منگل، 12 فروری، 2019

مروّجہ میلاد

”سربکف “مجلہ۴  (جنوری ، فروری ۲۰۱۶)
مولانا یوسف لدھیانوی شہید

سوال… ہمارے ہاں یہ مسئلہ زیر بحث ہے کہ مروّجہ میلاد کیوں ناجائز ہے، حالانکہ اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکار مقدس ہوتا ہے، پھر حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ نے رسالہ ہفت مسئلہ میں اس کو جائز فرمایا ہے، جب کہ دیگر اکابر دیوبند مروّجہ میلاد کو بدعات اور مفاسد کی بنا پر اس کو بدعت کہتے ہیں، اس سلسلہ میں حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر صاحب سے بھی رجوع کیا گیا، مگر ان کے جواب سے بھی تشفی نہیں ہوئی۔ 
آنجناب سے اس مسئلے کی تنقیح کی درخواست ہے کہ صحیح صورتحال کیا ہے؟ 
جواب… محترمان و مکرمان بندہ! زیدت مکارہم، السلام علیکم ورحمة اللہ و برکاتہ۔ 
نامہ کرم موصول ہوا، یہ ناکارہ ازحد مصروف ہے، اور جس موضوع پر لکھنے کی اپنے فرمائش کی ہے اس پر صدیوں سے خامہ فرسائی ہورہی ہے، جدید فتنوں کو چھوڑ کر ایسے فرسودہ مسائل پر اپنی صلاحیتیں صرف کرنے سے دریغ ہے، اس لئے اس پر لکھنے کے لئے طبیعت کسی طرح آمادہ نہیں، خصوصاً جب یہ دیکھتا ہوں کہ حضرت مخدوم مولانا محمد سرفراز خان صاحب مدظلہ العالی(جن کے علم و فضل اور صلاح و تقویٰ کی زکوٰة بھی اس ناکارہ کو مل جاتی تو بڑا غنی ہوجاتا) کی تحریر بھی شافی نہیں سمجھی گئی تو اس ناکارہ و ہیچ میرز کے بے ربط الفاظ سے کیا تسلی ہوگی؟ لیکن آپ حضرات کی فرمائش کا ٹالنا بھی مشکل، ناچار دوچار حروف لکھ رہا ہوں، اگر مفید ہوں تو مقام شکر،”ورنہ کالائے بد بریش خاوند۔“ 
مسئلے کی وضاحت کے لئے چند امور ملحوظ رکھئے! 
اوّل:… اس میں تو نہ کوئی شک و شبہ ہے نہ اختلاف کی گنجائش کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکار مقدس اعلیٰ ترین مندوبات میں سے ہے، اور اس میں بھی شبہ نہیں کہ ”میلاد“ کے نام سے جو محفلیں سجائی جاتی ہیں ان میں بہت سی باتیں ایسی ایجاد کرلی گئی ہیں جو حدود شرع سے متجاوز ہیں، یعنی مروجہ میلاد دو چیزوں کا مجموعہ ہے، ایک مستحب و مندوب، یعنی تذکار نبوی صلی اللہ علیہ وسلم دوم وہ خلاف شرع خرافات جو اس کے ساتھ چسپاں کردی گئی ہیں اور جن کے بغیر میلاد کو میلاد ہی نہیں سمجھا جاتا، گویا ان کو ”لازمہٴ میلاد“کی حیثیت دے دی گئی ہے۔ 
دوم:… جو چیز اپنی اصل کے اعتبار سے مباح یا مندوب ہو، مگر عام طور سے اس کے ساتھ قبیح عوارض چسپاں کرلئے جاتے ہوں، اس کے بارے میں کیا طرز عمل اختیار کرنا چاہئے؟ اس میں ذوق کا اختلاف ایک فطری چیز ہے، جس کی نظر نفس مندوب پر ہوگی اس کا ذوق یہ فیصلہ کرے گا کہ ان عوارض سے توبے شک احتراز کرنا چاہئے، مگر نفس مندوب کو کیوں چھوڑا جائے، بخلاف اس کے جس کی نظر عوام کے جذبات و رجحانات پر ہوگی اس کا فتویٰ یہ ہوگا کہ خواص تو ان عوارض سے بلاشبہ احتراز کریں گے، لیکن عوام کو ان عوارض سے روکنا کسی طرح ممکن نہیں، اس لئے عوام کو اس سیلاب سے بچانے کی یہی صورت ہے کہ ان کے سامنے بند باندھ دیا جائے، یہ دونوں ذوق اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں، اور ان کے درمیان حقیقی اختلاف نہیں، کیونکہ جو لوگ جواز کے قائل ہیں وہ نفس مندوب کے قائل ہیں، خلاف شرع عوارض کے جواز کے وہ بھی قائل نہیں، اور جو عدم جواز کے قائل ہیں وہ بھی نفس مندوب کو ناجائز نہیں کہتے، البتہ خلاف شرع عوارض کی وجہ سے ناجائز کہتے ہیں۔ 
سوم:… اس ذوقی اختلاف کے رونما ہونے کے بعد لوگوں کے تین فریق ہوجاتے ہیں، ایک فریق تو ان بزرگوں کے قول و فعل کو سند بنا کر اپنی بدعات کے جواز پر استدلال کرتا ہے، دُوسرا فریق خود ان بزرگوں کو مبتدع قرار دے کر ان پر طعن و ملامت کرتا ہے، اور تیسرا فریق کتاب و سنت اور ائمہ مجتہدین کے ارشادات کو سند اور حجت سمجھتا ہے، اور ان کے بزرگوں کے قول و فعل کی ایسی توجیہ کرتا ہے کہ ان پر طعن و ملامت کی گنجائش نہ رہے، اور اگر بالفرض کوئی توجیہ سمجھ میں نہ آئے تب بھی یہ سمجھ کر کہ یہ بزرگ معصوم نہیں ہیں ان پر زبان طعن دراز کرنے کو جائز نہیں سمجھتا، پہلے دونوں مسلک افراط و تفریط کے ہیں اور تیسرا مسلک اعتدال کا ہے۔
ان امور کے بعد گزارش ہے کہ حضرت حاجی صاحب نوراللہ مرقدہ کے فعل سے اہل بدعت کا استدلال قطعاً غلط ہے، کیونکہ ہماری گفتگو ”میلاد“ کے ان طریقوں میں ہے جن کا تماشا دن رات اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ اس میلاد کو تو حضرت حاجی صاحبؒ بھی جائز نہیں کہتے، اور جس کو حاجی صاحبؒ جائز کہتے ہیں وہ اہل بدعت کے ہاں پایا نہیں جاتا، اس کی مثال بالکل ایسی ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کہتا ہے کہ ”مسیح موعود“  کا آنا مسلمان ہمیشہ مانتے آئے ہیں،اور میں ”مسیح موعود“ ہوں لہٰذا قرآن و حدیث کی ساری پیشگوئیاں میرے حق میں ہیں، پس اگر مرزا قادیانی، قرآن و حدیث والا ”مسیح موعود“ نہیں، اور اس کا قرآن و حدیث کو اپنی ذات پر چسپاں کرنا غلط ہے تو ٹھیک اسی طرح اہل بدعت کے ہاں بھی حضرت حاجی صاحبؒ والا ”میلاد“ نہیں، اس لئے حضرتؒ کے قول و فعل کو اپنے ”میلاد“ پر چسپاں کرنا محض مغالطہ ہے۔ 
بہرحال صحیح اور اعتدال کا مسلک وہی ہے جو حضرات اکابر دیوبند نے اختیار کیا کہ نہ ہم مروجہ میلاد کو صحیح کہتے ہیں اور نہ ان اکابر کو مبتدع کہتے ہیں یہ تو مسئلے کی مختصر وضاحت تھی، آپ کے بارے میں میری مخلصانہ نصیحت یہ ہے کہ اپنی صلاحیتوں کو دین کی سربلندی اور اپنی اصلاح پر صرف کریں، تاکہ ہم آخرت میں خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں سرخ رو ہوں، موجودہ دور میں حق طلبی کا جذبہ بہت کم رہ گیا ہے۔ جس شخص نے کوئی غلط بات ذہن میں بٹھالی ہے ہزار دلائل سے اسے سمجھاؤ اسے چھوڑنے کے لئے تیار نہیں، بس آدمی کا مذاق یہ ہونا چاہئے کہ ایک بار حق کی وضاحت کرکے اپنے کام میں لگے، کوئی مانتا ہے یا نہیں مانتا؟ اس فکر میں نہ پڑے۔ 
حافظ و ظیفہٴ تو دُعا گفتن است و بس 
دربند آں مباش کہ نہ شنید یا شنید٭

     

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں