حضرت عثمان (غالباً  مصروفیت کی وجہ سے) اس کی طرف توجہ نہ فرماتے وہ شخص حضرت عثمان بن حنیفؓ سے ملا اور اس کی شکایت کی تو انہوں نے فرمایا کہ وضو  کرکے مسجد میں جا کر  دو رکعات نماز پڑھو اور پھر کہو اے اللہ میں آپ سے سوال کرتا ہوں آپکی طرف متوجہ ہوتا ہوں ہمارے پیارے نبیﷺ کے وسیلے سے۔
(معجم الصغير ج 1 ص 183-184  صحیح )

عقیدہ نمبر 35
عیسائیوں کا قبضہ بھی دارلاسلام ہوتا ہے۔
وکیل اہلحدیث محمد حسین بٹالوی صاحب لکھتے ہیں:
ہندوستان باوجود  یہ کہ عیسائی سلطنت کے قبضہ میں ہے دارالاسلام ہے۔٭(الاقتصاد فی مسائل اجہاد ص 25)

عقیدہ نمبر 36
حضرت عیسیٰؑ کے والد کا اثبات۔ العیاذ باللہ
مشہور غیرمقلد عالم عنایت اللہ اثری صاحب لکھتے ہیں:
عیسی علیہ السلام کی والدہ ماجدہ تو اپنا شوہر اور اس کا باپ بتا رہی ہے اور باپ بیٹا بھی دونوں اسے تسلیم فرما رہے ہیں مگر صدیوں بعد لوگوں نے انہیں بے پدر بتایا اور آپ کی والدہ کو بے شوہر بتایا کیا خوب ہے۔(عیون زمزم ص 40)
نوٹ:
اس عقیدہ میں حضرت عیسیؑ کے لئے والد ثابت کیا گیا ہے حالانکہ حضرت عیسیٰؑ بغیر باپ کے پیدا ہوئے قرآن یہی بتاتا ہے۔

عقیدہ نمبر 37
مرزئیوں کے پیچھے نماز پڑھنا
مولوی عبد العزیز صاحب سیکرٹری جمعیہ مرکزیہ اہلحدیث ہند لاہور صاحب ،غیرمقلد ثناء اللہ امرتسری صاحب (جو کہ فرقہ اہلحدیث کے  ہاں شیخ الاسلام ہیں )کے بارے میں لکھتے ہیں۔
”آپ (ثناء اللہ امرتسری صاحب) نے لاہوری مرزئیوں کے پیچھے نماز پڑھی“۔
”آپ نے فتویٰ دیا کہ مرزئیوں کے پیچھے نماز جائز ہے“
”آپ نے مرزئیوں کو عدالت میں مرزئی وکیل کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے مرزئیوں کو مسلمان مانا“۔
العیاذ باللہ
(فیصلہ مکہ ص 36)


عقیدہ نمبر 38
جانور ذبح کرتے وقت بسم اللہ پڑھنا ضروری نہیں۔
چنانچہ نواب نور الحسن خان صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں:
ذبح کرتے وقت بسم اللہ نہ پڑھی تو خیر ہے کھاتے وقت پڑھ لے۔(عرف الجادی 239)

عقیدہ نمبر 39
کپڑوں پر اگر حلال جانوروں کا پیشاب پاخانہ لگا ہوا ہو تو اس میں پڑھنی درست ہے۔
چنانچہ فرقہ اہلحدیث کے  ایک بڑے عالم لکھتے ہیں:
”اور جس کپڑے پر وہ (حلال جانوروں کا پیشاب پاخانہ) لگا ہوا ہو اس میں نماز پڑھنی درست ہے“۔٭
(فتاویٰ ستاریہ ج 1  ص 105)

عقیدہ نمبر 40
نماز کی طرف دعوت دینا درست نہیں۔
فرقہ اہلحدیث کے بڑے عالم طالب الرحمن صاحب کی ایک بڑی حماقت  لکھتے ہیں:
”کیا لوگوں کو نماز کی دعوت دینا اسوۂ رسولﷺ ہے ۔ اگر نہیں تو پھر نبیﷺ کے طریقے کو کیوں نہیں اپنایا جاتا“۔ (یعنی نماز کی دعوت نہ دی جائے)٭
(تبلیغی جماعت عقائد و نظریات ص 10)

عقیدہ نمبر 41
کتا پاک ہے اور اس کا پاخانہ بھی نجس نہیں۔
فرقہ اہلحدیث کے ایک بڑے  عالم جنہیں فرقہ اہلحدیث امام شوکانی کے نام سے جانتی ہے لکھتے ہیں:
حدیث کی وجہ سے صرف کتے کا لعاب نجس ہے علاوہ ازیں اس کی بقیہ مکمل ذات یعنی گوشت ، ہڈیاں ، خون بال وغیرہ پاک ہے کیونکہ اصل طہات  ہے اور اس کی ذات کی نجاست کے متعلق کوئی دلیل  موجود نہیں“۔
(فقہ الحدیث ص 147)
کتے کا پاخانہ بھی پاک ہے۔
چنانچہ امام اہلحدیث نواب وحید الزمان صاحب لکھتے ہیں:
اور لوگوں (غیرمقلدین) کا  اس میں بھی اختلاف ہے کہ کتے کا پاخانہ  نجس ہے یا نہیں لیکن حق بات یہ ہے کہ اس کے نجس ہونے کی کوئی دلیل نہیں“۔(نزل الابرار ص 50)
نواب نور الحسن خان صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں:
کتے اور خنزیر کے پلید ہونے کا دعویٰ ٹھیک نہیں۔(عرف الجادی ص 10)
عقیدہ نمبر 42
صحابہ کرامؓ میں سے بعض لوگ فاسق تھے العیاذ باللہ
امام اہلحدیث نواب وحید الزمان صاحب لکھتے ہیں:
”اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ میں سے جو فاسق تھے جیسے ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہایے ہی   معاویہ رضی اللہ عنہ، عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ، مغیر بن شیبہ رضی اللہ عنہاور سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہکے متعلق۔
(نزل الابرار ج 3 ص 94)
نعوذ باللہ من ذالک

عقیدہ نمبر 43
رام چندر اور لکشمن نبی ہیں اور انہیں نبی ماننا واجب ہے۔
فرقہ اہلحدیث کے امام اہلحدیث نواب وحید الزمان صاحب لکھتے ہیں۔
ہمارے لئے جائز نہیں کہ ہم دیگر انبیاء کی نبوت کا انکار کریں جن کا ذکر اللہ تعالٰی نے قرآن کریم میں نہیں کیا اور کافروں میں تواتر کے ساتھ وہ معروف ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ نیک انبیاء  تھے جیسے رام چندر لچھمن کرشن جی جو ہندؤں میں ہے اور زراتشت جو فارسیوں میں ہیں اور کنفیوس اور مہاتما بدھ جو چین اور جاپان میں ہے اور سقراط  جو یو نان میں ہیں ہم پر واجب ہے کہ ہم یوں کہیں ہم ان تمام انبیاء پر ایمان لائے اور ان میں  کسی ایک میں بھی فرق نہیں کرتے  اور ہم سب کے فرمان بردار ہیں۔(ہدایۃ المہدی ص 85)
حافظ عبد القادر صاحب روپڑی غیرمقلد اس کا دفاع کرتے ہوئے فرماتےہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید میں بعض انبیاء کا ذکر آیا ہے اور بعض کا نہیں آیا۔۔۔۔ آگے فرماتے ہیں۔۔۔ اللہ تعالٰی نے عرب کے سوا اور نبیوں کا ذکر نہیں کیا جیسے ہندوستان ، چین ، یونان ، فارس ، یورپ  افریقہ ، امریکہ جاپان اور برما وغیرہ ۔۔۔۔  اس لئے  ان نبیوں کی نبوت سے انکار کرنا جائز نہیں۔۔۔۔ (آگے امام اہلحدیث وحید الزمان صاحب کا حوالہ دے کر لکھتے ہیں۔) پس ہم پر واجب ہے کہ ہم کل انبیاء  پر ایمان لاویں اور ان میں سکی میں تفریق نہ کریں۔٭
(فتوحات اہلحدیث ص 148)
اگر قران پاک میں سب انبیاء کا ذکر نہیں آیا تو اس کا کیا مطلب ہے کہ کہیں سے بھی پکڑ پکڑ کے انبیاءٰ کی تعداد کو پورا کیا جائے؟ اور انہیں نبی ماننے کو واجب قرار دے دیا جائے؟ اور واجب کا انکاری گنہگار ہوتا ہے لیکن غیرمقلدین کے ہاں واجب اور فرض ایک ہی ہیں  لہذا   ان کے عقیدے کے مطابق رام چندر وغیرہ کو نبی نہ ماننے والا کافر ہوا؟

عقیدہ نمبر 44
نبی کریمﷺ ہر جگہ حاضر و ناظر ہیں۔
مشہور  اہلحدیث نواب صدیق حسن خان صاحب لکھتے ہیں:
”چنانچہ حضور اکرمﷺ نماز پڑھنے والوں کی ذات میں موجود اور حاضر ہوتے ہیں اسلئے نماز پڑھنے والے کو چاہئے کہ اس بات کا خصوصیت کے ساتھ خیال رکھے اور آپﷺ کی اس حاضری سے غافل نہ ہو“۔
(مسک الختام فی شرح بلوغ المرام ص 259-260)

عقیدہ نمبر 45
غیر اللہ سے مدد 
غیرمقلد عالم غلام رسول صاحب نبیﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
رحم یا نبی اللہ ترحم
یعنی  رحم کر اے اللہ کے نبی رحم کر
چونکہ جاہل غیرمقلدین کے ہاں کفر و شرک کے کوئی اصول متعین نہیں اسلئے ان کا جہاں جی چاہتا ہے کفر کفر کے فتوے لگاتے ہیں۔
امام اہلحدیث نواب وحید الزمان صاحب  فرماتے ہیں:
قبلۂ دیں مددی، کعبۂ ایماں مددی 
ابن قیم مددی قاضئ شوکاں مددی
ترجمہ:
اے میرے دین کے قبلہ مدد کر اے میرے ایمان کے کعبہ مدد کر اے ابن قیم مدد کر اے قاضی شوکانی مدد کر۔
(ہدیۃ المہدی صفحہ 23)
نواب صدیق حسن خان صاحب فرماتے ہیں :
یا سیدی یا عروتی و وسیلتی
و یا عدتی فی شدۃ ورخائی 
قد جئت بابک ضارعا متضرعا 
متاوھا بتفنس الصد بتنفس الصعداء
مالکی ورائک مستغاث فارحمن 
یا رحمۃ للعالمین بکائی
ترجمہ:
اے میرے آقا اے میرے سہارے اور اے میرے وسیلے اور اے خوشحالی و بدحالی میں میری متاع میں روتا گڑ گڑاتا اور ٹھنڈی آہیں بھرتا ۔ آپ کے درپہ آیا ہوں آپ کے علاوہ میرا کوئی فریاد رس نہیں  ۔ سو اے رحمۃ للعالمین میری گریہ وزاری پر رحم فرما۔(ماثر صدیقی  ج 2 ص 30- 31)
غیرمقلدین سے سوال ہے کہ کیا ان کے یہ علماء مشرک ہوئے یا نہیں؟
 چونکہ غیرمقلدین کے ہاں کسی  پر کوئی فتوی دینا یا اس کی تکفیر کرنے کوئی احتیاط نہیں اسلئے غیرمقلدین کے ان علماء کا مشرک ہونا لازم آتا ہے۔

عقیدہ نمبر 46
زیادہ بھوک لگتی ہو تو روزہ معاف
نوب نور الحسن صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں:
روزہ رکھنے کیلئے استطاعت شرط ہے اس لئے جس کو بہت بھوک پیاس لگتی ہو یا جس کو بہت بھوک لگتی ہو اس کو روزہ رکھنا واجب نہیں۔
(عرف الجادی ص 80)

عقیدہ نمبر 47
عام عورتوں کو پردہ کرنے کی ضرورت نہیں
امام اہلحدیث نواب وحید الزمان صاحب لکھتے ہیں:
عورتوں کو جائز ہے کہ غیر مردوں کو دیکھیں البتہ ازواج مطہرات کو یہ منع تھا۔(نزل الابرار ج 3 ص 74)
مجدد اہلحدیث نواب صدیق حسن خان صاحب لکھتے ہیں:
پردہ کی آیات خاص ازواج مطہرات ہی کے بارے میں وارد ہوئی ہیں امت کی عورتوں کے واسطے نہیں ہیں۔
(البیان المرصوص ص 168)
نور الحسن صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں:
وہ آیت جن میں  پردہ کرنے کا حکم ہے وہ صرف رسول خداﷺ کی بیویوں کے ساتھ مختص ہے۔
(عرف الجادی ص 52)

عقیدہ نمبر 48
ماں بہن بیٹی وغیرہ  کی قبل و دبر کے سوا پورا بدن دیکھنا جائز ہے۔
نور الحسن صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں:
ماں بہن بیٹی وغیر ہ کی قبل و دبر (یعنی اگلی پچھلی شرمگاہ) کے سوا پورا بدن دیکھنا جائز ہے۔(عرف الجادی ص 52)

عقیدہ نمبر 49
کافر کے پیچھے نماز جائز 
امام اہلحدیث نواب وحید الزمان صاحب لکھتے ہیں:
ولو اخبر بعد الصلوۃ بانه کافر فلا يعيدون
نماز پڑھانے کے بعد کافر نے  بتلایا کہ وہ کافر ہے تو بھی مقتدی اپنی نماز  کو نہیں دہرائیں گے۔(کنز الحقائق ص 24)
غیرمقلدین کا اس پر عمل:
خود غیرمقلدین کے شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری صاحب مرزئیوں کے پیچھے نماز پڑھتے تھے(فیصلہ مکہ ص 36)

عقیدہ نمبر 50
قضا نمازیں معاف
نور الحسن خان صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں
اس پر کوئی دلیل نہیں ہے کہ  جو نماز بلا عذر شرعی چھوڑ دی گئی ہو اس کی قضا واجب ہے۔(عرف الجاد ی ص 35)

علماء اہل حدیث اور ان کی تربیت کردہ  انکی نجس عوام کے چند عقائد و نظریات  جو ان میں پائے جاتے ہیں اور کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔
1۔کرامت صاحب کرامت کے اختیار میں ہوتی ہے اللہ کے نہیں۔ 
2۔فقہاء سب گمراہ تھے۔
3۔نماز میں  آہستہ آمین کہنے والا یہودی ہے۔
جبکہ  خود یہ لوگ صرف فرض نماز میں دو جگہ اونچی آمین کہتے ہیں اور بقیہ 22 جگہ پر یہودیوں کی طرح کھڑے رہتے ہیں اور عورتین تو ان کی ہر وقت ہی یہودیوں کی طرح  نماز پڑھتی ہیں۔ 
4۔اجماعی  اور غیر اجتہادی مسائل میں اجتہاد کا کرنا
5۔قرآنی تعویذ لٹکنا بھی شرک ہے۔
6۔جہاں اللہ اب موجود ہے وہاں مخولوقات کو پیدا کرنے سے پہلے موجود نہ تھا
7۔قبر میں جسم عذاب و ثواب سے بری ہوتا ہے۔ 
8۔تین طلاق تین نہیں۔
9۔ قبر میں روح کے لوٹنے کا انکار 
جبکہ قبر میں روح کا لوٹنا صحیح صریح حدیث سے  بھی ثابت ہے۔
” حضرت براء بن عازبؓ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ ایک انصاری کے جنازہ کیلئے نکلے  اور قبرستان میں پہنچے لیکن ابھی تک قبر تیار نہیں ہوئی تھی آپﷺ بھی وہاں جلوہ افروز ہوئے اور ہم بھی آپﷺ کے پاس ہی بیٹھ گئے آپ نے (ایک طویل حدیث میں)  مومن اور کافر کی وفات کا تذکرہ فرمایا اس میں مومن کے بارے میں یہ ارشاد  مذکور ہے کہ :
 ”مومن کی روح کو پھر (مرنے کے بعد) ساتوں آسمان پر پہنچا دیا جاتا ہے اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ میرے بندے کا نام علیین میں درج کر دو اور اس کو زمین کی طرف لوٹا دو کیونکہ میں نے ان کو زمین سے پیدا کیا ہے اور اسی میں ان کو لوٹاؤنگا اور اسی سے دوسری مرتبہ نکالوں گا پس اس کی روح اس کے جسم میں لوٹائی جاتی ہے تو اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں ”من ربك“ تمہارا رب کون ہے۔۔۔ الخ“
اور اسی حدیث میں کافر کے بارے میں یہ الفاظ مذکور ہیں کہ 
”آسمانوں کے دروازے اس کیلئے نہیں کھلتے اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ اس کی کارگذاری اور نام وغیرہ سجین میں لکھ دو جو ساتویں زمین میں ہے پھر اسکی روح وہاں سے پھینکی جاتی ہے پھر آپؐ نے ارشاد خدا وندی پڑھا کہ جو شخص اللہ تعالٰی کے ساتھ شرک کرتا ہے پس گویا کہ وہ آسمان سے گرا اور اس کو پرندے اچک کر لے گئے یا ہوا نے  گہرے گڑھے میں ڈال دیا۔ اور پھر اس کی روح اس کے جسم میں لوٹائی جاتی ہے اور اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں ”من ربك“ تیرا رب کون ہے ۔۔۔ الخ“
امام حاکمؒ اس روایت کی متعدد اسانید نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
«هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ، فَقَدِ احْتَجَّا جَمِيعًا بِالْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو وَزَاذَانَ أَبِي عُمَرَ الْكِنْدِيِّ، وَفِي هَذَا الْحَدِيثِ فَوَائِدُ كَثِيرَةٌ لِأَهْلِ السُّنَّةِ وَقَمْعٌ لِلْمُبْتَدِعَةِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ بِطُولِهِ، وَلَهُ شَوَاهِدُ عَلَى شَرْطِهِمَا يُسْتَدَلُّ بِهَا عَلَى صِحَّتِهِ» .
”یہ حدیث بخاری اور مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔(اگے فرماتے ہیں) اس حدیث میں اہل سنت کے لئے کئی فوائد اور اہل بدعت کے عقائد کے قلع قمع کا خاصا ثبوت موجود ہے“۔ 
[المستدرك على الصحيحين : کتاب الإيمان :أَمَا حَدِيثُ مَعْمَر]
10۔اللہ کی صفت حاضر ناظر کا انکار
11۔ بدعی طلاق کو واقع نہ کرنے فتویٰ دینا
12۔ سلف احناف پر لعن طعن کرنا۔
13۔بزرگ گان دین کے اشعار  اور  صوفیا کی عبارات میں سے من پسند عقیدہ اخذ کرکے اس کی تکفیر کر لینا۔
14۔ اولی الامر سے فقیہ مراد لینے کو غلط کہنا
حضرت جابر بن عبداللہ  ؓ” اس آیت  (أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ) کی تفسیر میں فرماتے ہیں  ہیں کہ أُولِي الْفِقْهِ وَالْخَيْر”اولی الامر سے مراد  فقہ  والے ہیں“ یعنی کہ فقہاء کرام  ہیں۔امام حاکمؒ  اس کو حدیث کونقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔ هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ ”یہ حدیث صحیح ہے“۔(مستدرک علي الصحیحین جلد۱ص۲۱۱:صحیح)
محدثین کے قاعدے کے مطابق صحابی کی تفسیر مسند اور مرفوع ہوتی ہے  یعنی آنحضرتﷺ کا فرمان ہوتی ہے اور اس کی طرح حجت ہوتی ہے۔
★امام حاکم ؒ فرماتے ہیں:
” تَفْسِيرَ الصَّحَابِيِّ حَدِيثٌ مُسْنَدٌ“ ۔(المستدرك على الصحيحين ج۱ صفحہ ۷۲۶)
”صحابی کی تفسیر مسند ہوتی ہے“۔(یعنی آنحضرتﷺ کا فرمان ہوتی ہے)
15۔ائمہ اربعہؒ کے اجتہادی اختلافات کو قرآن سنت کی طرح لوٹانے کا دعویٰ کرکے خود عقائد میں بھی ایک دوسرے سے اختلاف کر لینا۔
16۔ ائمہ کے اجتہادی اختلافات کو گمراہی قرار دینا اور اپنے فروعی و اصولی دونوں اختلافات کو حق قرار دینا۔
17۔فقہ کے متعلق بدگمانیاں پھیلانا۔
18۔فقیہ کے کسی  غیر شرعی فعل  پر  کوئی شرعی حکم بتانے کو غلط کہنا۔
19۔ قرآن و سنت سے مسائل اخذ کرنے کا دعویٰ کرنا اور گند اور کچرہ جمع کرنا۔
20۔اپنے آپ کو فقہاء سے زیادہ حدیث کے سمجھنے والا کہنا۔
21۔ قرآن و حدیث کے ظاہری معنی پر اکتفاء کرلینا اور تفقہ حاصل نہ کرنا۔
22۔سماع موتیٰ کو شرک قرار دینا
جبکہ رسول اللہﷺ فرماتے ہیں:
«وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، إِنَّهُ لَيَسْمَعُ خَفْقَ نِعَالِهِمْ حِينَ يُوَلُّونَ عَنْهُ»[ المستدرك على الصحيحين (ج/1ص/536)  سندہ صحیح]
”  اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے وہ (مردہ) اسوقت جوتیوں کی کھٹکھٹاہٹ سنتا ہے جب لوگ اس سے واپس ہوتے ہیں“۔
 امام حاکمؒ حدیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ مُسْلِمٍ یعنی یہ حدیث صحیح ہے مسلم کی شرط پر۔
اس صحیح حدیث سے ثابت ہوا کہ مردہ دفن کے بعد قبر میں قبر سے واپس ہونے والے لوگوں کی جوتیوں کی کھٹکھٹاہٹ  اور آواز سنتا ہے اور جب یہ سنتا ہے تو انسانوں کی آواز بطریق اولٰی سنتا ہے۔ لیکن اس کے سننے سے یہ  بات نہیں کہ وہ سن کر  کسی کی کوئی مدد بھی کر سکتا ہے جیسا آج کل جاہل مشرکین کا خیال ہوتا  ہے اور یہ بھی نہیں کہ ان مشرکین کے ڈر سے بندہ نبیﷺ کی حدیث کا ہی انکار کر  دے۔
23۔غیر مدخولہ کو ایک لفظ سے تین طلاق دینے کو واقع نہ سمجھنا۔
24۔علماء سلف کی عبارات کو توڑ موڑ کر پیش کرنا اور ان کی طرف جھوٹ منسوب کر دینا۔ 
25۔فقہاء کرام پر کافروں والی آیات فٹ کرنا۔
26۔حدیث کے معنی میں صحابی کو بھی چھوڑنا تابعی کو بھی چھوڑنا اور ان کے خلاف اپنا من گھڑت معنی بیان کرنا۔
27۔اللہ کی ذات جہاں  مخلوقات کو پیدا کرنے سے پہلے تھی اب وہاں نہیں ہے۔ 
28۔عرش اور اللہ  کی ذات کے درمیان بھی  ایک  فاصلہ غیر اللہ یعنی مخلوق ہے۔
29۔تین طلاق کو تین ماننا گمراہی ہے۔ 
30۔حدیث اور سنت میں کوئی فرق نہیں۔
31۔عورتیں بھی مردوں کی طرح ٹانگیں چوڑی کرکے نماز پڑھیں
32۔جماعت اہلسنت حنفی شافعی مالکی حنبلی کے مقابلے میں شیعوں اور مرزئیوں کے عقائد و مسائل کو ترجیح دینا
33۔ فاتحہ کے قرات ہونے کا انکار
34۔تواتر کا انکار
35۔قرآن حدیث کو جان چھڑانے کا ذریعہ بنانا۔
36۔ضعیف اور موضوع حدیث میں کوئی فرق نہ کرنا۔
37۔اپنی ذاتی تحقیق سے فقہ لکھ کر اسے نبیﷺمعصوم  کی طرف منسوب کر دینا۔
38۔نبیﷺ کی قبر اطہر کے پاس یہ عقیدہ رکھ کر صلاۃ سلام پیش کرنا ہے کہ نبیﷺ یہ نہیں سن رہے
39۔ اپنی ہر  غلطی کو اجتہادی خطا کا نام دے دینا
40۔اللہ کی صفات متاشابہات کو لغت سے سمجھنا۔
41۔امام ابو حنیفہؒ پر لعن طعن کرنا۔
42۔ بلا دلیل بات کی پیروی کو اتباع کہنا غلط ہے۔
43۔طلاق کی دل میں نیت سے بھی نکاح نہیں ہو گا بلکہ زنا ہوگا
44۔حد نہیں کا مطلب جائز ہونا ہوتا ہے۔ 
غیرمقلدین کے کئی جاہل علماء نے فقہ کے خلاف اپنی کتب اور تقاریر میں ایسا کہا ہے اور کہتے ہیں اور انکی عوام بھی یہی کہتی ہے۔ 
اب  ذرہ یہ لوگ ایک سوال کا جواب دیں کہ 
پیشاب پینے پر کتنی حد ہے؟
اگر  حد ہے تو حد دکھائیں  اگر نہیں ہے تو پی کر دکھائیں۔ 
٭٭٭