پیر، 19 اکتوبر، 2015

خلافتِ راشدہ کے دلائل

"سربکف" میگزین 1-جولائی،اگست 2015

خلفائے راشدینؓ مسلمانوں کے متخب امام اور اللہ تعالیٰ کے موعود خلفاء تھے
مولانہ محمد  یوسف  شہید  رحمہ اللہ علیہ  اس بات پر اپنی  مشہور کتاب  شیعہ سنی اختلافت اور صراط مستقیم میں فرماتے ہیں یہ چاروں حضرات خلفائے راشدینؓ ہیں، جو افضل البشرﷺ ‘‘خیرامت’’ کے متخب امام اور اللہ تعالیٰ کے موعود خلیفہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی خلافت سے پہلے ان کے استخلاف فی الارض کی پیش گوئی فرمائی اور اس پیش گوئی میں ان کی اقامت دین اور حفظ ملت کے اوصاف کو بطور خاص ذکر فرمایا۔ پھر آنحضرت ﷺ کے بعد جب ان پیش گوئیوں کے ظہور کا وقت آیا تو حضرات مہاجرین و انصار ؓ کو توفیق خاص عطا فرمائی کہ ان خلفاء اربعہ ؓ کو اپنا امام اور خلیفہ بنائیں تاکہ ان کے ذریعہ موعود پیش گوئیاں پوری ہوں اور اقامت دین و حفظ ملت کا عظیم الشان کارنامہ پردہ غیب سے منصہ شہود پر جلوہ گر ہو۔
قرآن کریم میں اس قسم کی آیات بہت ہیں مگر خلفاء اربعہؓ کے بابرکت عدد کی مناسبت سے یہاں قرآن کریم کی چار پیش گوئیوں کے ذکر کرنے پر اکتفا کرتا ہوں:
پہلی پیش گوئی: مظلوم مہاجرین کو تمکین فی الارض نصیب ہوگی اور وہ اقامت دین کا فریضہ انجام دیں گے
الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِم بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ ۗ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا ۗ وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ(الحج 40)
الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ ۗ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ  (الحج 41 )
یہ وہ لوگ ہیں کہ اپنے گھروں سے ناحق نکال دیئے گئے (انہوں نے کچھ قصور نہیں کیا) ہاں یہ کہتے ہیں کہ ہمارا پروردگار خدا ہے۔ اور اگر خدا لوگوں کو ایک دوسرے سے نہ ہٹاتا رہتا تو (راہبوں کے) صومعے اور (عیسائیوں کے) گرجے اور (یہودیوں کے) عبادت خانے اور (مسلمانوں کی) مسجدیں جن میں خدا کا بہت سا ذکر کیا جاتا ہے ویران ہوچکی ہوتیں۔ اور جو شخص خدا کی مدد کرتا ہے خدا اس کی ضرور مدد کرتا ہے۔ بےشک خدا توانا اور غالب ہے
یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو ملک میں دسترس دیں تو نماز پڑھیں اور زکوٰة ادا کریں اور نیک کام کرنے کا حکم دیں اور برے کاموں سے منع کریں اور سب کاموں کا انجام خدا ہی کے اختیار میں ہے۔یہ آیت کریمہ دو پیش گوئیوں پر مشتمل ہے ایک یہ کہ مہاجرین کو اقتدار نصیب ہوگا اور دوسرہ یہ کہ ان کا  اقتدار اقامت دین  امر بلمعروف  ور نہی عن المنکر کا زریعہ ہوگا
اس آیت کے مطابق مہاجرین اولین میں سے چار حضرات کو اقتدار عطا کیا گیا اور دنیا نے دیکہا کہ کس طرح ان حضرات نے اقامت دین کا کام کیا بلکہ جناب صدیق نے زکواۃ کے انکاریوں سے جہاد کا اعلان کیا ۔
دوسری آیت
وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا ۚ وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ( 55 )
جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے ان سے خدا کا وعدہ ہے کہ ان کو ملک کا حاکم بنادے گا جیسا ان سے پہلے لوگوں کو حاکم بنایا تھا اور ان کے دین کو جسے اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے مستحکم وپائیدار کرے گا اور خوف کے بعد ان کو امن بخشے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائیں گے۔ اور جو اس کے بعد کفر کرے تو ایسے لوگ بدکردار ہیں
لفظ منکم سے یہ بات ظاہر ہورہی ہے کہ جو حضرات نزول آیت کے موقع پر موجود تھے یہ پیش گوئی ان کے لئے نہ کہ صدیوں بعد میں آنے والوں کے لئے ۔ اس آیت کا بلخصوص خطاب صحابہ ہی تھے ۔ اور ان سے چار وعدے کئے گئے ہیں۔
پہلا وعدہ : اس جماعت کے کچھ لوگوں کو خلیفہ بنا دیا جائے گا اور ان کی خلافت منشا الہی ہوگی ۔
دوسرا وعدہ: اللہ تعالی اپنے پسندیدہ دین کو ان خلفاء کے زریعہ سے دنیا میں ہمیشہ کے لئے قائم کردین گے ۔ یعنی وہ خلفاء دین السلام کی اشاعت کے لئے اللہ کے الا کار ہونگے
تیسرا وعدہ: ان کے خوف کو امن سے بھر دیا جائے گا آج جو ان کو خطرہ  لاحق ہے وہ پھر ختم ہوجائے
 اس کے  بر عکس شیعہ عقیدہ امامت کے مطابق شیعوں کے اماموں  کو خوف ساری زندگی ساتھ رہا اس لئے تکیہ کرتے رہے (١)
چوتھا وعدہ :وہ اللہ کے فرمانبردار ہوںگے اور شرک و بدعت کو اکھاڑ پھینکیں  گے۔
ومن کفر بعد ذالک فاولئک ھم الفاسقون۔
یعنی ان حضرات کا استخلاف حق تعالیٰ شانہ کا عظیم الشان انعام ہے۔ جو لوگ اس جلیل القدر نعمت کی ناقدری و ناشکری کرین گے وہ قطعاً فاسق اور اللہ تعالیٰ کے نافرمان ٹھہریں گے۔
نزول آیت کے وقت تو کسی کو معلوم نہیں تھا کہ قرعہ فال کس کس کے نام نکلتا ہے؟ خلافت الٰہیہ موعودہ کا تاج کن کن خوش بختوں کے سر پر سجایا جاتا ہے؟ کون کون خلیفہ ربانی ہوں گے؟ اور ان کی خلافت کی کیا ترتیب ہوگی؟ لیکن آنحضرت ﷺ کے بعد جب یہ وعدہ الٰہی مفصہ شہود پر جلوہ گر ہوا تب معلوم ہوا کہ حق تعالیٰ شانہ کے یہ عظیم الشان وعدے انہی چار اکابر سے متعلق تھے جن کو خلفائے راشدینؓ کہا جاتا ہے۔
گزشتہ بالا دونوں آیات سے معلوم ہوچکا ہے کہ خلفاء اربعہؓ حق تعالیٰ شانہ کے ‘‘موعود امام’’ تھے ، حکمت خداوندی نے ان حضرات کو خلافت نبوت کے لئے پہلے سے نامزد کر رکھا تھا، اور تنزیل محکم میں ان کی خلافت کا اعلان فرما رکھا تھا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ ان خلفاء ربانی اور ائمہ ہدیٰ کے ذریعہ دین وملت کی حفاظت ہوئی اور وہ تمام امور جو امامت حقہ اور خلافت نبویہ سے وابستہ ہیں ان اکابر کے ہاتھوں ظہور پذیر ہوئے
(١)اور ایک امام  مارے خوف  کے اب بھی "غائب " ہیں،  غالب امکان ہے کہ یہ خوف سنیوں کا ہوگا۔ (مدیر)
تیسری پیش گوئی
أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَن يَرْتَدَّ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ ۚ ذَٰلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (المائدہ 54)
اے ایمان والو اگر کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے گا تو خدا ایسے لوگ پیدا کر دے گا جن کو وہ دوست رکھے اور جسے وہ دوست رکھیں اور جو مومنوں کے حق میں نرمی کریں اور کافروں سے سختی سے پیش آئیں خدا کی راہ میں جہاد کریں اور کسی ملامت کرنے والی کی ملامت سے نہ ڈریں یہ خدا کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور الله بڑی کشائش والا اور جاننے والا ہے
اس آیت میں جناب صدیق اکبر کی خلافت کی پیش گوئی ہے ۔ وصال نبوی کے بعد جب لوگ ہر طرف سے مرتد ہونے لگے ماسواء مکہ ،مدینہ ، اور طائف کے باقی سارہ عرب اس کی لپیٹ مین آگیا ۔ تو جناب صدیق نے بہت ہی زبردست طریقہ سے اس ی سرکوبی کی او آپ اور آپ کے ساتھی  اس آیت کا مصداق بنے ۔اللہ تعالی نے آپ کے اور آپکے ساتھیوں کے جو اوصاف بتائے وہ یہ ہیں ۔
1۔اللہ تعلی ان سے محبت رکہتے ہیں
2۔یہ اللہ تعلی سے سچی محبت رکہتے ہیں
3۔مسلمانوں ہر شفیق و مہربان ہیں
4۔کافرون پر سخت ہیں اور ان پر غالب ہیں
5۔یہ مجاہد ہیں محض رضا ئے الٰہی  کے لئے جہاد کرتے ہیں
6۔یہ کسی کی ملامت کی پرواہ نہیں کرتے ( یاد رہے جناب صدیق نے جب زکواۃ کے انکاریوں سے اعلان جہا د کیا تو کچھ لوگوں نے کہا کہ یہ صحیح نہیں تو آپ نے کسی کے پرواہ  نہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جو لوگ نماز و زکواۃ میں فرق کرتے ہیں میں ان سے جہاد کرون گا)
حضرت صدیق اکبرؓ نے مسلمانوں کی از سر نو شیرازہ بندی کی اور پورے عرب کو نئے سرے سے متحد کر کے ایمان و اخلاص اور جہاد فی سبیل اللہ کے راستہ پر ڈال دیا۔ اور ان کے ہاتھ میں علم جہاد دے کر ان کو قیصرو کسریٰ سے بھڑایا۔ لہٰذا اس قرآنی پیش گوئی کا اولین مصداق حضرت صدیق اکبر ؓ اور ان کے رفقاء ہیں۔ رضی اللہ عنہم وارضا ھم یہاں ایک اہم نکتہ کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے
وہ یہ کہ غزوہ خیبر میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا:
ترجمہ: ‘‘میں کل یہ جھنڈا ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں دوں گا جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت رکھتا ہے۔ اور اللہ و رسول اس سے محبت رکھتے ہیں۔ ’’
اس ارشاد کے وقت آنحضرت ﷺ نے اس شخصیت کا نام نامی مبہم رکھا تھا۔ اس لئے ہر شخص کو تمنا تھی کہ یہ سعادت اس کے حصہ میں آئے۔ اگلے دن جب جھنڈا حضرت علیؓ کے ہاتھ میں دیا گیا تو اس پیش گوئی کے مصداق میں کوئی التباس نہیں رہا اور سب کو معلوم ہوگیا کہ اس بشارت کا مصداق حضرت علی کرم اللہ وجہہ تھے۔
ٹھیک اسی نہج پر سمجھنا چاہئے کہ اس آیت شریفہ میں جس قوم کو مرتدین کے مقابلہ میں لائے جانے کی پیش گوئی فرمائی گئے ہے نزول آیت کے وقت ان کے اسمائے گرامی کی تعین نہیں فرمائی گئے تھی۔ اس لئے خیال ہوسکتا تھا کہ خدا جانے کون حضرات اس کا مصداق ہیں؟ لیکن جب وصال نبویﷺ کے بعد فتنہ ارتداد نے سراٹھایا اور اس کی سرکوبی کے لئے حضرت صدیق اکبرؓ اور ان کے رفقاء ؓ کو کھڑا کیا گیا، تب حقیقت آشکارا ہوگئی اور التباس واشتباہ باقی نہ رہا کہ اس پیش گوئی کا مصداق یہی حضرات تھے اور انہی کے درج ذیل سات اوصاف بیان فرمائے گئے ہیں:
چوتھی آیت
لِّلْمُخَلَّفِينَ مِنَ الْأَعْرَابِ سَتُدْعَوْنَ إِلَىٰ قَوْمٍ أُولِي بَأْسٍ شَدِيدٍ تُقَاتِلُونَهُمْ أَوْ يُسْلِمُونَ ۖ فَإِن تُطِيعُوا يُؤْتِكُمُ اللَّهُ أَجْرًاحَسَنًا ۖ وَإِن تَتَوَلَّوْا كَمَا تَوَلَّيْتُم مِّن قَبْلُ يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا (الفتح  16 )
 جو گنوار پیچھے رہ گئے تھے ان سے کہہ دو کہ تم ایک سخت جنگجو قوم کے (ساتھ لڑائی کے) لئے بلائے جاؤ گے ان سے یا تو تم جنگ کرتے رہو گے یا پھر وہ اسلام لے کر ائیں اگر تم حکم مانو گے تو خدا تمہیں اچھا بدلا دے گا اور اگر اگر منھن پھیر لو گے جیسا کہ پہلے پھیرلیا تھا تو اللہ تم کوبری تکلیف کی سزا دےگا۔
یہ آیت دعوت اعراب کہلاتی  ہے  یہ ان لوگوں کے بارے میں ہے جنہوں نے حضور علیہ السلام سے حدیبیہ کے موقع پر پہلو تہی کی تھی انہیں بتایا جا رہا کہ آئندہ تمہیں جنگجو قوموں کے مقابلے مین نکلنے کی دعوت دی جائے گی اور تم کو یہاں تک جنگ کرنا ہوگی کہ وہ اسلام لے آئیں یا جزیہ دے کر اسلام کے زیر اثر آجائیں ۔ عربوں کو یہ دعوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہیں دی گئی کیون کہ آپ کے زمانے میں  دوسری قوموں سے جنگ کی نوبت نہین آئی تھی ۔بلکہ جناب صدیق کے زمانے میں جہاد شام و عراق کے لئے انہیں نکلنے کے کی دعوت دی گئی اور خلفاء ثلاثہ کے زمانہ مبارک مین ہی یہ مقامات اسلام کے زیر اثر آئے اس سے ان کی خلافت ،اللہ تعالی کی موعودہ خلافت ہی بنتی ہے۔
چناچہ قرآن کریم کی یہ پیش گویاں خلافاء ثلاثہ  ہی پوری کرتے ہیں نہ ہی ان کے علاوہ کوئی مہاجر  خلیفہ بنا اور نہ ہی ان کے علاوہ کسی نے مرتدیں سے قتال کیا ۔ اور نہ ہی ان کے علاوہ کسی نے اعراب کو دعوت جہاد دی۔
اس سے خلفاءراشدہ موعودہ ثابت ہوتی ہے اور نہ صرف یہ بلکہ اس کو نہ ماننے والا بحکم قرآن بدکردار بنتا ہے ۔(١)
(١)بشکریہ سرونٹ آف صحابہ
     

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں