پیر، 19 اکتوبر، 2015

عقائد علماء اہلحدیث

"سربکف" میگزین 1-جولائی،اگست 2015
عباس خان

علماء اہلحدیث کے چند باطل عقائد و نظریات:
نوٹ:ہم جہاں بھی لفظ اہل حدیث ، فرقہ  اہلحدیث ، لامذہب  یا غیرمقلدین  کا لفظ استعمال کریں تو اس سے انگریز کے دور میں وجود میں آنے والا فرقہ مراد ہو گا۔ جیسا کہ  ان کے ایک بڑے بزرگ ہیں ان کی شہادت ہے  ، چنانچہ فرماتے ہیں
”کچھ عرصہ سے ہندستان میں ایک ایسے غیر مانوس مذہب کے لوگ دیکھنے میں آ رہے ہیں جس سے لوگ بالکل ناآشنا ہیں پچھے زمانہ میں شاذ و نادر اس خیال کے لوگ کہیں تو ہوں مگر اس کثرت سے دیکھنے میں نہیں آئے بلکہ ان کا نام بھی ابھی تھوڑے ہی دنوں میں سنا ہے۔ اپنے آپ کو اہلحدیث یا محمدی یا موحد کہتے ہیں مگر مخالف فریق میں ان کا نام غیرمقلد یا وہابی یا لامذہب لیا جاتا ہے“۔(الارشاد الی سبیل الرشاد ص 13)


فرقہ اہلحدیث کا سلسلہ کب اور کہاں سے شروع ہوا؟
مولانا عبد الرشید  غیرمقلد صاحب لکھتے ہیں:
”علماء اہلحدیث کا سلسلہ برصغیر میں ان ( میاں نذیر حسن دہلوی غیرمقلد) سے شروع ہوتا ہے“۔
(چالیس علماء اہلحدیث 28)
فرقہ اہلحدیث انگریزوں کا پیدہ کردہ فرقہ ہے:۔
جناب مولانا محمد حسن صاحب غیرمقلد بٹالوی  جنہوں نے اپنے فرقہ کا نام انگریز سے اہلحدیث الارٹ  کرویا تھا    خود فرماتے ہیں: "اے حضرات یہ مذہب سے آزادی اور خود سری و خود اجتہادی کی تیز ر ہوا یورپ سے چلی ہے اور ہندستان کے شہر و بستی و کوچہ و گلی میں پھیل گئ ہے۔ جس نے غالباَ َ  ہندوؤں کو ہندو اور مسلمانوں کو مسلمان نہیں رہنے دیا۔ حنفی اور شافعی مذہب کا تو پوچھنا ہی کیا" (اشاعت السنۃ  ص٢٥٥)
اس غیرمقلدیت کی سرپرستی کے لئے ایک زمنی ریاست بھوپال ان کو دی گئی:
 چنانچہ نواب بھوپال صدیق حسن صاحب تحریر فرماتے ہیں: "فرمان روایاں بھوپال کو ہمیشہ آزادگی مذہب (غیرمقلدیت) میں کوشش رہی ہے جو خاص منشاء گورنمنٹ انڈیا کا ہے" (ترجمان وہابیہ ص ٣)
پھر فرماتے ہیں : ”یہ آزادگی مذہب جدید  سے عین مراد انگلشیہ سے ہے" (ص ٥)۔
”یہ لوگ (غیرمقلدین) اپنے دین میں وہی آزادگی برتتے ہیں جس کا اشتہار بار بار انگریزی سرکار سے جاری ہوا۔ خصوصاََ دربار دہلی سے جو سب درباروں کا سردار ہے“۔)ترجمان وہابیہ ص32)

ہم علماء اہلحدیث اور عوام اہلحدیث کے چند باطل اور گمراہ کن عقائد و نظریات پیش  کریں گے  اگر کوئی غیرمقلد اپنے کسی عالم کے کسی عقیدے کو ترک کرتا ہے تو وہ ساتھ میں اس عالم  کا اور اس کے عقیدے کا حکم بھی لکھے  اور اس بات کا اقرار کرے کہ اس کا یہ عالم گمراہ کن عقائد و نظریات کا حامل تھا تاکہ معلوم ہو کہ اس لامذہب فرقے  نے کتنے گمراہ لوگ پیدا کئے ہیں۔
فرقہ اہلحدیث کے ایک بڑے مولوی زبیر علی زئی صاحب جو کہ اپنے ان علماء کے گند سے جان چھڑانے کیلئے جھوٹ بولتے ہوئے لکھتے ہیں:
وحید الزمان ، نواب صدیق حسن خان ، نور الحسن ،  وغیرہ غیر اہل حدیث اشخاص ہیں۔(١)
(الحدیث فروری 2010 صفحہ نمبر 16)
لعنت اللہ علی الکاذبین
غیرمقلدین کے گھر کی شہادت کہ زبیر علی زئی کذاب تھا اور محدثین  کی  طرف بھی جھوٹ منسوب کر دیتا تھا۔
چنانچہ اہل  غیرمقلد عالم کفایت اللہ صاحب سنابلی لکھتے ہیں:
” زبیر علی زئی صاحب اپنے اندر بہت ساری کمیاں رکھتے ہیں مثلا خود ساختہ اصولوں کو بلا جھجک محدثین کا اصول بتلاتے
ہیں بہت سارے مقامات پر محدثین کی باتیں اور عربی عبارتیں صحیح طرح سے سمجھ ہی نہیں پاتے ، اور کہیں محدیث کے موقف کی  غلط ترجمانی  کرتے ہیں یا بعض محدثین  و اہل علم کی طرف ایسی باتیں منسوب کرتے ہیں جن سے وہ بری ہوتی ہیں۔ اور کسی  سے بحث کے دوران مغالطہ بازی کی حد کر دیتے ہیں اور فریق مخالف کے حوالے سے ایسی ایسی باتیں نقل کرتے ہیں یا اس کی طرف ایسی باتیں منسوب کر دیتے ہیں جو اس کے خواب و خیال میں  بھی نہیں ہوتیں۔
 (زبیر علی زئی پر رد میں دوسری تحریر ص 2)
(١) محترم علی زئی صاحب کی یہ بوکھلاہٹ انہائی درجہ کی تھی۔ بھائی نعمان اقبال کا ایک جملہ یاد آتا ہے"باپ کی غلطی کو غلطی تسلیم کرنے والا درست ہوتا ہے، جبکہ باپ کی غلطی پر اُسے باپ تسلیم کرنے سے انکار کرنے والا حرامی ہوتا ہے۔" حافظ زبیر علی زئی صاحب کے اس شگوفے پر سہ ماہی "قافلہ حق" میں قسط وار تحقیقی مقالہ(ڈیٹ ایکسپائر) شائع ہوا  تھا۔ ملاحظہ ہو قافلہ حق 22ص  ٥٦اور قافلہ حق 23 ص٦١-از مولانا عاطف معاویہ ﷿ (مدیر)
وحید الزمان صاحب
جن کو بڑے بڑے علماء نے اپنا امام تسلیم کیا ہے۔
خود ایک جگہ غیرمقلدین کے ایک بڑے عالم رئیس ندوی صاحب  انہیں امام اہلحدیث قرار دیتے ہیں:
ملاحظہ ہو (سلفی تحقیقی جائزہ ص 635)
اور یہ کذاب کہتا ہے کہ یہ غیر اہلحدیث اشخاص ہیں۔
نواب وحید الزمان صاحب  آخری دم تک اہلحدیث رہے۔
اہل غیرمقلد عالم لکھتے ہیں:
مرحوم (وحید الزمان) حنبلی یا اہلحدیث تھے اور آخری دم تک اسی موقف پر رہے۔
(ماہنامہ محدث ج 35 جنوری 2003 ص 77)
نوٹ : معلوم ہو گیا کہ وہ آخری دم تک اہلحدیث ہی تھے اور مولانا صاحب کی حنبلی ہونے والی بات  لطیفے سے کم نہیں۔
وحید الزمان ، نواب صدیق حسن خان ، ثناء اللہ امرتسری صاحب اہلحدیث کے اسلاف تھے۔
ایک اور بڑے مولوی غیرمقلدین کے وحید الزمان ، نواب صدیق حسن خان صاحب ثناء اللہ امرتسری صاحب کے نام لکھ کر آگے لکھتے ہیں:
 بلا شبہ ہمارے اسلاف   تھے۔(حدیث اور اہل تقلید ص 162)
اور آج کا ایک کذاب مولوی  زبیر علی زئی نامی کہتا ہے کہ یہ غیراہلحدیث اشخاص تھے۔
امام اہلحدیث نواب وحید الزمان صاحب کی کتاب "نزل الابرار"  فرقہ اہلحدیث کے نزدیک نہایت مفید کتاب ہے۔
چنانچہ فرقہ اہلحدیث کے  شیخ الحدیث ثناء اللہ مدنی صاحب  نزل الابرار کے  متعلق لکھتے ہیں۔
”فی جملہ کتاب نہایت مفید ہے“۔(فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ ج 1 ص 493)
نواب صدیق حسن خان صاحب بھی غیرمقلد ہی تھے۔
خود نواب صدیق حسن خان صاحب اپنے بارے میں لکھتے ہیں:
ان احمقوں نے اتنا بھی خیال نہ کیا کہ میں تو مشہور اہل حدیث ہوں۔(ابکار المنن ص  290)
آج نواب صدیق حسن خان صاحب زندہ ہوتے تو آپنے شہرت دیکھ لیتے ۔
یہی ہے علماء اہلحدیث کی کل اوقات جو بھی مرے اس کے گند سے جان چھڑانے کیلئے اسے اپنی جماعت سے خارج قرار دے دو ، یہ اللہ کی طرف سے ان پر خاص غضب ہے۔
 غیرمقلدین کے ایک بڑے مولوی مولانا نذیر احمد رحمانی صاحب لکھتے ہیں:
آج اہلحدیث ہی نہیں احناف بھی حضرت نواب صدیق صاحب  کا مسلک اہلحدیث ہونا اتنا مشہور اور معروف ہے کہ شاید بہتوں کو تعجب ہو گا کہ اس عنوان پر گفتگو کرنے کی ہم نے ضرورت ہی کیوں محسوس کی۔(١)
 (اہلحدیث اور سیاست ص 138)
نور الحسن خان صاحب جو کہ نواب صدیق حسن خان صاحب کے بیٹے تھے  نور الحسن صاحب نے اہلحدیث کی فقہ ”عرف الجادی “ نامی کتاب لکھی اور اپنے مسلک کو ثابت کرنے کی کوشش کی۔
اور آج کا یہ کذاب مولوی کہتا ہے کہ یہ غیر اہلحدیث اشخاص تھے اور اللہ کا ان پر غضب دیکھئے کہ خود اس کے اپنے ہی جماعت کے کسی دوسری مولوی نے اسکے ساتھ بھی وہی کچھ کیا جو اس نے دوسرے اپنے بڑے مولویوں کے ساتھ کیا تھا۔
قرآن و حدیث کے نام پر جمع کئے گئے علماء اہلحدیث کے عقائد و نظریات جماعت اہلحدیث پر حجت ہیں۔
ڈاکٹر محمد بہاولدین صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں لکھتے ہیں:
(١)ضرورت یوں  محسوس کی کہ کچھ لوگ  اپنے باپ کو باپ تسلیم نہیں کر رہے تھے(مدیر)
” بعض عوام کا لانعام گروہ اہل حدیث میں ایسے بھی ہیں جو اہل حدیث کہلانے کے مستحق نہیں۔ ان کو لامذہب ، بدمذہب ، ضال مضل جوکچھ کہو، زیبا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نہ خود کتاب و سنت کا علم رکھتےہیں نہ اپنے گروہ کے اہل علم کا اتباع کرتے ہیں ۔ کسی سے کوئی حدیث سن کر یا کسی اردو مترجم کتاب میں دیکھ کر نہ صرف اس کے ظاہر ی معنی کے موافق عمل کرنے پر صبر و اکتفا کرتے ہیں۔ بلکہ اس میں اپنی خواہش نفس کے موافق استنباط و اجتہاد بھی شروع کر دیتے ہیں ۔جس  میں وہ خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسرے کو بھی گمراہ کرتے ہیں“۔(تاریخ اہلحدیث ص 164)
پہلے تو یہ تمام عقائد غیرمقلدین پر حجت ہیں کیونکہ یہ لوگ یہی دعوے کرتے ہیں کہ ہماری جماعت صرف قرآن اور حدیث کے علاوہ اور کوئی بات نہیں کرتی اور  یہ تو پھر ان کے  بڑے بڑے علماء ہیں ۔ ہاں اگر  وہ اپنے دعوے میں جھوٹے تھے تو پھر پہلے اس بات کا اقرار کریں۔
فرقہ اہلحدیث کو ننگا کرنے والا اصول
 چنانچہ ایک غیرمقلد عالم لکھتا ہے۔
”کسی گروہ کے عقاےد اس کے علماء اور اکابرین طے کرتے ہیں“۔( کیا علمادیوبند اہلسنت ہیں ص 8)
اب  ہم ان شاء اللہ اس گروہ کے علماٰء اور اکابرین کے عقائد سامنے لاتے ہیں۔
عقیدہ نمبر 1
فرقہ اہلحدیث   اللہ  کی ذات کو محدود مانتا ہے اور اللہ کیلئے مکان اور جہت کا قائل ہے۔
ملاحظہ فرمائے فرقہ اہلحدیث  کے ایک بڑے عالم طالب الرحمٰن  صاحب   کی ایک ویڈیو کلپ
http://goo.gl/jDD6sO
نزل الابرار جو کہ غیرمقلدین کے لئے فی جملہ نہایت مفید کتاب ہے۔ (فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ ص 493)
میں  لکھا ہے کہ
”وهو في جهة  الفوق ، ومكانه العرش“
وہ (اللہ) اوپر کی جہت میں ہے اور اس کا مکان عرش ہے۔(نزل الابرار ص 3 کتاب الایمان)
نوٹ : نواب وحید الزمان صاحب کو خود ان کے ایک بڑے جید عالم نے امام اہلحدیث قرار دیا ہے۔ دیکھئے (سلفی تحقیقی جائزہ ص 635)
اللہ تعالٰی  کا کوئی مکان ہے؟
وقال الإمام الحافظ الفقيه أبو جعفر أحمد بن سلامة الطحاوي الحنفي (321 ھ) في رسالته  ★
(متن العقيدة الطحاوية)ما نصه: "وتعالى أي الله عن الحدود والغايات والأركان والأعضاء والأدوات، لا تحويه الجهات الست كسائر المبتدعات " اهـ.
امام الطحاوي الحنفي كبار علماء السلف میں سے ہیں اپنی کتاب (العقيدة الطحاوية) میں یہ اعلان کر رہے کہ
 ”الله تعالی ” مکان و جھت و حدود“ سے پاک ومُنزه ومُبرا ہے“  (متن العقيدة الطحاوية صفحہ ۱۵)
شیخ نظام الدین الهنديؒ اللہ کیلئے مکان  کا اثبات کرنے والے کو کافر لکھتے ہیں۔
قال الشيخ نظام الهندي: "ويكفر بإثبات المكان لله" (في كتابه الفتاوى الهندية المجلد الثاني صفحه 259)
★قال الإمام محمد بن بدر الدين بن بلبان الدمشقي الحنبليؒ  اللہ تعالٰی کی ذات کو ہر مکان میںموجود  یا کسی ایک مکان میں ماننے والے کو کافر کہتے ہیں۔
 "فمن اعتقد أو قال إن الله بذاته في كل مكان أو في مكان فكافر" (في كتابه مختصر الإفادات ص: 489).
★الشيخ محمود محمد خطاب السبكيؒ اللہ تعالٰی کیلئے جھت کے قائل کو کافر قرار دیتے ہیں "وقد قال جمع من السلف والخلف: إن من اعتقد أن الله في جهة فهو كافر".(إتحاف الكائنات)
★الله  کیلئے جسم جھت کے قائل پر چاروں آئمہ امام ابو حنیفہؒ ، امام مالکؒ امام شافعیؒ امام احمد بن حنبلؒ کا کفر کا فتویٰ۔
(وفي المنهاج القويم على المقدمة الحضرمية )في الفقه الشافعي لعبد الله بن عبد الرحمن بن أبي بكر بافضل الحضرمي: "واعلم أن القرافي وغيره حكوا عن الشافعي ومالك وأحمد وأبي حنيفة رضي الله عنهم القول بكفر القائلين بالجهة والتجسيم وهم حقيقون بذلك"اهـ
ومثل ذلك نقل ملا علي القاري (في كتابه المرقاة في شرح المشكاة)
★محدث محمد زاهد بن الحسن الکوثریؒ فرماتے ہیں:
حيث تواتر ان ابا حنيفة كان يكفر من زعم فياللہ انه متمكن بمكان (تانیب الخطيب ص 101)
”یہ بات امام ابو حنیفہؒ سے تواتر سے ثابت ہے کہ وہ اس شخص کو کافر مانتے تھے جو یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ اللہ کسی مکان میں متمکین ہیں“۔ ( یعنی کسی خاص مکان میں ہی ہیں اور بس)
عقیدہ نمبر2
فرقہ اہلحدیث اللہ تعالٰی کیلئے جسم کے اعضا  کے قائل ہیں۔
فرقہ اہلحدیث کے امام اہلحدیث نواب وحید الزمان خان صاحب لکھتے ہیں:
اللہ تعالٰی کے لئے اس کی ذات مقدس کے لائق بلاتشبیہ یہ اعضا ثابت ہیں چہرہ آنکھ ہاتھ مٹھی کلائی درمیانی انگلی کے وسط سے کہنی تک کا حصہ سینہ پہلو کوکھ پاؤں ٹانگ پنڈلی، دونوں بازو(ترجمہ ہدیۃ المہدی ص 27)
عقیدہ نمبر 3
فرقہ اہلحدیث اللہ کی صفات متشابہات کے متعلق یہ عقیدہ رکھتے اور لوگوں کو سمجھاتے ہیں کہ ان متشابہات کے جو ظاہری معنی ہمیں معلوم ہیں وہی اللہ کی بھی مراد ہے لیکن کیفیت اس کی معلوم نہیں۔
محدث امام جلال الدین سیوطیؒ فرماتے ہیں:
وَجُمْهُورُ أَهْلِ السُّنَّةِ مِنْهُمُ السَّلَفُ وَأَهْلُ الْحَدِيثِ عَلَى الْإِيمَانِ بِهَا وَتَفْوِيضِ مَعْنَاهَا الْمُرَادِ مِنْهَا إِلَى اللَّهِ تَعَالَى وَلَا نُفَسِّرُهَا مَعَ تَنْزِيهِنَا لَهُ عَنْ حَقِيقَتِهَا.
ترجمہ:جمہور اہل سنت جن میں سلف اور اہلحدیث (محدثین) شامل ہیں ان کا مذہب (نصوص صفات پر) ایمان رکھنا ہے ساتھ اس کے کہ ان کے معنی مراد کو اللہ کی طرف سپرد کر دیا جائے اور ہم ان کی تفسیر نہیں کرتے جبکہ ان کے ظاہری معنی سے اللہ کو پاک قرار دیتے ہیں۔
جبکہ  فرقہ سلفیہ کا دعوی ہے  کہ نصوص صفات پر ایمان لانے  کیلئے صفات  متشابہات کے معنی مراد کا معلوم ہونا ضروری ہے۔
امام سیوطی ؒ کی اس عبارت پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک اہلحدیث عالم شمس افغانی سلفی جو کہ جامعہ اثریہ بشاور کا بانی ہے  لکھتا ہے:
هذا النص اولا صريح في التفويض المبدع المتقول علي السلف من جانب اهل الجهل والتجهيل والتعطيل وهم المبتدعة الخلف
وثانياً قوله : مع تنزيھنا لهو عن حقيقتها ، صارخ بالتعطيل صراخ  ثكالي الجهمية
ترجمہ:میں کہتا ہوں یہ عبارت پہلے تو اس تفویض میں صریح ہے جو کہ جھوٹے طور پر سلف کی طرف منسوب کیا گیا ہے (نعوذ باللہ) کہ اہل جہل تجہیل اور اہل تعطیل کی طرف سے جو کہ متاخرین بدعتی ہیں دوسرا یہ کہ امام سیوطی (رحمہ اللہ) کی یہ عبارت کہ ہم ان کے ظاہری حقیقی معنی سے اللہ کو  پاک قرار دیتے ہیں واضح طور پر تعطیل فریاد کر رہی ہے ان جہمی عورتوں کی فریاد کی طرح جو بچوں سے محروم ہو گئی ہوں۔
 (والعیاذ باللہ)
(عداء الماتریدية للقعيدة السلفية قوله 28)
عقیدہ نمبر 3
فرقہ اہلحدیث کے عقیدہ کے مطابق اللہ کی صفات متاشابہات پر ایمان لانے کیلئے ضروری ہے اللہ کی مراد کا بھی علم ہو جیسے صفات غیر متشابہات کے متعلق  ہوتا ہے۔
اللہ تعالٰی قرآن کریم میں فرماتے ہیں:
هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ ۖ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ ۗ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ ۗ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ رَبِّنَا ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ (آل عمران آیت 7)
"وہی ہے جس نے اتاری تجھ پر کتاب اس میں بعض آیتیں ہیں محکم (یعنی انکے معنیٰ واضح ہیں) وہ اصل ہیں کتاب کی اور دوسری ہیں متشابہ( یعنی جنکے معنیٰ  معین نہیں) سو جن کے دلوں میں کجی ہے وہ پیروی کرتے ہیں متشابہات کی گمراہی پھیلانے کی غرض سے اور مطلب معلوم کرنے کی وجہ سے اور ان کا مطلب کوئی نہیں جانتا سوا اللہ کے اور مضبوط علم والے کہتےہیں ہم اس پر یقین لائے سب ہمارے رب کی طرف سے اتری ہیں اور سمجھانے سے وہی سمجھتے ہیں جن کو عقل ہے۔"
ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ اللہ کی غیر متشابہات صفات بھی ہیں جیسے علم ، حیات ، قدرت ، سمع ، بصر وغیرہ
اب ہم اور آپ دونوں ان کے متعلق یہی کہتے ہیں کہ اللہ کا علم ہے لیکن ہمارے علم کی طرح نہیں اللہ کی حیات ہے لیکن ہماری حیات کی طرح نہیں۔
یہ صفات تو غیر متشا بہات تھیں۔
اب جو متشابہات ہیں جیسے   ید ، قدم ، وجہ ، استوی علی العرش ، نزول الی سماء
ان صفات کے متعلق ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ  ہم نہیں جانتے کہ اللہ کی اس سے کیا مراد ہے۔ ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور اسے حق جانتے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ جب تک مراد معلوم نہیں ہو گی تب تک ایمان نہیں لایا جاسکتا۔
جب کہ نام نہاد ان صفات  متشابہات کے متعلق بھی وہی بات کہتے ہیں جو آپ غیر متشابہات صفات کے متعلق کہتے ہیں اللہ کا  ید (ہاتھ) وجہ (چہرہ) استوی علی العرش سے جو اللہ کی مراد ہے وہ آپ کو معلوم  ہے جیسا غیر متشابہات صفات کی مراد معلوم ہے اور کیسے ہے اس کی کیفیت کیا ہے وہ آپ کو معلوم نہیں جیسا  کہ غیر متشابہات صفات کی معلوم نہیں۔
اب انہوں نے صفات متشابہات اور غیر متشابہات کا بلکل فرق ہی مٹا دیا اور دونوں کیلئے ایک ہی ضابطہ مقرر کر دیا اگر صفات متشابہات اور غیر متشابہات ایک ہی ہیں تو ان کی تقسیم کیوں کی گئی اور اگر  ان متشابہات کو بھی غیر متشابہات کی طرح رکھنا تھا تو  اللہ نے ایسا کیوں فرمایا کہ اس قرآن میں متشابہات بھی موجود ہیں؟
عقیدہ نمبر4
خدا جس صورت میں چاہے ظاہر ہو سکتا ہے۔
امام اہلحدیث نواب وحید الزمان خان صاحب خدا کی صورت کا عنوان قائم کرکے لکھتے ہیں:
وہ جس صورت میں چاہے ظاہر ہو (ترجمہ ہدیۃ المہدی ص 26)
معاذ اللہ لوگوں کے عقائد کو خراب کرنے کیلئے لوگوں کے ذہنوں میں  خدا کی صورت کا تصور بنایا جا رہا ہے جبکہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے
ليس كمثله شيء
وہ کسی شے کی مثل نہیں۔ (الشوری 11)
عقیدہ نمبر5
فرقہ اہلحدیث کے نزدیک بیس رکعت تراویح بدعت ہے۔
لکھتے ہیں:
”بیس رکعت تراویح پڑھنا سنت رسول نہیں بلکہ بدعت ہے“۔ (مذہب حنفی کا دین اسلام سے اختلاف ص 69)
العیاذباللہ
بیس رکعت تراویح کب سے ہو رہی ہے؟
بیس رکعت تراویح صحابہ کرام اور تابعین کے پاک زمانے سے چلی آرہی ہیں۔
 أَخْبَرَنَا أَبُو طَاهِرٍ الْفَقِيهُ قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو عُثْمَانَ الْبَصْرِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ قَالَ: أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ: حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ خُصَيْفَةَ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ: «كُنَّا نَقُومُ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ بِعِشْرِينَ رَكْعَةً وَالْوِتْرِ»
السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ صحابی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا
ہم لوگ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحا بہ رضی اللہ عنہم ) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں
 20 رکعت اور تین  وتر پڑھا کرتے تھے۔( معرفة السنن والآثار ج 4 ص 42 : صحیح)
أخبرنَا أَبُو عبد الله مَحْمُود بن أَحْمد بن عبد الرَّحْمَن الثَّقَفِيُّ بِأَصْبَهَانَ أَنَّ سَعِيدَ بْنَ أَبِي الرَّجَاءِ الصَّيْرَفِي أخْبرهُم قِرَاءَة عَلَيْهِ أَنا عبد الْوَاحِد بن أَحْمد الْبَقَّال أَنا عبيد الله بْنُ يَعْقُوبَ بْنِ إِسْحَاقَ أَنا جَدِّي إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ جَمِيلٍ أَنا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ أَنا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى نَا أَبُو جَعْفَرٍ الرَّازِيُّ عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ أَنَّ عُمَرَ أَمَرَ أُبَيًّا أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ فِي رَمَضَانَ فَقَالَ إِنَّ النَّاسَ يَصُومُونَ النَّهَار وَلَا يحسنون أَن (يقرؤا) فَلَوْ قَرَأْتَ الْقُرْآنَ عَلَيْهِمْ بِاللَّيْلِ فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ هَذَا (شَيْءٌ) لَمْ يَكُنْ فَقَالَ قَدْ عَلِمْتُ وَلَكِنَّهُ أَحْسَنُ فَصَلَّى بِهِمْ عِشْرِينَ رَكْعَة
ترجمہ:…”حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو حکم دیا کہ وہ رمضان میں لوگوں کو رات کے وقت نماز پڑھایا کریں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ: لوگ دن کو روزہ رکھتے ہیں، مگر خوب اچھا پڑھنا نہیں جانتے، پس کاش! تم رات میں ان کو قرآن سناتے۔ اُبیّ نے عرض کیا: یا امیرالموٴمنین! یہ ایک ایسی چیز ہے جو پہلے نہیں ہوئی۔ فرمایا: یہ تو مجھے معلوم ہے، لیکن یہ اچھی چیز ہے۔ چنانچہ اُبیّ رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو 20 رکعتیں پڑھائیں۔( الأحاديث المختارة ج 3 ص 367 : صحیح)
أَبُو الخضيب قَالَ يحيى بْن مُوسَى قَالَ نا جَعْفَر بْن عون سَمِعَ أبا الخضيب الجعفِي كَانَ سويد بْن غفلة يؤمنا فِي رمضان عشرين ركعة.
ترجمہ:…”ابوالخصیب کہتے ہیں کہ: سوید بن غفلہ ہمیں رمضان میں بیس ( 20 ) رکعتیں پڑھا تے تھے۔”
(التاريخ الكبير ج 9 ص 28)
حضرت سوید بن غفلہ رضی اللہ عنہ کا شمار کبار تابعین میں ہے، انہوں نے زمانہٴ جاہلیت پایا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں اسلام لائے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نہیں کی، کیونکہ مدینہ طیبہ اس دن پہنچے جس دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین ہوئی، اس لئے صحابیت کے شرف سے مشرف نہ ہوسکے، بعد میں کوفہ میں رہائش اختیار کی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کے خاص اصحاب میں تھے، ۸۰ھ میں ایک سو تیس برس کی عمر میں انتقال ہوا۔(تقریب التهذيب ج 1 ص 341)
اگر یہ بدعت ہے تو یہ بدعت شروع سے  آج تک حرم اور مسجد نبوی میں جاری ہے۔
عقیدہ نمبر 6
فرقہ  اہلحدیث کے امام الہند محمد جونا گڑھی لکھتا ہے کہ :
حضرت عمرؓ کی سمجھ معتبر نہ تھی (شمع محمدی ص 22)
اور حضرت عمرؓ کی سمجھ کے معتبر نہ ہونے پر دلائل بھی پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور ایسے دلائل جس سے کل کو یہی لوگ کہہ سکتے ہیں کہ معاذ اللہ نبیﷺ کی سمجھ بھی معتبر نہیں۔
العیاذ باللہ جس عمرؓ کے متعلق نبیﷺ فرماتے ہیں
«لَوْ كَانَ نَبِيٌّ بَعْدِي لَكَانَ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ»
اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتے تو وہ عمر بن خطابؓ ہوتے۔(سنن الترمذي ج 5 ص 619)
ان عمرؓ کے متعلق یہ رافضی کہتا ہے کہ ان کی سمجھ معتبر نہ تھی
آخر ایسا کہہ کر یہ لوگوں  کو کیا   سبق دینا چاہتے ہیں؟
عقیدہ نمبر 7
قربانی میں مرزئی بھی شریک ہو سکتا ہے۔
غیرمقلد عالم محمد علی جانباز صاحب لکھتے ہیں:
”باقی رہی مرزائی کی شرکت تو اس کے متعلق بھی حرام کا فتوی نہیں لگا سکتے“۔(فتاویٰ علمائے حدیث ج 13 ص 89)
عقیدہ نمبر 8
امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنی فرض ہے اور
امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑھنے والے کی کوئی نماز نہیں ہوتی وہ بے نمازی ہے۔
العیاذ باللہ
مفتی عبد الستار صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں:
”فاتحہ ہر ایک مقتدی و منفرد و امام پر واجب ہے اور اس کے ترک سے بالکل نماز نہیں“۔(فتاویٰ ستاریہ ج 1 ص 54)
فرقہ اہلحدیث کے شیخ الکل میاں نذیر حسن دہلوی صاحب لکھتے ہیں:
”فاتحہ خلف الامام پڑھنا فرض ہے بغیر فاتحہ پڑھے ہوئے نماز نہیں ہوتی“۔(فتاویٰ نذیریہ ج 1 ص 398)
 محب اللہ شاہ راشدی صاحب لکھتے ہیں
”سورۃ فاتحہ کے سوائے کوئی بھی نماز ہرگز نہیں ہو گی۔ صرف ایک رکعت میں بھی نہیں پڑھی تو اس کی وہ رکعت نہیں ہوئی  وہ نماز خواہ اکیلے پڑھے یا پڑھنے والا امام ہو یا مقتدی“۔(مقالات راشدیہ ص 67)
یہ الگ بات ہے کہ ان کے اس مسئلہ کی ایک بھی صحیح صریح مرفوع حدیث دنیا میں موجود نہیں۔
ان کی بنیادی 2 ہی دلیلیں ہیں
 ایک صحیح بخاری سے
فاتحہ کے بغیر نماز نہیں۔۔۔ الخ
جواب:
یہی حدیث صحیح مسلم میں بھی موجود ہے اور امام مسلمؒ نے اس کے بعد سند نقل کرکے اس میں اضافہ بھی نقل کیا ہے اور پوری حدیث یوں ہے۔
37 - (394) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ مَحْمُودَ بْنَ الرَّبِيعِ، الَّذِي مَجَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي وَجْهِهِ مِنْ بِئْرِهِمْ، أَخْبَرَهُ، أَنَّ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ، أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِأُمِّ الْقُرْآنِ» [ص:296] وَحَدَّثَنَاهُ إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، قَالَا: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ وَزَادَ فَصَاعِدًا
(صحیح مسلم ج 1 ص 295)
 نبی کریمﷺ فرماتے ہیں جو سورۃ فاتحہ اور کچھ زائد قرآن نہ پڑھے اس کی نماز نہیں۔
 حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مُوسَی الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِکٌ عَنْ أَبِي نُعَيْمٍ وَهْبِ بْنِ کَيْسَانَ أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ مَنْ صَلَّی رَکْعَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَلَمْ يُصَلِّ إِلَّا أَنْ يَکُونَ وَرَائَ الْإِمَامِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ(جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 301:صحیح )
 جابر بن عبداللہ ؓ فرماتے ہیں جس نے ایک رکعت بھی سورت فاتحہ کے بغیر پڑھی گویا کہ اس نے نماز ہی نہیں پڑھی سوائے اس کے کہ وہ امام کے پیچھے ہو۔
غیرمقلدین کی دوسری اور آخری مرفوع   دلیل حضرت عبادہ بن صامتؓ   سے ہے جس میں ہے کہ امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنی ہے اس کے بغیر نماز نہیں ہو گی ۔۔۔ الخ
یہی غیرمقلدین  کی اس مسئلہ میں اکلوتی دلیل ہے جسے خؤد ان کے  محدث البانی صاحب نے ضعیف قرار دیا ہے۔
(سنن ابی داؤد ص 144)
یہی انتہائی ضعیف حدیث ان کا ہر  عامی جاہل اور عالم جاہل لئے گومتا ہے  تمام امت کی نماز کو باطل قرار دینے کیلئے۔
عقیدہ نمبر 9
مرزئی اسلامی فرقہ ہے۔(١)
ثناء اللہ امرتسری صاحب نے مرزئیوں کو اسلامی فرقوں میں شمار کیا ہے۔ دیکھئے (ثنائی پاکٹ بک ص 55)
عقیدہ نمبر 10
اجماع حجت شرعیہ نہیں۔
ویسے تو تمام غیرمقلدین اجماع امت کے منکر ہیں چاہے عملاً ہوں یا قولاً لیکن ہم ان کے بڑے  مولوی سے دکھاتے ہیں
حافظ عبد المننان نور پوری صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں۔
اجماع صحابہ ؓ اور اجماع ائمہ مجتہد کا دین میں حجت ہونا قرآن و حدیث سے ثابت نہیں۔ (مکالمات نور پوری ص 85)
لعنت اللہ علی الکاذبین
(١)  جناب زبیر علی زئی اگر موجود ہوتے تو شاید کہتے " یہ بھی غیر اہلِ حدیث اشخاص میں سے ہیں"(مدیر)
اللہ تعالٰی قرآن کریم میں فرماتے ہیں
وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا
(سورۃ نساء آیت ١١٥)
"اور جو کوئی مخالفت کرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جب کہ کھل چکی اس پرسیدھی راہ اور چلے سب مسلمانوں کے راستہ کے خلاف تو ہم حوالہ کریں گے اس کو وہی طرف جو اس نے اختیار کی اور ڈالیں گے ہم اس کو دوزخ میں اور وہ بہت بری جگہ پہنچا"
یہ اجماع  کی حجیت نہیں تو اور کیا ہے اور یہ  سب سے افضل ہستیاں صحابہ اور ائمہ مجتہدین کے اجماع کا  انکار کر رہا ہے۔
(جاری)
٭٭٭
     

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں