مفتی آرزومند سعد ﷾
جھوٹ نمبر ٨:
ابو اقبال سلفی اپنی کتاب مذہب حنفی کا دین اسلام سے اختلاف نامی کتاب میں لکھتا ہے۔
حنفیہ سفر کے رخصت والی آیات کو نہیں مانتے۔ص ۲۳۔
الجواب:یہ بھی اسکا صریح جھوٹ ہے۔فقہ حنفی کے تمام کتابوں میں یہ مسئلہ درج ہے کہ مسافر کے لئے نماز قصر ہے اور روزہ نہ رکھنے کی رخصت ہے۔فقہ حنفی کے ہر کتاب میں اس کے لئے الگ باب قائم ہے۔مثلا کنز الحقائق کی شرح البحر الرائق میں ہے۔
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ـ مشكول - (5 / 82)
بَابُ الْمُسَافِرِ ) أَيْ بَابُ صَلَاةِ الْمُسَافِرِ ۔
اس طرح ہر کتاب میں یہ باب قائم ہے۔لیکن تعصب اور ضد میں آکر اس غیر مقلد نے احناف پر اتنا بڑا جھوٹ بول دیا کہ ایک عام آدمی بھی اسکے جھوٹ کو جان سکتا ہے۔
جھوٹ نمبر ٩:
ص ۳۶ پر ایک اور جھوٹ لکھا ہے کہ رفع الیدین کو نقل کرنے والے پچاس صحابہ ؓ ہیں۔
الجواب: یہ بھی صریح جھوٹ ہے جو انکے بڑوں سے متواتر چلا آرہا ہے۔غیر مقلدین کے لئے ہمارا کھلا چیلنج ہے کہ آپ پچاس کے بجائے صرف پچیس صحابہ کرام ؓ سے اپنی رفع یدین ثابت کردیں ۔یعنی چار رکعت والی نماز میں دس جگہ ہمیشہ کرنے اور نہ اٹھارہ جگہ نہ کرنے کی ۔ہم ان کو فی صحیح روایت انعام دینے کو تیار ہیں ۔
جھوٹ نمبر ١٠:
ص ۳۷ پر لکھا ہے کہ احناف آمین کی احادیث کونہیں مانتے ۔
الجواب: یہ بھی سفید جھوٹ ہے۔احناف کے اردو ،عربی ،فارسی بلکہ ہر زبان کی نماز سے متعلق کتاب اٹھا کر دیکھا جا سکتاہے کہ احناف کے نزدیک آمین کی کیا حیثیت ہے ۔ایک ان پڑھ شخص بھی دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے کہ یہ اللہ کا بندہ کتنا جھوٹ بولتا ہے ۔(فلعنۃ اللہ علی الکاذبین)
اسی صفحہ پر لکھا ہے کہ صحیح احادیث سے آمین کا بالجہر کہنا ثابت ہے ۔حالانکہ صفت صلوۃ النبی ﷺ میں غیر مقلدین کے شیخ البانی نے لکھا ہے کہ مقتدی کے اونچی آواز میں آمین کہنے پر کوئی صحیح حدیث موجود نہیں ہے۔
جھوٹ نمبر ١١:
ص ۴۴ پر تو حد کردی ۔کہتا ہے کہ صبح کی نماز کے قائم ہونے کے بعد والی احادیث کو نہ ماننے والا کب مسلمان رہ سکتا ہے ۔لیکن اسلام کے علاوہ ایک حنفی مذہب ہے جو اسکی اجازت دیتا ہے۔
الجواب: قارئین کرام اس جھوٹ پر تبصرہ کرنے کے بجائے آپ ان احادیث کا مشاہدہ کریں جن میں صحابہ کرام ؓ سے نماز صبح کے قائم ہوتے ہوئے صبح کی سنتیں پڑھنا منقول ہیں۔
٭حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے صبح کی جماعت کھڑی ہونے کے بعد دورکعت سنت پڑھی(مصنف ابن ابی شیبہ جلد ۲ ص ۲۵۱)
٭طبرانی میں حضرت عبد اللہ بن ابی موسی ؒ سے روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ ہمارے پاس تشریف لائے جبکہ امام صبح کی نماز پڑھا رہے تھے حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے ستونے کے پاس کھڑے ہوکر اس کو ادا کیا۔
٭حضرت ابو درداء ؓ کا عمل منقول ہے کہ آپ مسجد میں داخل ہوئے دیکھا کہ لوگو نما ز صبح باجماعت ادا ء کر رہے ہیں پھر بھی آپ نے صبح کی سنتیں پڑھ کر جماعت میں شرکت کی ۔
٭حضرت ابو عثمان رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم عمر بن الخطاب ؓ کے پاس آتے اس حال میں کہ ہم نے صبح کی سنتیں اداء نہ کی ہوتی تو ہم مسجد کے آخر میں سنتیں پڑھ کر جماعت میں شریک ہوجاتے ۔طحاوی جلد ۱ ص ۲۵۲۔
الغرض ابو اقبال صاحب کا یہ کہنا کہ صرف احناف ہی اس کے قائل ہیں یہ نرا جھوٹ ہے اور اس نے اس فتوی کے ذریعہ جن صحابہ کرام کو دین اسلام سے خارج کردیا ہے اس کا حساب اللہ تعالی خود لے گا۔
ص ۴۹ پر لکھا ہے کہ احناف جمع بین الصلوتین کی احادیث کو نہیں مانتے ۔٭
الجواب:یہ بھی اس کا جھوٹ ہے احناف کے ہاں جس سفر یا کسی سخت مجبوری کی وجہ سے جمع صوری کی احادیث پر عمل کرنا جائز ہے۔جسکا طریقہ احادیث کیا کتابوں میں اس طرح منقول ہے کہ ظہر کو موخر کرکے اخیر وقت میں اداء کیا جائے اور عصر کو مقدم کرکے ابتدائے وقت میں ادا کیا جائے اس طرح مغرب کی نماز کو موخر کرکے اخیر وقت میں ادا کیا جائے اور عشاء کی نماز کو مقدم کرکے اول وقت میں پڑھا جائے ۔اس کو جمع صوری کہا جاتا ہے اور اسکا انکار کسی حنفی نے نہیں کیا ۔چنانچہ فقہ حنفی کے معتبر کتاب تبیین الحقائق میں ہے۔
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق - (1 / 423)
احْتَرَزَ بِقَوْلِهِ فِي وَقْتٍ عَنْ الْجَمْعِ بَيْنَهُمَا فِعْلًا بِأَنْ صَلَّى كُلَّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا فِي وَقْتِهَا بِأَنْ يُصَلِّيَ الْأُولَى فِي آخِرِ وَقْتِهَا وَالثَّانِيَةَ فِي أَوَّلِ وَقْتِهَا فَإِنَّهُ جَمْعٌ فِي حَقِّ الْفِعْلِ
اس طرح فتاوی شامی میں ہے۔
حاشية رد المختار على الدر المختار - (1 / 382)
ما رواه مما يدل على التأخير محمول على الجمع فعلا لا وقتا أي فعل الأولى في آخر وقتها والثانية في أول وقته
ناظرین احناف کا مسئلہ بالکل وہی ہے جو حدیث میں ہے ۔اس لئے یہ صاف جھوٹ ہے کہ احناف ان احادیث کو نہیں مانتے ،البتہ آج کل کے غیر مقلدین جو جمع حقیقی کرتے ہیں کہ ظہر کے وقت میں عصر اور ظہر دونوں پڑھ لیتے ہیں اور مغرب کے وقت میں عشاء پڑھ لیتے ہیں یہ شیعہ کا مسلک ہے ۔اہل سنت میں سے کوئی بھی اسکا قائل نہیں ہے۔
ص ۵۱ پر لکھا ہے کہ احناف سبحان اللہ والی احادیث کو نہیں مانتے ۔٭
الجواب :احناف کے فقہ کے معتبر کتابوں میں یہ مسئلہ مذکور ہے کہ جب امام سے کوئی غلطی ہوجائے تو مقتدی سبحان اللہ کہہ کر امام کو لقمہ دے سکتا ہے۔مثلا عنایہ ،مبسوط اور بدائع یہ مسئلہ اس طرح ہے۔
العناية شرح الهداية - (2 / 142)
إذَا نَابَتْ أَحَدَكُمْ نَائِبَةٌ فِي الصَّلَاةِ فَلْيُسَبِّحْ فَإِنَّ التَّسْبِيحَ لِلرِّجَالِ وَالتَّصْفِيقَ لِلنِّسَاءِ
المبسوط للسرخسي ـ مشكول - (2 / 74)
وَإِذَا مَرَّتْ الْخَادِمُ بَيْنَ يَدَيْ الْمُصَلِّي فَقَالَ : سُبْحَانَ اللَّهِ أَوْ أَوْمَأَ بِيَدِهِ لِيَصْرِفَهَا لَمْ تُقْطَعْ صَلَاتُهُ ) لِمَا رَوَيْنَا { أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَشَارَ عَلَى زَيْنَبَ فَلَمْ تَقِفْ وَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إذَا نَابَتْ أَحَدَكُمْ نَائِبَةٌ فَلْيُسَبِّحْ ، فَإِنَّ التَّسْبِيحَ لِلرِّجَالِ وَالتَّصْفِيقَ لِلنِّسَاءِ
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع - (2 / 445)
وَلَوْ دَفَعَ الْمَارَّ بِالتَّسْبِيحِ أَوْ بِالْإِشَارَةِ أَوْ أَخَذَ طَرَفَ ثَوْبِهِ مِنْ غَيْرِ مَشْيٍ وَلَا عِلَاجٍ لَا تَفْسُدُ صَلَاتُهُ لِقَوْلِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ { فَادْرَءُوا مَا اسْتَطَعْتُمْ } ، وَقَوْلِهِ { إذَا نَابَتْ أَحَدَكُمْ نَائِبَةٌ فِي الصَّلَاةِ فَلْيُسَبِّحْ فَإِنَّ التَّسْبِيحَ لِلرِّجَالِ وَالتَّصْفِيقَ لِلنِّسَاءِ }
ناظریں کرام یہ فقہ حنفی کا مسئلہ بالکل واضح ہے او ر احادیث کے مطابق ہے لیکن کیا کیا جائے تعصب کا کہ ابو الاقبال سلفی صاحب اس جھوٹ کو احناف کے ماتھے تھوپ کر لعنت کے مستحق بن گئے۔
ابو اقبال صاحب اور کے ہمنوا جماعت کا یہ شیوہ رہا ہے کہ جھوٹ بول کر اپنے مسلک کو فروغ دینا چاہتے ہیں ہم عوام سے یہی عرض کرتے ہیں کہ جو شخص ۱۰۰ صفحات کے ایک رسالہ میں اتنے جھوٹ بولتا ہے اس پر دین کے بارے میں اعتماد کرنا نادانی ہے ۔اللہ تعالی امت کو اس فتنہ کے شرور سے محفوظ کرے ۔آمین۔
٭٭٭
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں