پیر، 19 اکتوبر، 2015

روڈ کا انقلاب…Road Revolution

"سربکف" میگزین 1-جولائی،اگست 2015
مدیر
جی ہاں! محترم پرائم منسٹر نریندر مودی صاحب ایک انقلابی شخصیت ہیں۔ اُن کی شخصیت کا ایک ایک حصہ انقلابی ہے۔ اُن کا ذہن اور سوچ تو اس قدر انقلابی ہے کہ انقلاب برپا کرنے کےایسے  انقلابی طریقے صرف وہی سوچ سکتے ہیں۔
ہم نے آج تک صرف انقلاب کی باتیں سنی تھیں، یا تاریخ میں پڑھا تھا، لیکن آج دیکھ لیا کہ انقلاب کسے کہتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ انقلاب بدلاؤ کو کہتے ہیں۔ چنانچہ یہ انقلاب یوں آیا کہ دہلی میں ابو المظفر محی الدین محمد   اورنگ زیبؒؒ روڈ کو اے پی جے عبد الکلام روڈ  کا نام دے دیا گیا۔ایسے بدلاؤ کی باتیں ہم جیسے عام  آدمیوں کے ذہن نہیں سوچ سکتے، یہ وہی سوچ سکتے ہیں جنہوں نے یہ فیصلہ لیا ہے۔
انقلابی جو ٹھہرے...
   مرکز اور دہلی سرکار کے اشتراک سے چلنے والی این ڈی ایم سی کی اعلیٰ سطحی میٹنگ میں یہ فیصلہ لے لیا گیا کہ ہندوستان میں نفرت کی نگاہ سے دیکھے جانے والے چھٹے مغل شہنشاہ کی جگہ رحم دل اور انسان دوست سابق صدر عبد الکلام کو دے دی جائے۔ادھر یہ خوشخبری ملی، اور بے جے پی کے لیڈروں نے اس "کمال " کا سہرا اپنے سر باندھنا شروع کردیا۔ ممبر آف پارلیمنٹ مہیش گری نے فرطِ مسرت کے ساتھ کہا کہ میں نے ہی نریندر مودی جی کو اس سلسلہ میں خط لکھا تھا۔ ایک اور میڈم میناکشی لیکھی کہتی ہیں میں نے تجویز پیش کی تھی۔ عام آدمی پارٹی کے روحِ رواں اروند کیجریوال کہتے ہیں یہ ہمارا چلایا ہوا موومینٹ ہے۔
سبحان اللہ! بی جے پی زندہ باد۔ نریندر مودی زندہ باد۔
پیارے جشن منانے والو! ایک بات فقیر کی یاد رکھنا... بھیڑ کبھی تاریخ نہیں لکھ سکتی۔ تاریخ ایک ایسی ٹھوس حقیقت ہے جس پر دانت نکوسنے کے لیے پوری بی جے پی کو دانتوں تلے پسینہ بھی آجائے گا اور وہ کھٹے بھی ہوجائیں گے۔ کیونکہ اورنگ زیبؒ ایک سچائی کا نام ہے...ایک ایسی سچائی جس نے سب سے زیادہ ہندوستان پر حکومت کی...جس نے ملک کو امن و سلامتی کا گہوارہ بنا دیا...جس نے سلطنت کی توسیع میں ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کا حصہ شامل کیا...
    ہاں مجھے پتہ ہے یہاں کے اسکولوں کے نصاب میں  اورنگ زیبؒ کی وہی تاریخ بتائی جاتی ہے جو انگریز انہیں سکھا کر گئے تھے...الزام یہ کہ شاہجہاں کو قید کردیا تھا...الزام یہ کہ ہندوؤں سے جزیہ وصول کرتا تھا٭... الزام یہ کہ مندروں کو مسمار کیا، الزام یہ کہ سکھوں کے گرو تیغ بہادر کا سرکاٹ کر اس کے بیٹے کو تحفے میں دیا...الزام یہ کہ تعصب کی حکومت کی...
واللہ میرے پیارو! کچھ تو شرم کرو...یہ الزامات ہی سچ ہیں تو بھلا وہ پرنور چہرے والا  ،متقی ،عبادت گزار،،انصاف پسند، علماء و مشائخ کی انتہائی قدر کرنے والا کون سا  اورنگ زیبؒ تھا؟ کون اولیاء اللہ کی خدمت میں بادشاہ ہونے کے باوجود یوں حاضر ہوا کرتا تھا گویا کہ میں کچھ نہیں، میرا کچھ نہیں۔
ذرا مجھے بھی تو بتاؤ وہ کون سا  اورنگ زیبؒ تھا جو کتابت کرکے اپنی روزی کماتا تھا؟  تم نے کسی بادشاہ کو اس حال میں دیکھا ہے؟ کس دلیل پر کہتے ہو وہ ظالم تھا؟ اُس تاریخ کے بل بوتے پر جسے انگریزوں نے مرتب کیا تھا؟ تعصب کی حکومت ہوتی تو ٤٩ سال کی حکمرانی میں یہاں ایک بھی ہندو باقی رہتا؟ تاریخ کا ایک ایک حرف گواہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے نہایت عدل و انصاف سے حکومت کی ہے۔
ایک دن ایسے ہی بات چل پڑی، تو میرے بھانجے نے اس سلسلے میں کچھ گوہر افشانیاں کیں... اورنگ زیب ؒکی ساری تاریخ (جو ہمارے ہاں اسکولوں میں پڑھائی جاتی ہے) بتانے لگا۔یہ کیا اور وہ کیا، باپ کو قید کردیا، اتنا ظلم کیا وغیرہ وغیرہ۔ میں نے اسے سمجھایا کہ یار یہ تاریخ لکھنے والے مسلم نہیں، یہ وہ ہیں جو ہمیشہ ہماری تاریخ کو مسخ کرکے خوش ہوتے ہیں۔ اورنگ زیبؒ کے ظلم کی داستان ساری جھوٹی ہے۔ کافی سارے حوالے اور واقعات کے باوجود وہ پس و پیش میں ہی رہا، اور اپنی کتاب میں پڑھے ہوئے سبق کو حرفِ آخر سمجھتا رہا۔
اب اس تاریخ کو پڑھنے والوں کو ہم کیسے قائل کریں کہ  وہ  اورنگ زیبؒ نہیں... اورنگ زیبؒ رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔
تاریخ پر ڈاکہ ڈالنے والو!وائے حیرت کہ اپنے جرم پر  جشن بھی منارہے ہو؟؟؟
تم نے تو جشن منانے  کے موقع و محل کو بھی بدل ڈالا!!!
کیوں نہ بدلتے!انقلابی جو ٹھہرے...
اچھا، ویسے یہ بھی غور کرنے کی بات ہے کہ مسلمانوں کو بہلانے کے لیے روڈ کا نام بھی بدلا تو ایک مسلم کے نام پر، تاکہ احتجاج نہ ہو۔ ایم آئی ایم کے روحِ رواں  اسد الدین اویسی نے بھی اس پر ردِّ عمل کا اظہار کیا ہے...کئی سارے قسم کے ٹائمز،  اخبارات،ای نیوز  منجملہ وکی پیڈیا پر بھی اس controversy کا اندراج ہوچکا ہے۔
لوجی۔ اگر مرحوم اے پی جی عبد الکلام کے لیے ہی کچھ کرنا تھا تو کسی نئی روڈ کا نام اُن کے نام پر رکھ دیتے...کوئی یونیورسٹی ، اسکول، کالج اُن کے نام پر شروع کرتے...کوئی فری شپ یا اسکالر شپ اپ کے نام پر شروع کرتے...لیکن نہیں! ہم تو مرحوم صدر کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے روڈ کا نام بدلیں گے...
بدلو بھائی بدلو...انقلابی جو ٹھہرے...
آج  اورنگ زیبؒ نشانہ ہے، کل اورنگ آباد کا نام بھی بدلو گے؟ تاج محل کی تاریخ بھی بدلو گے؟ لال قلعہ کا کیا کرو گے آپ؟چار مینار کی ہسڑی کہاں چھپاؤ گے؟ قطب مینار کی تاریخ کہاں دفن کروگے؟ گول گنبد کیوں چھوڑ رکھا ہے؟ فتح پور سیکری بھی تو ہے...جلدی کرو بھائی سب بدلتے چلے جاؤ...چینج کردو...بدل دو...
تم......انقلابی جو ٹھہرے...
   
فقیر شکیبؔ احمدعفی عنہٗ
بروز جمعہ،٩:٢٠بجے صبح
     

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں