Does Allah leaves to stray and guides whoever He wills?
ہدایت کا مطلب
پہلے درجہ کی ہدایت عالمگیری ہے اور یہ ہر شے کے لیے ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے ہر شہ کو ایک مخصوص شکل بخشی اور پھر ان چیزوں کو ان کے کردار کے مطابق ہدایت بخشی گئی۔ ہدایت کی یہ قسم انسان، جِن، جانور، پودوں اور باقی سب تخلیقات کے لیے ہے۔
دوسرے درجہ کی ہدایت انسانوں اور جنات کے لیے مخصوص ہے۔ اس قسم کی مدد سے لیے گئے کاموں کے وہ دونوں بروز قیامت جوابدہ ہوں گے۔ یہ ہدایت ہمیشہ سے موجود ہے اور جن و انس میں سے ہر کوئی آزاد ہے چاہے اسکو پہچان کر اس سے کام لے یا اس کو مسترد کر دے۔ ارشاد ربانی ہے:
قسم ہے نفس کی اور اسے درست کرنے کی، پھر اللہ تعالیٰ نے اس نفس کو برائی سے بچنے اور پرہیز گاری اختیار کرنے کی سمجھ عطا فرمائی۔ پھر اس پر اس کی بدی اور اس کی پرہیز گاری واضح کر دی۔ بے شک وہ کامیاب ہو گیا جس نے نفس کو پاکیزہ بنا لیا۔ اور نا مراد ہوا وہ جس نے اس کو آلودہ کیا۔(سورہ الشمس7-10)
تیسری قسم کی ہدایت جن و انس میں سے ان کے لیے ہے جنہوں نے سچائی کے پیغام کو بغور سنا۔ یہ ہدایت انھیں سچائی کو پہچاننے میں مزید مدد کرتی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے :
وہ لوگ جنھوں نے ہدایت قبول کی اس نے انھیں ہدایت میں بڑھا دیا اور انھیں ان کا تقویٰ عطا کر دیا (سورہ محمد:17)
تو جب اللہ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ وہ لوگوں کو ہدایت نہیں بخشتا تو اس سے مراد صرف یہ تیسری قسم کی ہدایت ہوتی ہے اور یہ اللہ صرف اس وجہ سے کرتا ہے کہ وہ لوگ ان شرائط پر عمل پیرا نہیں ہوتے یا اس کی خواہش نہیں رکھتے جو اس ہدایت کو پا لینے کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔
جس کو اللہ چاہتا ہے اس کو اللہ ہدایت دیتا ہے کا مطلب
ایک چیز کو سمجھ لیا جائے کہ کوئی بھی قرآنی آیت قرآن کی باقی آیات اور احادیث کی روشنی میں ہی سمجھی جا سکتی ہے ۔ قرآن مجید میں کچھ آیات ہیں جن میں خدا کا فرمان ہے اللہ جس کو چاہتا ہے اس کو ہدایت بخشتا ہے اور جسے چاہتا ہے گمراہ چھوڑ دیتا ہے، مثلاًپھر خدا جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ اور وہ غالب اور حکمت والا ہے۔(سورہ ابراہیم:4)
بندے کے پاس اختیار ہے
قرآن مجید کی دوسری مختلف آیات اس بات کی تشریح کرتی ہیں کہ اللہ نے حق اور باطل میں ایک تفریق کر دی ہے اور حق و باطل کو بالکل نمایاں اور واضح کر دیا ہے۔ اب یہ بندے کی اپنی خواہش ہے وہ حق کو پسند کرتا ہے یا اس کو چھوڑ دیتا ہے ۔ جیسے پہلے بھی بیان ہوا:قسم ہے نفس کی اور اسے درست کرنے کی، پھر اللہ تعالیٰ نے اس نفس کو برائی سے بچنے اور پرہیز گاری اختیار کرنے کی سمجھ عطا فرمائی۔ پھر اس پر اس کی بدی اور اس کی پرہیز گاری واضح کر دی۔ بے شک وہ کامیاب ہو گیا جس نے نفس کو پاکیزہ بنا لیا۔ اور نامراد ہوا وہ جس نے اس کو آلودہ کیا(الشمس7-10)
اور ان سے کہہ دو کہ حق تمہارے رب ہی کی طرف سے(آ چکا) ہے، سو جس کا جی چاہے ایمان لے آئے اور جس کا جی چاہے کفر کرے ہم نے یقیناً تیار کر رکھی ہے ظالموں کے لئے ایک ایسی ہولناک آگ، جس کی لپیٹوں نے ان کو اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے۔(الکھف18)
وہ جنہیں اللہ ہدایت دیتا ہے
اور جنہوں نے ہماری راہ میں کوشش کی ضرور ہم انھیں اپنے راستے دکھا دیں گے اور بیشک اللہ نیکوں کے ساتھ ہے(العنکبوت:69)
للہ جسے چاہتا ہے اپنے لئے چن لیتا ہے اور جو اس کی طرف رجوع کرے اسے اپنی طرف راستہ دکھا دیتا ہے(ہدایت دے دیتا ہے)(الشورٰی:13)
وہ جنہیں خدا گمراہ کرتا ہے
اسی طرح اللہ ہمیں بتاتا ہے کہ وہ کس کو گمراہ چھوڑتا ہے۔اور اس(سیدھے راستے سے اللہ) گمراہ نہیں کرتا سوائے نافرمانوں کے(البقرہ 26)
وَ یُضِلُّ اللہُ الظّٰلِمِیۡنَ ۟ۙ وَ یَفْعَلُ اللہُ مَا یَشَآءُ(27)اور اللہ نافرمانوں (ظالموں)پر راہ گم کر دیتا ہے اور وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے(ابراہیم:27)
اللہ گمراہ کیسے کرتا ہے؟
اب سوال پیدا ہوتا ہے اللہ گمراہ کیسے کرتا ہے؟ اس کا جواب اللہ بہت کھول کر اور واضح طور پر بتاتا ہے:
اور جو شخص سیدھا راستہ معلوم ہونے کے بعد پیغمبر کی مخالفت کرے اور مومنوں کے راستے کے سوا اور(کسی دوسرے) راستے پر چلے تو جدھر وہ چلتا ہے ہم اسے ادھر ہی چلنے دیں گے اور قیامت کے دن جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بری جگہ ہے(النساء:115)
اللہ نے اپنے نشانوں سے یہ بات بالکل واضح کر دی ہے وہ لوگ جو حق کے ظاہر ہو جانے کے بعد حق کی طرف رجوع کریں گے ان کو اللہ ہدایت دے گا(تیسری قسم کی ہدایت) اور جو حق کے ظاہر ہو جانے کے باوجود باطل اور برائی کی طرف رجوع کریں گے اللہ ان کو ان کے پسندیدہ راستے کی طرف چھوڑ دیتا ہے(جو گمراہی کے راستے ہیں) تو ایسے لوگوں کو اللہ سزا دینے میں بھی حق بجانب ہے کیونکہ انہوں نے حق کے ان پر ظاہر ہو جانے کے بعد اس کو تسلیم نہ کیا۔
اللہ گمراہ کرتا ہے والی آیت کا مطلب(یُّغْوِیَکُمْ)
عیسائی مشنری اور ملحدین بعض اوقات سورہ ھود کو آیت نمبر 34 بھی پیش کرتے ہیں۔ یہ امت نوح علیہ السلام کے لوگوں کے متعلق ہے۔نوح ؑ اپنی قوم سے کہتے ہیں :اور تمہیں میری نصیحت نفع نہ دے گی اگر میں تمہارا بھلا چاہوں جبکہ اللہ تمہاری گمراہی چاہے، وہ تمہارا رب ہے، اور اسی کی طرف پھرو گے(ھود34)
یہاں اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ نوح علیہ السلام یہ بات اس وقت کہہ رہے ہیں جب ان کی قوم ساری حدیں پار کر چکی تھی بلکہ اس عذاب کا مطالبہ کر رہی تھی جس سے ان کو پہلے ہی ڈرایا جا چکا تھا تو یہاں اللہ اپنا طریقہ اختیار کرتا ہے اور ایسے ظالموں کو ان کے ہی پسندیدہ راستوں پر مقرر کر دیتا ہے جو انہوں نے حق کو چھوڑ کر پسند کیے جیسا کہ پہلے بھی بیان ہوا۔ اور عین ممکن ہے یہ بات اس وقت کہی جا رہی ہے جب قوم نوح سزا دیے جانے کے قریب تھی کیونکہ یہی لفظ سزا اور تباہی کے معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً قرآن میں ہم پڑھتے ہیں
پھر ان کے بعد ایسے لوگ ان کی جگہ آئے جنہوں نے نمازوں کو برباد کیا، اور اپنی نفسانی خواہشات کے پیچھے چلے سو عنقریب ان کو گمراہی (کی سزا) ملے گی۔(مریم59)
کچھ لوگ الاعراف16 اور الحجر39 کو بھی اس سلسلہ میں پیش کرتے ہیں
اس(شیطان) نے کہا کہ پروردگار جس طرح تو نے مجھے گمراہ کیا ہے میں ان بندوں کے لئے زمین میں ساز و سامان آراستہ کروں گا اور سب کو اکٹھا گمراہ کروں گا۔(الحجر39)
مگر ہر عاقل شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ الفاظ شیطان کے ہیں جو اپنے شیطانی عزائم کا اظہار کر رہا ہے ان آیات کو اپنے معنوں میں صرف شیطانی روحیں ہی استعمال کرنے کی کوشش کر سکتیں ہیں!
دلوں پر مہر کرنے کا مطلب
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جب اللہ خود کہتا ہے کہ وہ خود کافروں کے دلوں پر مہر لگادیتا ہے تو ان کافروں کو ان کے اعمال کا ذمہ دار کیوں کر قرار دیا جا سکتا ہے؟یہ کہنے کی اصلی وجہ پورے معاملے کو نہ سمجھنا ہے۔ اللہ صرف ان کافروں کے دل مہر کرتا ہے جو انتہائی ضد و کینہ کے ساتھ حق کے پیغام کو مسترد کر دیتے ہیں اور ان کے جو ہدایت کی دوسری قسم (جو کہ ہر ایک کے لیے ہے اور جسے پانے کے لیے صرف اپنی خواہش درکار ہوتی ہے) کو مسترد کر دیتے ہیں۔ ہم قرآن میں جب دیکھتے کہ اللہ کسی کہ دلوں کو مہر کرنے کا کہتا ہے تو اس سے مراد صرف وہ کافر ہوتے ہیں جو انتہائی بیہودگی سے حق کو مسترد کیے دیتے ہیں اور بجانب حق کوئی رجوع، خواہش نہیں رکھتے۔ البقرہ آیت نمبر 7، النساء آیت نمبر 168 اور سورہ نحل آیت نمبر 106 و 109 اس کی واضح مثالیں ہیں۔
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں